بلدیاتی انتخابات سے حکومتی فرار
مسائل کے حل نہ ہونے کی ذمے دار بلدیاتی عہدیداروں کی نہیں پی ٹی آئی حکومت کی تھی
الیکشن کمیشن نے اکتوبر میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اسلام آباد کے لیے مقامی حکومت میں ترمیم کا خیال آگیا اور فوری طور پر مقامی حکومت ایکٹ میں ترمیم قومی اسمبلی سے منظور کرا کر سینیٹ سے بھی ترمیم کا بل پاس کرا لیا گیا جو صدر مملکت کی منظوری کے بعد اسلام آباد لوکل گورنمنٹ ایکٹ قانون بن گیا اور کئی سالوں سے منعقد نہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک بار پھر ممکن نہ ہو سکا اور الیکشن کمیشن کو دوبارہ حلقہ بندیاں کرنے پر مجبورکردیا گیا ہے۔
یہ ترمیم وزیر قانون کے مطابق اسلام آباد میں یونین کونسل کی سطح پر زیادہ نمایندگی دینے اور لوگوں کو کام کرنے میں آسانی فراہم کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ بل کے تحت ہر یونین کونسل میں نو جنرل کونسلروں کا باقاعدہ انتخاب ہوگا جو بعد میں اپنے میئروں کا انتخاب کر سکیں گے۔ وزیر قانون نے بروقت بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کی ذمے داری الیکشن کمیشن پر ڈال دی کہ وہ ہی بلدیاتی انتخابات کرانے کا ذمے دار ہے۔
اسلام آباد سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طارق فضل چوہدری نے اس سلسلے میں کہا کہ ترمیم کے بعد اگر بلدیاتی انتخابات تاخیرکا شکار ہوتے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ پہلی بار اسلام آباد میں جو بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے، ان کی وجہ سے اسلام آباد میں مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھ گئے تھے۔ بلدیاتی الیکشن کے بعد اگر اس کے بہتر نتائج نہیں آتے تو بلدیاتی انتخابات کا کیا فائدہ ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے میئر منتخب ہوئے تھے جو پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے ناقابل برداشت تھے جس نے میئر اسلام آباد کو کام ہی نہیں کرنے دیا تھا اور انتہائی اقدام کرکے میئر کو برطرف کردیا تھا جو عدالت جا کر بحال ہوئے اور انھیں پھر برطرف کیا گیا اور برطرفی سے قبل میئر کے اختیارات سلب کیے گئے اور حکومت کی میئر کی برطرفی اور عدالت سے بحالی کا سلسلہ تین بار چلا اور میئر کی مدت پوری ہوگئی تھی کیونکہ پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں (ن) لیگی میئر کسی صورت منظور نہ تھا، اس لیے بار بار میئر کو ہٹایا گیا اور میئر کو جب کام ہی نہیں کرنے دیا گیا تو اسلام آباد کے مسائل کیسے حل ہو سکتے تھے۔
مسائل کے حل نہ ہونے کی ذمے دار بلدیاتی عہدیداروں کی نہیں پی ٹی آئی حکومت کی تھی، اسی لیے (ن) لیگی رکن قومی اسمبلی کو حقائق بتانے چاہیے تھے، بلدیاتی نظام کی ناکامی کے معاملے کی تفصیلات اور پی ٹی آئی حکومت کے غیر قانونی اقدام سے بھی ایوان کو آگاہ کرنا چاہیے تھا اور (ن) لیگی میئر کو ہی مسائل حل نہ کرنے کا ذمے دار نہیں ٹھہرانا چاہیے تھا کیونکہ بے اختیار میئر وفاقی حکومت کے ہتھکنڈوں کے آگے مجبور تھا اور انھیں اپنی غیر قانونی برطرفی کے خلاف کئی بار عدالت جانا پڑا تھا مگر پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے (ن) لیگ دشمنی میں بار بار میئر کو برطرف کیا اور ان کی عدالتی بحالی کا بھی احترام نہیں کیا مگر اسلام آباد ہائیکورٹ میئر کو بار بار بحال تو کرتی رہی مگر عدالت عالیہ نے میئر کو بار بار غیر قانونی برطرف کرنے والوں کے خلاف کوئی حکم نہیں دیا تھا۔
یہی کچھ پنجاب کی پی ٹی آئی حکومت نے اپنے وزیر اعظم کی ہدایت پر کیا تھا کیونکہ پنجاب بھر میں بلدیاتی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی اور پی ٹی آئی کو شکست ہوئی تھی جس کا بدلہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کے بعد پنجاب حکومت نے بھی لیا تھا اور پی ٹی آئی کے اقتدار میں آتے ہی پنجاب کے تمام بلدیاتی ادارے توڑ کر اپنے ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیے تھے اور تمام (ن) لیگی میئر اور چیئرمین برطرف کر دیے تھے۔ میئر لاہور و دیگر بلدیاتی عہدیدار اپنی برطرفی کے بعد بحالی کے لیے سپریم کورٹ تک گئے تھے جس کا فیصلہ بہت دیر سے آیا تھا اور تمام بلدیاتی عہدیدار بحال کر دیے تھے مگر پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کا فیصلہ کئی ماہ روکے رکھا جس پر بلدیاتی عہدیدار دوبارہ سپریم کورٹ گئے جہاں سے پنجاب حکومت کو بحالی کا پھر حکم دیا اور جب (ن) لیگی عہدیدار بحال ہوئے تو ان کی مدت مکمل ہوگئی تھی، جنھیں کام ہی نہیں کرنے دیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت نے پہلے ان کے اختیارات سلب کیے تھے مگر وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف بلدیاتی عہدیداروں کی غیر قانونی برطرفی پر کوئی عدالتی ایکشن نہیں لیا گیا تھا۔
اس وقت ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری کے حکم پر ہوئے تھے اور پی ٹی آئی اپنے اقتداری صوبے کے پی سے کامیاب ہوئی تھی جس کے بلدیاتی عہدیداروں نے بھی سندھ کی طرح مدت پوری کی تھی کیونکہ سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت میں اکثریت پی پی کے بلدیاتی عہدیداروں کی تھی جنھیں مدت پوری کرنے دی گئی۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی بلدیاتی انتخابات نہیں چاہتی تھیں اور دونوں نے اپنی حکومتوں میں جنرل پرویز کا بااختیار ضلع حکومتوں کا نظام ختم کرکے اپنے صوبوں میں بے اختیار، حکومتی محتاج بلدیاتی نظام قائم کیا تھا جس میں نام کے اختیارات تھے کیونکہ ملک بھر کے ارکان اسمبلی بااختیار بلدیاتی نظام کے خلاف ہیں اور ترقیاتی منصوبوں کے نام پر غیر قانونی فنڈز سالانہ لیتے آ رہے ہیں جنھیں سپریم کورٹ غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں ارکان اسمبلی کے ووٹوں سے بنتی ہیں، اس لیے پی ٹی آئی سمیت تمام بڑی پارٹیاں ملک میں بلدیاتی انتخابات کے خلاف ہیں اور ایڈمنسٹریٹروں کا سرکاری تقرر کر کے بلدیاتی منتخب نمایندوں پر ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں کو مکمل ترجیح اور تمام کو سیاسی رشوت کے طور پر وہ فنڈز دیتی ہیں جو بلدیاتی اداروں کا حق ہیں مگر حکومتوں کو حکومت برقرار رکھنے کے لیے ارکان اسمبلی کو خوش رکھنا ہوتا ہے، اس لیے حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرتی ہیں جس کی واضح مثال پنجاب اور اسلام آباد ہیں جہاں بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے جا رہے اور باقی تین صوبوں میں ہوچکے مگر عدالتیں یہ غیر آئینی اقدام دیکھ رہی ہیں۔
یہ ترمیم وزیر قانون کے مطابق اسلام آباد میں یونین کونسل کی سطح پر زیادہ نمایندگی دینے اور لوگوں کو کام کرنے میں آسانی فراہم کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ بل کے تحت ہر یونین کونسل میں نو جنرل کونسلروں کا باقاعدہ انتخاب ہوگا جو بعد میں اپنے میئروں کا انتخاب کر سکیں گے۔ وزیر قانون نے بروقت بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کی ذمے داری الیکشن کمیشن پر ڈال دی کہ وہ ہی بلدیاتی انتخابات کرانے کا ذمے دار ہے۔
اسلام آباد سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طارق فضل چوہدری نے اس سلسلے میں کہا کہ ترمیم کے بعد اگر بلدیاتی انتخابات تاخیرکا شکار ہوتے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ پہلی بار اسلام آباد میں جو بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے، ان کی وجہ سے اسلام آباد میں مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھ گئے تھے۔ بلدیاتی الیکشن کے بعد اگر اس کے بہتر نتائج نہیں آتے تو بلدیاتی انتخابات کا کیا فائدہ ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے میئر منتخب ہوئے تھے جو پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے ناقابل برداشت تھے جس نے میئر اسلام آباد کو کام ہی نہیں کرنے دیا تھا اور انتہائی اقدام کرکے میئر کو برطرف کردیا تھا جو عدالت جا کر بحال ہوئے اور انھیں پھر برطرف کیا گیا اور برطرفی سے قبل میئر کے اختیارات سلب کیے گئے اور حکومت کی میئر کی برطرفی اور عدالت سے بحالی کا سلسلہ تین بار چلا اور میئر کی مدت پوری ہوگئی تھی کیونکہ پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں (ن) لیگی میئر کسی صورت منظور نہ تھا، اس لیے بار بار میئر کو ہٹایا گیا اور میئر کو جب کام ہی نہیں کرنے دیا گیا تو اسلام آباد کے مسائل کیسے حل ہو سکتے تھے۔
مسائل کے حل نہ ہونے کی ذمے دار بلدیاتی عہدیداروں کی نہیں پی ٹی آئی حکومت کی تھی، اسی لیے (ن) لیگی رکن قومی اسمبلی کو حقائق بتانے چاہیے تھے، بلدیاتی نظام کی ناکامی کے معاملے کی تفصیلات اور پی ٹی آئی حکومت کے غیر قانونی اقدام سے بھی ایوان کو آگاہ کرنا چاہیے تھا اور (ن) لیگی میئر کو ہی مسائل حل نہ کرنے کا ذمے دار نہیں ٹھہرانا چاہیے تھا کیونکہ بے اختیار میئر وفاقی حکومت کے ہتھکنڈوں کے آگے مجبور تھا اور انھیں اپنی غیر قانونی برطرفی کے خلاف کئی بار عدالت جانا پڑا تھا مگر پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے (ن) لیگ دشمنی میں بار بار میئر کو برطرف کیا اور ان کی عدالتی بحالی کا بھی احترام نہیں کیا مگر اسلام آباد ہائیکورٹ میئر کو بار بار بحال تو کرتی رہی مگر عدالت عالیہ نے میئر کو بار بار غیر قانونی برطرف کرنے والوں کے خلاف کوئی حکم نہیں دیا تھا۔
یہی کچھ پنجاب کی پی ٹی آئی حکومت نے اپنے وزیر اعظم کی ہدایت پر کیا تھا کیونکہ پنجاب بھر میں بلدیاتی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی اور پی ٹی آئی کو شکست ہوئی تھی جس کا بدلہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کے بعد پنجاب حکومت نے بھی لیا تھا اور پی ٹی آئی کے اقتدار میں آتے ہی پنجاب کے تمام بلدیاتی ادارے توڑ کر اپنے ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیے تھے اور تمام (ن) لیگی میئر اور چیئرمین برطرف کر دیے تھے۔ میئر لاہور و دیگر بلدیاتی عہدیدار اپنی برطرفی کے بعد بحالی کے لیے سپریم کورٹ تک گئے تھے جس کا فیصلہ بہت دیر سے آیا تھا اور تمام بلدیاتی عہدیدار بحال کر دیے تھے مگر پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کا فیصلہ کئی ماہ روکے رکھا جس پر بلدیاتی عہدیدار دوبارہ سپریم کورٹ گئے جہاں سے پنجاب حکومت کو بحالی کا پھر حکم دیا اور جب (ن) لیگی عہدیدار بحال ہوئے تو ان کی مدت مکمل ہوگئی تھی، جنھیں کام ہی نہیں کرنے دیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت نے پہلے ان کے اختیارات سلب کیے تھے مگر وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف بلدیاتی عہدیداروں کی غیر قانونی برطرفی پر کوئی عدالتی ایکشن نہیں لیا گیا تھا۔
اس وقت ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری کے حکم پر ہوئے تھے اور پی ٹی آئی اپنے اقتداری صوبے کے پی سے کامیاب ہوئی تھی جس کے بلدیاتی عہدیداروں نے بھی سندھ کی طرح مدت پوری کی تھی کیونکہ سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت میں اکثریت پی پی کے بلدیاتی عہدیداروں کی تھی جنھیں مدت پوری کرنے دی گئی۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی بلدیاتی انتخابات نہیں چاہتی تھیں اور دونوں نے اپنی حکومتوں میں جنرل پرویز کا بااختیار ضلع حکومتوں کا نظام ختم کرکے اپنے صوبوں میں بے اختیار، حکومتی محتاج بلدیاتی نظام قائم کیا تھا جس میں نام کے اختیارات تھے کیونکہ ملک بھر کے ارکان اسمبلی بااختیار بلدیاتی نظام کے خلاف ہیں اور ترقیاتی منصوبوں کے نام پر غیر قانونی فنڈز سالانہ لیتے آ رہے ہیں جنھیں سپریم کورٹ غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں ارکان اسمبلی کے ووٹوں سے بنتی ہیں، اس لیے پی ٹی آئی سمیت تمام بڑی پارٹیاں ملک میں بلدیاتی انتخابات کے خلاف ہیں اور ایڈمنسٹریٹروں کا سرکاری تقرر کر کے بلدیاتی منتخب نمایندوں پر ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں کو مکمل ترجیح اور تمام کو سیاسی رشوت کے طور پر وہ فنڈز دیتی ہیں جو بلدیاتی اداروں کا حق ہیں مگر حکومتوں کو حکومت برقرار رکھنے کے لیے ارکان اسمبلی کو خوش رکھنا ہوتا ہے، اس لیے حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرتی ہیں جس کی واضح مثال پنجاب اور اسلام آباد ہیں جہاں بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے جا رہے اور باقی تین صوبوں میں ہوچکے مگر عدالتیں یہ غیر آئینی اقدام دیکھ رہی ہیں۔