رائیگاں نہ جائے یہ لہو شہیدوں کا

ہم ان مجاہدین کے مقروض ہیں جنہوں نے اپنی جانیں دفاعِ وطن کے لیے قربان کیں


راضیہ سید September 06, 2024
انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں عوام کا جذبہ قابل دید تھا۔ (فوٹو: فائل)

چھ ستمبر یوم دفاع پاکستان، صرف ایک دن کا ہی نام نہیں بلکہ ایک غیور، جری اور بہادر قوم کے جذبے اور ہمت و استقلال کی جیتی جاگتی داستان کا بھی عنوان ہے۔


ہمارے ازلی دشمن بھارت نے چھ ستمبر انیس سو پینسٹھ کو ہماری ملکی سرحدوں پر ایک بزدلانہ حملہ کیا. مرکزی طور پر لاہور، سیالکوٹ اور سندھ کے صحرائی علاقوں پر حملہ کیا گیا تھا. بائیس ستمبر انیس سو پینسٹھ تک یہ جنگ جاری رہی، جس کے بعد فریقین نے اقوام متحدہ کے زیر انتظام جنگ بندی کو قبول کیا۔


اس جنگ کے دوران بلاشبہ پاکستانی فوج کے پاس اسلحہ اور افرادی قوت کی کمی تھی لیکن ہمارے فوجی جوان مملکت خداداد کے تحفظ کےلیے جذبہ ایمان اور جرأت سے سرشار تھے۔ اس جنگ کا ذکر میجر عزیز بھٹی شہید کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے۔ وہ لاہور میں برکی کے مقام پر کمپنی کمانڈر تعینات تھے۔ انہوں نے بہادری سے مکار اور بزدل دشمن کا سامنا کیا اور اسے بی آر بی نہر عبور نہ کرنے دی اور اپنے سینے پر گولہ کھا کر وطن کی لاج رکھ لی۔ لاہور کے محاذ پر ہمارے صرف ڈیڑھ سو سپاہیوں نے بھارت کے ڈیڑھ ہزار سپاہیوں کو روکے رکھا۔


بھارتی فوج نے سترہ دن میں تیرہ حملے کیے لیکن پاکستانی افواج نے تمام حملوں کو اپنے جذبۂ ایمانی سے پسپا کیا۔ ٹینکوں کی اس لڑائی میں پاکستانی فوج نے چونڈہ کے مقام کو بھارتی فوج کے ٹینکوں کا قبرستان بنا ڈالا۔ ہماری افواج نے نہ صرف زیر حملہ علاقوں کا کامیابی سے دفاع کیا بلکہ ہزاروں شہریوں اور ان کے گھروں کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا۔


بری اور بحری افواج کی مانند پاک فضائیہ نے بھی انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں اپنا گوناگوں حصہ ڈالا۔ پاک فضائیہ کے مایہ ناز ہوا باز ایئر کموڈور محمد محمود عالم نے اپنے ایف چھیاسی طیارے میں پرواز کرتے ہوئے پانچ بھارتی لڑاکا طیاروں کو ایک منٹ میں ایک دن میں تباہ کیا اور اسی طرح جنگ کے دوران کل نو جنگی طیاروں کو تباہ اور دو کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا، جو آج تک ایک ناقابل شکست ریکارڈ ہے۔ ایم ایم عالم کی بہادرانہ خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے ان کو دو مرتبہ ستارۂ جرات سے نوازا اور پی اے ایف بیس میانوالی کو ایم ایم عالم کے نام سے منسوب کردیا گیا۔


یوم دفاع کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہی وہ دن ہے جب ہماری پاک افواج نے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا اور اس کے غرور و تکبر کے بت کو پاش پاش کردیا۔ یوم دفاع ہمارے اس عزم کی تجدید کا بھی دن ہے کہ ہم ایک مضبوط قوم ہیں اور ہم کسی بھی دشمن قوم سے ڈریں گے نہیں چاہے، وہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔ ہماری فوج ہمارے عظیم ملک پاکستان کی شجاعت اور حربی تکنیکوں کا مظہر ہے۔ یوم دفاع یہ سب کچھ یاد رکھنے کا دن ہے تاکہ ہم مضبوط رہ سکیں اور اپنے ملک کے بچوں اور نوجوانوں کو درست پیغام دے سکیں۔


انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں عوام کا جذبہ قابل دید تھا۔ پاکستانی طیارے جب بھارتی طیاروں کا پیچھا کرتے تو پاک وطن کے شہری بڑے جوش و جذبے کے ساتھ گلیوں اور سڑکوں پر نکل کر نعرہ تکبیر بلند کرتے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کےلیے ابھی اور اسی وقت بارڈر پر پہنچ جائیں لیکن یہ کام پاک وطن کی بہادر اور نڈر فوج بخوبی سرانجام دے رہی تھی۔ یہاں تک کہ بچے بھی بلاخوف و خطر سڑکوں پر نکل آتے، حالانکہ دشمن کی گولہ باری کے دوران ان کا اس طرح سڑکوں پر آنا خطرے سے خالی نہ تھا لیکن بچوں میں بھی قومی جذبہ دیکھنے کے قابل تھا۔ وہ ٹولیوں کی صورت میں پاکستان زندہ باد، پاک فوج پائندہ باد کے نعرے بلند کرتے۔ تمام بچے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم اٹھائے دیوانہ وار ادھر ادھر بھاگ رہے ہوتے۔ مادر وطن کےلیے یہ جذبہ اور جوش ہر طرف دیکھنے کو ملا۔


غرض پوری قوم کا لہو گرما گیا تھا۔ کھیم کرن کا محاذ ہو یا چونڈہ کا معرکہ، واہگہ بارڈر یا چھمب چوڑیاں کا محاذ.. ہر محاذ پر دشمن کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ میں شہید ہونے والی پاکستانیوں کی تعداد ایک ہزار تینتیس تھی جبکہ نو ہزار پانچ سو بھارتی ہلاک ہوئے۔ زخمی ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد دو ہزار ایک سو اکہتر اور بھارت کی گیارہ ہزار افراد، تباہ ہونے والے پاکستانی ٹینک ایک سو پینسٹھ اور بھارتی ٹینک چار سو پچہتر، اسی طرح پاکستان کے چودہ طیارے اور بھارت کے ایک سو دس طیارے تباہ ہوئے۔


ہمیں بحیثیت قوم ہمیشہ یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ افواج پاکستان کی سالمیت سے ہی ہماری بقا ہے۔ دنیا کی محکوم اور مجبور قومیں جن میں فلسطین، شام، مقبوضہ کشمیر جیسے علاقے شامل ہیں، وہ فوج کی عدم موجودگی کی بنا پر ہی ظلم و ستم کا شکار ہیں اور مصائب برداشت کر رہی ہیں۔


افواج پاکستان نے جنگ اور امن ہر دور میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور جب بھی ارض پاک پر کوئی بھی آفت، دہشتگردی، زلزلے، سیلاب یا کسی بھی صورت میں آئی افواج پاکستان نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ افواج پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے مجاہد نے ملک کے دفاع کےلیے اپنا کردار ادا کیا اور ہر قربانی سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ آج چند شرپسند پاکستانی فوج کے خلاف بھارتی فنڈنگ سے زہریلا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اور اس میں سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جارہا ہے تاکہ پاکستان کے سادہ لوح عوام اور پاک فوج کے درمیان ایک خلیج پیدا کی جاسکے، فاصلہ بڑھایا جاسکے۔ جبکہ ملک کے غیور عوام اور پاک فوج کے جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے شہید جوان ہر لمحہ اس پروپیگنڈے کو اپنی قربانیوں سے ختم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔


موجودہ دور میں دفاع وطن کا سب سے پہلا تقاضا یہی ہے کہ ہم پاک فوج کے خلاف ہونے والے بے بنیاد اور غیر حقیقی پروپیگنڈے پر ہرگز کان نہ دھریں، اپنی افواج پر اس طرح اعتماد کا اظہار کریں جس طرح انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں ہم فوج کے ہم قدم نظر آئے۔ اسی طرح بطور پاکستانی ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور تعلیم کے ساتھ تہذیب کو بھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ کیونکہ ہم پاکستانی دنیا بھر میں اپنے ملک کے سفیر ہیں۔ ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے ہمارے ملک کے دفاع، سالمیت و سلامتی پر کوئی بھی آنچ آئے۔


دفاع پاکستان کےلیے ضروری ہے کہ ہر سطح پر سفارش، رشوت ستانی اور اقربا پروری کی حوصلہ شکنی کی جائے، حق داروں کو ان کا حق دیا جائے تاکہ اہل اور قابل افراد ملک کی ترقی اور بقا کےلیے اپنا کردار فعال اور موثر انداز سے ادا کرسکیں۔


آج جو ہم اس آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں، وہ بہادر ماؤں کے ان جری سپوتوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ہم ان مجاہدین کے مقروض ہیں جنہوں نے اپنی جانیں پہلے بھی قربان کیں اور اب بھی عہد وفا نبھاتے ہوئے اپنے لہو کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ ہم ان ماؤں سے محبت کا حق ادا نہیں کرسکتے جنہوں نے قوم کےلیے اپنے جگر گوشے قربان کردیے۔ ہم ان بیوہ خواتین کا شکریہ نہیں ادا کرسکتے جنہوں نے اس ملک کی آن بان کےلیے اپنے سہاگ کھو دیے اور کتنے ہی بچے یتیم اور بے سہارا ہوگئے۔


دیکھا جائے تو یوم دفاع صرف چند تقاریب اور فوجی نمائشوں کا ہی دن نہیں، یہ تو ایک نظریے کا نام ہے جو ہماری نسلوں کی بقا کا ضامن ہے۔ ہمیں شہیدوں کے لہو کا مان رکھنا ہے۔ آج سوچی سمجھی سازش کے تحت فوج اور قوم کو ایک دوسرے کے مدمقابل لانے کی کوشش کی جارہی ہے، فوج کےلیے منافرت کی فضا پیدا کرنے کی گھٹیا کوشش کی جارہی ہے۔ ہمیں اس ففتھ جنریشن وار سے اپنی نسل کو محفوظ بنانا ہے۔ ہمیں اپنی بہادر فوج کے مورال کو بلند رکھنا ہے، یہی ہمارے زندہ قوم ہونے کی نشانی ہے۔


یہ ملک ہمارا اپنا ہے اور اس کی فوج بھی ہماری اپنی ہے۔ شہید ہیں یا غازی، سبھی ہمارے اپنے ہیں اور ان شہیدوں اور غازیوں کو اپنا ہونے کا احساس دلانا ان کے ہم قدم رہنا ہماری قومی اور اخلاقی ذمے داری ہے۔


رائیگاں نہ جائے یہ لہو شہیدوں کا


سدا سلامت رہے یہ چمن امیدوں کا


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔