مادرملت چند تاریخی یاد داشتیں…

9 جولائی 1967ء کو سہ پہر کا وقت تھا یہ خبر پورے ملک اور بالخصوص کراچی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی

9 جولائی 1967ء کو سہ پہر کا وقت تھا یہ خبر پورے ملک اور بالخصوص کراچی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ محترمہ فاطمہ جناح رحلت فرما گئی ہیں۔ جن حالات میں محترمہ فاطمہ جناح کی رحلت ہوئی اس پر ایک حلقے کو کچھ خدشات تھے۔ تقریباً 3 عشرے بعد اس حوالے سے نامور قانون دان شریف الدین پیرزادہ نے اس سانحے کو قتل کے طور پر ظاہر کرنے کے لیے دلائل بھی پیش کیے تھے لیکن اس کی فوری تردید مستند صحافی و سفارتکار قطب الدین عزیز نے کر دی تھی۔

صحافت میں قطب الدین عزیز کے مقام کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے والد عبدالحفیظ کے ساتھ مل کر پاکستان کی پہلی نیوز ایجنسی قائم کی تھی۔ ہم گفتگو کر رہے تھے کہ پاکستان میں سلطانی جمہور کے لیے عملی جدوجہد کرنے والی ایک قدآور شخصیت اب موجود نہیں ہے جس کی بنا پر مستقبل میں جمہوریت کے کاز کو آگے لے جانے والے لوگوں میں ایک ہستی کم ہو گئی ہے۔ اسی شام ہم سارے دوستوں نے فیصلہ کیا کہ ہم مادرملت کے جلوس جنازہ میں شریک ہوں گے اور اگلی صبح زیب النسا اسٹریٹ پر واقع آکسفورڈ ریسٹورنٹ میں جمع ہو کر جلوس کی آمد کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ جلوس آ پہنچا اور ہم اس میں شامل ہو گئے لیکن ہماری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب ہم نے دیکھا کہ محترمہ کے جلوس جنازہ میں شامل لوگ محض سیکڑوں کی تعداد میں ہیں۔

محترمہ کا جنازہ ہلکے نیلے رنگ کے شیورلیٹ ٹرک میں موجود تھا اور جنازے کے عقب میں لوگ پیدل چل رہے تھے۔ اس کے بعد بعض شخصیات اپنی گاڑیوں میں سوار جلوس کے ساتھ تھیں۔ ہم نے سوچا کہ ابھی دو سال قبل محترمہ فاطمہ جناح نے جب صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تھا تو محض ان کے دیدار اور خطاب سننے کے لیے لاکھوں افراد ملک بھر میں منعقد ہونے والے عام جلسوں میں شریک ہوتے تھے۔ اسی دوران جلوس جنازہ گارڈن روڈ سے ہوتا ہوا کانڈا والا بلڈنگ کے سامنے ایم اے جناح روڈ پر پرانی نمائش کی جانب مڑ گیا۔ پرانی نمائش پہنچ کر مادر ملت کا جلوس جنازہ ایک پختہ سڑک سے ہوتا ہوا مزار قائد اعظم کے احاطے میں جائے تدفین کی سمت بڑھتا گیا اور اسی دوران ہمیں کئی اور ساتھی شاہد حسین بخاری، سعید چاؤلہ وغیرہ نے بھی جوائن کیا۔

اس موقعے پر ہمارا ایک ساتھی پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھا جس پر مادر ملت کو خراج عقیدت اور ایوبی آمریت کے خلاف نعرے درج تھے۔ ابھی ہم لوگ مزار قائد کے احاطے میں داخل ہی ہوئے تھے کہ کراچی کی انتظامیہ کو عوام کی اتنی بڑی تعداد کا اجتماع گوارا نہ ہوا اور جلوس میں شامل افراد کو منتشر کرنے کے لیے گھڑ سوار پولیس کو استعمال کیا گیا۔ یہ پولیس ہماری جانب بڑھ رہی تھی اور ہم سب محترمہ کی جائے تدفین تک پہنچنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ لیکن شدید ریاستی تشدد کے باعث ہم وہاں تک رسائی میں کامیاب نہ ہو سکے۔

4 جنوری 1965ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات اور قبل ازیں انتخابی مہم میں مادرملت نے غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود مشرقی و مغربی پاکستان میں سیکڑوں عوامی جلسوں سے خطاب کیا تھا اور جلسوں کے منتظمین اور شرکا کو ڈسپلن کا درس دیا تھا۔ صدارتی انتخابات میں محترمہ کا مقابلہ اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان سے تھا اور اس دوران مخالفین نے محترمہ کے تناظر میں ریاست میں عورت کی سربراہی کا مسئلہ چھیڑ دیا تھا۔ اس موقعے پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ایک تاریخ ساز بیان جاری کیا تھا جس میں مسلم ریاست میں عورت کی سربراہی کی تائید میں عمیق دلائل دیے گئے تھے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ شدید نظریاتی اختلاف کے باوجود دارالعلوم کے فارغ التحصیل مولانا عبدالحمید بھاشانی نے بھی برملا مولانا مودودی کی رائے کو صائب قرار دیا تھا اور محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں بھی ان کی نیشنل عوامی پارٹی اور جماعت اسلامی متحدہ حزب اختلاف میں یکجا تھیں۔صدارتی انتخابی مہم کے دوران کراچی نے تاریخی کردار ادا کیا تھا۔ کراچی سے ''شمع جمہوریت'' کے عنوان سے محترمہ کے انتخابی نشان لالٹین کے ساتھ ایک ٹرین مارچ کا طالب علموں نے اہتمام کیا تھا، جو امیر حیدر کاظمی کی قیادت میں افسرقادری، شاہد حسین بخاری، محمد صابر، غلام مجتبیٰ اور راقم الحروف کے علاوہ دیگر طالب علموں پر مشتمل تھا جس نے صدارتی مہم کے لیے کراچی سے پشاور تک ریل میں سفر کیا تھا اور جابجا مختلف اسٹیشنوں پر استقبال کے لیے آنے والے عوام سے خطاب کیا تھا۔

لاہور میں طلبا کے اس وفد نے محمود علی قصوری کی قیام گاہ پر ایک پریس کانفرنس کی تھی جب کہ پشاور میں شمع جمہوریت کے وفد کا استقبال اور دورہ پشاور کا اہتمام سید مظہر شاہ گیلانی، افضل بنگش، محمد ایوب و دیگر رہنماؤں نے کیا تھا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پشاور میں NAP کے لوگ مادرملت کے انتخابی نشان کو لالٹین کہتے تھے اور کونسل مسلم لیگ اور دائیں بازو کی دیگر جماعتوں کے کارکن ہری کین کہا کرتے تھے اور اس طرح اپنے نظریاتی و فکری تشخص کو اجاگر کرتے تھے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اس انتخابی مہم کے دوران دو مرتبہ مادر ملت محترم فاطمہ جناح سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔


ایک مرتبہ کراچی کے فلیگ اسٹاف ہاؤس میں اپنے الیکشن ایجنٹ حسن اے شیخ کے ہمراہ پولنگ ایجنٹوں سے مخاطب تھیں، جن میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ مجھے اس انتخابی مہم کا بہت قریب سے مشاہدہ کا موقع ملا تھا۔ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم چلانے والے لوگ یعنی متحدہ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے انتخابات اور انتخابات کے نتائج کے بارے میں کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ صدارتی انتخاب کے نتائج کے بعد محترمہ فاطمہ جناح متحدہ حزب اختلافات کی کارکردگی سے مایوس تھیں اور یہاں تک کہ انھوں نے انتخابات کے کافی روز بعد سیاسی رہنماؤں کے ایک وفد سے ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔

محترمہ فاطمہ جناح بعض اعلیٰ صفات کی مالک تھیں۔ کراچی کے پہلے ایڈمنسٹریٹر سید ہاشم رضا نے ایک واقعہ سنایا تھا کہ قائد اعظم کے انتقال کے بعد YWCA کی عمارت میں جو ایم اے جناح روڈ پر واقع ہے میں خواتین کا ایک بڑا اجتماع منعقد ہوا تھا جس میں مادر ملت مہمان خصوصی تھیں۔ حسب معمول بیگم رعنا لیاقت علی خان نے محترمہ فاطمہ جناح کو فلیگ اسٹاف ہاؤس سے لیا اور دونوں خواتین رہنما YWCA پہنچیں۔ اس موقعے پر منتظمین نے تقریب کے پروگرام میں معمولی سی تبدیلی کر دی تھی اور ٹرانسپورٹ کی کمی کی وجہ سے دور دراز سے آنے والی خواتین کی شرکت یقینی بنانے کی غرض سے چائے جس کا پروگرام کے مطابق آخر میں اہتمام کیا جانا تھا اس کو سب سے پہلے کر دیا تھا۔

اس پر محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان نے حاضرین کے انتظار میں وقت ضایع کرنے اور پروگرام میں تبدیلی کو مسترد کر دیا اور منتظمین سے کہا کہ وہ پابندی وقت کا خیال کرتے ہوئے پروگرام کا آغاز کریں اور اس طرح پروگرام وقت اور ترتیب کے مطابق ہی شروع ہوا۔

محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں یہ مضمون نامکمل رہے گا، اگر ان کے صدارتی انتخاب پر بحث نہ کی جائے انتخابات میں جس طرح سول بیوروکریسی نے فیلڈمارشل ایوب خان کے حق میں ووٹ لینے کے لیے اراکین بنیادی جمہوریت کو ڈرایا دھمکایا تھا وہ پاکستان میں انتخابی دھاندلی کی پہلی مثال تھی لیکن اس کے باوجود سابقہ مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ اور چٹاگانگ ڈویژنوں میں محترمہ فاطمہ جناح کو برتری حاصل رہی جب کہ مغربی پاکستان ( آج کا پاکستان) میں محض کراچی ڈویژن وہ واحد علاقہ تھا جہاں فیلڈمارشل ایوب خان کو محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا نیز حیدر آباد کی شہری آبادی میں بھی دونوں صدارتی امیدواروں کے ووٹ ایک دوسرے کے مساوی تھے۔

محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں کراچی کی پہل کارانہ پیش قدمی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا اور ملک بھر میں فرزندان کراچی فتح یاب علی خان، سید علی مختار رضوی اور معراج محمد خان کے ذکر کو نظرانداز کرکے پاکستان میں جمہوریت کی کہانی ادھوری رہے گی۔ محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخاب کے نتائج پر حبیب جالب نے کہا تھا:

دھونس دھن اور دھاندلی سے جیت گیا

جھوٹ پھر مکر و فن سے جیت گیا
Load Next Story