پاک بھارت جنگ میں پنجاب رجمنٹ نے لاہور کا دفاع کرکے لازوال داستاں رقم کی
رجمنٹ نے لاہور کا دفاع کرتے ہوئے بھارتی فوج کو بی آربی نہر کی مشرقی جانب روکے رکھا
سن 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاک فوج کی 16 پنجاب رجمنٹ نے لازوال اور بے مثال قربانیوں کی ایسی تاریخ رقم کی جس کی دوسری مثال نہیں ملتی، اس رجمنٹ نے لاہور کا دفاع کرتے ہوئے بھارتی فوج کو بی آربی نہر کی مشرقی جانب روکے رکھا اور اس کا لاہور پر قبضے کا خواب چکنا چور کر دیا تھا۔
لاہور کے گیریژن قبرستان میں 16 پنجاب رجمنٹ کے ان شہدا کی یادگار اور قبریں ہیں جنہوں نے 1965 کی پاک بھارت جنگ میں لاہور کا دفاع کرتے ہوئے بی آربی نہر کے مشرقی جانب ڈوگرائے کلاں کے علاقے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یوم دفاع کے موقع پر اس جنگ کے غازیوں اور پاک فوج کے افسروں، جوانوں نے شہدا کی یادگار پر سلامی دی۔ پاک فوج کے ان غازیوں نے بتایا کہ دشمن لاہور پر قبضے کا خواب لیکر حملہ آور ہوا تھا جسے 16 پنجاب رجمنٹ کے جوانوں نے چکنا چور کر دیا اور دشمن کو اپنی لاشیں اٹھانا پڑیں۔
سن 1965 کی جنگ کے غازی بریگیڈیئر (ر) شیر افگن کہتے ہیں ہمیں یہ حکم ملا تھا کہ دشمن کو کسی صورت بی آر بی نہر عبور نہیں کرنے دینی کیونکہ اگر دشمن نہر عبور کر لیتا تو پھر لاہور میں قبضے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ اس لیے 16 پنجاب رجمنٹ کے جوانوں نے دشمن کو ڈوگرائے کلاں کے علاقے میں روکے رکھا۔
انہوں نے بتایا کہ جنگ کے دوران ہمیں پھر حکم ملا کہ دشمن نے پاکستان کے جس علاقے پر قبضہ کیا ہے بارڈر سے بی آر بی نہر تک کا ایریا اس کو واپس لینا ہے، تو ہماری دو کمپنیوں نے دشمن کو بارڈر سے پیچھے دھکیل دیا تھا اور کافی زیادہ پاکستانی علاقہ واپس چھین لیا گیا۔
بریگیڈیئر (ر) شیر افگن نے کہا کہ دشمن کے پاس ٹینک اور پوری بریگیڈ تھی جبکہ ہمارے پاس صرف آدھی یونٹ فوج تھی۔ دشمن کے ٹینک تباہ کرنے کے لیے بھی اسلحہ ختم ہوگیا تھا۔ اس صورت حال میں ہمیں کمانڈر کی طرف سے حکم ملا کہ واپس بی آر بی نہر اور ڈوگرائے کلاں کی طرف آئیں۔ جب ہم لوگ پیچھے ہٹ رہے تھے تو دشمن نے بھرپور حملہ کیا جس کے نتیجے میں ہمارے کئی جوان جنگی قیدی بنا لیے گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ دشمن نے 17 حملے کیے لیکن ہمارے جوانوں نے دشمن کو بی آر بی نہر عبور نہیں کرنے دی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس جنگ میں 16 پنجاب رجمنٹ کی سب سے زیادہ 106 شہادتیں ہوئیں۔ پوری جنگ میں پاک فوج کی مجموعی طور پر اتنی شہادتیں نہیں ہوئی تھیں۔ یہ جنگ اتنی زبردست لڑی گئی کہ جنگ بندی کے بعد جب دشمن نے اپنی لاشیں اٹھانا شروع کیں تو 26 گاڑیوں میں اپنے لاشیں اٹھائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور پر قبضہ تو دور کی بات ہم نے بھارتی فوج کو بی آر بی نہر بھی عبور نہیں کرنے دی تھی۔
اس جنگ کے ایک اور غازی میجر جنرل (ر) سکندر شامی نے بتایا کہ اس جنگ میں تمام جوانوں اور افسروں کا جذبہ قابل دید تھا لیکن ان کے ایک یونٹ کمانڈر کرنل جے ایف گول والا نے جس طرح جنگ لڑی اس کی مثال ملنا مشکل ہے، وہ ایک ایک مورچے میں جاکر جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے، جنگ کے آخری روز ان کی دونوں ٹانگوں پر گولیاں لگیں، پھر ایک برسٹ لگا بازو پر جس سے ان کا بازو ناکارہ ہوگیا۔ ان کے ساتھ جو سپاہی تھے انہوں نے کہا ہم آپ کو واپس بی آر بی نہر کی دوسری جانب لے جاتے ہیں لیکن انہوں نے واپس آنے سے انکار کر دیا، تم لوگ واپس چلے جاؤں۔ وہ زخمی حالت میں بھی لڑتے رہے اور پھر انہیں جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے صرف 300 جوان دو کمپنیوں کے 12 سے لیکر 22 ستمبر تک بھارت کی پوری بریگیڈ کا مقابلہ کرتے رہے جس میں 3 ہزار سے جوان تھے۔
سولہ پنجاب رجمنٹ کے سابق کمانڈنگ آفیسر میجر جنرل (ر) غلام دستگیر نے بتایا کہ وہ خود تو 1965 کی جنگ میں لاہور کے محاذ پر نہیں لڑے لیکن انہیں دو مرتبہ 16 پنجاب رجمنٹ کو کمانڈ کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ رجمنٹ پاکستان آرمی کی وہ رجمنٹ ہے جسے ہمیشہ مشکل ٹاسک دیا جاتا اور وہ اسے پورا کرتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ 16 پنجاب رجمنٹ نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں، اپنا خون دیا اس ملک کی آزادی کے لیے۔ کسی ملک کی آزادی اور خود مختاری کے لیے اس ملک کی فوج اور قوم ملک کر قربانیاں دیتی ہے۔ پاکستان کی آزادی، خود مختاری اور حفاظت کے لیے پاکستانی قوم نے لاجواب اور مثال قربانیاں دی ہیں لیکن اس سے بڑھ کر پاک فوج نے اس ملک کے دفاع کے لیے اپنی جانیں قربان کرکے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ فوج اور عوام ایک ساتھ مل کر اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کریں۔
واضح رہے کہ 1965 کی جنگ میں 16 پنجاب رجمنٹ کے سب سے زیادہ 106 جوان شہید ہوئے تھے۔ اس رجمنٹ کو بے مثال جرات، بہادری اور قربانیوں پر 11 فوجی اعزاز دیے گئے جن میں پانچ ستارہ جرات بھی شامل ہیں، پنجاب رجمنٹ کے ان شہدا اور غازیوں کو محافظ لاہور کا خطاب بھی دیا گیا۔
لاہور کے گیریژن قبرستان میں 16 پنجاب رجمنٹ کے ان شہدا کی یادگار اور قبریں ہیں جنہوں نے 1965 کی پاک بھارت جنگ میں لاہور کا دفاع کرتے ہوئے بی آربی نہر کے مشرقی جانب ڈوگرائے کلاں کے علاقے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یوم دفاع کے موقع پر اس جنگ کے غازیوں اور پاک فوج کے افسروں، جوانوں نے شہدا کی یادگار پر سلامی دی۔ پاک فوج کے ان غازیوں نے بتایا کہ دشمن لاہور پر قبضے کا خواب لیکر حملہ آور ہوا تھا جسے 16 پنجاب رجمنٹ کے جوانوں نے چکنا چور کر دیا اور دشمن کو اپنی لاشیں اٹھانا پڑیں۔
سن 1965 کی جنگ کے غازی بریگیڈیئر (ر) شیر افگن کہتے ہیں ہمیں یہ حکم ملا تھا کہ دشمن کو کسی صورت بی آر بی نہر عبور نہیں کرنے دینی کیونکہ اگر دشمن نہر عبور کر لیتا تو پھر لاہور میں قبضے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ اس لیے 16 پنجاب رجمنٹ کے جوانوں نے دشمن کو ڈوگرائے کلاں کے علاقے میں روکے رکھا۔
انہوں نے بتایا کہ جنگ کے دوران ہمیں پھر حکم ملا کہ دشمن نے پاکستان کے جس علاقے پر قبضہ کیا ہے بارڈر سے بی آر بی نہر تک کا ایریا اس کو واپس لینا ہے، تو ہماری دو کمپنیوں نے دشمن کو بارڈر سے پیچھے دھکیل دیا تھا اور کافی زیادہ پاکستانی علاقہ واپس چھین لیا گیا۔
بریگیڈیئر (ر) شیر افگن نے کہا کہ دشمن کے پاس ٹینک اور پوری بریگیڈ تھی جبکہ ہمارے پاس صرف آدھی یونٹ فوج تھی۔ دشمن کے ٹینک تباہ کرنے کے لیے بھی اسلحہ ختم ہوگیا تھا۔ اس صورت حال میں ہمیں کمانڈر کی طرف سے حکم ملا کہ واپس بی آر بی نہر اور ڈوگرائے کلاں کی طرف آئیں۔ جب ہم لوگ پیچھے ہٹ رہے تھے تو دشمن نے بھرپور حملہ کیا جس کے نتیجے میں ہمارے کئی جوان جنگی قیدی بنا لیے گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ دشمن نے 17 حملے کیے لیکن ہمارے جوانوں نے دشمن کو بی آر بی نہر عبور نہیں کرنے دی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس جنگ میں 16 پنجاب رجمنٹ کی سب سے زیادہ 106 شہادتیں ہوئیں۔ پوری جنگ میں پاک فوج کی مجموعی طور پر اتنی شہادتیں نہیں ہوئی تھیں۔ یہ جنگ اتنی زبردست لڑی گئی کہ جنگ بندی کے بعد جب دشمن نے اپنی لاشیں اٹھانا شروع کیں تو 26 گاڑیوں میں اپنے لاشیں اٹھائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور پر قبضہ تو دور کی بات ہم نے بھارتی فوج کو بی آر بی نہر بھی عبور نہیں کرنے دی تھی۔
اس جنگ کے ایک اور غازی میجر جنرل (ر) سکندر شامی نے بتایا کہ اس جنگ میں تمام جوانوں اور افسروں کا جذبہ قابل دید تھا لیکن ان کے ایک یونٹ کمانڈر کرنل جے ایف گول والا نے جس طرح جنگ لڑی اس کی مثال ملنا مشکل ہے، وہ ایک ایک مورچے میں جاکر جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے، جنگ کے آخری روز ان کی دونوں ٹانگوں پر گولیاں لگیں، پھر ایک برسٹ لگا بازو پر جس سے ان کا بازو ناکارہ ہوگیا۔ ان کے ساتھ جو سپاہی تھے انہوں نے کہا ہم آپ کو واپس بی آر بی نہر کی دوسری جانب لے جاتے ہیں لیکن انہوں نے واپس آنے سے انکار کر دیا، تم لوگ واپس چلے جاؤں۔ وہ زخمی حالت میں بھی لڑتے رہے اور پھر انہیں جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے صرف 300 جوان دو کمپنیوں کے 12 سے لیکر 22 ستمبر تک بھارت کی پوری بریگیڈ کا مقابلہ کرتے رہے جس میں 3 ہزار سے جوان تھے۔
سولہ پنجاب رجمنٹ کے سابق کمانڈنگ آفیسر میجر جنرل (ر) غلام دستگیر نے بتایا کہ وہ خود تو 1965 کی جنگ میں لاہور کے محاذ پر نہیں لڑے لیکن انہیں دو مرتبہ 16 پنجاب رجمنٹ کو کمانڈ کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ رجمنٹ پاکستان آرمی کی وہ رجمنٹ ہے جسے ہمیشہ مشکل ٹاسک دیا جاتا اور وہ اسے پورا کرتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ 16 پنجاب رجمنٹ نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں، اپنا خون دیا اس ملک کی آزادی کے لیے۔ کسی ملک کی آزادی اور خود مختاری کے لیے اس ملک کی فوج اور قوم ملک کر قربانیاں دیتی ہے۔ پاکستان کی آزادی، خود مختاری اور حفاظت کے لیے پاکستانی قوم نے لاجواب اور مثال قربانیاں دی ہیں لیکن اس سے بڑھ کر پاک فوج نے اس ملک کے دفاع کے لیے اپنی جانیں قربان کرکے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ فوج اور عوام ایک ساتھ مل کر اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کریں۔
واضح رہے کہ 1965 کی جنگ میں 16 پنجاب رجمنٹ کے سب سے زیادہ 106 جوان شہید ہوئے تھے۔ اس رجمنٹ کو بے مثال جرات، بہادری اور قربانیوں پر 11 فوجی اعزاز دیے گئے جن میں پانچ ستارہ جرات بھی شامل ہیں، پنجاب رجمنٹ کے ان شہدا اور غازیوں کو محافظ لاہور کا خطاب بھی دیا گیا۔