جنگلات کی کٹائی اور موسمیاتی تبدیلی
آنے والی نسلوں کا معدوم ہوتا مستقبل بھی ہماری ہوس کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہیں کر سکا
حالیہ برسوں میں، ملک نے شدید موسمی واقعات کا سامنا کیا ہے جیسے ہیٹ ویو، خشک سالی اور سیلاب، جس سے بڑے پیمانے پر مالی اور جانی نقصان ہوا ہے۔ یہ واقعات جنگلات کی کٹائی سے بڑھتے ہیں، جو ماحولیاتی نظام کی قدرتی لچک کوکم کردیتا ہے اور آب و ہوا کے خطرات کے لیے خطرے کو بڑھاتا ہے۔ اسی تناظر میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ '' ملی بھگت سے تیزی کے ساتھ جنگلات کو کاٹے جانے کا معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ درختوں کی کٹائی میں ملوث ملازمین اور افسران کو نوکریوں سے نکال دینا چاہیے، محکمہ جنگلات کا جنگلات کو بچانے کے بجائے چائے پانی کا کام رہ گیا ہے۔''
درحقیقت پاکستان میں جنگلات کی کٹائی خاص طور پر خیبر پختون خوا، شمالی علاقہ جات اور سندھ طاس جیسے علاقوں میں نمایاں رہی ہے جہاں جنگلات کا احاطہ مسلسل کم ہو رہا ہے۔ ڈھیروں محکموں کی موجودگی میں افسران اور ملازمین خوب خوب مراعات لے رہے ہیں لیکن ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیا یہ سب کچھ قومی خزانے کی لوٹ مار کا کھیل ہے، جس پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔ پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات تیزی سے واضح ہو رہے ہیں، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور بارش کے بدلتے ہوئے انداز زراعت، آبی وسائل اور انسانی صحت کو متاثر کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر، 2010 اور 2015 میں تباہ کن سیلابوں کی وجہ جنگلات کی کٹائی تھی جس نے پانی کو جذب کرنے اور ان کو منظم کرنے کی جنگلات کی قدرتی صلاحیت کو کم کر دیا تھا۔ پاکستان میں پائیدار جنگلات کے حصول اور جنگلات کی کٹائی کو روکنے میں چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ زمین کی تنزلی، جنگل کے قوانین کا ناکافی نفاذ اور کمیونٹی کی شمولیت کی کمی جیسے مسائل تحفظ کی کوششوں کو روکتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب بے دریغ بڑھتی آبادی جنگلات کی کٹائی کا سبب بن رہی ہے، نئی کالونیاں اور ٹاؤن بنانے والے مافیاز کو لگام دینے کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔
دو عشروں سے یہ سلسلہ تیز ہو چکا ہے کہ سرسبز سونا اگلتی لاکھوں ایکڑ زمینیں اور کروڑوں درخت کاٹ کر دیواریں چن دی گئیں، مگر آج تک نہ وہاں لوگ آباد ہو سکے اور زمینیں بھی کاشت کاری سے محروم ہوگئیں۔ پاکستان کی صورتحال اس لیے تیزی سے خطرناک ہو رہی ہے کہ یہاں جنگلات کی شرح چار فیصد سے کم ہوکر صرف دو فیصد رہ گئی ہے حالانکہ ماہرین کا طے شدہ معیار یہ بتا رہا ہے کہ کسی بھی ملک کے کم از کم پچیس فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔ درخت کاٹنے کی وجہ سے فضا میں موجود اوزون کی تہہ کمزور پڑتی جا رہی ہے۔
آنے والی نسلوں کا معدوم ہوتا مستقبل بھی ہماری ہوس کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہیں کر سکا۔ موسمیاتی واقعات، ماحولیاتی انحطاط اور فضائی آلودگی، یہ تینوں عوامل مل کر 2050ء تک پاکستان کے جی ڈی پی میں 18 تا 20 فیصد تک کمی کا سبب بن سکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات لوگوں کے طرزِ رہائش اور ان کے ذرائع معاش پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے عوامل میں حصے دار نہیں ہیں، نہ ہی ان کا ان تبدیلیوں میں کوئی براہ راست عمل دخل ہے۔
اس کے باوجود ان ممالک کو ان تبدیلیوں کے اثرات و نتائج کو تسلیم کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ پاکستان اس وقت کر رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سر اُبھارنے والی قدرتی آفات سے جو 10 ممالک سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ان تبدیلیوں کے اثرات کس قدر واضح اور شدید ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ایک صدی کے دوران ملک کے درجہ حرارت میں سالانہ 0.63 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جب کہ پاکستان کے ساتھ لگنے والے بحیرہ عرب کے ساحلوں پر پانی کی سطح سالانہ ایک ملی میٹر کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ موسمیات اور آب و ہوا کے ماہرین کی پیش گوئی ہے کہ آنے والے برسوں میں ان اثرات کے تیزی سے بڑھنے کے خدشات موجود ہیں۔
فی زمانہ غذائی پیداوار کے لیے استعمال ہونے والی تمام اراضی کا 52 فیصد معمولی یا شدید مٹی کے کٹاؤ سے متاثر ہے۔ طویل مدت میں، زرخیز مٹی کی کمی کا نتیجہ کم پیداوار اور خوراک کے عدم تحفظ کا باعث بن سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ کوئلہ، گیس، تیل کا استعمال ہے۔ ان سے نکلنے والا ایندھن ماحولیاتی آلودگی کا بھی سبب ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق تیل، گیس اور کوئلے کا استعمال جب سے شروع ہوا ہے تب سے دنیا تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوئی ہے۔ یہ ایندھن بجلی کے کارخانوں، ٹرانسپورٹ اور گھروں کو گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
پانی کا بے تحاشا استعمال، صنعتوں میں ماحول دشمن سرگرمیاں مثلاً ماحول کو آلودہ کرنے والی گیس اور آلودہ پانی جو کہ آلودگی کا سبب بھی ہے۔ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی شامل ہے۔اسی طرح ان فوسل فیولز کو جلانے سے گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں جو سورج کی توانائی کو پھنساتی ہیں۔ ماحول دشمن انسانی سرگرمیاں موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن رہی ہیں۔ زراعت میں 95 فیصد اور گھریلو ضرورت کے لیے 4 اعشاریہ 5 فیصد پانی کا استعمال جاری ہے کیونکہ زمیندار اور کسان دور جدید میں بھی فلڈ ایریگیشن کررہے ہیں۔
پاکستان کے پاس پانی کے ذخائر 224 اعشاریہ 8 بلین کیوبک میٹر ہی ہیں جب کہ آبادی میں دوگنا اضافہ ہوا ہے جب کہ پاکستان میں پانی ری سائیکلنگ کے لیے بھی نظام نہیں حالانکہ سنگا پور میں 40 فیصد استعمال شدہ پانی ری سائیکلنگ کے بعد دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح زمین سے پانی حاصل کرنے کے بعد اسے ری چارج بھی نہیں کرتے ہیں اور زمین سے پانی نکلنا کے بعد واپس لوٹانے کے تناسب سے پاکستان دنیا میں 164 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں پانی کی قیمت انتہائی کم ہونے کی وجہ سے بھی بے دریغ پانی کا ضیاع جاری ہے کیونکہ پاکستان میں ایک کیوبک میٹر پانی کی قیمت 2 ڈالر اور ملائیشیا میں اس کی قیمت 55 ڈالر ہے۔
پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کا طریقہ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں سیلاب بھی آتے ہیں جس کے لیے ڈیمز انتہائی ضروری ہیں۔پاکستان میں 5 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں جب کہ ایک سر سبز ملک کے لیے 25 سے 35 فیصد تک رقبے پر جنگلات چاہئیں، اس لیے پودے زیادہ سے زیادہ لگا کر جنگلات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے ڈیم بنائے تاکہ بارش اور سیلاب کی صورت میں پانی ضایع ہونے سے بچا کر ذخیرہ کیا جاسکے۔ پاکستان میں تیل اور کوئلہ سے توانائی پیدا کی جاتی ہے جس سے گرین ہاؤس گیسز بھی پیدا ہوتی ہیں جو ماحولیات کے لیے انتہائی خطرناک ہیں، اس لیے عوام کو پیدل اور سائیکل پر سفر کرنے کی عادت بھی بڑھانی ہوگی کیونکہ اس سے توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ ماحولیات کا تحفظ بھی ہوگا۔
موسمیاتی تبدیلی کا زراعت پر انتہائی گہرا اثر ہے اور خوراک کی کمی کا خطرہ بھی موجود ہے کیونکہ جیسے انسانی زندگی کی طرح درختوں اور پودوں کے لیے بھی ایک خاص درجہ حرارت، ہوا اور ماحول درکار ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی صورت میں ان درختوں اور پودوں کو لگانا چاہیے تاکہ ان کو کم پانی کی ضرورت ہو اور وہ زیادہ درجہ حرارت برداشت کرسکیں۔کسان اکثر گنے اور چاول جیسی فصلوں کو اگانے کے لیے سیلابی آب پاشی کے نظام پر انحصار کرتے ہیں۔
ان فصلوں پر پانی کی غیر ضروری مقدار صرف ہوتی ہے اور یہ زیر زمین آبی اندوختوں کے خاتمے کا سبب بنتی ہیں، جس سے زیر زمین پانی کی سطح میں نمایاں کمی آ جاتی ہے اور سیم و تھور کا باعث ہوتا ہے، جس سے زمین اگلے موسم کی فصلوں کی کاشت کے قابل نہیں رہتی۔ حکومت کو سبسڈی کے ذریعے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے استعمال، کاشت کاری کی جدید تکنیکوں اور کھیتوں کے لیے مشینری کے استعمال کی حوصلہ افزائی اور فصلوں میں تنوع لانا چاہیے۔
مختلف حلقوں کی جانب سے بارہا یہ تجویز پیش کی جا چکی ہے کہ ملک بھر میں پھیلی موٹر ویز کے دونوں اطراف کروڑوں درخت لگائے جا سکتے ہیں اور اگر یہ درخت پھلدار ہوں تو پھلوں کی فروخت اور ایکسپورٹ سے قیمتی زرمبادلہ کے علاوہ ماحول کو بھی خوشگوار بنایا جا سکتا ہے۔کاربن کے اخراج میں کمی پاکستان کے لیے گلوبل وارمنگ کے اثرات میں کمی لانے کا سبب ہوگی۔ حکومت کو تمام بڑے شہروں میں ماس ٹرانزٹ منصوبے متعارف کروانے اور صارفین کو بجلی سے چلنے والی گاڑیوں پر منتقلی کی ترغیب دینی چاہیے۔ یہ تیل کی درآمد کے بھاری بھرکم بل میں کمی لانے میں بھی مدد دے گا اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب ہونے والی مہنگائی سے بھی عوام الناس کو کچھ سکھ ملے گا۔ صارفین کے لیے سولر پینل کے سازوسامان پر سبسڈی کی شکل میں حکومت شمسی توانائی کے لیے ترغیب دلا سکتی ہے، جو بجلی کی رسد پر بڑھتے دباؤ میں کمی میں مدد دے گی۔
موسمیاتی تبدیلی کے معاملے سے تن تنہا حکومت نہیں نمٹ سکتی ہے، لٰہذا کمیونٹی کی مدد بھی ضروری ہے۔ پاکستانیوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات اور آبی تحفظ کی اہمیت سے بہتر طور پر باخبر کیا جانا چاہیے۔ پسماندہ کمیونٹیز بشمول غریب، خواتین، معذور اور مقامی گروہوں کی ضروریات اور خدشات سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے کمیونٹیز کی قیادت میں پائیدار ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل و نفاذ کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کو ایک ایسی معیشت کی تعمیر پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف زیادہ پائیدار، ہمہ گیریت کی حامل اور لچک رکھتی ہو۔