دفاع و استحکام وطن اور ہماری ذمے داریاں
یوم دفاعِ پاکستان ہمیں اس دن کی یاد دلاتا ہے جب پاکستان کے شہیدوں، جری جوانوں اور غیور پاسبانوں نے دفاع پاکستان کی خاطر سرحدوں پر اپنی بہادری اور شجاعت کا لوہا منوایا۔ افواج پاکستان اور عوام نے مل کر دشمن کا مقابلہ کیا۔
سروں پر کفن باندھ کر دشمن سے بھڑ گئے، جسموں سے بارود باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، عوام و فوج نے اپنا سب کچھ دفاع وطن کے لیے قربان کر دیا۔ ہم سب اپنے پاکباز شہداء کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ بھارت نے 6 ستمبر کی صبح لاہور اور سیالکوٹ کی طرف سے ایک بڑا فوجی حملہ شروع کر دیا، جس میں دُنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ لڑی گئی۔
یہ حقیقت ہے کہ ہماری فوج دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر پیش پیش رہی ہے۔ علاوہ ازیں افواجِ پاکستان کے جوانوں اور افسروں نے ٹڈی دل کے حملوں سے لے کر سیلابوں اور زلزلوں جیسی ناگہانی آفات میں عوام کی مدد کی ہے اور اپنی جا ن کی بھی پرواہ نہیں کی۔ موجودہ حالات میں دیکھا جائے تو ملک کی بنیاد سیاست، معیشت اور احتساب پر ہے۔ اس معاشرے میں ہر فرد خصوصی اہمیت کا حامل ہے جس کے بغیر کسی بھی ملک کی ترقی ممکن نہیں۔ فرد کے ساتھ ساتھ معیشت بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
جس ملک کی معیشت جتنی مضبوط ہوگی وہ ہر لحاظ سے اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کی آبادی اس وقت دنیا میں پانچویں نمبر پر جب کہ معیشت کے لحاظ سے23 ویں اور خریداری میں اڑتیسویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کی معیشت کو آزادی سے اب تک جنگی، سیاسی تنازعات، بڑھتی ہوئی آبادی اور براہ راست قلیل سرمایہ کاری جیسے مسائل کا مسلسل سامنا کرنا پڑا ہے، جس سے ملک کی صنعت و تجارت پر متاثر کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
معیشت کی مضبوطی اور ملکی استحکام کے لیے بنیادی دینی و عصری تعلیم و صحت کا نظام، یکساں احتسابی نظام، ملکی مصنوعات کا فروغ، مہنگائی کا سدباب، سرمایہ کاری پر توجہ، بدعنوانی اور کرپشن کی روک تھام، روزگار کی فراہمی، قوانین پر عمل داری، ٹیکس کی بروقت ادائیگی، بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول، اسراف سے انحراف، جدید اور پیشہ ورانہ تعلیم کے ذرایع پیدا کرنے، باہمی اخوت و محبت کا فروغ اور سیاسی اتحاد سمیت کئی دیگر عوامل پر غور کرنا ہوگا۔ یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان کا مستقبل قومی یکجہتی پر منحصر ہے جو پاکستانی معاشرے کے تمام طبقات کے درمیان سماجی ہم آہنگی کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عوام کی بہبود کو یقینی بنانا ہوگا۔ صحت، گورننس، بجلی کی فراہمی، صاف پانی کی فراہمی، مقامی حکومتوں کا قیام یا جو بھی شعبہ زندگی ہو ان سب میں دیانتداری اور ایمانداری سے کام کرنا ہوگا۔ ہم میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا، ساتھ چلنے کا جذبہ ہونا چاہیے، جو جمہوریت کی کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے، کیونکہ جمہوریت بھی اتحاد و یکجہتی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
پاکستان کے اندورنی اور بیرونی خطرات سب کے سامنے ہیں۔ بھارت اور افغانستان کی سرزمین بیرونی محاذ پر اشتعال انگیزی کے لیے استعمال ہو رہی ہے، جب کہ سیاسی محاذ آرائی میں قومی ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جو دشمن کو ملکی سلامتی کے خلاف کھل کر اپنی سازشوں کی تکمیل کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
میڈیا سے جڑا کوئی بھی شعبہ ففتھ جنریشن وار کا اہم ہتھیار ہے لیکن سوشل میڈیا اس جنگ کا اہم کردار ہے، جس میں طرح طرح کی تحاریر، وڈیو کلپس، پوسٹس، واٹس ایپ و فیس بک اسٹیٹس ہوتے ہیں جن کے ذریعے عوام کو بہکایا جاسکتا ہے، اور اس بہکاوے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قوم کی حیثیت اور مقام داؤ پر لگ جاتا ہے۔
ارباب اختیار کو چاہیے کہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے چین، ترکی اور ملائیشیا کی طرز پر اس کی حدود و قیود کا تعین کریں، ففتھ جنریشن وار کا ٹارگٹ زیادہ تر نوجوان نسل ہے، یہ جنگ میڈیا کی ہے، اس میں میڈیا کا استعمال بہت احتیاط سے کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کا میدان بہت وسیع ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا نوجوانوں کو اس کے غلط استعمال سے روکنے کے لیے سنسر پالیسی سخت کرنا پڑے گی۔
حال ہی میں جس انداز سے مسائل کے حل کو بنیاد بنا کر ملک دشمن نعروں اور رویے کا مظاہرہ کیا گیا، وہ یقیناً مسائل کے حل سے زیادہ گھمبیر معاملہ نظر آتا ہے۔ جس طرح اشتعال انگیزی پیدا کر کے اور عصبیت کو استعمال کر کے ریاست کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی کہ پاکستان کے عوام اب نہ صرف اپنی سرزمین اور نظریے سے متعلق پہلے سے بھی زیادہ حساس ہیں بلکہ وہ شعور کی اس منزل پر ہیں جہاں وہ اس امر کا ادراک رکھتے ہیں کہ کس طرح مختلف '' سلوگنز'' کا سہارا لے کر پاکستان کو واپس انتشار کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔
یقینا پاکستان میں بسنے والے شہری اپنی سرزمین کے خلاف کسی بھی سازش کو ناکام بنانے کے لیے ہر لحظہ تیار ہیں۔ اگر یہ قوم گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا ایک قومی بیانیہ اور نظریہ رکھتے ہوئے کامیاب ہو سکتی ہے تو یہ قوم اسی طرح کے بہت سے مسائل کے حل کے لیے کوشاں بھی ہے اور انھیں حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ ہمیں صرف اپنے اداروں پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم دہشت گردی جیسے دشمن کے خلاف جنگ کافی حد تک جیت چکے ہیں تو جنگ سے پیدا شدہ مسائل پر بھی جلد ہی قابو پا لیں گے۔ مسائل کا ہونا بجا، شکوہ شکایت بھی سر آنکھوں پر، مگر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف مہم یقینا تکلیف دہ ہے۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 24اکتوبر 1947کو اپنے ایک خطاب میں کہا تھا۔ '' ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے اتنی ہی زیادہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے ابھریں گے، جیسے سونا آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے۔'' سو یہ راستے میں بچھے کانٹے، مشکلات اور مسائل منزل نہیں ہیں کہ ہم ان میں ہی اُلجھ کر رہ جائیں۔ ہمیں اپنے شاندار مستقبل پر یقین رکھنا ہو گا، مِل کر جدوجہد کرنا ہو گی کہ اس سرزمین کو اب نعروں سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔
ماضی میں جب کبھی ریاست کو دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہوا تو قوم اور افواجِ پاکستان سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور ہزاروں جانوں کی قربانیاں پیش کر کے وطن عزیز کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے آپریشن راہِ راست، آپریشن راہ نجات، آپریشن راہ حق اور آپریشن ضرب عضب کر کے دہشت گردوں کو ناکوں چنے چبوائے گئے۔ بعد ازاں آپریشن ردالفساد لانچ کیا گیاجس میں شہری علاقوں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کا سراغ لگا کر ان کو ٹھکانے لگایا گیا۔ اس آپریشن کے تحت دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی بھی نشاندہی کی گئی اور انھیں بھی کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔
اس طرح ریاست پاکستان نے عمومی طور پر دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا، لیکن اب کچھ عرصے سے ایک مرتبہ پھر پڑوسی ملک افغانستان کی طرف سے دہشت گرد جس طرح مغربی سرحد سے پاکستانی حدود میں آنے میں کامیاب ہوئے اس سے دہشت گردی کی لہر نے دوبارہ سے سراُٹھانا شروع کیا اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
بہرطور ہماری سیکیورٹی فورسز انتہائی دلیری اور پیشہ ورانہ انداز میں ان حملوں سے نمٹ رہی ہیں۔ یہ امر بھی اپنی جگہ اُمید افزا ہے کہ قوم دہشت گردی اور شدت پسندی کے ناسور کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لیے پُرعزم ہے اور ملک کو درپیش اندرونی وبیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنی مسلح افواج اور دیگر اداروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑی ہے۔
غور طلب امر ہے کہ پاکستان دشمن عناصر کی جانب سے نہ صرف سیکیورٹی فورسز پر حملے بڑھائے گئے بلکہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرایع کا سہارا لے کر پاکستان مخالف بیانیے کو ہوادینے کی کوشش بھی کی گئی۔دوسری جانب ہمیں پسماندہ صوبوں کی احساس محرومی کا ازالہ کرنا ہوگا، وگرنہ دشمن پسماندہ صوبوں کی عوام میں بغاوت کے جذبات ابھارنے کی ناپاک سازشیں تیز کرنے کی کوشش کرے گا۔
اسی طرح ریاست کے سیاسی ڈھانچے پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں دشمن سیاست کی آڑ میں نفرت کے ماحول کو فروغ دینے کے ایجنڈے کو آگے نہ بڑھائے۔ مذہبی حوالے سے ضروری ہے کہ ملک میں قانون سازی ہو، مقدسات کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرکے اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ پاکستان کی سلامتی ناقابل تسخیر بنانے کے لیے قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا کو سازگار کرنا ہوگا، اس لیے قومی سطح پر آپس کے اختلافات اور ذاتی مفادات سے اوپر دفاع وطن اور سلامتی کے لیے افواج پاکستان کو مضبوط کرنا چاہیے کیونکہ ملکی سالمیت سب سے مقدم ہے۔