بارشوں کے ملکی زراعت پر منفی اثرات
ہمارے ملک میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی فصلیں کپاس، گندم اور چاول ہیں
محکمہ زراعت سندھ کے مطابق حالیہ بارشوں سے کاشتکاروں کو 86 ارب 86 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ حالیہ بارشوں سے 5 لاکھ 41 ہزار 351 ایکڑ اراضی پرکپاس، چاول اورگنے کی کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا کسی بھی ملک کی معیشت پر براہ راست اثر ہوتا ہے جن میں فصلوِں کو نقصان سمیت فوڈ سیکیورٹی کا خدشہ پیدا ہونا شامل ہیں۔ بارشیں اور سیلاب اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ حالات کسانوں کے لیے اناج اگانے اور بھوک کے شکار لوگوں تک خوراک پہنچانے کو مشکل بنا رہے ہیں۔ بارشوں اور سیلاب سے سڑکیں، مکانات اور دیگر انفرا اسٹرکچر کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کا اثر بھی معیشت پر ہوتا ہے۔
دراصل موسمیاتی تبدیلی ہماری زراعت کو بہت بُری طرح سے متاثر کررہی ہے، لیکن ہماری حکومتوں نے شعبہ زراعت پرکبھی توجہ نہیں دی ہے،بارش اور سیلاب کے نتیجے میںہونے والے بھاری زرعی نقصانات کا حکومتی سطح پرکوئی ازالہ نہیں کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کسان مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں۔ زراعت کو بچانے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پرکوئی بھی مربوط حکمت عملی نظر نہیں آرہی ہے۔ جون سے ستمبر تک پورے جنوبی ایشیا میں غیر معمولی بارشوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ پاکستان کی زراعت کا انحصار بارشوں اورگلیشئیر پر جمی برف کے پگھلنے پر ہے۔
تحقیق بتاتی ہے کہ گلگت بلتستان میں موجود گلیشئیرز اب تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کی وجہ سے فی الحال پانی ضرورت سے زیادہ مل رہا ہے لیکن مستقبل میں گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار اسی طرح جاری رہی تو اس صدی کے آخر میں ہندو کش اور ہمالیہ ریجن کے گلیشئیرز کا 50 فی صد تک حجم کم ہوسکتا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔
حالیہ بارشوں سے بلوچستان کے رہائشی علاقوں اور باغات کو جہاں نقصان پہنچا وہیں ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی بارش سے گندم کی فصل بھی متاثر ہوئی ہے۔ دس برس قبل اپریل، مئی کے مہینے میں لو چلا کرتی تھی اور اس وقت گندم کی فصل پکنے کے آخری مراحل میں ہوتی تھی جب کہ مئی کے مہینے میں تو گندم، کپاس، تل کی فصل تیار ہو جایا کرتی تھی، لیکن اب ان مہینوں میں بے موسم کی بارشیں ہو رہی ہیں جس کی کاشت کار کو ضرورت نہیں۔ غیر ضروری بارشوں کے سبب گندم کی کٹائی میں تاخیر ہو رہی ہے اور جہاں اولے پڑ جائیں، یا طوفانی بارشیں ہوجائیں وہاں گندم کی کوالٹی متاثر ہوتی ہے۔
شدید گرمی کی لہر اور موسمیاتی تبدیلی زرعی زمین کی مٹی کو متاثر رہی ہیں جس سے مٹی کا کٹاؤ، نامیاتی کاربن، غذائی اجزا اور تیزابیت میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ ان نقصانات میں مٹی کے نامیاتی مادے کا نقصان، نمی کی مقدار میں کمی، معدنیات کی شرح میں اضافہ، مٹی کی ساخت کا نقصان، مٹی کی تنفس کی شرح میں اضافہ اور غذائی اجزا کی دستیابی میں کمی، مٹی کو نمکین بنانا وغیرہ شامل ہے اور اس تمام تر خرابی کی وجہ سے مٹی کی فزبیلیٹی متاثر ہورہی ہے۔
یونیسکیپ (UNESCAP) کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان اپنے سالانہ جی ڈی پی کا 9 فیصد کھو سکتا ہے۔ گرمی کی شدید لہروں اور بے وقت بارشوں نے بھی پاکستان کی زرعی پیداوار کو شدید متاثر کیا ہے۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی نے خبردار کیا ہے کہ اس نوعیت کے موسمی واقعات کی تعداد مستقبل میں بڑھے گی جو پاکستان میں غذائی تحفظ کے لیے شدید خطرے کا سبب ہوگا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک آنے والے برسوں میں کاشت کی بڑھتی قیمتوں اور موسمیاتی تبدیلی کی بدولت اہم غذائی اور نقد فصلوں، جیسا کہ گندم، گنا، چاول، مکئی اور کپاس کی کاشت میں نمایاں گراؤٹ کی پیشگوئی کرچکا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کی کمی کا سامنا بھی ہو رہا ہے جس کے سبب اب کسان چاول کی فصل کے بجائے مکئی کاشت کرنے لگ گئے ہیں۔ بلوچستان میں 83 لاکھ ایکڑ رقبہ موجود ہے مگر پانی کی کمی کی وجہ سے وہ قابلِ کاشت نہیں ہے، اگر ہمارے ملک کا ایک ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت بھی بڑھ گیا تو تقریباً تمام فصلوں کی پیداوار میں 5 سے 15 فیصد تک کمی واقع ہوجائے گی اور بدقسمتی سے پاکستان اس جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے مطابقت کے لیے بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کی بقا کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔اگر آنے والے وقت میں یہی حالات رہے تو ہم بہت سے علاقوں میں بہت سے پھل اور سبزیاں کاشت کرنے میں ناکام رہیں گے۔
ہمارے ملک میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی فصلیں کپاس، گندم اور چاول ہیں۔ چاول کی کاشت کے لیے پانی زیادہ مقدار میں درکار ہوتا ہے اور ہمارا ملک پانی کی قلت کا شکار ہورہا ہے۔کپاس کی بات کی جائے تو کپاس کو لے کر بہت زیادہ خدشات اس لیے ہیں کیونکہ موسم کے تبدیل ہونے کی وجہ سے کچھ کیڑے فصل پر بہت گرمی یا سردی میں حملہ نہیں کرتے۔ مگر اچانک موسم کی تبدیلی کے باعث بارش جلدی ہوجائے تو وہ کیڑے مکوڑے فصل پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کپاس کی فصل خاصی متاثر ہو رہی ہے۔
ملک کا انفرا اسٹرکچر ایسا ہے کہ اگر ندی نالوں میں طغیانی آجائے تو پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی موثر بندوبست نہیں جس کی وجہ سے پانی سیلاب کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ آبادیاں ایسی جگہ زیادہ ہیں جہاں کلائمٹ چینج کا اثر زیادہ ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے تعمیرات پر کام کیا جائے جس میں آبی ذخائر اور ڈرینیج سسٹم سب سے کلیدی ہیں۔ پاکستان کو متبادل توانائی پر جانا ہوگا جس کے لیے جنگلات اگانے، سولر اور ونڈ انرجی پر انحصار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پانی ذخیرہ کر کے زراعت کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب کے جن علاقوں میں شدید بارشیں ہو رہی ہیں، ان علاقوں میں چھوٹے، بڑے ڈیمز بنا کر زراعت کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پانی کے تالاب بنائے جائیں اور ڈرپ ایریگیشن کے طریقوں پر کام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ کسانوں کو زرعی مقاصد کے لیے بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضوں کا بیمہ کیا جا سکے۔ تاہم، یہ بیمہ صرف قرضوں کی قیمت تک محدود ہے، اور ان کی فصلوں کو ہونے والے مجموعی نقصان کو پورا نہیں کرتا ہے۔ دیہی علاقوں میں زیادہ تر چھوٹے کسانوں کے پاس بینک قرض تک رسائی نہیں ہے، اور اس لیے وہ اس اسکیم سے مستفیض نہیں ہوسکتے۔ حکومت کو چاہیے کہ مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے ڈیم بنائے تاکہ بارش اور سیلاب کی صورت میں پانی ضایع ہونے سے بچا کر ذخیرہ کیا جاسکے۔
پاکستان میں تیل اور کوئلہ سے توانائی پیدا کی جاتی ہے جس سے گرین ہاؤس گیسز بھی پیدا ہوتے ہیں جو ماحولیات کے لیے انتہائی خطرناک ہیں، اس لیے عوام کو پیدل اور سائیکل پر سفر کرنے کی عادت بھی بڑھانی ہوگی کیونکہ اس سے توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ ماحولیات کا تحفظ بھی ہوگا۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو تیزی سے کام کرنا چاہیے۔ ایک قومی مکالمہ شروع کرنا ہوگا جس کا مقصد کسانوں کو معاوضہ دینے کے لیے حکمت عملی تیارکرنا ہے جو اکثر اپنی مشکلات کے لیے کم سے کم ذمے دار ہوتے ہیں۔ اس میں مالی امداد فراہم کرنا، سستی لاگت تک رسائی کو بڑھانا، اورکسانوں کو فصل لگانے کے نظام الاوقات اور فصل کے انتظام کے بارے میں بروقت اور درست رہنمائی کو یقینی بنانا شامل ہے۔
مزید برآں، حکومتی نگرانی کے ساتھ تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ فصلوں کی زیادہ پائیدار اقسام تیارکی جا سکیں جو موسمیاتی تبدیلی کے نادیدہ اخراجات صرف ایک زرعی مسئلہ نہیں ہیں۔ یہ ایک قومی بحران ہے جو پاکستان کے غذائی تحفظ اور معاشی استحکام کو خطرہ ہے، اگر توجہ نہ دی گئی تو یہ چیلنجز نہ صرف ملک کے کسانوں کے لیے بلکہ اس کی پوری آبادی کے لیے دور رس نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔
پاکستان کو خوراک کی حفاظت میں اپنے کسانوں کی اہم شراکت کو تسلیم کرنا چاہیے اور ان کی مدد کے لیے فوری اقدام کرنا چاہیے۔ موجودہ صورتحال زراعت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے درست پالیسی اور بین الاقوامی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
پاکستان کو فوری طور پر ایک جامع ماحولیاتی موافقت کی حکمت عملی تیارکرنے کی ضرورت ہے جو اس کے کسانوں کی ضروریات کو ترجیح دے۔ اس حکمت عملی میں پانی کے انتظام کو بہتر بنانے، مٹی کی زرخیزی کو بڑھانے اور پائیدار کاشتکاری کے طریقوں کو فروغ دینے کے اقدامات شامل ہونے چاہئیں۔ مزید برآں، بین الاقوامی تنظیموں اور ڈونر ایجنسیوں کو ایک زیادہ لچکدار زرعی شعبے کی تعمیر میں پاکستان کی مدد کے لیے اپنی کوششیں تیزکرنی چاہئیں۔
موسمیاتی تبدیلی کا کسی بھی ملک کی معیشت پر براہ راست اثر ہوتا ہے جن میں فصلوِں کو نقصان سمیت فوڈ سیکیورٹی کا خدشہ پیدا ہونا شامل ہیں۔ بارشیں اور سیلاب اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ حالات کسانوں کے لیے اناج اگانے اور بھوک کے شکار لوگوں تک خوراک پہنچانے کو مشکل بنا رہے ہیں۔ بارشوں اور سیلاب سے سڑکیں، مکانات اور دیگر انفرا اسٹرکچر کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کا اثر بھی معیشت پر ہوتا ہے۔
دراصل موسمیاتی تبدیلی ہماری زراعت کو بہت بُری طرح سے متاثر کررہی ہے، لیکن ہماری حکومتوں نے شعبہ زراعت پرکبھی توجہ نہیں دی ہے،بارش اور سیلاب کے نتیجے میںہونے والے بھاری زرعی نقصانات کا حکومتی سطح پرکوئی ازالہ نہیں کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کسان مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں۔ زراعت کو بچانے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پرکوئی بھی مربوط حکمت عملی نظر نہیں آرہی ہے۔ جون سے ستمبر تک پورے جنوبی ایشیا میں غیر معمولی بارشوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ پاکستان کی زراعت کا انحصار بارشوں اورگلیشئیر پر جمی برف کے پگھلنے پر ہے۔
تحقیق بتاتی ہے کہ گلگت بلتستان میں موجود گلیشئیرز اب تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کی وجہ سے فی الحال پانی ضرورت سے زیادہ مل رہا ہے لیکن مستقبل میں گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار اسی طرح جاری رہی تو اس صدی کے آخر میں ہندو کش اور ہمالیہ ریجن کے گلیشئیرز کا 50 فی صد تک حجم کم ہوسکتا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔
حالیہ بارشوں سے بلوچستان کے رہائشی علاقوں اور باغات کو جہاں نقصان پہنچا وہیں ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی بارش سے گندم کی فصل بھی متاثر ہوئی ہے۔ دس برس قبل اپریل، مئی کے مہینے میں لو چلا کرتی تھی اور اس وقت گندم کی فصل پکنے کے آخری مراحل میں ہوتی تھی جب کہ مئی کے مہینے میں تو گندم، کپاس، تل کی فصل تیار ہو جایا کرتی تھی، لیکن اب ان مہینوں میں بے موسم کی بارشیں ہو رہی ہیں جس کی کاشت کار کو ضرورت نہیں۔ غیر ضروری بارشوں کے سبب گندم کی کٹائی میں تاخیر ہو رہی ہے اور جہاں اولے پڑ جائیں، یا طوفانی بارشیں ہوجائیں وہاں گندم کی کوالٹی متاثر ہوتی ہے۔
شدید گرمی کی لہر اور موسمیاتی تبدیلی زرعی زمین کی مٹی کو متاثر رہی ہیں جس سے مٹی کا کٹاؤ، نامیاتی کاربن، غذائی اجزا اور تیزابیت میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ ان نقصانات میں مٹی کے نامیاتی مادے کا نقصان، نمی کی مقدار میں کمی، معدنیات کی شرح میں اضافہ، مٹی کی ساخت کا نقصان، مٹی کی تنفس کی شرح میں اضافہ اور غذائی اجزا کی دستیابی میں کمی، مٹی کو نمکین بنانا وغیرہ شامل ہے اور اس تمام تر خرابی کی وجہ سے مٹی کی فزبیلیٹی متاثر ہورہی ہے۔
یونیسکیپ (UNESCAP) کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان اپنے سالانہ جی ڈی پی کا 9 فیصد کھو سکتا ہے۔ گرمی کی شدید لہروں اور بے وقت بارشوں نے بھی پاکستان کی زرعی پیداوار کو شدید متاثر کیا ہے۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی نے خبردار کیا ہے کہ اس نوعیت کے موسمی واقعات کی تعداد مستقبل میں بڑھے گی جو پاکستان میں غذائی تحفظ کے لیے شدید خطرے کا سبب ہوگا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک آنے والے برسوں میں کاشت کی بڑھتی قیمتوں اور موسمیاتی تبدیلی کی بدولت اہم غذائی اور نقد فصلوں، جیسا کہ گندم، گنا، چاول، مکئی اور کپاس کی کاشت میں نمایاں گراؤٹ کی پیشگوئی کرچکا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کی کمی کا سامنا بھی ہو رہا ہے جس کے سبب اب کسان چاول کی فصل کے بجائے مکئی کاشت کرنے لگ گئے ہیں۔ بلوچستان میں 83 لاکھ ایکڑ رقبہ موجود ہے مگر پانی کی کمی کی وجہ سے وہ قابلِ کاشت نہیں ہے، اگر ہمارے ملک کا ایک ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت بھی بڑھ گیا تو تقریباً تمام فصلوں کی پیداوار میں 5 سے 15 فیصد تک کمی واقع ہوجائے گی اور بدقسمتی سے پاکستان اس جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے مطابقت کے لیے بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کی بقا کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔اگر آنے والے وقت میں یہی حالات رہے تو ہم بہت سے علاقوں میں بہت سے پھل اور سبزیاں کاشت کرنے میں ناکام رہیں گے۔
ہمارے ملک میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی فصلیں کپاس، گندم اور چاول ہیں۔ چاول کی کاشت کے لیے پانی زیادہ مقدار میں درکار ہوتا ہے اور ہمارا ملک پانی کی قلت کا شکار ہورہا ہے۔کپاس کی بات کی جائے تو کپاس کو لے کر بہت زیادہ خدشات اس لیے ہیں کیونکہ موسم کے تبدیل ہونے کی وجہ سے کچھ کیڑے فصل پر بہت گرمی یا سردی میں حملہ نہیں کرتے۔ مگر اچانک موسم کی تبدیلی کے باعث بارش جلدی ہوجائے تو وہ کیڑے مکوڑے فصل پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کپاس کی فصل خاصی متاثر ہو رہی ہے۔
ملک کا انفرا اسٹرکچر ایسا ہے کہ اگر ندی نالوں میں طغیانی آجائے تو پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی موثر بندوبست نہیں جس کی وجہ سے پانی سیلاب کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ آبادیاں ایسی جگہ زیادہ ہیں جہاں کلائمٹ چینج کا اثر زیادہ ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے تعمیرات پر کام کیا جائے جس میں آبی ذخائر اور ڈرینیج سسٹم سب سے کلیدی ہیں۔ پاکستان کو متبادل توانائی پر جانا ہوگا جس کے لیے جنگلات اگانے، سولر اور ونڈ انرجی پر انحصار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پانی ذخیرہ کر کے زراعت کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب کے جن علاقوں میں شدید بارشیں ہو رہی ہیں، ان علاقوں میں چھوٹے، بڑے ڈیمز بنا کر زراعت کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پانی کے تالاب بنائے جائیں اور ڈرپ ایریگیشن کے طریقوں پر کام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ کسانوں کو زرعی مقاصد کے لیے بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضوں کا بیمہ کیا جا سکے۔ تاہم، یہ بیمہ صرف قرضوں کی قیمت تک محدود ہے، اور ان کی فصلوں کو ہونے والے مجموعی نقصان کو پورا نہیں کرتا ہے۔ دیہی علاقوں میں زیادہ تر چھوٹے کسانوں کے پاس بینک قرض تک رسائی نہیں ہے، اور اس لیے وہ اس اسکیم سے مستفیض نہیں ہوسکتے۔ حکومت کو چاہیے کہ مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے ڈیم بنائے تاکہ بارش اور سیلاب کی صورت میں پانی ضایع ہونے سے بچا کر ذخیرہ کیا جاسکے۔
پاکستان میں تیل اور کوئلہ سے توانائی پیدا کی جاتی ہے جس سے گرین ہاؤس گیسز بھی پیدا ہوتے ہیں جو ماحولیات کے لیے انتہائی خطرناک ہیں، اس لیے عوام کو پیدل اور سائیکل پر سفر کرنے کی عادت بھی بڑھانی ہوگی کیونکہ اس سے توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ ماحولیات کا تحفظ بھی ہوگا۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو تیزی سے کام کرنا چاہیے۔ ایک قومی مکالمہ شروع کرنا ہوگا جس کا مقصد کسانوں کو معاوضہ دینے کے لیے حکمت عملی تیارکرنا ہے جو اکثر اپنی مشکلات کے لیے کم سے کم ذمے دار ہوتے ہیں۔ اس میں مالی امداد فراہم کرنا، سستی لاگت تک رسائی کو بڑھانا، اورکسانوں کو فصل لگانے کے نظام الاوقات اور فصل کے انتظام کے بارے میں بروقت اور درست رہنمائی کو یقینی بنانا شامل ہے۔
مزید برآں، حکومتی نگرانی کے ساتھ تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ فصلوں کی زیادہ پائیدار اقسام تیارکی جا سکیں جو موسمیاتی تبدیلی کے نادیدہ اخراجات صرف ایک زرعی مسئلہ نہیں ہیں۔ یہ ایک قومی بحران ہے جو پاکستان کے غذائی تحفظ اور معاشی استحکام کو خطرہ ہے، اگر توجہ نہ دی گئی تو یہ چیلنجز نہ صرف ملک کے کسانوں کے لیے بلکہ اس کی پوری آبادی کے لیے دور رس نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔
پاکستان کو خوراک کی حفاظت میں اپنے کسانوں کی اہم شراکت کو تسلیم کرنا چاہیے اور ان کی مدد کے لیے فوری اقدام کرنا چاہیے۔ موجودہ صورتحال زراعت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے درست پالیسی اور بین الاقوامی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
پاکستان کو فوری طور پر ایک جامع ماحولیاتی موافقت کی حکمت عملی تیارکرنے کی ضرورت ہے جو اس کے کسانوں کی ضروریات کو ترجیح دے۔ اس حکمت عملی میں پانی کے انتظام کو بہتر بنانے، مٹی کی زرخیزی کو بڑھانے اور پائیدار کاشتکاری کے طریقوں کو فروغ دینے کے اقدامات شامل ہونے چاہئیں۔ مزید برآں، بین الاقوامی تنظیموں اور ڈونر ایجنسیوں کو ایک زیادہ لچکدار زرعی شعبے کی تعمیر میں پاکستان کی مدد کے لیے اپنی کوششیں تیزکرنی چاہئیں۔