ایک اور سنگ میل
وطن عزیز گزشتہ کئی دہائیوں سے ماضی کے حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی کے باعث دہشت گردی کا شکار ہے۔
وطن عزیز گزشتہ کئی دہائیوں سے ماضی کے حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی کے باعث دہشت گردی کا شکار ہے۔ دہشتگردی مختلف شکلوں میں ہر وقت پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ بہت سی قوتیں ان قوتوں کے ساتھ نظر آئیں جو ببانگ دہل دہشت گردی کا ارتکاب کرتی ہیں اور ڈھٹائی کے ساتھ اسے قبول بھی کرتی ہیں۔ پاکستان کی بعض سیاسی جماعتیں دبے لفظوں میں اس عمل کی مذمت کرتی رہی ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ہمیشہ پوری قوت کے ساتھ زبانی اور عملی طور پر اس سوچ کے خلاف جدوجہد کی ہے۔
بالخصوص نائن الیون کے بعد انھوں نے اس امر سے قوم کو آگاہ کیا کہ دہشت گردوں سے پاکستان کو خطرہ ہے اور آج قوم نے دیکھا کہ ملک کی سالمیت ان دہشت گردوں کے ہاتھوں متاثر ہو رہی ہے۔ عملی طور پر انھوں نے احتجاج کر کے طاقت کے زور پر مذہبی نظریات مسلط کرنے کے خلاف اپنی جدوجہد کو تیز کیا۔ احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ تقاریر اور خطبات میں حکمرانوں کو آنیوالے اس خطرے سے آگاہ کیا، لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے اس کا تمسخر اڑایا اور دہشت گردی کے کسی بھی مبینہ خطرے سے انکار کیا لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ الطاف حسین جن خدشات کا اظہار کر رہے تھے، وہ درست ثابت ہوئے اور وہی نام نہاد مجاہدین جو کل تک عالمی طاقتوں کی آنکھوں کا تارہ بنے ہوئے تھے، آج پاکستان کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
اسی جدوجہد کو برقرار رکھتے ہوئے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی ہدایت پر مزارِ قائد سے متصل جناح پارک میں ایک عظیم الشان جلسہ عام منعقد کیا گیا جس کا مقصد افواج پاکستان سے یکجہتی کرنا تھا۔ یہ جلسہ ایک ایسے دنوں میں کیا گیا جب قوم مذہبی فریضہ انجام دیتے ہوئے رمضان المبارک کے روزے رکھ رہی ہے۔ اس مہینے میں اس جلسے کا انعقاد ناممکن نظر آتا تھا لیکن اسے ممکن کر دکھایا گیا۔ یہ جلسہ کئی حوالوں سے منفرد تھا لیکن سب سے بڑی انفرادیت اس جلسے کی یہ تھی کہ اس کے شرکاء کو روزہ افطار کرایا گیا۔ اگر سیاسی تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی اجتماع تھا جس کے دوران شرکاء نے روزہ افطار کیا۔
آج قوم نے اپنے اتحاد سے یہ ثابت کیا کہ نہ صرف وہ دہشت گردی کے خلاف ہے بلکہ وہ افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ان باطل قوتوں سے لڑنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ آپریشن ضرب عضب اس یقین کے ساتھ جاری ہے کہ جب تک دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں کر دیا جاتا ، یہ لڑائی جاری رہے گی۔ افواج پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ہونے والا جلسہ عام کا پنڈال وقت سے پہلے پر ہو چکا تھا۔ اطراف کی سڑکیں انسانوں سے اٹی ہوئی تھیں اور درجنوں ریلیاں ایسی تھیں جو جلسہ گاہ نہ پہنچ سکیں اور نہ ہی انھیں جگہ مل سکی۔ عمومی طور پر سیاسی جماعتیں عام حالات میں اس میدان کو نہیں بھر پاتیں اور ایم کیو ایم نے گرم موسم اور رمضان کی سختی کے باوجود اسے بھر کر ایک نئی تاریخ رقم کردی۔
یہ جلسہ پاکستان کی سیاسی قوتوں کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ بقائے پاکستان کے لیے انھیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا ہوگا کہ اس جلسے سے شیخ رشید احمد، الٰہی بخش سومرو، نصرت سحر عباسی سمیت دیگر اکابرین نے بھی خطاب کیا۔ اس لحاظ سے بھی یہ ایک نمایندہ اجتماع تھا کہ اس میں متعدد سیاسی جماعتوں کے اراکین نے شرکت کر کے افواج پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کے فیصلے کی توثیق کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کر کے ترقی اور خوشحالی کی راہ ہموار کرنے کے لیے یک زبان اور متحد ہیں۔ حالات تقاضا کر رہے ہیں کہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کے خلاف صف آراء ہو کر فوج کا ساتھ دیں اور ریاست پاکستان کی بقاء کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
اس کے لیے ایم کیو ایم کا کردار ان کے لیے مشعل راہ بن سکتا ہے۔ امید ہے کہ وہ مذہبی جنونی جو اپنے طرز کی شریعت نافذ کرکے اسلام کا چہرہ مسخ کرنا چاہتے ہیں انھیں شکست دینے کے لیے پاکستان کی تمام اعتدال پسند سیاسی جماعتیں متحد ہوں گی اور ملک کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گی۔ دہشت گردی کا خاتمہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جب تک دہشت گردی ہو رہی ہے ملک میں کوئی بھی معاشی ایجنڈا تکمیل نہیں پاسکتا اور معاشی ایجنڈے کے بغیر کامیابی ناممکن ہے۔
ملک و قوم کی ترقی اور معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اس سوچ کا خاتمہ کیا جائے جو انسانوں کو دہشت گردی پر آمادہ کر لیتی ہے اور اس کے خاتمے کے لیے نظام تعلیم میں اصلاحات متعارف کرائی جائیں جس سے ایک ایسی افرادی قوت پیدا کی جائے جو دین کا صحیح فہم رکھتی ہو، جدید علوم پر دسترس حاصل کرکے ترقی کی راہ ہموار کرسکتی ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم سب مل کر قوم کی تشکیل اس طرح کریں کہ ہمارے مابین نسلی ، لسانی ، گروہی اور فرقہ وارانہ تفریق کا خاتمہ ہو اور صحیح معنوں میں پاکستان میں ایک انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل پائے اور حقوق سے محروم عوام کو ان کے جائز حقوق میسر ہوں۔
الطاف حسین کی جدوجہد بنیادی طور مساوات پر مبنی ایسے معاشر ے کے قیام کے لیے ہے جہاں پوری قوم مذہبی آزادی اور اپنے رسم و رواج کے مطابق زندگی بسر کر سکیں اس کے لیے ایک پر امن ماحول درکار ہے ۔ لہذا وطن عزیز سے دہشت گردی اور کے ماحول کا خاتمہ پہلی شرط ہے اس مقصد کے حصول کے لیے افواج پاکستان قربانیاں دے رہے ہیں۔ قوم کی اجتماعی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ فوج شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کرے اس قومی فریضے کو سر انجام دینے کے لیے سب سے پہلے الطاف حسین نے قدم اٹھایا۔ اس ضمن میں یہ عمل ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے امید کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اسی جذبے کا اظہار کرتے ہوئے ملک و قوم کے دفاع کے لیے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنا بھرپور عملی کردار ادا کریں گی۔(اللہ پاکستان کا حامی و ناصر اور مددگار ہو۔)