موبائل فون پر میسج کی تیز بیل مجھے اچانک خیالوں سے ہوش کی دنیا میں لے آئی۔ میسیج کچھ یوں تھا کہ؛
''عینی'' یار۔ کافی دن ہوگئے ملے ہوئے، ایسا کرتے ہیں آج دو دریا چلتے ہیں، شام وہیں گزاریں گے، ہلہ گلہ کریں گے اور ڈنر بھی، اور 10 یا 11 تک واپسی، کیسا؟۔ تم تو چل رہی ہو نا؟
منع کرنے کا کوئی خاص جواز نہیں تھا، لیکن 10 اور 11 تک واپسی کی بات میرے ذہن میں اٹک گئی، اور میں ماضی کے ان لمحوں میں کھوگئی جسے شاید میں زندگی میں دوبارہ کبھی دہرانا نہیں چاہتی تھی۔
زیادہ نہیں صرف کچھ عرصہ قبل ہی ، ہاں وہی شامیں، وہی موج مستیاں، وہی دوست فرق صرف اتنا تھا کہ ہاتھ میں زیادہ پیسا نہیں تھا تو فضول خرچیاں پوری کرنے کے لئے بسوں اور ویگنوں کے دھکے کھانے پڑتے تھے۔ جب دوست ساتھ ہوں تو یہ دھکے بھی برے نہیں لگے۔ ایسی ہی ایک شام اچانک سب دوستوں نے ڈنر کا پروگرام بنا لیا، بات کوئی خاص نہ تھی بس سب کا دل چا رہا تھا ملنے گا، سو نکل پڑے۔
ریستورنٹ پہنچے، انتظار کے بعد کھانے کا آرڈر دیا، باتیں کرنے اور ایک دوسرے کو تنگ کرنے میں مصروف ہوگئے۔ کسی نے سچ ہی کہا کہ اگر گھر والے ذرا کا کام کرنے کو کہ دیں تو گھنٹوں لگ جاتے ہیں، مگر دوستوں کے ساتھ گزرا ہوا وقت پرَ لگا کر اڑ جاتا ہے۔
رات کے 10 بج رہے ہیں یار اب اٹھ جاؤ، میں نے عائشہ کا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا۔
ایک تو تمہیں ہردفعہ ٹائم کا مسئلہ ہوتا ہے عینی۔
فہد مجھے دیر ہورہی ہے۔
اف ہو! چلو یار اٹھ جاؤ ورنہ میڈیم کا لیکچر سننا پڑے گا، اٹھ علی چل یار، علینا ، ثنا اف یہ لڑکیاں باتیں تو کبھی ختم نہیں ہوسکتی ان کی، چلیں؟
کچھ منہ بناتے ہوئے کچھ مذاق اڑتے ہوئے سب بلآخر اُٹھ ہی گئے۔ اور بل ادا کرنے کے بعد ہوٹل سے باہر آگئے۔ کچھ کو فورا بس مل گئی، کچھ نے رکشہ کرلیا۔ اب اتفاق کہیں یا بدقسمتی بل ادا کرنے کے بعد میرے پاس زیادہ پیسے بچے نہیں تھے۔ سو میں بس کے انتظار میں کھڑی ہوگئی۔
عائشہ اور فہد میرے خاظر اسٹاپ پر کھڑے تھے، یک دم عائشہ کے گھر سے فون آگیا، اسے بھی دیر ہونے لگی، عائشہ اور فہد چونکہ ایک ہی جگہ رہائش پزیر تھے لہذا میں نے دونوں کو گھر جانے کا کہ دیا۔ اور دونوں کے جانے کے بعد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
اسٹاپ پر میرے علاوہ کوئی دوسرا نہ تھا۔ مجھے اپنے چاروں اطراف ضرورت سے زیادہ اندھیرا لگنے لگا۔ خاموشی اتنی کے دور سے بھی کسی کے چلنے کی آواز سنائی دے۔ ہاں اتنا آسرا تھا کہ سامنے دو بڑی بڑی سڑک پار کرکے روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ بس انہی روشنیوں سے ڈھارس تھی۔
رات کے وقت کسی بھی لڑکی کو یوں کھڑا دیکھ کر ہر شخص کے ذہن میں مختلف سوالات اٹھے ہیں۔ موٹر سائیکل ہو یا گاڑی، قریب سے گزرتے ہوئے رفتار خود بخود ہلکی ہوجاتی ہے۔ قریب سے گزرتی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر بیٹھے لوگوں کے ذہنوں کے سوال ان کے چہرے سے ہی عیاں تھے۔ ظاہر ہی جس چیز کو جتنا محسوس کروں اتنا ہی بڑھے گی۔ لہذا میں کوئی بھی سوال یا خیال دل میں لائے بغیر یونہی اپنی مطلوبہ بس کا انتظار کرنے لگی۔
لیکن اچانک ہی ایک پراسرار شخص اسٹاپ پر آکر کھڑا ہوگیا، پراسرار شاید مجھے ماحول اور اس کے دیکھنے کے انداز سے لگ رہا تھا۔ میرون رنگ کا شیفون جارجٹ کا لباس جس کی آستینوں میں استر برائے نام ہی تھا اس کے نظروں کا مرکز تھیں۔ کہتے ہیں عورت مرد کی نظروں سے اس کےارادے بھانپ لیتی ہے۔ میری چھٹی حس یک دم جاگ اٹھی، عدم تحفظ کے احساس نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ایک شخص کی ایک جنبش اور خوف میرے اندر اترنے لگا۔
کوئی بس، رکشہ کچھ بھی آجائے اور میں بس یہاں سے نکل جاؤں۔ مجھے یقین تھا کہ لاکھ کوشش کے باوجود خوف میرے چہرے پر عیاں ہوتا جارہا تھا۔ ہاتھ برف ہورہے تھے اور قدموں نے خوف کے مارے ہلنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ شاید ایک لمحہ ہی ہوتا ہے۔ ہاں یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے اپنا آپ بے بس محسوس ہونے لگا۔ خیالوں اور سوالوں کا سسلسلہ شروع ہوگیا۔ آئے روز اخبارات میں چھپنے والی خبریں ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ اگر اس کے پاس کوئی اسلحہ یا تیزدھار آلہ ہوا تو؟ نہیں نہیں، میں یہ کیا سوچ رہی ہوں۔
موبائل کی وائبریشن نے میری توجہ ہٹا دی، لیکن اتنی ہمت نہ تھی کہ بیگ سے فون ہی نکال لوں۔ میں نے دل میں سوچا یقیناَ گھر والے پریشان ہورہے ہونگے۔ سب میری غلطی ہے مجھے آنا ہی نہیں چاہئے تھا آج۔
یا اللہ مدد۔۔۔ شاید دل کی گہرائیوں سے لفظ ادا ہوئے۔ اور دور سے تیزی سے آتی ہوئی بس میرے سامنے رک گئی۔
اندر دو، تین مسافر موجود تھے، میں کچھ کہے بغیر تیزی سے آگے بڑھی اور بس میں چڑھ گئی۔ بیٹھنے کے بعد میری اتنی بھی ہمت نہ تھیں گے میں کھڑی سے جھانک کر دیکھوں۔ شکر خدا کا۔
ٹائیگر شروف کے نئے گانے کی رنگ ٹون پر میرا موبائل بج اٹھا۔ میں نے چونک کر فون اٹھالیا۔ دوسری جانب عائشہ تھی؛
کیا ہوا یار عینی تم نے میرے میسج کا جواب نہیں دیا؟ چل رہی ہو نا تم؟
ہاں عائشہ میں چلوں گی مگر شرط یہ ہے کہ تم اور فہد مجھے چھوڑ کے بھاگنے کے بجائے گھر تک ڈراپ کروگے۔
عائشہ ہسنستے ہوئے کہنے لگی، بلکل میری جان! اب تو میں بھول کر بھی تمہیں کہیں اکیلا نہ چھوڑ کر جاؤں۔
ہاں میں دوبارہ جانا چاہتی تھیں، کیونکہ اس لمحے اور خوف کی یادوں کو میں اپنے ذہن سے ہمیشہ کے لئے ختم کرنا چاہتی تھی۔ اگر میں ابھی نہ گئی تو دوبارہ کبھی نہ جاسکوں گی۔ یہی سوچ کر میں تیار ہونے اٹھ گئی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔