صوبے میں کتنی ڈائیلاسز مشینیں اور عملہ ہے سندھ ہائیکورٹ نے جواب مانگ لیا
سب کچھ ڈاکٹر ادیب رضوی پر چھوڑ دیا، ایک ایک تعلقہ میں ڈائیلاسز مشین ہونی چاہئے، جسٹس صلاح الدین پہنور
سندھ ہائیکورٹ نے سیکرٹری صحت صوبے میں موجود ڈائیلاسز مشینوں اور عملے کی تعداد طلب کرلی۔
جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس امجد علی سہتو پر مشتمل بینچ کے روبرو زیر زمین پانی کے ٹیرف سے متعلق نجی کمپنی کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ صوبائی وزیر جام خان شورو، ڈی جی فوڈ اتھارٹی مزمل ہالیپوٹہ، سیکریٹری صحت و دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت جسٹس صلاح الدین پہنور نے سیکریٹری صحت سے استفسار کیا کہ آپ سرجری کے لیے روبوٹس خرید رہے ہیں، ڈائیلسز کی کتنی مشین ہیں آپ کے پاس؟ جس پر سیکریٹری صحت سندھ نے کہا کہ میرے پاس اس وقت صحیح تعداد موجود نہیں۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیے کہ سب کچھ آپ نے ڈاکٹر ادیب رضوی پر چھوڑ دیا ہے، ایک ایک تعلقہ میں ڈائیلاسز مشین ہونی چاہئے۔ عدالت نے سیکریٹری صحت کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں کتنی ڈائیلاسز مشین ہیں؟ کتنا عملہ ہے؟ مشینیں کب خریدی گئی ہیں تمام تفصیلات پیش کریں۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس میں کہا کہ 700 ڈائیلسز مشینیں کب سے خرید ہوئی ہیں لیکن تالے میں بند ہیں۔ عدالت نے آبزرویشن دیتے ہوئے کہا کہ حکومت سندھ میں سب کام ایسے ہی ہو رہے ہیں۔
ڈی جی فوڈ اتھارٹی نے کہا کہ ہم نے 5 آر او پلانٹس کے نمونے لیے ہیں۔ جسٹس امجد سہتو نے ریمارکس دیے کہ آپ نے بھی ان کے متعلق کارروائی کی جو 50 روپے میں عوام کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ 120 روپے کی بوتل والوں کیخلاف کارروائی نہیں کی۔
عدالت نے جام خان شورو سے استفسار کیا کہ آپ وزیر ہیں، آپ کو تو ہم نے نہیں بلایا۔ حکومت سندھ کے وکیل نے موقف دیا کہ یہ بطور فوڈ اتھارٹی چیئرمین پیش ہوئے ہیں۔ جسٹس امجد سہتو نے ریمارکس دیے کہ آپ دیکھتے ہیں پنجاب میں فوڈ اتھارٹی کتنی فعال ہے، یہاں یہ لوگ بیٹھے ڈیسک توڑ رہے ہیں۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس میں کہا کہ یہاں منرل واٹر کی 8 سو کمپنیاں ہیں پوری دنیا میں ایسا نہیں ہے، بس سب کو اجازت دی جارہی ہے، تمام فریقین کا موقف سن لیا ہے آج ہی تحریری حکم نامہ جاری کیا جائے گا۔