بے جا امریکی تفاخر اور غلطیاں
تاریخ میں امریکا کا کبھی دوسرے ممالک سے برابری کا تعلق نہیں رہا
امریکا اپنے اقدامات کے لیے خود کو کسی کے سامنے جواب دہ محسوس نہیں کرتا،یہی وجہ ہے کہ امریکا نے2022 میں ایشیا پیسیفک ریجنAsia Pacific Regionکا نام تبدیل کر کے اسے انڈو پیسیفک ریجن کہنا شروع کر دیا۔امریکا اس ریجن کا ملک نہیں ہے۔
اس نے علاقے کے ممالک سے صلاح مشورہ کیے بغیر اپنے طور پر ریجن کو نیا نام دے دیا۔اس طرح امریکا نے اس ریجن میں بھارت کو مرکزیت عطا کر کے ایک بہت اہم علاقائی قوت بنانے کی کوشش کی۔امریکا یہ سب اس لیے کر رہا ہے کہ ایک تو وہ دنیا میں کسی کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ نہیں سمجھتا اور دوسرا وہ علاقے میں بھارت کو اہمیت دے کر چین کے خلاف ابھارنے کی کوشش میں ہے۔امریکا یہ ضروری سمجھتا ہے کہ چین کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت، ابھرتی فوجی قوت اور بڑھتے اثرو رسوخ کے آگے بند باندھے۔
امریکا اس بات سے خائف ہے کہ چین دنیا بھر میں امریکن تسلط کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔بھارت کو یہ مرکزی کردار دینے اور چین کو روکنے کے معاملے میں ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسری طرف جو بائیڈن اور کمیلا ہیرس میں کوئی بڑا اختلاف نظر نہیں آتا۔فرق ہے تو صرف زبان کے استعمال کا۔یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ چین نے امریکا کی طرف سے ریجن کو دیے گئے نئے نام کو پذیرائی تو کیا،توجہ ہی نہیں بخشی۔ وہ علاقے کو مسلسل اس کے پرانے نام سے ہی پکار رہا ہے۔پاکستان بھی علاقے کے لیے پرانا نام ہی استعمال کر رہا ہے لیکن پاکستان نے اس تبدیلی پر کوئی واضح موقف نہیں دیا۔
امریکا میں انتخابات کا موسم ہے اور امریکی رہنماؤں کے لیے اندرونی و بیرونی پالیسیوں پر اظہارِ رائے کا وقت ہے۔ری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں طرف کے صدارتی امیدواروں کے انٹرویوز کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں ہونے والی گفتگو کتنی مضحکہ خیز اور سطحی رہی ہے۔یوں تو اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن اصل میں امریکا دنیا کو نہیں سمجھتا اور دنیا کی پرواہ بھی نہیں کرتا۔امریکی ریاست بہت سے معاملات میں خود کفیل ہے اور پچھلی پانچ سے زیادہ دہائیوں سے بلا شرکتِ غیرے دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔
اس لیے امریکا کا کسی دوسرے ملک پر انحصار نہیں ۔اس خود کفالت نے امریکا کو متکبر،خود غرض اور لاپرواہ بنا دیا ہے۔وہ ثقافتی رکاوٹوں کو عبور کرنے اور دوسرے معاشروں کے مادہ کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ دوسری عالمی جنگ جیتنے کے بعد سب سے بڑی معیشت، سب سے غالب فوجی قوت کے طور پر سامنے آنے کی وجہ سے امریکا کے اندر برتری کا احساس جاگزین ہو چکا ہے اور یہ بھی کہ امریکا کو دوسروں کو سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ دنیا پر لازم ہے کہ وہ امریکی پالیسیوں کی پیروی کرے۔امریکا بہت تھوڑے سے عرصے میں ایک برطانوی نو آبادی سے سپر پاور بن گیا۔
تاریخ میں امریکا کا کبھی دوسرے ممالک سے برابری کا تعلق نہیں رہا۔ جب اس ملک نے اپنے ساحلوں سے باہر کی دنیا سے رابطہ استوار کیا تو یہ پہلے ہی ایک بڑی طاقت بن چکا تھا۔ پہلی اور دوسری عظیم جنگوں میں ،اس کے محلِ وقوع کی وجہ سے اسے براہِ راست جنگ سے واسطہ نہیں پڑا اور اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔امریکیوں کو یہ یقین ہو گیا کہ ان کا نظام،ان کی اقدار اور ان کے سوچنے کا طریقہ بہترین ہے اور کامیابی کا یہی واحد راستہ ہے۔امریکی دوسروں کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق ڈھالنے میں حق بجانب خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کا ہر قدم ،ہر انداز اتنا پرفیکٹ ہے کہ اسے سمجھانے کی بھی ضرورت نہیں۔
ایشیا پیسیفک ریجن اس وقت دنیا کا سب سے اہم،جیو پولیٹیکل،جیو اسٹریٹیجک اور جیو اکنامک تھیٹر بن چکا ہے۔دنیا کا جیو اسٹریٹیجک نقشہ آنے والے ایک لمبے عرصے تک اس تھیٹر میں ہونے والی developments پر انحصار کرے گا۔اس ریجن میں مشرقی ایشیا،جنوبی ایشیا،مغربی بحر الکاہل اور بحرِ ہند شامل ہیں اور یہاں دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی بستی ہے۔ اس علاقے میں دنیا کی سات بڑی افواج ہیں۔پاکستان کی فوج بھی یہاں ہے جس کو دنیا کی چھٹی بڑی فوج مانا جاتا ہے۔
امریکا اس ریجن میں چین کو روکنے کے علاوہ ایک Rule based international order انوکھارُول نافذ کرنا چاہتا ہے لیکن یہ رُول،یہ قاعدہ کوئی بین الاقوامی طور پر مانا ہوا قاعدہ نہیں۔یہ قاعدہ ایسا قاعدہ ہے جس کے ذریعے امریکا جب چاہے اور جیسا چاہے قاعدے کو استعمال کرے،توڑ دے اور نیا قاعدہ سامنے لے آئے۔ امریکا نے نیٹو کی سرحدیں روس تک بڑھا کر روس کو مجبور کیا کہ وہ جنگ کرے۔ اسی قاعدے کے تحت امریکا نے اسرائیل کی بے جا پشت پناہی کرتے ہوئے پورے علاقے کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
اسی قاعدے کے تحت امریکا انڈیا کو چین سے لڑانے کے لیے مسلح کر رہا ہے۔اسی کے تحت امریکا نے ون چائنا پالیسی سے روگردانی کرتے ہوئے تائیوان کے ساحلوں پر اپنا نہ ڈوبنے والا ایئر کرافٹ کیریئر لا کھڑا کیا ہے۔چین کو روکنے کے لیے QUADاور آکس تنظیموں کی تشکیل کی گئی ہے۔گو کہ آسیان تنظیم چین اور امریکا و مغرب کے مابین ایک بیلنس قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہے لیکن امریکا نے اس تنظیم کے ساتھ بھی گہرے اسٹریٹیجک روابط استوار کیے ہیں تاکہ ممکنہ طور پر اس تنظیم کو بھی چین کے خلاف اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
امریکا نے تھائی لینڈ،ویت نام،جنوبی کوریا اورجاپان کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے کیے ہیں تاکہ چین کے خلاف گھیرا تنگ کر کے چین کو موجودہ سرد جنگ میں شکست دی جا سکے۔ چین کی ابھرتی قوت کے آگے بند باندھنا آسان نہیں۔چین کبھی بھی ایک کولونیل قوت نہیں رہا۔ اس کے کوئی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے۔چین روس نہیں ہے۔
یہ ملک امریکی تسلط وچودھراہٹ کو چیلنج نہیں کر رہا بلکہ امریکا اپنے تئیں چین کی اٹھان سے خائف ہے۔امریکا پچھلے ساٹھ ستر برسوں میں کسی دوسری قوت سے اتنا نہیں ڈرا جتنا چین سے خوفزدہ ہے۔چین کی ڈی ڈالارئیزیشن پالیسی سے امریکی معیشت، تجارت اور اس کے لاگو کردہ فنانشل سسٹم کو شدید خطرات لاحق ہیں۔اب تک امریکا دنیا کے مختلف ممالک میں اثاثوں کو ڈالر چھاپ کر خرید لیتا تھا اور پھر مختلف حیلوں بہانوں سے ان اثاثوں کو ہتھیا لیتا تھا۔اب امریکا کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
امریکا نے اپنی قوت کے بل بوتے پر اپنے تفاخر کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسری اقوام سے غیر معمولی سلوک کا مطالبہ کیا۔روس کے ساتھ سرد جنگ میں کامیابی پر اس کی عسکریت پسندی میں بے پناہ اضافہ ہوا جس سے امریکا نے اپنے فیصلوں میں کئی غلطیاں کیں۔اس کی غلط پالیسیوں کی بدولت یوکرین تباہ و برباد ہو رہا ہے۔اسرائیل کی غلط پشت پناہی کی وجہ سے امریکی امیج تار تار ہوتا جا رہا ہے۔
امریکی سفارتی امداد نے اسرائیل کو اقوام متحدہ میں جواب دہی اور غلطیوں کی سزا بھگتنے سے بچایا ہوا ہے۔امریکا کے نافذ کردہ فنانشل نظام نے ساری دنیا کو جکڑ کر رکھا ہوا ہے۔دنیا میں ہر مالیاتی ٹرانزکشن امریکا کی نظر میں ہونی چاہیے۔ امریکا ایک ایسی بے لگام فوجی قوت ہے جو دنیا میں کہیں بھی پہنچ کر کسی کے اوپر حملہ آور ہو سکتا یا حملہ کروا سکتا ہے۔ امریکا اپنی غلطیوں کے طفیل دنیا میں ہر کہیں بدنام ہو رہا اور ہزیمت اٹھا رہا ہے۔ امریکا کو اپنی پالیسیوں پر غور کرنا ہو گا اور دنیا و معاشروںکو سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا ورنہ ہر کمالِ را زوال۔
اس نے علاقے کے ممالک سے صلاح مشورہ کیے بغیر اپنے طور پر ریجن کو نیا نام دے دیا۔اس طرح امریکا نے اس ریجن میں بھارت کو مرکزیت عطا کر کے ایک بہت اہم علاقائی قوت بنانے کی کوشش کی۔امریکا یہ سب اس لیے کر رہا ہے کہ ایک تو وہ دنیا میں کسی کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ نہیں سمجھتا اور دوسرا وہ علاقے میں بھارت کو اہمیت دے کر چین کے خلاف ابھارنے کی کوشش میں ہے۔امریکا یہ ضروری سمجھتا ہے کہ چین کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت، ابھرتی فوجی قوت اور بڑھتے اثرو رسوخ کے آگے بند باندھے۔
امریکا اس بات سے خائف ہے کہ چین دنیا بھر میں امریکن تسلط کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔بھارت کو یہ مرکزی کردار دینے اور چین کو روکنے کے معاملے میں ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسری طرف جو بائیڈن اور کمیلا ہیرس میں کوئی بڑا اختلاف نظر نہیں آتا۔فرق ہے تو صرف زبان کے استعمال کا۔یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ چین نے امریکا کی طرف سے ریجن کو دیے گئے نئے نام کو پذیرائی تو کیا،توجہ ہی نہیں بخشی۔ وہ علاقے کو مسلسل اس کے پرانے نام سے ہی پکار رہا ہے۔پاکستان بھی علاقے کے لیے پرانا نام ہی استعمال کر رہا ہے لیکن پاکستان نے اس تبدیلی پر کوئی واضح موقف نہیں دیا۔
امریکا میں انتخابات کا موسم ہے اور امریکی رہنماؤں کے لیے اندرونی و بیرونی پالیسیوں پر اظہارِ رائے کا وقت ہے۔ری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں طرف کے صدارتی امیدواروں کے انٹرویوز کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں ہونے والی گفتگو کتنی مضحکہ خیز اور سطحی رہی ہے۔یوں تو اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن اصل میں امریکا دنیا کو نہیں سمجھتا اور دنیا کی پرواہ بھی نہیں کرتا۔امریکی ریاست بہت سے معاملات میں خود کفیل ہے اور پچھلی پانچ سے زیادہ دہائیوں سے بلا شرکتِ غیرے دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔
اس لیے امریکا کا کسی دوسرے ملک پر انحصار نہیں ۔اس خود کفالت نے امریکا کو متکبر،خود غرض اور لاپرواہ بنا دیا ہے۔وہ ثقافتی رکاوٹوں کو عبور کرنے اور دوسرے معاشروں کے مادہ کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ دوسری عالمی جنگ جیتنے کے بعد سب سے بڑی معیشت، سب سے غالب فوجی قوت کے طور پر سامنے آنے کی وجہ سے امریکا کے اندر برتری کا احساس جاگزین ہو چکا ہے اور یہ بھی کہ امریکا کو دوسروں کو سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ دنیا پر لازم ہے کہ وہ امریکی پالیسیوں کی پیروی کرے۔امریکا بہت تھوڑے سے عرصے میں ایک برطانوی نو آبادی سے سپر پاور بن گیا۔
تاریخ میں امریکا کا کبھی دوسرے ممالک سے برابری کا تعلق نہیں رہا۔ جب اس ملک نے اپنے ساحلوں سے باہر کی دنیا سے رابطہ استوار کیا تو یہ پہلے ہی ایک بڑی طاقت بن چکا تھا۔ پہلی اور دوسری عظیم جنگوں میں ،اس کے محلِ وقوع کی وجہ سے اسے براہِ راست جنگ سے واسطہ نہیں پڑا اور اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔امریکیوں کو یہ یقین ہو گیا کہ ان کا نظام،ان کی اقدار اور ان کے سوچنے کا طریقہ بہترین ہے اور کامیابی کا یہی واحد راستہ ہے۔امریکی دوسروں کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق ڈھالنے میں حق بجانب خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کا ہر قدم ،ہر انداز اتنا پرفیکٹ ہے کہ اسے سمجھانے کی بھی ضرورت نہیں۔
ایشیا پیسیفک ریجن اس وقت دنیا کا سب سے اہم،جیو پولیٹیکل،جیو اسٹریٹیجک اور جیو اکنامک تھیٹر بن چکا ہے۔دنیا کا جیو اسٹریٹیجک نقشہ آنے والے ایک لمبے عرصے تک اس تھیٹر میں ہونے والی developments پر انحصار کرے گا۔اس ریجن میں مشرقی ایشیا،جنوبی ایشیا،مغربی بحر الکاہل اور بحرِ ہند شامل ہیں اور یہاں دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی بستی ہے۔ اس علاقے میں دنیا کی سات بڑی افواج ہیں۔پاکستان کی فوج بھی یہاں ہے جس کو دنیا کی چھٹی بڑی فوج مانا جاتا ہے۔
امریکا اس ریجن میں چین کو روکنے کے علاوہ ایک Rule based international order انوکھارُول نافذ کرنا چاہتا ہے لیکن یہ رُول،یہ قاعدہ کوئی بین الاقوامی طور پر مانا ہوا قاعدہ نہیں۔یہ قاعدہ ایسا قاعدہ ہے جس کے ذریعے امریکا جب چاہے اور جیسا چاہے قاعدے کو استعمال کرے،توڑ دے اور نیا قاعدہ سامنے لے آئے۔ امریکا نے نیٹو کی سرحدیں روس تک بڑھا کر روس کو مجبور کیا کہ وہ جنگ کرے۔ اسی قاعدے کے تحت امریکا نے اسرائیل کی بے جا پشت پناہی کرتے ہوئے پورے علاقے کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
اسی قاعدے کے تحت امریکا انڈیا کو چین سے لڑانے کے لیے مسلح کر رہا ہے۔اسی کے تحت امریکا نے ون چائنا پالیسی سے روگردانی کرتے ہوئے تائیوان کے ساحلوں پر اپنا نہ ڈوبنے والا ایئر کرافٹ کیریئر لا کھڑا کیا ہے۔چین کو روکنے کے لیے QUADاور آکس تنظیموں کی تشکیل کی گئی ہے۔گو کہ آسیان تنظیم چین اور امریکا و مغرب کے مابین ایک بیلنس قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہے لیکن امریکا نے اس تنظیم کے ساتھ بھی گہرے اسٹریٹیجک روابط استوار کیے ہیں تاکہ ممکنہ طور پر اس تنظیم کو بھی چین کے خلاف اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
امریکا نے تھائی لینڈ،ویت نام،جنوبی کوریا اورجاپان کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے کیے ہیں تاکہ چین کے خلاف گھیرا تنگ کر کے چین کو موجودہ سرد جنگ میں شکست دی جا سکے۔ چین کی ابھرتی قوت کے آگے بند باندھنا آسان نہیں۔چین کبھی بھی ایک کولونیل قوت نہیں رہا۔ اس کے کوئی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے۔چین روس نہیں ہے۔
یہ ملک امریکی تسلط وچودھراہٹ کو چیلنج نہیں کر رہا بلکہ امریکا اپنے تئیں چین کی اٹھان سے خائف ہے۔امریکا پچھلے ساٹھ ستر برسوں میں کسی دوسری قوت سے اتنا نہیں ڈرا جتنا چین سے خوفزدہ ہے۔چین کی ڈی ڈالارئیزیشن پالیسی سے امریکی معیشت، تجارت اور اس کے لاگو کردہ فنانشل سسٹم کو شدید خطرات لاحق ہیں۔اب تک امریکا دنیا کے مختلف ممالک میں اثاثوں کو ڈالر چھاپ کر خرید لیتا تھا اور پھر مختلف حیلوں بہانوں سے ان اثاثوں کو ہتھیا لیتا تھا۔اب امریکا کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
امریکا نے اپنی قوت کے بل بوتے پر اپنے تفاخر کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسری اقوام سے غیر معمولی سلوک کا مطالبہ کیا۔روس کے ساتھ سرد جنگ میں کامیابی پر اس کی عسکریت پسندی میں بے پناہ اضافہ ہوا جس سے امریکا نے اپنے فیصلوں میں کئی غلطیاں کیں۔اس کی غلط پالیسیوں کی بدولت یوکرین تباہ و برباد ہو رہا ہے۔اسرائیل کی غلط پشت پناہی کی وجہ سے امریکی امیج تار تار ہوتا جا رہا ہے۔
امریکی سفارتی امداد نے اسرائیل کو اقوام متحدہ میں جواب دہی اور غلطیوں کی سزا بھگتنے سے بچایا ہوا ہے۔امریکا کے نافذ کردہ فنانشل نظام نے ساری دنیا کو جکڑ کر رکھا ہوا ہے۔دنیا میں ہر مالیاتی ٹرانزکشن امریکا کی نظر میں ہونی چاہیے۔ امریکا ایک ایسی بے لگام فوجی قوت ہے جو دنیا میں کہیں بھی پہنچ کر کسی کے اوپر حملہ آور ہو سکتا یا حملہ کروا سکتا ہے۔ امریکا اپنی غلطیوں کے طفیل دنیا میں ہر کہیں بدنام ہو رہا اور ہزیمت اٹھا رہا ہے۔ امریکا کو اپنی پالیسیوں پر غور کرنا ہو گا اور دنیا و معاشروںکو سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا ورنہ ہر کمالِ را زوال۔