دنیا کو اس نے دیا کیا
ہم نے کہیں پڑھا ہے کہ سالانہ کے حساب سے تقریباً تین ہزار انسان درندوں کا شکار ہوتے ہیں
یہ انسان ہی ہے جس کے منہ میں ''زبان'' اور ہاتھ میں ''قلم'' ہے، اس لیے اس نے خود میں دنیا بھر کی صفات جمع کردی ہیں، اس نے خود کو ''خود ہی '' جو چاہا ،رتبہ، مرتبہ، منصب ،مقام اورخوبی دی ہوئی ہے یعنی خود کو خود ہی مارشل اورفیلڈ مارشل بنایا ہوا ہے ۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر یہ دونوں چیزیں زبان اور قلم کسی دوسری مخلوق کے پاس ہوتیں، ہاتھی، گھوڑے، گائے بھینس ، بھیڑبکری مطلب یہ کہ اگر چرندوں، پرندوں، خزندوں، درندوں میں سے کسی کے پاس بھی یہ دوچیزیں ہوتیں تو آج صورت حال کیا ہوتی ؟ اور انسان کا مقام مخلوقات میں کیا ہوتا؟ یقیناً اس کاشمار ''گزندوں'' میںہوتا کہ اس دنیا کو اگر کسی مخلوق نے سب سے زیادہ گزند پہنچایا ہے تو وہ یہی حضرت انسان ہی ہے کہ اس نے اس دنیا کی مخلوقات کو ،موجودات یعنی جمادات نباتات اورمخلوقات یہاں تک کہ خود اپنی ذات کو اوراپنی ماں زمین کو کتنے نقصانات پہنچائے ہیں، اس کا حساب لگانا بھی ممکن نہیں بلکہ باتوں کے سوا اس نے دنیا کو دیاکیا ہے ؟
ایک فلمی گانے کے بول ہیں
دنیا نے ہم کو دیاکیا؟
دنیا نے ہم سے لیا کیا؟
اوراگر انسان خود اپنا اصل تعارف بالکل سچ مچ کرناچاہے بلکہ ہم خود ہی یہ نیک کام انسانوں کی طرف سے کیے دیتے ہیں یہ کہہ کر کہ
دنیا کو ہم نے دیا کیا؟
دنیا نے ہم سے لیا کیا؟
سوائے تباہی ،بربادی ،خونریزی،گندگی، غلاظت، شکست وریخت اور چیرپھاڑ کے خوبصورت زمین دل کش جنگلوں شفاف ندی نالوں کا اس نے جو حشر کیا ہے ، دوسری تمام مخلوقات کااس نے جو تیا پانچہ کیا ہے وہ سب کچھ سامنے ہے اور تو اورکہ صاف شفاف ہواؤں کو بھی اس نے زہروں سے بھر دیا ہے اور اپنی ماں زمین کو ۔
زمین کو سانپ اتنا ڈس چکے ہیں
کہ اب پیدا بنی آدم نہ ہوں گے
بلکہ زمین کے وجود پر اس نے شہروں، عمارتوں اور راستوں کی شکل میں جو ''پھوڑے'' نکال دیے ہیں وہ ایک معنی میں سیمنٹ اورسریے وغیرہ کے جنگل کہلائے جاسکتے ہیں جہاں ہرقسم کے خونخوار درندوں کا راج ہے ۔
انسان میں حیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی
شہروں میں بیابان یہاں بھی ہیں وہاں بھی
اور ان جنگلوں کے درندے بھی درندوں سے ہزار گنا زیادہ درندے ہیں جو جعلی طورپر درندے ہوتے ہیں یہ شعوری درندے اصلی اور جعلی درندوں کی طرح صرف بھوک لگنے پر درندگی نہیں کرتے بلکہ یہ جتنا کھاتے جاتے ہیں اتنے ہی زیادہ درندے ہوتے جاتے ہیں ۔
اصلی درندوں کے پاس تو قدرت کے دیے ہوئے معمولی اوزار ہوتے ہیں، پنجے، دانت، چونچ وغیرہ جس کی مارمحدود ہوتی ہے جب کہ اس ''موجد اعظم'' نے اپنی ذہانت اور''علم'' سے ایسے ایسے ہتھیار ایجاد کرلیے ہیں جن کی مار کی نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی حساب، مذہب ،ملک ،وطن، نسل،آزادی، قانون، امن نام کے یہ ہتھیار جب چلتے ہیں تو کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں۔
ہم نے کہیں پڑھا ہے کہ سالانہ کے حساب سے تقریباً تین ہزار انسان درندوں کا شکار ہوتے ہیں، ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ سانپوں یا دوسرے زہریلے جانور کے ہاتھوں مرتے ہیں، ہزار آٹھ ہاتھیوں سے کچلے جاتے ہیں ان جانوروں اور حشرات میں سب سے زیادہ ''اسکور''مچھروں کا ہے، شاید اس لیے کہ انسان کا صحبت یافتہ ہوتے ہیں ، مرض پھیلانے والے مچھر زیادہ تر آبادیوں میں ہوتے ہیں ۔
کمال ہم نشیں درمن اثر کرد
اورخود یہ خود کو خود ہی سب کچھ ''بنانے والا '' کتنے انسان سالانہ مارتا ہے ؟ یہ خود اسی سے پوچھ لیجیے، وہ بھی صرف امن کے دنوں میں جنگوں کاحساب تو کوئی کمپیوٹر ہی لگا پائے گا اور''جتنوں'' کو ان ڈائرکٹ یعنی ملاوٹوں اور زہرفروشیوں سے مارتاہے، اس کے لیے تو کسی سپر سپر کمپیوٹرکی ضرورت ہوگی، مطلب یہ کہ ''باتوں''کے علاوہ اس نے دنیا کو دیا کیا ہے ۔
دنیا کو اس نے دیا کیا؟
دنیا نے اس سے لیا کیا؟