دہشت گردی کی جنگ اور ہماری حکمت عملیاں

جہاں تک بھارت یا افغانستان کے معاملات ہیں اس پر بڑا قومی اتفاق درکار ہے

salmanabidpk@gmail.com

ایک بنیادی بات یہ سمجھنی ہوگی کہ پاکستان میں دہشت گردی کوئی عام جرائم جیسا مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے محدود فریم ورک میں دیکھنا چاہیے۔ دہشت گردی کی بہت سی جہتیں ہیں ۔انتہا پسندی ، شدت پسندی اور پرتشدد رجحانات دہشت گرد گروہوں کو تقویت دیتے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ نیشنل سیکیورٹی پالیسی ہو یا نیشنل ایکشن پلان یا پیغام پاکستان سمیت قومی اور صوبائی و ضلعی سطح پر اپیکس کمیٹیوں کی تشکیل سے لے کر وفاقی اور صوبائی انٹیلی جنس اداروں اور پولیس کی موجودگی کے باوجود دہشت گردی کم نہیں ہو رہی بلکہ مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ چند روز قبل بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں جہاں سیکیورٹی فورسز کو ٹارگٹ کیا گیا، وہاں صوبائیت کی بنیاد پر پنجاب کے لوگوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا ہے، کئی مقامات میں دہشت گردی کو فرقہ ورانہ کے روپ میں انجام دیا گیا ہے۔

بلوچستان میں ایک طرف جمہوری اور آئینی فریم ورک میں رہ کر کام کرنے والے سیاستدان اور سوشل ورکرز ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ جنھوں نے ریاست کے خلاف بندوق اٹھائی ہوئی ہے۔ دونوں کے حوالے سے وفاق اور مین اسٹریم سیاسی قیادت کی حکمت عملی میں یکسانیت نہیں ہے ۔ بلوچستان ہی نہیں خیبر پختونخوا بھی شورش اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ یہ ہے اور ایسے لگتا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے ۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ جب ہم ریاست اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے سیاسی اور گروہی مفادات کو ترجیح دیں گے، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کریں گے، مخالفت برائے مخالفت کا وطیرہ اختیار کریں گے تو دہشت گردی کا خاتمہ کیسے ہوگا۔ ریاست کی بقا اورعوام کے جان ومال کا تحفظ ہماری ترجیحات میں کمزور ہوجائے گا۔ اس وجہ سے جو خلا پیدا ہو رہاہے ،وہ ہر صورت دہشت گردوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرکے اپنی رٹ کو مضبوط بنائیں ۔ اس لیے مسئلہ درست ترجیحات کا ہے اور اگر ہم نے دہشت گردی یا سیکیورٹی کے مسائل پر بھی سیاست ہی کرنی ہے تو پھر یاد رکھیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔

یہ تھیوری کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جو دہشت گردی ہورہی ہے، اس میں بھارت ملوث ہے ، اگر یہ منطق درست ہے تو تب بھی یہ ہماری داخلی پالیسیوں اور ناکام حکمت عملیوں سے جڑی ہوئی بات ہے کہ ہم دشمن کی حکمت عملیوں کا موثر اور کامیاب جواب دینے میں ناکام ہیں ۔ اس لیے ایک بڑے سیاسی اتفاق رائے کے بغیر ہم دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ نہیں جیت سکیں گے ۔

حالیہ اپیکس کمیٹی میںسول اور فوجی قیادت میں اتفاق رائے ہے کہ دہشت گردی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا،آپریشن عزم استحکام کے لیے حکومت کی جانب سے بیس ارب روپے کی منظوری سمیت دہشت گردوں کو سختی سے کچلنے اور ان سے کسی بھی سطح پر مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ بجا ہے اور واقعی ریاست سمیت اداروں کو اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ ملک کی مین اسٹریم سیاسی قیادت اور اتحادی حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ باہمی ہم آہنگی کا مظاہرہ کریں، سیاسی ڈائیلاگ کا دروازہ کھولیں، سب کے نقطہ نظر کا احترام کیا جائے ۔


وزیراعظم شہباز شریف کی گفتگو اور وفاقی وزرا کی پریس کانفرنسز میں دہشت گردی اور اس کے خاتمہ کے لیے بنائی گئی حکمت عملی پر بات کم ہوتی ہے جب کہ بانی پی ٹی آئی پرمخالفانہ نشتر پر بیان بازی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ پالیسی درست نہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ اور چیئرمین پی سی بی میں سے کوئی ایک عہدے اپنے پاس رکھیں ۔کیونکہ وزارت داخلہ بہت زیادہ توجہ کی طالب ہے جب کہ پی سی بی کا کام بھی خاصا مشکل ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ کا یہ بیان کہ دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہے، دہشت گردی کی سنگینی سے لاعملی کو ظاہر کرتا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ بیان کہ جو اعلیٰ افسران بلوچستان میں کام کریں گے ہم ان کو زیادہ مراعات دیں گے ، بیوروکریسی کے رولز اینڈ ریگولیشنز کے خلاف لگتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے بعض وزرا اور ان کے ہم خیال میڈیا پرسنز رسمی اور غیر رسمی ( ڈیجیٹل میڈیا) میں بلوچستان اور کے پی کے حوالے سے صوبائی کارڈ کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حالات کو مزید خراب کرنے کا بھی سبب بن سکتا ہے ۔

یہ سمجھنا ہوگا کہ بلوچستان اور کے پی کے بہت سے معاملات ایسے ہیں جن کو سیاسی مفاہمت اور سیاسی حکمت عملیوں کی مدد سے حل کیا جانا چاہیے ۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں درست سمت میں اور موثر حکمت عملی کی بنیاد پر معاملات سے نمٹنے کی کوشش کریں ۔کیونکہ ہم پہلے ہی سیاسی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہی موثر حکمت عملی ہوسکتی ہے ۔

جہاں تک بھارت یا افغانستان کے معاملات ہیں اس پر بڑا قومی اتفاق درکار ہے ۔ افغانستان میں موجود طالبان حکومت پاکستان کے خدشات اور نقطہ نظر کو قبول کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آرہی ۔ اس لیے جہاں ہمیں داخلی مسائل درپیش ہیں وہیں ہمیں علاقائی پالیسی میں بھی غیر معمولی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔روائتی اور فرسودہ طور طریقوں سے مسائل کا حل ممکن نہیں ہوسکے گا۔اگر ہمارے پاس بھارت اور افغانستان کے خلاف ثبوت ہیں اور یقیناً موجود ہیں تو ہمیں سفارتی اور ڈپلومیسی کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی پر توجہ دینی ہوگی کہ ہم کیسے عالمی دنیا کو ان دو ممالک کی مداخلتوں پر روک سکتے ہیں ۔

یہ واقعی سنجیدہ مسئلہ ہے کہ ملک میں دوبارہ کسی بھی طور پر لسانی یا فرقہ ورانہ لہر کو تقویت نہیں ملنی چاہیے۔لیکن یہ کام قومی اتفاق رائے کے بغیر ممکن نہیں ہوسکے گا۔بلوچستان ہو یا کے پی کے ہمیں قومی سطح پر سیکیورٹی کی حساسیت کے معاملے کو سمجھنا ہوگا اور ایک ایسی حکمت عملی کو ہی اختیار کرنا ہوگا جو کارگر ثابت ہو ۔نیشنل سیکیورٹی سمیت سی پیک کے معاملات ہوں یا پاک چین تعلقات میں بہتری سمیت علاقائی ترقی اور تعاون کے امکانات ہوں سب اہمیت رکھتے ہیں اور ہمیں قومی سطح پر ریاستی اداروں کی مشکلات کا بھی اندازہ ہے کہ وہ خود ان حالات میں کن چیلنجزسے گزر رہے ہیں ۔لیکن جب تک سیاسی قیادت وفاقی اور صوبائی حکومتیں خود دہشت گردی کی جنگ کی قیادت نہیں کریں گی ، ہم عملاً کچھ نہیں کر پائیں گے ۔۔

اسی طرح یہ جنگ محض ریاستی اداروں یا حکومتوں تک محدود نہیںہونی چاہیے بلکہ اجتماعی طور پر معاشرے کے دیگر طبقات جن میں ملک میں موجود سول سوسائٹی ، میڈیا ، وکلا ، انتظامی افسران سب کو یہ بوجھ اٹھانا ہوگا ،کیونکہ دہشت گردی قومی مسئلہ ہے اور اس قومی مسئلہ میں قوم کو ہی اپنا اپنا حصہ ذمے داری کے ساتھ منصفانہ اور شفافیت کی بنیاد پر ڈالنا ہوگا۔ایک دوسرے پر ذمے داری کو ڈالنا اورمحض ماضی کا ماتم کرنے سے ہم کچھ نہیںکرسکیں گے بلکہ اس کا براہ راست فائدہ دہشت گردوں اور دشمن ممالک کو ہوگا اور اس کی ذمے داری بھی ہمیں ہی لینی ہوگی ۔
Load Next Story