گائے کا گوشت اور بھارتی مسلمان
آر ایس ایس کے رہنماؤں نے ہندوستانی مسلمانوں کو برصغیر سے باہر نکالنے کے لیے بھی مہم شروع کی
آر ایس ایس یعنی راشٹریہ سیوک سنگھ ایک انتہاپسند ہندو مراٹھا ڈاکٹر بلی رام ہیگرے نے قائم کی تھی۔ اس تنظیم کا مقصد اکھنڈ بھارت اور ہندوراج قائم کرنا تھا۔ یہ انتہا پسند تنظیم ہندو اقتدار کے لیے مسلح جدوجہد کرنا اور اس مقصد کے حصول کے لیے ہر قسم کے آتشیں اسلحے کا استعمال سکھانا تھا۔ اس تنظیم نے اپنے نظریات کی ترویج کے لیے کتابیں اور کتابچے چھاپ کر پورے ہندوستان میں پھیلائے۔
ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلہ اگلہ۔ آر ایس ایس کے رہنماؤں نے ہندوستانی مسلمانوں کو برصغیر سے باہر نکالنے کے لیے بھی مہم شروع کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان غیر مقامی ہیں۔ یہ باہر سے آئے ہیں اس لیے انھیں ہندوستان سے باہر نکال دینا چاہیے۔ آر ایس ایس صرف انھی ہتھکنڈوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے شدھی تحریک بھی شروع کی جس کے ذریعے مسلمانوں کو ہندو بنانا تھا۔
یہ تحریک شہروں میں تو ناکام رہی البتہ ہندوستان کے دور دراز دیہی علاقوں میں کچھ ان پڑھ مسلمان ضرور مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ انگریزوں کی شہہ پر آر ایس ایس اپنی انتہاپسند پالیسی پر گامزن رہی۔ انگریزوں نے ان پر مسلمانوں کے خلاف تحریک چلانے پر کوئی پابندی نہیں لگائی تھی کیونکہ وہ خود ایسا ہی چاہتے تھے۔ وہ 1857 کی جنگ آزادی کا ذمے دار مسلمانوں کو قرار دیتے تھے جب کہ اس تحریک میں ہندو بھی برابر کے شریک تھے مگر بعد میں ہندوؤں نے انگریزوں سے گٹھ جوڑ کر لیا تھا۔ آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند ہندو تنظیمیں انگریز حکومت کے اشاروں پر کام کر رہی تھیں۔ گائے ذبح کرنے کے خلاف بھی آر ایس ایس نے پورے ہندوستان میں مہم چلا رہی تھی۔
جب کانگریس نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک شروع کی تو بھی یہ انتہا پسند تنظیمیں انگریزوں کا دم بھرتی رہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کا ہندوستان کو آزاد کرانے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ انھوں نے انگریزوں کے کہنے پر ہندو مسلم نفرت پیدا کرنے کا جو بیڑہ اٹھایا تھا وہ اس کام کو اس وقت سے لے کر اب تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پہلے اکثر مسلمان کانگریس کے ساتھ تھے اور ہندوؤں کے ساتھ مل کر انگریزوں کو ہندوستان سے باہر کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے مگر جب ہندوستان کے کئی علاقوں میں انتہا پسند ہندو تنظیموں نے خصوصاً بہار میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا تو مسلمانوں کو احساس ہوا کہ اگر انگریز چلے گئے اور ہندوستان آزاد ہو گیا تو وہ ہندوؤں کے رحم و کرم پر ہوں گے چنانچہ کئی مسلمان سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کر دیا۔ مسلم لیگ کے رہنماؤں اور کانگریس میں موجود مسلمان رہنما بھی آزادی کے بعد مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنے لگے۔ خطرہ سامنے نظر آنے کے باوجود بھی کئی مسلم رہنما متحدہ ہندوستان کو ہی مسلمانوں کے لیے بہتر راستہ خیال کرتے تھے تاہم مسلم لیگ کی تحریک کامیاب ہوئی اور پاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔
بھارت میں آر ایس ایس کی بغل بچہ بی جے پی سرکار برسر اقتدار ہے جو پاکستان کے خلاف جس قدر بھی نفرت پھیلا سکتی ہے پھیلا رہی ہے اور بھارتی مسلمانوں کا بے دریغ خون بہا رہی ہے۔ بھارت میں اس وقت گائے کا گوشت مسلمانوں کے لیے موت کا پیغام بن گیا ہے۔ بی جے پی کے غنڈوں کے لیے گوشت کی آڑ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنا اور انھیں شہید کرنا آسان ہو گیا ہے اس لیے کہ مودی حکومت ایسی زیادتیوں اور ہلاکتوں کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیتی ۔
کتنے ہی معصوم مسلمانوں کو گائے کا گوشت گھر میں رکھنے یا بیچنے کے جھوٹے الزام میں موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے، اب چند برسوں سے مسلمانوں کے خلاف ایک نئے ظلم نے جنم لیا ہے، اب اگر کسی مسلمان کا کسی ہندو سے جھگڑا ہو جائے یا بی جے پی کے خلاف کوئی بات کرے تو اس کا گھر بلڈوزر سے گرا دیا جاتا ہے۔ اب تک مدھیہ پردیش، یوپی اور راجستھان میں کئی مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کر دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے پرزور احتجاج کے باوجود بھی یہ ظلم بند نہیں کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی حکومت باقاعدہ اس کا دفاع کرتی ہے اور عدالتیں الٹا مسلمانوں کو ہی قصور وار ٹھہراتی ہیں۔ ایک تازہ خبر کے مطابق ہریانہ میں ایک 12 ویں جماعت کے طالب کو بی جے پی کے ''گائے محافظین'' جنھیں ''گؤ رکھشک'' کہا جاتا ہے، نے اسے مویشیوں کا بیوپاری سمجھ کر مار مار کر ہلاک کر دیا جب کہ یہ معصوم لڑکا صرف طالب علم تھا اور ہندو تھا ، وہ اپنے غریب خاندان کا سہارا بننے کے لیے تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ گو رکھشکوں نے اسے مسلمان سمجھ کر تشدد کرے قتل کردیا۔
ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلہ اگلہ۔ آر ایس ایس کے رہنماؤں نے ہندوستانی مسلمانوں کو برصغیر سے باہر نکالنے کے لیے بھی مہم شروع کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان غیر مقامی ہیں۔ یہ باہر سے آئے ہیں اس لیے انھیں ہندوستان سے باہر نکال دینا چاہیے۔ آر ایس ایس صرف انھی ہتھکنڈوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے شدھی تحریک بھی شروع کی جس کے ذریعے مسلمانوں کو ہندو بنانا تھا۔
یہ تحریک شہروں میں تو ناکام رہی البتہ ہندوستان کے دور دراز دیہی علاقوں میں کچھ ان پڑھ مسلمان ضرور مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ انگریزوں کی شہہ پر آر ایس ایس اپنی انتہاپسند پالیسی پر گامزن رہی۔ انگریزوں نے ان پر مسلمانوں کے خلاف تحریک چلانے پر کوئی پابندی نہیں لگائی تھی کیونکہ وہ خود ایسا ہی چاہتے تھے۔ وہ 1857 کی جنگ آزادی کا ذمے دار مسلمانوں کو قرار دیتے تھے جب کہ اس تحریک میں ہندو بھی برابر کے شریک تھے مگر بعد میں ہندوؤں نے انگریزوں سے گٹھ جوڑ کر لیا تھا۔ آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند ہندو تنظیمیں انگریز حکومت کے اشاروں پر کام کر رہی تھیں۔ گائے ذبح کرنے کے خلاف بھی آر ایس ایس نے پورے ہندوستان میں مہم چلا رہی تھی۔
جب کانگریس نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک شروع کی تو بھی یہ انتہا پسند تنظیمیں انگریزوں کا دم بھرتی رہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کا ہندوستان کو آزاد کرانے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ انھوں نے انگریزوں کے کہنے پر ہندو مسلم نفرت پیدا کرنے کا جو بیڑہ اٹھایا تھا وہ اس کام کو اس وقت سے لے کر اب تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پہلے اکثر مسلمان کانگریس کے ساتھ تھے اور ہندوؤں کے ساتھ مل کر انگریزوں کو ہندوستان سے باہر کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے مگر جب ہندوستان کے کئی علاقوں میں انتہا پسند ہندو تنظیموں نے خصوصاً بہار میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا تو مسلمانوں کو احساس ہوا کہ اگر انگریز چلے گئے اور ہندوستان آزاد ہو گیا تو وہ ہندوؤں کے رحم و کرم پر ہوں گے چنانچہ کئی مسلمان سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کر دیا۔ مسلم لیگ کے رہنماؤں اور کانگریس میں موجود مسلمان رہنما بھی آزادی کے بعد مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنے لگے۔ خطرہ سامنے نظر آنے کے باوجود بھی کئی مسلم رہنما متحدہ ہندوستان کو ہی مسلمانوں کے لیے بہتر راستہ خیال کرتے تھے تاہم مسلم لیگ کی تحریک کامیاب ہوئی اور پاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔
بھارت میں آر ایس ایس کی بغل بچہ بی جے پی سرکار برسر اقتدار ہے جو پاکستان کے خلاف جس قدر بھی نفرت پھیلا سکتی ہے پھیلا رہی ہے اور بھارتی مسلمانوں کا بے دریغ خون بہا رہی ہے۔ بھارت میں اس وقت گائے کا گوشت مسلمانوں کے لیے موت کا پیغام بن گیا ہے۔ بی جے پی کے غنڈوں کے لیے گوشت کی آڑ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنا اور انھیں شہید کرنا آسان ہو گیا ہے اس لیے کہ مودی حکومت ایسی زیادتیوں اور ہلاکتوں کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیتی ۔
کتنے ہی معصوم مسلمانوں کو گائے کا گوشت گھر میں رکھنے یا بیچنے کے جھوٹے الزام میں موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے، اب چند برسوں سے مسلمانوں کے خلاف ایک نئے ظلم نے جنم لیا ہے، اب اگر کسی مسلمان کا کسی ہندو سے جھگڑا ہو جائے یا بی جے پی کے خلاف کوئی بات کرے تو اس کا گھر بلڈوزر سے گرا دیا جاتا ہے۔ اب تک مدھیہ پردیش، یوپی اور راجستھان میں کئی مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کر دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے پرزور احتجاج کے باوجود بھی یہ ظلم بند نہیں کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی حکومت باقاعدہ اس کا دفاع کرتی ہے اور عدالتیں الٹا مسلمانوں کو ہی قصور وار ٹھہراتی ہیں۔ ایک تازہ خبر کے مطابق ہریانہ میں ایک 12 ویں جماعت کے طالب کو بی جے پی کے ''گائے محافظین'' جنھیں ''گؤ رکھشک'' کہا جاتا ہے، نے اسے مویشیوں کا بیوپاری سمجھ کر مار مار کر ہلاک کر دیا جب کہ یہ معصوم لڑکا صرف طالب علم تھا اور ہندو تھا ، وہ اپنے غریب خاندان کا سہارا بننے کے لیے تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ گو رکھشکوں نے اسے مسلمان سمجھ کر تشدد کرے قتل کردیا۔