اخلاقی دہشت گردی کا خاتمہ

تاریک دور محض استعارہ نہیں، جو فقط ماضی کی یاد دلاتا ہو۔ جب ہر طرف بربریت کا دور دورہ تھا۔

shabnumg@yahoo.com

تاریک دور محض استعارہ نہیں، جو فقط ماضی کی یاد دلاتا ہو۔ جب ہر طرف بربریت کا دور دورہ تھا۔ انسانیت وحشت زدہ اور سوچ پر حبس طاری تھا۔ دور بدل گیا مگر انسان تو وہی ہے۔ اس کی وحشت اور جبلت بھی وہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب اس کی خواہشات نے مہذب لبادہ اوڑھ لیا ہے، لیکن وہ دور آج بھی نام بدل کر سانس لیتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں برائی کی جڑیں اس قدر پختہ ہیں کہ حکام کے بدلتے چہرے بھی نظام کو بدلنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت کو موقع ملا تو ملک کا نقشہ بدل کے رکھ دیں گے۔ اس ملک کا نقشہ کیسے بدلا جا سکتا ہے جب ماؤں اور بہنوں کی عزت اور ان کے خواب محفوظ نہیں ہوں گے۔اس ملک کی مائیں خوفزدہ ہیں، جن کے بیٹے راہ چلتے بے گناہ مارے جاتے ہیں یا پھر اغوا ہو جاتے ہیں۔ یہاں ہر روز ایک نئی قیامت ٹوٹتی ہے، جو بے حسی کی دھند میں کہیں کھو جاتی ہے۔ بند آنکھوں میں کھوکھلی اخلاقی قدروں کے لیے سوال تھے۔

وہ تو مسجد میں قرآن شریف پڑھنے جاتی تھی کہ پیش امام نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس کے اعتماد کو مجروح کیا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک معلم نے بھی بے وقت ایک طالبہ کو اسکول میں بلا کر انسانیت کا چہرہ داغدار کیا۔ یہ کیسا علم ہے، جو انسان کے اپنے ذہن میں اجالا نہیں کر سکتا؟ یہ کیسی آگہی ہے جو تاریکی کی ہم سفر ہے۔ رہبر اگر رہزن بننے لگے تو دکھی انسانیت کا نوحہ کون سنے گا! تبدیلی تو تب آئے گی جب عوام کے منتخب کردہ نمایندے آرام دہ کمروں سے باہر نکل کر، بڑی گاڑیوں سے نیچے اتر کر عوام کا دکھ سکھ سنیں گے۔ عوامی سطح پر آ کر لوگوں کے مسائل حل کریں گے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ غیر انسانی رویوں کا شکار ان لڑکیوں کے مردہ چہرے دیکھ کر احساس بوجھل ہونے لگتا ہے۔ مگر یہ زندگی جو کہیں رکتی نہیں، بے دھیانی کے راستوں پر سفر کرتی رہتی ہے۔ قانون مظلوموں کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے، انھیں راستہ دے دیتا ہے۔ اور نئے المیے جنم لیتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے زلیخا کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن اس کے وارثوں کی چیخیں قانون کے کانوں تک رسائی حاصل نہ کر سکیں۔ عورتوں کے حقوق کی ترجمان نشستیں بھی خاموش رہیں۔ بلٹ پروف گاڑیوں کی طرح کان بھی سائلنس پروف ہو چکے ہیں شاید۔ ایک بار پھر جمیلہ کا زندگی سے محروم چہرہ دیکھ کر چونک گئی ہوں۔

ان لڑکیوں کے نام بدل جاتے ہیں، مگر قسمت وہی رہتی ہے۔ بغیر چاند کے سیاہ آسمان جیسی۔ یہ لڑکیاں جی بھر کے ابھی گڑیوں سے نہیں کھیل پاتیں کہ وحشت انھیں اپنا نشانہ بنا ڈالتی ہے۔ کل کوئی اور مقدس ہو گی۔ اس کے بعد زلیخا یا جمیلہ درد کے سفر پر نکل کھڑی ہو گی۔ نہ یہ واقعات ہونا بند ہوں گے نہ ان لڑکیوں کی ذہنی تکلیف کا ازالہ ہو گا۔ یہ تو خاندان و معاشرے کی چبھتی نظروں سے خوفزدہ ہونے کے خواب دیکھتی ہیں۔ یا پھر حالات سے تنگ آ کر خودکشی کر لیتی ہیں۔ کس کے پاس وقت ہے کہ ان کے مستقبل کے لیے کوئی سوچے گا۔

فائیو اسٹار ہوٹلز میں فقط جنسی تشدد کے موضوع پر سیمینار ہوتے رہیں گے۔ جیسے بڑے بڑے ادبی میلے منعقد کیے جاتے ہیں، مگر ملک بھر کے کتب خانے ویران پڑے ہیں۔روز ملک کے مختلف حصوں میں بے گناہ عورتیں قتل ہوتی ہیں۔ کہیں معصوم بچیوں کو سنگین حقائق کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ قانون کے لمبے ہاتھ مگر مجرموں کی گردنوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کبھی کسی اکا دکا واقعے کا نوٹس لے بھی لیتی ہے، تو بھی ان لٹے ہوئے قافلوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ الٹا فریادیوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کر دیے جاتے ہیں۔


پڑوسی ملک انڈیا میں ایسے بہیمانہ واقعات کا گراف ہمیشہ اونچائی پر رہا ہے۔ آسام میں ہر سال ریپ فیسٹیول منایا جاتا ہے۔ یوں اخلاقیات کی سرعام دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ صورتحال یہ ہوتی ہے کہ ان دنوں لڑکیاں وحشی درندوں سے چھپتی پھرتی ہیں۔ اخلاقیات کے یہ نام نہاد ٹھیکیدار کہتے ہیں کہ وہ ان لڑکیوں کے جسموں میں موجود بدی کی قوت کو کچل دینا چاہتے ہیں۔ بصورت دیگر انھیں قتل کرنا پڑ جائے گا۔ قتل بہرحال پھر بھی ایک سنگین جرم ہے!یہ سطحی سوچ بہت پرانی ہے۔ اس کی کڑیاں یونان سے جا ملتی ہیں، جو ساؤتھ ایشیا سے ہوتی یورپ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ساؤتھ ایشیا میں عورتیں زیادہ جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔

بھارت میں ہر تین منٹ میں عورت کے خلاف جرائم ہوتے ہیں، کوئی زمانہ تھا کہ انڈیا میں بیٹی پیدا ہوتے ہی اس کے حلق میں کالا نمک انڈیل کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔ تاریخ میں جھانک کر دیکھتے ہیں، جو عورت کے حوالے سے اندوہناک سرخیوں سے بھری ہوئی ہے۔ اکبر بادشاہ نے تمام تر طوائفوں کو ایک جگہ یکجا کر کے اس جگہ کا نام ''شیطان پورہ'' رکھ دیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپانی فوجوں نے کوریا کی عورتوں کو حبس بے جا میں رکھا ۔ ویتنام میں امریکی فوجیوں نے عورتوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔

پولینڈ کی اوسونیچیم کنسنٹریشن کیمپ میں نمائش کے لیے رکھی ہوئی عورتوں کے اصلی بالوں کی سنہری چٹیائیں جمالیاتی ذوق کا مذاق اڑاتی ہیں۔ لیکن ہٹلر جیسا رسوائے زمانہ آمر بھی قیدی عورتوں پر جنسی تشدد کے خلاف تھا۔ جنگ ہو یا ذاتی دشمنی اخلاقی قدریں بہرحال برتری کی متقاضی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک طرف منفی رویوں کا جہنم سلگ رہا ہے، تو دوسری طرف ایسے بھی لوگ ہیں جن کی سوچ کی ہریالی امید کے گلاب کو کبھی مرجھانے نہیں دیتی۔ راجستھان کے گاؤں نے ایک نئی روایت قائم کی ہے، جس کے مطابق جو بھی لڑکی پیدا ہوتی ہے، اس کے نام پر وہاں درخت لگایا جاتا ہے۔

یوں وہ علاقہ پھولوں اور پھلوں سے مہکنے لگا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں کا شمار سبز ترین علاقوں میں ہونے لگا ہے۔ اس گاؤں کی پنچایت کچھ پیسے اس لڑکی کے لیے جمع کر کے رکھتے ہیں، جو آگے چل کر اسے معاشی تحفظ فراہم کریں گے۔ دنیا فقط اندھیر نگری تو نہیں ہے۔ یہاں نیکی کے معمار بھی رہتے ہیں۔مگر ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ جب برائی سر اٹھانے لگتی ہے، تو لوگ مصلحت کی چادر تان لیتے ہیں۔ خاموشی جرم کی طرح سنگین اور اس گھناؤنے فعل میں برابر کی حصے دار ہوجاتی ہے۔

ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق چند دن پہلے ایک بیوپاری کے گھر ڈاکے کے دوران، ان کے گھر کی چار خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ یہ ایک انتہائی سنگین صورت حال سامنے آئی ہے۔ ایک عام شہری کی عزت، جان و مال محفوظ نہیں ہے، تو پھر حکمران کس ترقی و خوشحالی کی بات کرتے ہیں، اخلاقی قدروں کو نظرانداز کرکے، کیا اقتصادی ترقی ممکن ہوسکتی ہے، جرم کی پشت پناہی حاصل نہ ہو اگر تو کیا ایسے گھناؤنے جرائم بار بار ہونے رک نہ جائیں، مجرموں کو سخت سزائیں ملنے لگیں تو شاید ایسی وارداتیں کرنے سے پہلے مجرم بھی ضرور اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں گے۔

ایسے ہر انفرادی واقعے پر پڑوسی ملک کے صحافی، ادیب، سماج سدھارک، اداکار و عام شہری بینرز اٹھاکر سڑکوں پر نکل آتے ہیں جب کہ ہمارے ملک میں ایسے واقعات پر بے حس خاموشی بین کرتی رہ جاتی ہے، اہل قلم، عمران خان کے سیاسی یوٹرن، طاہر القادری کے انقلاب اور سیاسی تضاد میں الجھے رہتے ہیں اور اس اخلاقی دہشت گردی کی وجہ سے عام شہریوں کی ذاتی زندگی مفلوج ہو کے رہ گئی ہے، پاک فوجیں وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں تندہی سے مصروف ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اخلاقی دہشت گردی کا خاتمہ کون کرے گا؟
Load Next Story