برطانیہ نے بھی گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ دی

برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنے کے تیس اجازت نامے معطل کر رہا ہے

گزشتہ پیر کو برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنے کے ساڑھے تین سو اجازت ناموں میں سے تیس معطل کر رہا ہے۔ بقول برطانوی وزیرِ خارجہ ڈیوڈ لامی خدشہ ہے کہ اسرائیل ان ہتھیاروں کو غزہ میں بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے استعمال کر سکتا ہے۔


ڈیوڈ لامی نے پارلیمنٹ میں یہ اعلان بہت ''افسوس اور معذرت '' کے ساتھ کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود بھی ایک '' لبرل پروگریسو صیہونی '' ہیں۔ مگر وزارتِ قانون کی رائے کی روشنی میں اسرائیل کو کچھ ہتھیاروں کی جزوی سپلائی روکنے پر مجبور ہیں۔


البتہ مذکورہ پابندی کے جال سے سب سے بڑی شارک یعنی ''ایف پینتیس لڑاکا بمبار طیارے'' کے فاضل پرزوں کی رسد پھسل گئی ہے۔حالانکہ غزہ کو برباد کرنے میں اس امریکی ساختہ طیارے نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔مگر برطانوی وزیرِ خارجہ نے اس بارے میں کہا کہ ایف پینتیس کے پرزوں کی فراہمی پر پابندی تنہا برطانیہ کے بس میں نہیں۔کیونکہ بارہ ممالک کی کمپنیاں ایک بین الاقوامی کنسورشیم کے تحت امریکی طیارہ ساز کمپنی لاک ہیڈ کے لیے ایف پینتیس کے مختلف حصے تیار کرتی ہیں اور برطانیہ اس طیارے کے آلات کا محض پندرہ فیصد فراہم کرتا ہے۔


ہاں اگر برطانیہ ایف پینتیس طیارہ براہِ راست اسرائیل کو فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہوتا تو اس کی برآمد معطل کی جا سکتی تھی۔مگر برطانوی وزیرِ خارجہ یہ منطق پیش کرتے ہوئے بھول گئے کہ نیدرلینڈز بھی ایف پینتیس کی تیاری کے بین الاقوامی کنسورشیم کا حصہ ہے لیکن وہاں کی ایک عدالت نے سرکار کو اسرائیل کے لیے اس طیارے کے پرزوں کی فراہمی سے روک دیا ہے۔


وزیر خارجہ ڈیوڈ لامی آزاد رکنِ پارلیمان اور لیبر پارٹی کے سابق سربراہ جیرمی کوربن کے اس سوال کا جواب بھی گول کر گئے کہ کیا برطانیہ غزہ کے اوپر نگراں ڈرونز کی پروازوں میں کوئی کردار ادا کر رہا ہے اور یہ کہ کیا اسرائیلی فضائیہ قبرص میں ایک برطانوی بیس کو غزہ پر بمباری کے لیے اڑانیں بھرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے ؟


( ڈیوڈ لامی پہلے برطانوی سیاہ فام وزیرِخارجہ ہیں۔وہ لیبر پارٹی میں '' لیبر فرینڈز آف اسرائیل '' گروپ کے فعال رکن ہیں۔سن دو ہزار میں وہ پہلی بار رکنِ پارلیمان بنے۔اپنے انتخابی اخراجات کے لیے وہ وقتاً فوقتاً اسرائیلی لابی سے بتیس ہزار پاؤنڈ سے زائد رقم وصول چکے ہیں۔دو ہزار بائیس میں انھوں نے بطور شیڈو وزیرِ خارجہ اسرائیل کا دورہ کیا۔


گزشتہ برس نومبر میں جب پارلیمنٹ میں غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرار داد پیش کی گئی تو ڈیوڈ لامی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔بعد ازاں انھوں نے اسرائیل کا دورہ کیا اور صدر آئزک ہرزوگ سے ملاقات کے بعد بیان دیا کہ حماس جو کچھ بھی کر رہی ہے۔اس کے ذمے دار تمام فلسطینی ہیں۔ڈیوڈ لامی کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ بعینہہ اسرائیل کا یہی بیانیہ ہے جس کی آڑ میں وہ بلا امتیاز فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے )۔


اگرچہ اسرائیل کو برطانوی ہتھیاروں کی جزوی معطلی سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ انہتر فیصد ہتھیار امریکا اور انتیس فیصد جرمنی فراہم کرتا ہے۔جب کہ دیگر یورپی ممالک لگ بھگ دو فیصد ہتھیار فروخت کرتے ہیں اور اس میں برطانیہ کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔مگر برطانیہ اسرائیل کو جتنے بھی ہتھیار فروخت کرتا ہے ان میں سے بھی صرف آٹھ فیصد کے لائسنس معطل کیے گئے ہیں۔


اگرچہ نئی برطانوی لیبر حکومت نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے ایک فیصلے کا احترام کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف نسل کشی سے متعلق مقدمے پر سے اپنے اعتراضات واپس لے لیے ہیں۔اور انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی جانب سے اسرائیل اور حماس کے پانچ لیڈروں کے خلاف نسل کشی کی ممکنہ فردِ جرم کو چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کے علاوہ برطانیہ نے فلسطینیوں کی دیکھ بھال کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ادارے انرا کی معطل شدہ امداد بھی بحال کر دی ہے۔



مگر برطانوی شہریوں کی اکثریت کی جانب سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی مکمل طور پر روک دینے کے مطالبات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے جزوی علامتی معطلی کے ذریعے بقول شخصے حکومت نے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کی کوشش کی ہے۔


موجودہ معذرت خواہانہ پالیسی کے برعکس ماضی میں برطانیہ کی لیبر اور قدامت پسند حکومتیں زیادہ سخت پابندیاں عائد کرتی آئی ہیں۔مثلاً اکتوبر انیس سو تہتر کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران کنزرویٹو وزیرِ اعظم ایڈورڈ ہیتھ کی حکومت نے عربوں اور اسرائیل کو برطانوی ہتھیاروں کی رسد مکمل طور پر روک دی۔


جب اسرائیل نے انیس سو بیاسی میں لبنان کے خلاف کھلی جارحیت کی تو کنزرویٹو وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر نے نہ صرف برطانیہ میں منعقد ہونے والی اسلحے کی نمائش کے لیے اسرائیل کو بھیجا گیا دعوت نامہ واپس لے لیا بلکہ اسرائیل کو اسلحے کی فروخت یکسر روک دی۔یہ پابندی بارہ برس تک ( انیس سو چورانوے ) نافذ رہی۔


لیبر وزیرِ اعظم ٹونی بلئیر نے دو ہزار دو میں فلسطینی انتفادہ کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کو غیر اعلانیہ طور پر اسلحے کی فراہمی روک دی۔جب کہ کنزرویٹو وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے دو ہزار چودہ میں غزہ پر اسرائیل کے حملے کے بعد شہریوں کے خلاف ممکنہ استعمال ہونے والے اسلحے کے بارہ لائسنس منسوخ کر دیے۔


حالانکہ برطانوی رائے عامہ کا ان سابقہ حکومتوں پر اس قدر اخلاقی دباؤ بھی نہیں تھا جتنا آج ہے۔اس کے باوجود موجودہ لیبر قیادت اسرائیل کے خلاف گومگو پالیسی کے سبب حالیہ انتخابات میں جنگ بندی کے حق میں مہم چلانے والے امیدواروں کے ہاتھوں سات نشستیں گنوانے کے باوجود واضح موقف اختیار کرنے سے آج بھی گریزاں ہے۔


اسلحے کے مٹھی برابر لائسنس معطل کرنے سے ذرا پہلے برطانوی دفترِ خارجہ کے تین سینیئر افسروں نے واضح اسرائیلی پالیسی اختیار نہ کرنے کے خلاف بطور احتجاج استعفی دے دیا۔سینیئر سفارت کار مارک اسمتھ نے اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ ایسا لگتا ہے گویا میرا محکمہ (دفترِ خارجہ ) بھی نسل کشی میں ہاتھ بٹا رہا ہے۔


اسلحے کی سپلائی پر علامتی پابندی کے علاوہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے اسرائیل سے سفارتی ، تجارتی اور انٹیلی جینس شیرنگ تعاون میں بدلاؤ کی کوئی امید نہیں۔حتی کہ مقبوضہ مغربی کنارے پر یہودی آبادکاروں کی پرتشدد کارروائیوں کے باوجود آباد کار بستیوں کی زرعی مصنوعات بھی برطانیہ بدستور درآمد کر رہا ہے۔


برطانیہ اور اسرائیل کے مابین ٹیکنالوجی بالخصوص مصنوعی ذہانت کے شعبوں کی ترقی کے لیے مشترکہ تحقیقی منصوبوں پر بھی کوئی آنچ آنے کی امید نہیں۔


مغربی اشرافیہ آخر کیوں فیصلہ کن دباؤ ڈالنے سے گریزاں ہے ؟ اس بابت معروف کینیڈین مصنفہ اور فلم میکر ناؤمی کلین نے ایک مضمون میں اس ذہنیت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مغربی اشرافیہ اسرائیل کو میزائیل حملوں سے تحفظ دینے والی چھتری آئرن ڈوم کے تصور سے خاصی متاثر ہے۔اسرائیل ہائی ٹیک کے شعبے میں مغرب کی خاصی مدد کر رہا ہے تاکہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے یورپ بھی ایک ایسا ''آئرن ڈوم '' تیار کر سکے جو اسے سابق نوآبادیات سے آنے والے بھوکے ننگوں سے محفوظ رکھ سکے۔حالانکہ نوآبادیاتی بھوک و ننگ سامراجی لوٹ کھسوٹ کی ہی پیدا کردہ ہے۔


انسانی حقوق کے سرکردہ اسرائیلی کارکن جیف ہالپر کا کہنا ہے کہ مقبوضہ علاقے دراصل وہ انسانی لیبارٹری ہیں جہاں اسرائیل مکمل چھوٹ کے ساتھ اسلحے اور کنٹرول کی ٹیکنالوجی آزما سکتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا خریدار مغرب ہے۔چنانچہ مقبوضہ فلسطین کو ایک تجرباتی میدان اور فلسطینیوں کو لیبارٹری میں کام آنے والے جانور سمجھنا اسرائیل اور مغرب دونوں کے عسکری ، اسٹرٹیجک اور معاشی مفادات سے مطابقت رکھتا ہے۔


(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

Load Next Story