اردو کے معروف شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کو مداحوں سے بچھڑے 8 برس بیت گئے
احمد ندیم قاسمی شاعری کو اپنا پہلا عشق قرار دیتے تھے لیکن انہیں نظم و نثر دونوں پر زبردست عبور حاصل تھا
اردو کے معروف شاعر ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار احمد ندیم قاسمی کو مداحوں سے بچھڑے 8 برس بیت گئے۔
20 نومبر 1916 کو خوشاب کے علاقے انگہ میں پیدا ہونے والے احمد ندیم قاسمی نے ابتدائی تعلیم اٹک اور پھر شیخوپورہ سے حاصل کی جس کے بعد وہ مزید تعلیم کے لئے بہاولپور چلے گئے جہاں انہوں نے صادق ایجرٹن کالج بہاولپور سے گریجویشن کیا۔ انہوں نے 1948 تک مختلف سرکاری محکموں میں فرائض سرانجام دیئے۔ احمد ندیم قاسمی کی شخصیت ہشت پہل تھی۔ وہ ایک جانب جہاں ادیب ،افسانہ نگار ، ڈرامہ نگار ، صحافی ،کالم نگار تھے وہیں دوسری جانب صاحب طرز شاعر بھی تھے۔ وہ شاعری کو اپنا پہلا عشق قرار دیتے تھے لیکن انہیں نظم و نثر دونوں پر زبردست عبور حاصل تھا۔
احمد ندیم قاسمی نے شاعری کی ابتدا 1931 میں کی۔ مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم اس وقت کے کثیر الاشاعت روزنامہ ''سیاست'' کے سرورق پر شائع ہوئی۔ ان کا شمار اردو کے ان شعرا اور ادبا میں ہوتا ہے جنہوں نے نوجوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ احمد ندیم قاسمی نے 90 سال کی عمر پائی اور مسلسل قلم کی خدمت کرتے رہے۔ انہوں نے 50سے بھی زائد کتابیں یاد گار چھوڑیں۔ ان کے 17 افسانوی اور 6 شعری مجموعے شائع ہوئے۔ تنقید و تحقیق کی 3 اور ترتیب و ترجمہ کی 6 کتابیں بھی منظر عام پر آئیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لئے بھی کافی کچھ لکھا اور ان کا انتخاب 3 کتابوں کی شکل میں شائع ہوا۔
احمد ندیم قاسمی نے سعادت حسن منٹو، راجیندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، غلام عباس، میرا جی، ن م راشد، فیض احمد فیض، حفیظ جالندھری ، جوش ملیح آبادی اور علی سردار جعفری جیسے ہم عصروں کے درمیان بطور افسانہ نگار اور بحیثیت شاعر اپنی شناخت قائم کی۔ اردو ادب کی گراں قدر خدمات پر انہیں پاکستان کے اعلیٰ ترین سول اعزاز "ستارہ امتیاز " سے نوازا گیا تھا۔ گو کہ احمد ندیم قاسمی کو دنیا سے گزرے 8 برس بیت گئے ہیں لیکن اپنی شاعری اور ادبی شاہ پاروں سے وہ مداحوں کے دل میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
20 نومبر 1916 کو خوشاب کے علاقے انگہ میں پیدا ہونے والے احمد ندیم قاسمی نے ابتدائی تعلیم اٹک اور پھر شیخوپورہ سے حاصل کی جس کے بعد وہ مزید تعلیم کے لئے بہاولپور چلے گئے جہاں انہوں نے صادق ایجرٹن کالج بہاولپور سے گریجویشن کیا۔ انہوں نے 1948 تک مختلف سرکاری محکموں میں فرائض سرانجام دیئے۔ احمد ندیم قاسمی کی شخصیت ہشت پہل تھی۔ وہ ایک جانب جہاں ادیب ،افسانہ نگار ، ڈرامہ نگار ، صحافی ،کالم نگار تھے وہیں دوسری جانب صاحب طرز شاعر بھی تھے۔ وہ شاعری کو اپنا پہلا عشق قرار دیتے تھے لیکن انہیں نظم و نثر دونوں پر زبردست عبور حاصل تھا۔
احمد ندیم قاسمی نے شاعری کی ابتدا 1931 میں کی۔ مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم اس وقت کے کثیر الاشاعت روزنامہ ''سیاست'' کے سرورق پر شائع ہوئی۔ ان کا شمار اردو کے ان شعرا اور ادبا میں ہوتا ہے جنہوں نے نوجوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ احمد ندیم قاسمی نے 90 سال کی عمر پائی اور مسلسل قلم کی خدمت کرتے رہے۔ انہوں نے 50سے بھی زائد کتابیں یاد گار چھوڑیں۔ ان کے 17 افسانوی اور 6 شعری مجموعے شائع ہوئے۔ تنقید و تحقیق کی 3 اور ترتیب و ترجمہ کی 6 کتابیں بھی منظر عام پر آئیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لئے بھی کافی کچھ لکھا اور ان کا انتخاب 3 کتابوں کی شکل میں شائع ہوا۔
احمد ندیم قاسمی نے سعادت حسن منٹو، راجیندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، غلام عباس، میرا جی، ن م راشد، فیض احمد فیض، حفیظ جالندھری ، جوش ملیح آبادی اور علی سردار جعفری جیسے ہم عصروں کے درمیان بطور افسانہ نگار اور بحیثیت شاعر اپنی شناخت قائم کی۔ اردو ادب کی گراں قدر خدمات پر انہیں پاکستان کے اعلیٰ ترین سول اعزاز "ستارہ امتیاز " سے نوازا گیا تھا۔ گو کہ احمد ندیم قاسمی کو دنیا سے گزرے 8 برس بیت گئے ہیں لیکن اپنی شاعری اور ادبی شاہ پاروں سے وہ مداحوں کے دل میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔