پاکستان میں ایک عرصے سے خبریں سنتے آرہے ہیں کہ سرکاری اداروں میں ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد میں 2 سال، 3 سال یا 5 سال کا اضافہ کرنے کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔ لیکن ایک عرصے سے جاری اس بحث اور اس تجویز کا اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
یوں کئی صاحبان میرے بھی جاننے والے ایسے ہیں جو 60 سال کی عمر کو پہنچ کر اس خیال میں نوکری کرتے رہے کہ وہ ریٹائر نہیں ہوں گے اور حکومتی تجویز سے مستفید ہوکر مزید کچھ عرصے ملازمت کرلینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ایک عام رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ کئی زمانوں سے بنے اس قانون کی افادیت ٹھیک ہے کہ سرکاری ملازم کو 60 سال کی عمر میں ریٹائر کردیا جائے کیوں کہ اس عمر میں انسان سٹھیا جاتا ہے، یعنی دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ سو ملازمت کے امور انجام دینے میں مشکل پیش آتی ہے۔ یہاں ازراہِ مذاق یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ 60 سال کی عمر کی حد کو پہنچنے سے پہلے بھی وہ کب امور کو درست طور پر انجام دے رہے ہوتے ہیں؟ تو عمر کی حد کم کردی جائے یا پھر 60 سے زیادہ بھی کرلیں تو بھی ایک ہی بات ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان میں کئی بڑے بڑے ادارے چلانے والوں کی عمر 60 سے زیادہ ہی ہے، تو جب ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی خدمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے تو پھر انہیں ریٹائر کرکے مراعات پلس نئی نوکری دینے میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ خیر جو نوکریاں دے رہے ہیں وہ زیادہ بہتر جانتے ہوں گے اور جو کررہے ہیں وہ تو خیر جانتے ہی ہیں۔ تو ہمیں کیا کہ پوشیدہ اور غیر پوشیدہ کی تلاش میں نکلیں۔
کافی عرصہ ہوا مجھے ایک صاحب نے جاپان کے بارے میں بتایا تھا کہ وہاں ریٹائرڈ حضرات رضاکارانہ طور اپنے ہی محکموں یا دیگر ضرورت کے محکموں میں خدمات انجام دیتے ہیں اور یوں ایک ایسی فورس حکومت کو میسر ہوتی ہے جس سے انسانی وسائل کی کمی پر قابو بھی پالیا جاتا ہے اور یہ افراد گھر بیٹھے رہنے اور بیمار ہونے کے بجائے خود کو حرکت میں رکھنے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک منصوبہ چین میں بھی شروع کیا جاچکا ہے۔
آپ کو یہ حقائق بھی بتاتا چلوں کی چین میں عوام کی اوسط عمر میں گزشتہ ایک دہائی میں مزید اضافہ ہوا ہے اور اب یہ بڑھ کر 78 سال سے زائد ہوچکی ہے اور اندازے کے مطابق 2035 تک یہ اوسط عمر 80 سال تک ہوجائے گی۔ اس صورتحال میں پاکستان میں اوسط عمر کے بارے میں بات کرنا تو اب بنتا نہیں لیکن آپ یہ ضرور سوچ سکتے ہیں کہ اگر اوسط عمر 78 سال سے زائد ہے تو 60 سال میں ایک چینی شہری اچھا بھلا صحت مند ہوگا اور بالکل ایسا ہی ہے۔ چین کے پارکس اور یہاں کے سیاحتی مقامات اس بات کی گواہی ہیں کہ یہاں واقعی اس کہاوت کو سچ مانا جاسکتا ہے کہ Age is just a number۔
سو اس صحت مند انسانی وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چینی حکومت نے 2018 میں ایک منصوبے کا آغاز کیا، جس میں ریٹائرڈ اساتذہ کو ملازمت دے کر دیہی تعلیم کے معیار کو بڑھانے کی کوششیں کی گئیں۔ چینی حکومت نے آغاز میں نومبر 2023 تک کےلیے اپنے ایکشن پلان میں بیس ہزار ریٹائرڈ پرائمری اور مڈل اسکول اساتذہ کو بھرتی کیا تھا اور اس سال ملک کے پسماندہ علاقوں میں کام کرنے کےلیے سات ہزار ریٹائرڈ اساتذہ کو ملازمت دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ مہم بنیادی طور پر ریٹائرڈ پرنسپل، تدریسی تحقیقی عملہ اور 65 سال تک کی عمر کے تجربہ کار اساتذہ کےلیے ہے۔ منصوبے کے تحت بھرتی کیے گئے تدریسی پیشہ ور افراد نسلی اقلیتی برادریوں کے کاؤنٹیوں، قصبوں اور دیہی علاقوں کے اسکولوں اور سرحدی علاقوں، دور دراز اور دیگر علاقوں میں کام کریں گے، جہاں تعلیمی وسائل کی کمی ہے۔ اس پروگرا م کا مقصد ملک کے نظام تعلیم کو تقویت دینا ہے۔
ایک اور خصوصی پروگرام کے تحت دیہی پرائمری اور مڈل اسکولوں میں پڑھانے کےلیے تقریباً 10,000 ریٹائرڈ پرنسپل اور اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں اور یہ پروگرام اس سال 4,500 نئے ریٹائرڈ پرنسپل اور اساتذہ کی خدمات حاصل کرے گا۔ ملک کے دور اور پسماندہ علاقوں میں صرف پرائمری اور مڈل و سیکنڈری اسکولوں کےلیے ہی نہیں بلکہ جامعات کےلیے بھی ایسے ہی پروگراموں میں گزشتہ سال ملک کی اعلیٰ جامعات سے 146 ریٹائرڈ پروفیسرز اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز کو مغربی علاقوں کی چار جامعات میں پڑھانے کےلیے رکھا گیا تھا۔ اس سال پروگرام میں توسیع کی گئی ہے، جس میں 10 مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کےلیے 300 ریٹائرڈ اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ یہ ریٹائرڈ اساتذہ اور پروفیسرز حکومت سے ایک سال میں 20,000 یوآن (3,100 ڈالر) اضافی سبسڈی حاصل کرسکتے ہیں۔
اس طرح کے دیگر کئی پروگراموں کا آغاز کرکے چین نے دنیا کے ترقی یافتہ مالک کی طرح ایک ایسا نظام تشکیل دینے کی کوشش کی ہے جہاں انسانی وسائل کا بھرپور استعمال کرکے تربیت یافتہ اور پیشہ ور افراد کو تعلیم کے معیار کو بلند کرنے اور ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں ہر بچے تک تعلیم کی رسائی کو ممکن بنانے کا ایک کامیاب تجربہ کیا ہے۔
پاکستان سے ہر سال کئی پاکستانی نوجوان تعلیم کے حصول، کئی کاروباری افراد کاروبار کےلیے اور کئی عہدیدار اپنے فرائض کی ادائیگی کےلیے چین آتے ہیں اور یہاں کی ترقی کو دیکھ کر حیران بھی ہوتے ہیں۔ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ پالیسی بنانے والے اور اس پر عمل کروانے والے بظاہر ان چھوٹی چھوٹی کوششوں کو کیوں محسوس نہیں کرتے اور کیوں اپنے ہاں نافذ نہیں کرتے جب کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں بھی رضاکاروں اور ملک کی خدمت کرنے والوں سمیت اس طرح کے پروگرامز سے فائدہ اٹھانے والوں کی خواہش رکھنے والوں کی کمی نہیں۔
ضرورت بس یہ ہے کہ اب پلانز بنانے کی نہیں بلکہ ان پر عملدرآمد کی بات ہونی چاہیے، کیوں کہ صرف تعلیم ہی نہیں، صحت اور دیگر کئی ایسے شعبے ہیں جہاں انقلابی اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔