بچپن کے کھیل اور حالات
سماج کی مجموعی دانش اور سوچ کا سوال ہم سب کے سامنے مستقبل کا ایک ڈراؤنا احساس دلا دیتا ہے
کبھی کبھی بچپن کی یادیں جب اپنی پوری جولانی کے ساتھ ذہن میں کوندنے لگتی ہیں تو بچپن کی شرارتیں، بات بات پر ضدکرنا اورکسی بھی قیمت پر اپنی شکست تسلیم نہ کرنا۔ ایک عرصے بعد بچپن کی باتیں کچھ احمقانہ اورکچھ وقت کی بے وقوفی لگتے ہیں مگر جس دم بچپن سے پچپن تک کا محاورہ وقت گزرنے کے بعد جب عملی طور سے سامنے آتا ہے تو سنجیدگی سے بچپن کے کھیل اور ان کی ترتیب و ترکیب کی دانش کا احساس ہوتا ہے اور پھر وہی بچپن کے کھیل کے قواعد وضوابط پچپن(55) میں یاد آنے لگتے ہیں جن کو ہم دہائیوں قبل بھول چکے ہوتے ہیں۔
ہمارے اور سب کے بچپن کے گھر اور محلے کے کھیل بلاتخصیص رنگ و نسل اور جنس میں '' لوڈو'' اکڑ بکڑ بم بے بو، پیل دوج، پکڑم پکڑائی،کیرم اور بال ٹھیکرائی کسی نہ کسی طور زندگی بھرکی یاد بن جاتے ہیں اور انہی یادوں کی توانائی یا اجزائے ترکیبی اس وقت اور اہمیت اختیارکرجاتی ہے جب ہمارے بچپن کے بعد بھی بعض افراد میں وہی بچپن کی حماقتیں اکثر اوقات نظر آجاتی ہیں، ویسے یہ ایک لطیف احساس ضرور ہے مگر اسی کے ساتھ بچپن بھی تو بڑا یا سنجیدہ ہونا چاہتا ہے نا، سو ہم بچپن اور پچپن کے میل تال کو رویوں اور برتاؤکی وہ ''سیکھ'' دینے میں نجانے کیوں بے پرواہ سے لگتے ہیں، یہ شعوری یا غیرشعوری عمل ہم کسی نہ کسی بہانے کرتے رہتے ہیں مگر اس عمل کے عرصے بیت جانے کی ضرورت کو شاید ہم سمجھ نہیں سکتے یا جان بوجھ کر اسے اہمیت نہیں دیتے۔
اس مرحلے پر سماج کی مجموعی دانش اور سوچ کا سوال ہم سب کے سامنے مستقبل کا ایک ڈراؤنا احساس دلا دیتا ہے، پھر ہم سماجی رویوں کی مختلف اشکال پر غورکرتے کہیں کڑھتے ہیں اورکہیں احساس ندامت ہمارا پیچھا کر رہا ہوتا ہے، جیسا کہ عمیق تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں میرا مستقل یہ استدلال رہتا ہے کہ سماج میں اولاد کی شکایت خود کی ذمہ داریوں میں کمی سے شروع ہوکر ایک خاص سخت گیر رویے میں تبدیل ہوتی ہے جوکہ کسی طور درست نہیں سمجھی جاسکتی، اس مقام پر میرا کہنا ہے کہ'' جس دن آپ نے اولاد کو والدین کے حاکمانہ رویوں میں دیکھنا شروع کیا تو یقین رکھیے کہ رشتے کمزور ہونا شروع ہوجائیں گے،کیونکہ والدین اولاد کے رہنما ہوتے ہیں، حاکم نہیں۔''
اس ضمن میں یہ بات بھی بنیادی ہے کہ '' رہنمائی'' ہی عزت و وقار اور تہذیب بر برتاؤ کی متقاضی ہوا کرتی ہے،گویا تحمل، برداشت اور دانش کی '' رہنمایانہ'' صفت کو جس قدر مانجھیں گے اسی قدر تہذیب اور برتاؤ کا برتن چمکے گا جوکہ نسل کی یاد کا وہ خوبصورت اظہار یا حوالہ ہوگا جو آپ کی زندگی کو صیقل کردے گا۔میری مذکورہ باتیں نہ حکیمانہ ہیں اور نہ کسی کی تربیت کرنے کا کوئی نسخہ بلکہ مذکورہ تجربات ایک طویل سیاسی صحافتی بے روزگاری کی کٹھناؤں کا ایک فطری اظہاریہ ہے جو شاید مجھ سمیت بہت سے جہاندیدہ کرچکے ہوں یا ان تجربات سے محروم رہے ہوں، ہم اکثر سماج یا معاشرے کے منفی رویوں پرکڑھتے رہتے ہیں یا اپنی دانست میں کسی بھی تنظیم کے اصول نہ مقدم رکھنے کے عمل میں '' تنظیم'' سے کنارہ کشی اختیارکرلیتے ہیں۔
پھر جب مذکورہ تنظیم میں نا تجربہ کار ایک متحرک کی جگہ آجاتا ہے تو ہم اس کی ناتجربہ کاری کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا کر دراصل خود کو ''تنہا'' کررہے ہوتے ہیں جبکہ ہمارا ایک باشعور صحافی یا سیاسی ورکر مانند تنظیم سے جڑے رہنا نہایت ضروری ہوتا ہے، تاکہ ہماری موجودگی تنظیمی خدوخال کی درستگی میں معاون رہے،کمزوریوں اور خامیوں کو درست کیا جا سکے، تنگ آکر تنظیم چھوڑ دینے کا عمل ایسا ہی گردانا جائے گا کہ بچپن کے کھیل '' بال پٹھو'' میں جب کسی دوست کھلاڑی کی بال نشانے پر نہ لگے تو وہ کھلاڑی بال یا پٹھو لے جا کر نہ صرف سارے کھیل کو خراب کردے بلکی آپسی میل ملاپ کے ذریعوں کو بھی نقصان پہنچائے،کھیل یا تنظیم جہاں تبادلہ خیال کا ذریعہ ہوتے ہیں، وہیں وہ آپسی یکجہتی کے مظہر کے ساتھ تحمل برداشت اور دوسرے کے احساس جاننے کا بھی ذریعہ ہوتے ہیں۔
مشکل حالات اور جبر کے ماحول میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی تنظیم کو جوڑے رکھنے کے عمل میں معروف صحافی رہنما نثار عثمانی کی جان کُش خدمات کو عملی جامہ پہنانے میں ہم اجتماعی طور سے کیا کر سکے ہیں یا کیا کررہے ہیں۔ اس سوال کی دھمک اب تک موجودہ صحافی نسل کو اپنی طرف متوجہ صرف اس واسطے نہیں کرسکی ہے کہ ہم صحافیوں اور رہنماؤں نے اجتماعی طور سے تنظیم کو جوڑنے کے عمل سے کنارہ کش کر لی ہے یا اپنے اپنے ذاتی وگروہی مفادات کو تنظیم سے زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں، سوچیے کہ جنرل ضیا کا جبر اور صحافیوں کی تنظیمی بو کو سونگھتے مارشلائی ہرکارے اور نثار عثمانی سمیت منہاج برنا و دیگر کی بے خوف تنظیم کاری اور ایک ایک صحافی سے جڑت کا عمل ہی کی طاقت تو تھی کہ جنرل ضیا کی سمری عدالت سے سزا پانے کے بعد بھی نثار عثمانی اور ان کے رفقا کے پائے استقامت نہ لڑکھڑائے اور نہ ہی مارشل لاء کا قہر ان کے ارادوں کو کمزورکرسکا۔
قیدکی سزا ہوئی تو جیلر سے خندہ پیشانی سے نثار عثمانی نے قیدیوں کا لباس طلب کیا اور مشقت کے لیے عام قیدیوں کی طرح قیدکاٹی اور جبرکے سینے پر استقامت کی چٹان بنے سرخرو ہوئے۔ اب بھی وقت ہمارے ہاتھ ہے کہ ہم صحافت کے تمام دوستوں کو جوڑیں اور پھر سے تحمل رواداری اور احترام کی منڈلی بنائیں۔
وطن کی ستر سال سے زائد کی صورتحال کے تناظر میں بچپن والا وطن،محلہ،احباب، سماجی رچاؤ بساؤ اور رشتوں کی تکریم میں حکومتوں اور صاحب اقتدارکی ریشہ دوانیوں اور آمرانہ طرز فکر نے گویا سماجی ڈھانچہ تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ اب نہ تربیت میں صاحب عقل محلے دارکی آنکھ ہے نہ رشتے داروں کی حکایتیں، نہ احباب کی صاحب علم سے لبریز بیٹھکیں ہیں نہ خواتین کو ہنرمندی سکھانے والے رسالے حور اور زیب النسا رہے،نہ اخبارات پڑھنے کا شوق دلانے والی ٹارزن اورکمانڈرکہانیاں رہیں اور نہ وہ ڈھابے اور چوبارے جہاں سیاسی تبصروں کا سلسلہ لا متناعی چلتا رہتا تھا۔
اب ہم موجودہ ترقی میں سماجی اخلاقی اور سیاسی زوال کی ایک ایسی نشانی ہوچکے ہیں جو اپنے ترتیب شدہ ماضی کو تلاش کررہی ہے، موجودہ سیاسی بساط پر پھیلی غیردانش مندی نے سماج سے '' برداشت'' کو نکالا دے دیا ہے اور جھوٹ و فریب کے چلن کو عام کر کے جدید اہل علم وصحافت ''شہرت'' کے نام پر شخصی بونوں کے بدھے گن گانے کو فیشن اور سیاسی شعور قرار دینے کے در پہ ہیں۔ اس سمے مجھے بچپن کا ''لوڈو'' شدت سے یاد آرہا ہے جس میں تین کی تکون کو ختم کر کے چارکھلاڑیوں کے کھیلنے کو رکھا گیا تھا اور چارکھلاڑی اپنی قسمت کے پانسے اور مہارت سے سب سے پہلے لوڈو سے الگ ہوکر فاتح ہونے میں جتے رہتے تھے،آج کی سیاست میں مجھے لوڈو کے کھیل میں چار کھلاڑی کھیل کھیل کر فاتح ہونے کی کوششوں میں جتے لگتے ہیں جبکہ باہر بیٹھا پانچواں کھلاڑی سانپ سیڑھی کے کھیل میں دوسرے کی گوٹیوں کو ڈسنے کا منتظر ہے، دیکھنا یہ ہے کہ سانپ سیڑھی کا کھیل جیتتا ہے یا چارکھلاڑی ایک ہوجاتے ہیں۔
ہمارے اور سب کے بچپن کے گھر اور محلے کے کھیل بلاتخصیص رنگ و نسل اور جنس میں '' لوڈو'' اکڑ بکڑ بم بے بو، پیل دوج، پکڑم پکڑائی،کیرم اور بال ٹھیکرائی کسی نہ کسی طور زندگی بھرکی یاد بن جاتے ہیں اور انہی یادوں کی توانائی یا اجزائے ترکیبی اس وقت اور اہمیت اختیارکرجاتی ہے جب ہمارے بچپن کے بعد بھی بعض افراد میں وہی بچپن کی حماقتیں اکثر اوقات نظر آجاتی ہیں، ویسے یہ ایک لطیف احساس ضرور ہے مگر اسی کے ساتھ بچپن بھی تو بڑا یا سنجیدہ ہونا چاہتا ہے نا، سو ہم بچپن اور پچپن کے میل تال کو رویوں اور برتاؤکی وہ ''سیکھ'' دینے میں نجانے کیوں بے پرواہ سے لگتے ہیں، یہ شعوری یا غیرشعوری عمل ہم کسی نہ کسی بہانے کرتے رہتے ہیں مگر اس عمل کے عرصے بیت جانے کی ضرورت کو شاید ہم سمجھ نہیں سکتے یا جان بوجھ کر اسے اہمیت نہیں دیتے۔
اس مرحلے پر سماج کی مجموعی دانش اور سوچ کا سوال ہم سب کے سامنے مستقبل کا ایک ڈراؤنا احساس دلا دیتا ہے، پھر ہم سماجی رویوں کی مختلف اشکال پر غورکرتے کہیں کڑھتے ہیں اورکہیں احساس ندامت ہمارا پیچھا کر رہا ہوتا ہے، جیسا کہ عمیق تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں میرا مستقل یہ استدلال رہتا ہے کہ سماج میں اولاد کی شکایت خود کی ذمہ داریوں میں کمی سے شروع ہوکر ایک خاص سخت گیر رویے میں تبدیل ہوتی ہے جوکہ کسی طور درست نہیں سمجھی جاسکتی، اس مقام پر میرا کہنا ہے کہ'' جس دن آپ نے اولاد کو والدین کے حاکمانہ رویوں میں دیکھنا شروع کیا تو یقین رکھیے کہ رشتے کمزور ہونا شروع ہوجائیں گے،کیونکہ والدین اولاد کے رہنما ہوتے ہیں، حاکم نہیں۔''
اس ضمن میں یہ بات بھی بنیادی ہے کہ '' رہنمائی'' ہی عزت و وقار اور تہذیب بر برتاؤ کی متقاضی ہوا کرتی ہے،گویا تحمل، برداشت اور دانش کی '' رہنمایانہ'' صفت کو جس قدر مانجھیں گے اسی قدر تہذیب اور برتاؤ کا برتن چمکے گا جوکہ نسل کی یاد کا وہ خوبصورت اظہار یا حوالہ ہوگا جو آپ کی زندگی کو صیقل کردے گا۔میری مذکورہ باتیں نہ حکیمانہ ہیں اور نہ کسی کی تربیت کرنے کا کوئی نسخہ بلکہ مذکورہ تجربات ایک طویل سیاسی صحافتی بے روزگاری کی کٹھناؤں کا ایک فطری اظہاریہ ہے جو شاید مجھ سمیت بہت سے جہاندیدہ کرچکے ہوں یا ان تجربات سے محروم رہے ہوں، ہم اکثر سماج یا معاشرے کے منفی رویوں پرکڑھتے رہتے ہیں یا اپنی دانست میں کسی بھی تنظیم کے اصول نہ مقدم رکھنے کے عمل میں '' تنظیم'' سے کنارہ کشی اختیارکرلیتے ہیں۔
پھر جب مذکورہ تنظیم میں نا تجربہ کار ایک متحرک کی جگہ آجاتا ہے تو ہم اس کی ناتجربہ کاری کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا کر دراصل خود کو ''تنہا'' کررہے ہوتے ہیں جبکہ ہمارا ایک باشعور صحافی یا سیاسی ورکر مانند تنظیم سے جڑے رہنا نہایت ضروری ہوتا ہے، تاکہ ہماری موجودگی تنظیمی خدوخال کی درستگی میں معاون رہے،کمزوریوں اور خامیوں کو درست کیا جا سکے، تنگ آکر تنظیم چھوڑ دینے کا عمل ایسا ہی گردانا جائے گا کہ بچپن کے کھیل '' بال پٹھو'' میں جب کسی دوست کھلاڑی کی بال نشانے پر نہ لگے تو وہ کھلاڑی بال یا پٹھو لے جا کر نہ صرف سارے کھیل کو خراب کردے بلکی آپسی میل ملاپ کے ذریعوں کو بھی نقصان پہنچائے،کھیل یا تنظیم جہاں تبادلہ خیال کا ذریعہ ہوتے ہیں، وہیں وہ آپسی یکجہتی کے مظہر کے ساتھ تحمل برداشت اور دوسرے کے احساس جاننے کا بھی ذریعہ ہوتے ہیں۔
مشکل حالات اور جبر کے ماحول میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی تنظیم کو جوڑے رکھنے کے عمل میں معروف صحافی رہنما نثار عثمانی کی جان کُش خدمات کو عملی جامہ پہنانے میں ہم اجتماعی طور سے کیا کر سکے ہیں یا کیا کررہے ہیں۔ اس سوال کی دھمک اب تک موجودہ صحافی نسل کو اپنی طرف متوجہ صرف اس واسطے نہیں کرسکی ہے کہ ہم صحافیوں اور رہنماؤں نے اجتماعی طور سے تنظیم کو جوڑنے کے عمل سے کنارہ کش کر لی ہے یا اپنے اپنے ذاتی وگروہی مفادات کو تنظیم سے زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں، سوچیے کہ جنرل ضیا کا جبر اور صحافیوں کی تنظیمی بو کو سونگھتے مارشلائی ہرکارے اور نثار عثمانی سمیت منہاج برنا و دیگر کی بے خوف تنظیم کاری اور ایک ایک صحافی سے جڑت کا عمل ہی کی طاقت تو تھی کہ جنرل ضیا کی سمری عدالت سے سزا پانے کے بعد بھی نثار عثمانی اور ان کے رفقا کے پائے استقامت نہ لڑکھڑائے اور نہ ہی مارشل لاء کا قہر ان کے ارادوں کو کمزورکرسکا۔
قیدکی سزا ہوئی تو جیلر سے خندہ پیشانی سے نثار عثمانی نے قیدیوں کا لباس طلب کیا اور مشقت کے لیے عام قیدیوں کی طرح قیدکاٹی اور جبرکے سینے پر استقامت کی چٹان بنے سرخرو ہوئے۔ اب بھی وقت ہمارے ہاتھ ہے کہ ہم صحافت کے تمام دوستوں کو جوڑیں اور پھر سے تحمل رواداری اور احترام کی منڈلی بنائیں۔
وطن کی ستر سال سے زائد کی صورتحال کے تناظر میں بچپن والا وطن،محلہ،احباب، سماجی رچاؤ بساؤ اور رشتوں کی تکریم میں حکومتوں اور صاحب اقتدارکی ریشہ دوانیوں اور آمرانہ طرز فکر نے گویا سماجی ڈھانچہ تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ اب نہ تربیت میں صاحب عقل محلے دارکی آنکھ ہے نہ رشتے داروں کی حکایتیں، نہ احباب کی صاحب علم سے لبریز بیٹھکیں ہیں نہ خواتین کو ہنرمندی سکھانے والے رسالے حور اور زیب النسا رہے،نہ اخبارات پڑھنے کا شوق دلانے والی ٹارزن اورکمانڈرکہانیاں رہیں اور نہ وہ ڈھابے اور چوبارے جہاں سیاسی تبصروں کا سلسلہ لا متناعی چلتا رہتا تھا۔
اب ہم موجودہ ترقی میں سماجی اخلاقی اور سیاسی زوال کی ایک ایسی نشانی ہوچکے ہیں جو اپنے ترتیب شدہ ماضی کو تلاش کررہی ہے، موجودہ سیاسی بساط پر پھیلی غیردانش مندی نے سماج سے '' برداشت'' کو نکالا دے دیا ہے اور جھوٹ و فریب کے چلن کو عام کر کے جدید اہل علم وصحافت ''شہرت'' کے نام پر شخصی بونوں کے بدھے گن گانے کو فیشن اور سیاسی شعور قرار دینے کے در پہ ہیں۔ اس سمے مجھے بچپن کا ''لوڈو'' شدت سے یاد آرہا ہے جس میں تین کی تکون کو ختم کر کے چارکھلاڑیوں کے کھیلنے کو رکھا گیا تھا اور چارکھلاڑی اپنی قسمت کے پانسے اور مہارت سے سب سے پہلے لوڈو سے الگ ہوکر فاتح ہونے میں جتے رہتے تھے،آج کی سیاست میں مجھے لوڈو کے کھیل میں چار کھلاڑی کھیل کھیل کر فاتح ہونے کی کوششوں میں جتے لگتے ہیں جبکہ باہر بیٹھا پانچواں کھلاڑی سانپ سیڑھی کے کھیل میں دوسرے کی گوٹیوں کو ڈسنے کا منتظر ہے، دیکھنا یہ ہے کہ سانپ سیڑھی کا کھیل جیتتا ہے یا چارکھلاڑی ایک ہوجاتے ہیں۔