کراچی چیمبر کا پالیسی ریٹ میں 500 بیسس پوائنٹ کی کمی کا مطالبہ
حکومت گھٹتی ہوئی مہنگائی کے تناسب سے نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود کو 14.5فیصد پر لائے، صدر کراچی چیمبر
کراچی چیمبر آف کامرس نے گھٹتی ہوئی مہنگائی کے تناسب سے پالیسی ریٹ میں 500 بیسس پوائنٹ کی کمی کا مطالبہ کر دیا ہے۔
صدر کراچی چیمبر افتخار شیخ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ گھٹتی ہوئی مہنگائی کے تناسب سے نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود کو 14.5فیصد پر لائے، افتخار شیخ کا کہنا ہے کہ اگست میں مہنگائی 9.6 فیصد پر آگئی ہے جبکہ عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے بھی پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ اَپ گریڈ کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افراط زر کی شرح تین سال کی کم ترین شرح پر آچکی ہے جو پالیسی ریٹ میں کمی کا مضبوط جواز ہے، سنگل ڈیجٹ کی 9.2 فیصد افراط زر کی شرح اکتوبر 2021 میں دیکھی گئی تھی اور اُس وقت پالیسی ریٹ 7.25 فیصد تھا، لہٰذا تجارت و صنعتی سرگرمیوں کو متحرک کرنے کے لیے پالیسی ریٹ میں نمایاں کمی کی اشد ضرورت ہے۔
افتخار شیخ نے کہا کہ عالمی اجناس کی قیمتوں میں نمایاں کمی، ملکی زرعی پیداوار میں بہتری نے مہنگائی کے دباؤ کو کم کیا ہے، اگست 2021 کے 7فیصد پالیسی ریٹ کو مئی 2023 تک 22 فیصد تک بڑھانا مہنگائی کو کنٹرول کے لیے مؤثر نہیں تھا، معاشی ترقی میں تیزی لانے کے لیے متبادل مانیٹری اقدامات پر غور کرتے ہوئے پالیسی کی شرح میں کمی کی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جولائی 2024 تک مجموعی قرضوں میں حکومت کا حصہ بڑھ کر 79.3 فیصد تک پہنچ گیا، نجی شعبے کا ہجوم محروم رہا، پالیسی کی شرح میں کمی سے نجی شعبے کی طرف قرض کی تقسیم کو متوازن کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
بزنس مین گروپ کے سربراہ زبیر موتی والا نے کہا کہ مالی سال 2024 میں ایل ایس ایم انڈیکس میں نمو 0.9 فیصد کی معمولی سطح پر رہا، یہ معمولی نمو عرصہ دراز سے جاری بلند پالیسی ریٹ کی شرح کے منفی اثرات کو نمایاں کرتا ہے، پالیسی ریٹ میں کمی مینوفیکچرنگ سیکٹر کو انتہائی ضروری ریلیف فراہم کرے گی اور اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ مجموعی قرضوں میں نجی شعبے کا حصہ جولائی 2019 میں 29.7 فیصد سے کم ہو کر جولائی 2024 میں 19.8 فیصد رہ گیا، پالیسی کی شرح کو کم کرنے سے نجی شعبے میں قرض لینے اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے، پاکستان کی حقیقی شرح سود یعنی پالیسی ریٹ مائنس افراط زر اس وقت 9.9 فیصد ہے۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ پڑوسی ممالک بھارت، چین اور بنگلا دیش میں حقیقی شرح سود بالترتیب 3.0 فیصد، 2.9 فیصد اور مائنس 3.2 فیصد ہے لہٰذا پالیسی ریٹ میں کمی یقینی طور پر پاکستان کی علاقائی مسابقت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگی، پالیسی ریٹ میں 1فیصد کمی سے تقریباً 467ارب روپے کے قرضوں کی فراہمی کے اخراجات کی بچت ہو سکتی ہے، پالیسی ریٹ میں 1فیصد کمی سے خاطر خواہ مالی ریلیف ملے گا، حکومت پر مالی بوجھ کم ہوگا۔
صدر کراچی چیمبر افتخار شیخ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ گھٹتی ہوئی مہنگائی کے تناسب سے نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود کو 14.5فیصد پر لائے، افتخار شیخ کا کہنا ہے کہ اگست میں مہنگائی 9.6 فیصد پر آگئی ہے جبکہ عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے بھی پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ اَپ گریڈ کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افراط زر کی شرح تین سال کی کم ترین شرح پر آچکی ہے جو پالیسی ریٹ میں کمی کا مضبوط جواز ہے، سنگل ڈیجٹ کی 9.2 فیصد افراط زر کی شرح اکتوبر 2021 میں دیکھی گئی تھی اور اُس وقت پالیسی ریٹ 7.25 فیصد تھا، لہٰذا تجارت و صنعتی سرگرمیوں کو متحرک کرنے کے لیے پالیسی ریٹ میں نمایاں کمی کی اشد ضرورت ہے۔
افتخار شیخ نے کہا کہ عالمی اجناس کی قیمتوں میں نمایاں کمی، ملکی زرعی پیداوار میں بہتری نے مہنگائی کے دباؤ کو کم کیا ہے، اگست 2021 کے 7فیصد پالیسی ریٹ کو مئی 2023 تک 22 فیصد تک بڑھانا مہنگائی کو کنٹرول کے لیے مؤثر نہیں تھا، معاشی ترقی میں تیزی لانے کے لیے متبادل مانیٹری اقدامات پر غور کرتے ہوئے پالیسی کی شرح میں کمی کی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جولائی 2024 تک مجموعی قرضوں میں حکومت کا حصہ بڑھ کر 79.3 فیصد تک پہنچ گیا، نجی شعبے کا ہجوم محروم رہا، پالیسی کی شرح میں کمی سے نجی شعبے کی طرف قرض کی تقسیم کو متوازن کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
بزنس مین گروپ کے سربراہ زبیر موتی والا نے کہا کہ مالی سال 2024 میں ایل ایس ایم انڈیکس میں نمو 0.9 فیصد کی معمولی سطح پر رہا، یہ معمولی نمو عرصہ دراز سے جاری بلند پالیسی ریٹ کی شرح کے منفی اثرات کو نمایاں کرتا ہے، پالیسی ریٹ میں کمی مینوفیکچرنگ سیکٹر کو انتہائی ضروری ریلیف فراہم کرے گی اور اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ مجموعی قرضوں میں نجی شعبے کا حصہ جولائی 2019 میں 29.7 فیصد سے کم ہو کر جولائی 2024 میں 19.8 فیصد رہ گیا، پالیسی کی شرح کو کم کرنے سے نجی شعبے میں قرض لینے اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے، پاکستان کی حقیقی شرح سود یعنی پالیسی ریٹ مائنس افراط زر اس وقت 9.9 فیصد ہے۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ پڑوسی ممالک بھارت، چین اور بنگلا دیش میں حقیقی شرح سود بالترتیب 3.0 فیصد، 2.9 فیصد اور مائنس 3.2 فیصد ہے لہٰذا پالیسی ریٹ میں کمی یقینی طور پر پاکستان کی علاقائی مسابقت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگی، پالیسی ریٹ میں 1فیصد کمی سے تقریباً 467ارب روپے کے قرضوں کی فراہمی کے اخراجات کی بچت ہو سکتی ہے، پالیسی ریٹ میں 1فیصد کمی سے خاطر خواہ مالی ریلیف ملے گا، حکومت پر مالی بوجھ کم ہوگا۔