غذاؤں میں کم ہوتی غذائیت بڑا خطرہ بن گئی
کھانے پینے کی اشیا میں اہم غذائی اجزاء گھٹ جانے سے انسانی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے
دنیا بھر میں ماہرین غذائیات نوٹ کر رہے ہیں، تقریباً ہر غذا میں غذائیت (Nutrients) پچھلی ایک صدی کے دوران کم ہو چکی۔ تازہ طبی رپورٹوں کی رو سے دنیا بھر میں کم ازکم دو ارب انسانوں کو اپنی غذا کے ذریعے کئی مطلوبہ غذائی عناصر نہیں مل رہے جن میں فولاد، زنک، آئیوڈین، وٹامن اے، فولیٹ، میگنیشیم، تانبا اور دیگر وٹامن ومعدنیات شامل ہیں۔
نتیجہ یہ کہ ہر سال غذائیات کی کمی کا شکار ہو کر لاکھوں بچے کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہوتے اور پھر بچپن ہی میں چل بستے ہیں۔ لاکھوں بالغوں کو بھی یہ کمی موت کے منہ میں دھکیل رہی ہے۔ جو زندہ رہ جائیں، غذائیات کی کمی کے باعث ذہنی و جسمانی طور پہ صحت مند نہیں ہوتے۔ ان کی زندگی معذوری کا نشانہ بن کر تکلیف دہ حالت میں گذرتی ہے۔ غرض خوراک میں غذائیات کم ہو جانا بنی نوع انسان کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا جس سے عام لوگ ناواقف ہیں۔
فرق جنم لے چکا
عام آدمی بھی اب نوٹ کرتا ہے کہ ماضی اور حال کی تقریباً تمام غذاؤں میں کافی فرق جنم لے چکا۔ مجھے یاد ہے، پچاس سال قبل جب میں نے شعور سنبھالا تو ہر غذا کی اپنی مخصوص خوشبو ہوتی۔ یہی وجہ ہے، ہم بچے جب اسکول سے واپس آتے تو گھر میں داخل ہوتے ہی محض خوشبو سونگھ کر جان جاتے کہ آج امی نے آلو گوشت پکایا ہے یا بھنڈیاں۔ اسی طرح سیب، مالٹے، خربوزے، انگور وغیرہ اپنی خوشبو ہی سے دور سے پہچانے جاتے۔ دور حاضر کی اکثر غذاؤں میں یہ خوشبو ختم ہو چکی یا بہت کم رہ گئی ہے۔
ایک اور نمایاں فرق ذائقے میں بھی آیا۔ ماضی میں غذائیں بہت لذیذ ہوتی تھیں۔ اسی لذت کے باعث اردو میں کئی محاورے تخلیق ہوئے مثلاً پانچوں انگلیاں گھی میں ہونا، دال روٹی میں خوش ہونا، دانت کاٹی روٹی ہونا، ہتھیلی پر سرسوں جمانا، شیر وشکر ہونا وغیرہ۔ غذاؤں کا مزے دار ذائقہ بھی اب قصّہ پارنیہ بن چکا۔ گو ہوٹل والے خوب مسالے اور دیگر لوازمات ڈال کر اپنا کھانا ذائقے دار بنانے کی بھرپور سعی کرتے ہیں، مگر اس طرح کھانے چٹ پٹے (اور مضرصحت) تو ہو جاتے ہیں، ان کو مزیدار نہیں کہا جا سکتا۔ غذاؤں میں خوشبو اور ذائقے کی کمی، یہ افسوس ناک تبدیلی برداشت ہو سکتی ہے مگر غذا میں غذائیات کا کم ہو جانا نہایت خطرناک اور سنگین معاملہ ہے کیونکہ اس کا تعلق انسان کی صحت سے ہے۔ اور کہتے ہیں کہ صحت سب سے بڑی دولت ہے۔
خرابیوں نے کیونکرجنم لیا؟
اینی میری مائیر (Annemarie C. Mayer) برطانیہ کی ممتاز ماہر غذائیات ہیں۔ انھوں نے 1997ء میں اسی قسم کی ایک تحقیق کی تھی جسے عالمی طور پہ شہرت ملی۔ حکومت ِ برطانیہ کے پاس 1930ء کے عشرے کی غذاؤں میں وٹامن و معدنیات کی مقدار کا ڈیٹا موجود تھا۔ انھوں نے اس ڈیٹا کا تقابل حال کی بیس سبزیوں اور بیس پھلوں میں پائے جانے والے وٹامنوں اور معدنیات کی مقدار سے کیا۔ اس تحقیق سے افشا ہوا کہ حال کی سبزیوں اور پھلوں میں میگنیشیم، تانبا اور دیگر غذائی عناصر کی کمی جنم لے چکی۔
پریشر گروپ
یاد رہے، یورپ و امریکا میں کسانوں کی باقاعدہ تنظیمیں بنی ہوئی ہیں جو بطور ''پریشر گروپ '' کام کرتی ہیں۔خصوصاً جب کسی تحقیق سے نمایاں ہو کہ غذاؤں میں غذائیات گھٹ رہی ہیں تو یہ تنظیمیں بھرپور کوشش کرتی ہیں، یہ تحقیق مرکزی میڈیا میں نہ آنے پائے۔ انھیں ڈر ہے کہ ایسی تحقیق مقبول ہونے سے لوگ بعض غذائیں کھانا اور خریدنا ترک کر دیں گے۔ یوں کسانوں کو نقصان پہنچے گا۔ یہی وجہ ہے، یہ تنظیمیں حکومتوں پہ بھی دباؤ ڈالتی ہیں کہ ان محققوں کو فنڈز نہ دیں جو مروجہ زرعی طریقوں کی خرابیاں تحقیق وتجربات سے افشا کرتے ہیں۔
2008 ء میں برطانیہ میں واقع تحقیقی ادارے، روتھیمسٹیڈ ایکسپیریمنٹل اسٹیشن (Rothamsted Experimental Station) سے وابستہ سائنس داں، سٹیو میگراہ نے اپنی زیرقیادت ایک اہم تحقیق کا آغاز کیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ پچھلے ایک سو ساٹھ سال میں گندم کی پیداوار اور غذائیات کے معیار میں کس قسم کی تبدیلیاں آئی ہیں۔ تحقیق سے انکشاف ہوا کہ 1845ء سے لے کر 1967ء تک گندم کی فصل میں پائے جانے والے وٹامن اور معدنیات نے اپنی مقدار یکساں رکھی۔ مگر اس کے بعد زنک، تانبے اور میگنیشیم کی مقدار میں کمی آنے لگی۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ غیر نامیاتی یا مصنوعی کھادوں کا استعمال ہے۔
''سبز انقلاب ''
سٹیو میگراہ اور ان کی ٹیم پہ تحقیق سے منکشف ہوا کہ 1967ء سے لے کر 2000ء تک گندم میں کئی غذائی عناصر کم ہو گئے۔ اہم بات یہ کہ اسی عرصے میں دنیا بھر میں گندم کے ایسے بیج متعارف کرائے گئے جو زیادہ پیداوار دیتے تھے۔ اس عمل کو ''سبز انقلاب ''کا نام دیا جا چکا۔ سبز انقلاب اس لیے برپا ہوا تاکہ بڑھتی آبادی کے لیے مطلوبہ مقدار میں گندم، چاول اور دیگر اناج، سبزیاں اور پھل اگ سکیں۔ چناں چہ 1960ء کے عشرے میں زیادہ پیداوار دینے والے بیج ایجاد ہوئے۔ ان کی بدولت اناج کی پیداوار بڑھ گئی اور یہ ممکن ہو گیا کہ سبھی انسانوں کا پیٹ بھرا جا سکے۔
زیادہ پیداوار دینے والے بیجوں کو مقبول بنانے میں امریکی ماہر زراعت، نارمن بورلوگ نے اہم کردار ادا کیا۔ دنیا سے بھوک کا خاتمہ کرنے والا نمایاں کارنامہ انجام دینے پر اسے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ درست کہ زیادہ پیداور دینے والے بیجوں کے وسیع پیمانے پر استعمال سے زیادہ اناج اور دیگر غذائیں اگانا ممکن ہو گیا۔ یوں عالمی سطح پہ بھوک ختم کرنے میں مدد ملی۔ یہ سبز انقلاب کا اہم فائدہ ہے۔ اس کے بطن سے مگر ایک سنگین نقصان نے بھی جنم لیا....یہی کہ نئے بیجوں میں یہ صلاحیت نہیں رہی کہ وہ غذائیات کی مقدار برقرار رکھ سکیں۔
جینیات (genetics) تبدیل کر دی
سٹیو میگراہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ''غذائیات میں کمی کی وجہ مٹی یا آب ہوائی و موسمی اثرات نہیں۔ سچ یہ ہے کہ سائنس دانوں نے گندم کے بیج کی جینیات (genetics) تبدیل کر دی۔ یعنی اس کے جین (genes)میں تبدیلی لے آئے۔'' انھوں نے پھر اس عجوبے کی تشریح کرتے ہوئے بتایا: ''گندم کے نئے بیجوں میں جینیاتی تبدیلیاں متعارف کرا دینے کے باعث اب جین خوشوں میں زیادہ سے زیادہ کاربوہائڈریٹ بھرجاتا ہے ۔
گویاخوشے میںکاربوہائڈریٹ زیادہ جگہ گھیرتا ہے۔ نتیجہً گندم کے خوشے میں دیگر غذائی عناصر: زنک، تانبے، فولاد اور میگنیشم کے لیے کم جگہ بچنے لگی اور ان کی مقدار خودبخود کم ہو گئی۔ گویا کاربوہائڈریٹس کی زیادتی نے فصل کی پیداوار ضرور بڑھا دی مگر نقصان یہ ہوا کہ اہم غذائی عناصر کی مقدار خوشوں میں کم ہو گئی۔ ہم نے پرانی کے مقابلے میں گندم کی نئی وارئٹیوں میں یہ مقدار19 سے 28 فیصد تک کم پائی۔''
درج بالا تحقیق صرف ایک ملک (برطانیہ) میں انجام پائی اور اس کا محور بھی ایک اناج (گندم) تھا۔ مگر اس نے یہ ضرور آشکارا کر دیا کہ غذاؤں میں درحقیقت غذائی عناصر کم ہو رہے ہیں اور یہ خرابی جنم لینے کی وجہ وہ جینیاتی تبدیلیاں بھی ہیں جو بیجوں میں کی جا چکیں۔ بعد ازاں سائنس دانوں نے انکشاف کیا کہ غذاؤں میں غذائیات گھٹا دینے میں ایک اور مجرم کا بھی ہاتھ ہے اور وہ ہے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ ہونا۔
زیادہ کاربن، کم غذائیات
پچھلے کئی عشروں سے زمین کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر سبز مکانی گیسوں کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس اضافے سے حیوانیات اور نباتات کی کئی اقسام پہ منفی اثرات مرتب ہوئے۔ تاہم فضا میں کاربن کی کثرت سے بعض پودے پھل پھول بھی رہے ہیں۔ وجہ یہ کہ فضا میں اس گیس کی مقدار بڑھ جائے تو ضیائی تالیف کا عمل (photosynthesis) تیزی سے انجام پاتا ہے اور پودے خوب نشوونما پاتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی بڑا ہونا اچھا نہیں ہوتا۔ درست کہ فصلوں کی پیداوار بڑھنے سے خوراک بھی ہمیں زیادہ ملے گی، مگر غذاؤں میں غذائیات کی مسلسل کمی ہونا سنگین مسئلہ بن رہا ہے۔ پھوکی غذائیں انسان کا پیٹ تو بھر دیں گی مگر اسے صحت وتندرستی کی دولت نہیں دے پائیں گی۔ پھر کمزور صحت کی وجہ سے انسان نت نئی بیماریوں کا نشانہ بھی بننے لگے گا۔
ایک تجربہ
''فیس'' (Free-air carbon dioxide enrichment) وسیع و عریض گنبد نما آلہ ہے۔ اس کو ایک کھیت پہ رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ آلہ پھر گنبد کے نیچے موجود فصل پہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے۔ 2018ء میں جاپان اور چین میں ماہرین زراعت نے چاول کے کھیتوں میں ''فیس'' لگا کر یہ تجربہ کیا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھنے سے فصل پہ کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
ماہرین نے ''فیس '' گنبدوں کے نیچے چاول کی مختلف اقسام اگائیں۔ تجربہ مکمل ہوا تو انکشاف ہوا کہ کاربن گیس سے بھرپور ماحول میں اگنے سے چاول کی تمام ورائٹیوں میں پروٹین 10 فیصد کم ہو گئی۔ جبکہ فولدا، زنک اور وٹامن بی1، بی 2، بی 6 اور بی 9 کی مقدار میں بھی کمی نوٹ کی گئی۔ تاہم وٹامن ای کی مقدار میں اضافہ ہو گیا۔ گویا ارضی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کا بڑھنا بنی نوع انسان کے لیے اچھی خبر نہیں، خصوصاً ان انسانوں کے لیے جو معیاری و مہنگی خوراک نہیں خرید سکتے۔
پروفیسر کرسٹی ایبی امریکا کی یونیورسٹی آف واشنگٹن میں آب وہوائی تبدیلیوں اور انسانی صحت سے متعلق علوم کی ماہر ہیں۔ وہ درج بالا تجربے کے بارے میں کہتی ہیں: ''دنیا بھر میں غریب اور متوسط طبقے کے لوگ چاول یا گندم کھا کر غذائی عناصر حاصل کرتے ہیں۔ اگر خوارک میں غذائیات کم ہو گئی تو ان کی صحت پہ نہایت منفی اثرات پڑیں گے۔وہ پہلے ہی کم خوراک کھاتے ہیں۔ اب غذائی عناصر کی کمی انھیں بہت جلد امراض کا نشانہ بنانے لگے گی۔''
پروفیسر لیوس زیسکا امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی، نیویارک میں ہیلتھ سائنسز کے استاد ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ''فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بڑھنے سے پودوں میں کاربن کی افزائش ہوئی ہے، مٹی میں موجود دیگر غذائی عناصر مثلاً کیلشیم، فاسفورس اور نائٹروجن پر اس تبدیلی سے اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ تاہم اس تبدیلی نے پودے میں غذائیات کا توازن بگاڑ دیا۔ اب پودوں میں کاربن بڑھ رہا ہے، مگر دیگر غذائی عناصر میں کمی آچکی۔ اسی طرح جن غذائی عناصر کو پھلنے پھولنے کی خاطر نائٹروجن درکار ہے، جیسے وٹامن بی کمپلیکس، ان کی مقدار بھی گھٹ رہی ہے۔ مگر وٹامن ای کی مقدار بڑھ گئی کیونکہ وہ کاربن بڑھنے سے نشوونما پاتا ہے۔''
کرسٹی ایبی نے تحقیق و تجربات سے ایک اور ایسی تبدیلی دریافت کی جو غذاؤں میں غذائیات گھٹا رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں: ''جب پودوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ارتکاز بڑھ جائے تو وہ زمین سے کم پانی چوستے ہیںکیونکہ انھیں پھلنے پھولنے کی خاطر یہ گیس مل جاتی ہے۔ مگر زمین سے کم پانی چوسنے کا نقصان یہ ہے کہ پودے مٹی میں موجود غذائی عناصر بھی کم جذب کرتے ہیں۔''
حرف آخر
اب تک کے بیان سے عیاں ہے کہ ماہرین زراعت نے پیداوار بڑھانے کے لیے گندم و چاول سمیت کئی غذاؤں کے بیجوں میں جینیاتی تبدیلیاں کر دیں۔ ان نئے بیجوں نے پیداوار تو بڑھا دی مگر غذاؤں میں غذائیات بھی کم کر ڈالی کیونکہ فصلیں اور دیگر غذائیں اب کاربن زیادہ رکھتی ہیں۔ مزید براں فضا میں بڑھتی سبز مکانی گیسیں اور مٹی سے کم پانی چوسنے کا عمل بھی خوراک میں غذائی عناصر گھٹا رہا ہے۔ ماہرین کی رو سے اس جنم لیتی خرابی کا علاج یہ ہے کہ انسان ہر قسم کا اناج، سبزیاں ، پھل، گوشت اور ڈیری کھائے۔ یوں اسے مطلوبہ غذائیات مل جائیں گی۔ بہتر یہ ہے کہ وہ غذائی سیپلیمنٹس استعمال نہ کرے جن میں مصنوعی وٹامن و معدنیات موجود ہوتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں کروڑوں نہیں اربوں انسان غربت اور کم آمدن کی وجہ سے مطلوبہ متنوع غذائیں نہیں کھا سکتے کیونکہ خوراک مہنگی ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کا حل یہ ہے کہ حکومتیں کسانوں کو سبسڈی اور مراعات فراہم کریں۔ مقصد یہ ہو کہ کسان ایسی غذائیں اگانے کی طرف راغب ہوں جن کی نہ صرف پیداوار معقول ہو بلکہ ان میں غذائیات کی مقدار بھی تسّلی بخش حد تک مل جائے۔ اس طرح انسانیت کو لاحق بھوک ، بیماری اور جسمانی کمزوری کے عفریتوں سے نمٹا جا سکے گا۔