موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت نے پانی کے چکر کو تیز کر دیا ہے

پاکستان مجموعی طور پر، موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کے لیے پانچواںسب سے زیادہ حساس ملک ہے۔ مزید یہ کہ''شمالی علاقے، بشمول کے پی اور جی بی، نیز بلوچستان، اپنے جغرافیہ کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرات کے زیادہ خطرے میں ہیں۔''

نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (NEOC) کے بروقت تخمینوں کے مطابق، پنجاب میں لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد اور گوجرانوالہ جیسے شہروں میں اکثر شہری سیلاب کا سامنا رہتا ہے۔ خیبرپختونخوا (کے پی) کے علاقے، جیسے پشاور، سوات، ایبٹ آباد، دیر، مانسہرہ اور کوہستان کو سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا سامنا ہے۔لیکن سندھ بھی پیچھے نہیں رہتا۔

بالائی سندھ، بشمول سکھر اور لاڑکانہ، کراچی، حیدرآباد ٹھٹھہ وغیرہ میں موسلادھار بارشوں اور سیلاب کا سامنا ہوسکتا ہے۔ بلوچستان، شمال مشرقی اور مشرقی حصے، جیسے ڈیرہ غازی خان کے پہاڑی دھارے، اچانک سیلاب کا شکار ہیں۔ گلگت بلتستان (جی بی) شدید بارشوں کے باعث لینڈ سلائیڈنگ اور رکاوٹوں کا شکار ہے، تاہم کشمیر مظفرآباد جیسے علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ، تیز سیلاب اور بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کا شکار ہے۔

این ڈی ایم اے کے ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ضرورت سے زیادہ بارش کھیتوں کو ڈبو سکتی ہے، جس سے فصلوں کو نقصان ہوتا ہے، خاص طور پر گندم اور کپاس جیسی پانی کی حساس فصلوں کے لیے۔ تاہم، بھاری بارشیں اوپر کی مٹی کو دھو سکتی ہیں، مٹی کی زرخیزی کو کم کر سکتی ہیں اور مستقبل کی فصل کی پیداوار کو منفی طور پر متاثر کر سکتی ہیں۔

''بارش کے بے ترتیب نمونے زرعی کیلنڈر میں خلل ڈال سکتے ہیں، پودے لگانے اور کٹائی کے اوقات میں تاخیر، جس سے فصل کا معیار اور پیداوار کم ہو سکتی ہے۔ نمی میں اضافہ اور کھڑا پانی کیڑوں اور بیماریوں کے لیے سازگار حالات پیدا کرتا ہے اور فصلوں کو مزید نقصان پہنچاتا ہے۔ مزید برآں، مسلسل شدید بارشیں آبی ذخائر کا سبب بن سکتی ہیں، فصلوں کے جڑوں کے نظام کو نقصان پہنچاتی ہیں اور پودوں کی خراب صحت اور کم پیداوار کا باعث بنتی ہیں۔

سیلاب زدہ سڑکیں اور انفرا اسٹرکچر زرعی سامان کی نقل و حمل میں تاخیر کر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں فصل کی کٹائی کے بعد نقصان ہوتا ہے۔ مون سون کا موسم جنوبی ایشیا میں بنیادی طور پر زمین اور سمندر کی تفریق حرارت سے پیدا ہوتا ہے۔ موسم گرما میں، زمین سمندر سے زیادہ تیزی سے گرم ہوتی ہے، جس سے کم دباؤ والے زون بنتے ہیں جو بحر ہند سے نم ہوا کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، جس سے شدید بارشیں ہوتی ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران، موسمیاتی تبدیلیوں نے مون سون کو تیز کر دیا ہے، جس سے شدید خشک سالی اور سیلاب دونوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے ساتھ، زیادہ بے ترتیب اور انتہائی بارشوں کے نمونے پیدا ہوئے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی اور شہری کاری نے قدرتی نکاسی آب کے نظام کو بھی درہم برہم کر دیا ہے، جس سے مون سون کی بارشوں کی شدت اور اثرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت نے پانی کے چکر کو تیز کر دیا ہے جس کے نتیجے میں زیادہ شدید اور غیر متوقع بارشیں ہوتی ہیں۔ تیز رفتار شہری ترقی پانی کی نکاسی کے قدرتی نظام میں خلل ڈالتی ہے، جس کے نتیجے میں بہاؤ اور سیلاب میں اضافہ ہوتا ہے، جب کہ جنگلات کے ختم ہونے سے زمین کی بارش کو جذب کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے، سطح کے بہاؤ اور مٹی کے کٹاؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔گرم سمندری درجہ حرارت بخارات کی شرح کو بڑھاتا ہے، جس سے زیادہ نمی سے بھری ہوا اور بھاری بارش ہوتی ہے۔


عالمی ہوا کے پیٹرن اور ماحولیاتی دباؤ کے نظام میں تبدیلی مون سون کی بارشوں کے وقت، شدت اور تقسیم کو تبدیل کر سکتی ہے۔ یہ عوامل مل کر خطے میں مون سون سے متعلق زیادہ بار بار اور شدید واقعات کا باعث بنے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بارش اور موسم کے نمونوں میں فرق تاریخی اور تیزی سے بڑھتا ہوا ناول ہے۔ مون سون کی تغیرات ہمیشہ سے خطے کی آب و ہوا کی ایک خصوصیت رہی ہے، جو کہ قدرتی عوامل جیسے ایل نینو اور لا نینا کے واقعات کے ساتھ ساتھ بحر ہند کے ڈوپول (مختلف موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے موسم گرم سے سرد موسموں میں بدلتی ہے) اور دیگر سمندری اور ماحولیات سے متاثر ہوتی ہے۔

حالیہ برسوں میں، ان تغیرات کی شدت اور غیر متوقعیت میں اضافہ ہوا ہے، جس کی بڑی وجہ انسانوں کی طرف سے پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلی ہے۔ بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ اور ماحولیاتی انحطاط نے انتہائی موسمی واقعات کی تعداد اور شدت میں اضافہ کیا ہے، جس سے موجودہ تبدیلیاں تاریخی نمونوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ہوتی ہیں۔ موسم کے پیٹرن میں غیر معمولی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے، مون سون کی بارشوں کی زیادہ درست اور بروقت پیشین گوئی کے لیے قبل از وقت وارننگ سسٹم کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔

اب تک حکومت گزشتہ بارشوں کے سیلاب میں ہونے والے نقصانات کو ٹھیک کرنے، متاثرین کو مکانات فراہم کرنے، زراعت کو پہنچنے والے نقصان کی مرمت اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر کرنے میں تاخیر کے سوا کچھ نہیں کر سکی کچھ اقساط اور کچھ مکان متاثرین کے حوالے ضرور کیے گئے۔ اطلاعات کے مطابق کئی ایسے متاثرین بھی پائے گئے جن کے نام متاثرین کی فہرست میں نہیں تھے۔ کئی ایسے متاثرین تھے جنہیں بینک سے دھکے کھانے پڑے اور شدید گرمی میں گھنٹوں انتظار کرنے کے بعد ایک سال بعد پہلی قسط ملی۔

گزشتہ بارشوں میں جن کے گھر تباہ ہوئے، مویشی مر گئے، سب کچھ تباہ ہوگیا، اس حوالے سے حکومت نے مکمل سروے کیا تھا، اس پر انگلیاں نہیں اٹھائی جا سکتیں، لیکن ان کی حامی پالیسی اس سروے کا حصہ رہی ہے۔ کچھ زمیندار ایسے بھی ہیں جنہیں نوازا گیا ،لیکن اصل متاثرین کے گھر بنانے کے لیے قسطیں جاری نہیں کی جا رہی ہیں۔

دوسرے الفاظ میں سیلاب کی تباہ کاریوں کو دوبرس گزرگئے ہیں لیکن حکومت متاثرین کو دو کمروں کی چھت تک فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ ضلع ٹھٹھہ،میرپور ساکرو کے یوسی سکپور میں بھی کافی گھر بارش میں گر کر تباہ ہوگئے تھے جو تاحال نہیں بن پائے اگر زراعت کی بات کی جائے تو گزشتہ سال زراعت کو بھی بڑا دھچکا لگا، اس کے سروے میں بہت سارے سوالات سامنے آئے ہیں، نقصانات سے متعلق سروے کے بعد چند افراد کو ہی پیسے جاری کیے گئے ہوں گے، لیکن کسانوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو اسے ابھی تک کوئی فوری کوڑی بھی نہیں ملی۔

اگر دیکھا جائے تو کھاد بیج ٹریکٹر اور مہنگی دواؤں کے بعد کوئی فصل بن کے تیار ہوتی ہے ۔اس سال میں تیار چاول کی فصل طوفانی بارش میں مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔ گزشتہ سال صوبائی حکومت بمشکل 5000 پر ایکڑ اعلان کر کے دستبردار ہوگئی کسان سر پیٹتے رہ گئے کوئی پرسان حال نہیں۔کراچی، سندھ کا دل، سندھ کے تمام اضلاع کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ نکاسی کے لحاظ سے انتہائی خراب، اگر پانچ منٹ بارش ہو جائے تو شہر دریا کا منظر پیش کرتے ہیں شہروں کے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے علاقے چوک، چوراہا پانی میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ایسے میں دکاندار ہی پریشان حال اور اذیت ناک زندگی کو برداشت کرتا، کیونکہ جب تک ان علاقوں میں پانی کھڑا رہتا ہے رہائشی اور کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں جن کے پاس کرائے کی جگہ ہے۔ بارش کے پانی کی وجہ سے بند ہونے والی دکانوں کے مالکان پریشان ہیں لیکن مزدور طبقے کے گھروں میں ان دنوں چولہا نہیں جلتا۔ سندھ کے کچھ علاقوں میں ایم این اے، ایم ایم پی اے اپنے حلقوں میں باہر نکلنے اور کھڑے بارش کے پانی میں اپنے مہنگے جوتے خراب کرنے کی زحمت کر رہے ہیں۔ اس بار وزیر اعلیٰ سندھ اور پارٹی قیادت کہیں کہیں دکھائی دے رہی ہے اور بیانات دے رہی ہے کہ منتخب نمائندے عوام کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں۔
Load Next Story