شاہد احمد دہلوی کی یادیں باتیں

اس دور میں یہ سب نوجوانی کے عالم میں تھے اور عربک کالج دہلی کی ڈرامیٹک سوسائٹی کے ممبر بھی تھے

hamdam.younus@gmail.com

مشہور ادیب، نقاد، براڈ کاسٹر اور اپنے دورکے مشہور ماہنامہ ''ساقی'' کے ایڈیٹر شاہد احمد دہلوی سے میری بھی بہت سی ملاقاتیں رہی تھیں وہ دور میرا نو عمری کا دور تھا اور میں ریڈیو پاکستان کراچی کے بزم طلبا کے پروگراموں میں حصہ لینے کی وجہ سے اکثر و بیشتر ریڈیو پاکستان کراچی کے نوجوانوں کے دیگر پروگراموں میں بھی حصہ لیا کرتا تھا۔

شاہد احمد دہلوی کا ادب کی دنیا میں بڑا مشہور نام تو تھا ہی مگر فن موسیقی سے بھی ان کی بڑی گہری دلچسپی تھی، ان کی بڑے نامور موسیقاروں اورگلوکاروں سے بھی بڑی دوستی تھی اور یہی دوستی انھیں فن موسیقی کی طرف لے آئی تھی، ان کے گھر میں اکثر و بیشتر موسیقی کی محفلیں ہوا کرتی تھیں اور ان محفلوں میں بڑے نامور فنکار گاہے بہ گاہے شرکت کیا کرتے تھے۔ شاہد احمد دہلوی کو سُر اور لے کی اتنی گہری واقفیت تھی کہ بڑے بڑے فنکار ان کی گفتگو سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے اور بڑے بڑے جید موسیقار بھی شاہد احمد دہلوی سے راگوں سے متعلق آگاہی حاصل کرتے ہوئے بڑی خوشی محسوس کیا کرتے تھے۔

ایک مرتبہ عظیم شاعر جوش ملیح آبادی نے ایک محفل میں شاہد احمد دہلوی کے دادا ڈپٹی نذیر احمد کی زبان دانی پر اورکسی محاورے پر اپنے جوشیلے انداز میں ایک اعتراض داغ دیا تھا اور پھر اس کے بعد ایک ادبی جنگ سی چھڑگئی تھی، ایک طرف نامور شاعر جوش ملیح آبادی تھے اور دوسری طرف اپنے دورکے ایک عظیم نثر نگار تھے اور پھر ایک طویل عرصے تک یہ ادبی جنگ جاری رہی، شاہد احمد دہلوی بھی اپنے وقت کے نامور نثر نگار اور مشہور ادبی رسالے ''ساقی'' کے مدیر تھے۔

وہ بھی با وقار نثرنگار تھے، بڑے جید ترجمہ نگار تھے، ترجمہ نگار بھی ایسے کہ اس دور میں کوئی دوسرا ترجمہ نگار ان کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا، یہ اسی دورکی بات ہے، ادب دوستوں کی خواہش تھی کہ جوش ملیح آبادی اور شاہد احمد دہلوی کی لڑائی زیادہ طول نہ پکڑے اورکسی نہ کسی طرح ان دو عظیم شخصیات کی اس دشمنی کی روش کو ختم کردینا چاہیے۔ اس دوران ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا اس میں ادیب اور شعرا کافی تعداد میں مدعو کیے گئے تھے۔

اس تقریب کے منتظمین نے مشہور ادبی شخصیت مشفق خواجہ صاحب سے درخواست کی کہ وہ اس تقریب میں جو ایک جلسے کی صورت اختیار کرگئی تھی شاہد احمد دہلوی جوش ملیح آبادی دونوں حضرات کو اس جلسے میں اپنے ساتھ لے کر آئیں تو یہ ایک بڑی کرامت ہو جائے گی، ایک ادبی سرد جنگ ختم ہو جائے گی۔ مشفق خواجہ صاحب نے کافی سوچ و بچار کے بعد جواب دیتے ہوئے کہا کہ '' بھئی! لانے کو تو میں ان دونوں شخصیات کو ایک ساتھ یہاں لانے پر رضامند کر لوں گا مگر اس دوران ان دونوں شخصیات کے درمیان ادبی لڑائی کو خیرباد کہہ کر صلح ہوگئی تو اس ادبی لڑائی کا چٹخارا پھر کیسے ملتا رہے گا'' اور یہ بات مشفق خواجہ صاحب نے بھی ایک لطیفے کے انداز میں کہی تھی، بس اس کو ایک لطیفہ ہی سمجھ کر فراموش کر دیا جائے۔


ماہنامہ ساقی اپنے دور میں دہلی اسکول کا نمایندہ سمجھا جاتا تھا اور اردو ادب میں دہلی اسکول کی بھی بڑی قدر و منزلت تھی۔ ماہنامہ ساقی تمام ادبی تحریکوں کا اس دور میں مرکز اور منبع تھا۔ ساقی کو اس دور میں ترقی پسند ادیبوں کی طرف سے بھی بڑی پذیرائی حاصل تھی۔

ماہنامہ ''ساقی'' کو اس دور میں ترقی پسند ادب کا سرچشمہ سمجھا جاتا تھا، اس رسالے کا ہندوستان پاکستان میں اپنا ایک وسیع حلقہ تھا، ماہنامہ ''ساقی'' کو ہندوستان کے ادبی حلقوں میں بھی بڑا پسند کیا جاتا تھا، اس دور کے بڑے بڑے نثرنگاروں کی تحریریں ماہنامہ ''ساقی'' کی زینت ہوا کرتی تھیں۔ ادب کے بڑے بڑے معتبر نام ماہنامہ ''ساقی'' سے وابستہ تھے اور ان کی تحریریں ''ساقی'' کے حصے میں آتی تھیں۔

ساقی کے لکھنے والوں میں چند ناموں میں منشی پریم چند، اختر حسین رائے پوری، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی کے نام بھی شامل تھے، ان نامور قلم کاروں کا قدم قدم پر ماہنامہ ''ساقی'' کے ساتھ تعاون شامل رہا تھا۔ شاہد احمد دہلوی، ایک نامور نثرنگار، مدیر کے علاوہ اسٹیج سے بھی بڑی دلچسپی رکھتے تھے، انھوں نے اپنے دور میں اسٹیج کے لیے بھی بہت کچھ کیا تھا اور اسٹیج کے ڈراموں کو نئی زندگی دی تھی۔ ماہنامہ ''ساقی'' کے ساتھ بہت سی نامور ادبی شخصیات کا تعاون شامل رہا، جن میں فضل حق قریشی، ناصر انصاری، اخلاق احمد، تابش دہلوی، خمار دہلوی اور ماسٹر ممتاز کے نام شامل تھے، فضل احمد قریشی جتنے اچھے ڈرامہ نویس تھے اتنے ہی اچھے اداکار بھی تھے۔

اس دور میں یہ سب نوجوانی کے عالم میں تھے اور عربک کالج دہلی کی ڈرامیٹک سوسائٹی کے ممبر بھی تھے، اسی طرح جبار غازی اور حکیم اقبال حسین اپنے وقت کی نامور شخصیات فن اداکاری سے دلچسپی رکھتی تھیں۔ اسی دور میں فضل حق قریشی نے ایک ڈرامہ لکھا تھا جس کا عنوان تھا '' زبردستی کی شادی'' یہ ایک بہت دلچسپ ڈرامہ تھا اور اس کو کئی لوگوں نے مل کر اسٹیج کیا تھا۔ ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ اس ڈرامے میں نامور حکیم اقبال حسین نے ہیرو کا کردار ادا کیا تھا جب کہ رائٹر اخلاق احمد نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا اور یہ ڈرامہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ اسٹیج کیا گیا اور بہت پسند کیا گیا تھا۔ یہاں میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ مشہور ماہر تعلیم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی بھی اپنے دور کے ایک باکمال ڈرامہ نویس بھی تھے۔

شاہد احمد دہلوی نے بھی ڈراموں میں کردار نگاری کی تھی انھوں نے بھی ایک ڈرامے میں نسوانی کردار ادا کیا تھا، آل انڈیا ریڈیو دہلی کے ڈائریکٹر زیڈ۔اے۔بخاری بھی آواز کے بادشاہ تھے، انھوں نے بھی ابتدا میں اپنی آواز کا خوب جادو جگایا تھا، ریڈیو کے بہت سے ڈراموں میں ان کی پاٹ دار آواز ڈراموں کا حسن ہوا کرتی تھی اور بڑے نامور اسٹیج آرٹسٹ ان کی آواز کے دیوانے ہوا کرتے تھے۔ تقسیم ہندوستان کے بعد جب ہندوستان میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا تو ہندوستان میں سکون سے زندگی گزارنا ناممکن ہو گیا تھا۔

بہت سے فنکاروں نے ہندوستان کو خیرباد کہہ کر پاکستان کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ بہت بڑے پیمانے پر مسلمانوں نے ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان کو اپنا وطن بنایا تھا۔ شعر و ادب سے وابستہ اور بڑے بڑے ہنرمندوں کا ہندوستان میں رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد زیڈ۔اے۔بخاری بھی پاکستان آگئے تھے۔ پھر وہ ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل بنائے گئے تھے اور انھوں نے ریڈیو کے ہر شعبے کو اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ سنوارا اور نکھار بخشا تھا۔
Load Next Story