وائٹ واش ٹائیگرز کو آسان شکار سمجھنے کا بھیانک انجام
اس وائٹ واش کی بنیاد اسی وقت رکھ دی گئی جب پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز ڈیکلیئرڈ کی گئی تھی
31 مئی 1999 یہ تاریخ شائقین کرکٹ کو یاد بھی نہیں ہوگی مگر وہ دن بھی پاکستان کرکٹ کیلئے کسی یوم سیاہ سے کم نہیں تھا، جب اپنے ورلڈکپ میچز میں فتح پر فتح حاصل کرنے والی پاکستانی ٹیم کو بنگال ٹائیگرز نے اچانک دبوچ لیا، یہ وہ میچ تھا جس میں ماضی کے سپر اسٹارز مکمل طور پر ناکام رہے تھے، ان کے مدمقابل نوجوان اور کم تجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم تھی مگر گرین شرٹس کو 62 رنز سے شکست ہوگئی، 224 رنز کے تعاقب میں ٹاپ 5 بیٹرز سعیدانور، شاہد آفریدی، اعجاز احمد، انضمام الحق اور سلیم ملک میں سے کوئی بھی 10 رنز نہیں بناسکا تھا۔
اس شکست کے بعد پاکستانی شائقین کرکٹ پر ویسی ہی قیامت ٹوٹی تھی جیسی اب ٹوٹی ہے۔ اس ورلڈکپ کے ایک برس بعد 26 جون 2000 کو بنگلہ دیش کو ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل ہوا اور پاکستان کے ساتھ طویل فارمیٹ میں باہمی سیریز 2001 میں کھیلی تب سے 20 اگست تک دونوں ملکوں کے درمیان کھیلی گئی ہر سیریز پاکستان نے جیتی، اس دوران کسی ایک ٹیسٹ میں بھی بنگلہ دیشی ٹیم گرین کیپس کو زیر نہیں کرسکی مگر پھر 1999 کے ورلڈکپ کی طرح اس ہوم ٹیسٹ سیریز میں بھی پاکستان کا بنگال ٹائیگرز کے خلاف ناقابل شکست رہنے کا بھرم ٹوٹ گیا۔
حالیہ ٹیسٹ سیریز سے قبل پاکستانی کپتان شان مسعود اور ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی کافی پْرجوش تھے، ٹیم میں اختلافات کی سرگوشیوں سے کان بند کرلیے گئے تھے، ڈریسنگ روم کے کشیدہ ماحول سے متعلق نسیم شاہ کی دبے لفظوں میں نشاندہی کو نظر انداز کردیا گیا، ٹیم مینجمنٹ کافی پْراعتماد اور ہوم گراؤنڈ پر بنگال ٹائیگرز کا کھلی آنکھوں سے دیکھے گئے خواب میں شکار بھی کرچکی تھی۔
اسی خوش فہمی کا نتیجہ تھا کہ پہلے ٹیسٹ کی پلئینگ الیون میں 4 پیسرز کو میدان میں اتار دیا گیا اور پھر 448 کے ٹوٹل کو کوہ ہمالیہ سمجھتے ہوئے اننگز بھی ڈیکلیئرڈ کردی۔ کوچ، کپتان اور دیگر متعلقہ آفیشلز کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ وہ بنگلہ دیشی ٹیم جس کو ملک میں سیاسی انتشار کی وجہ سے ٹریننگ کا موقع ہی نہ مل سکا ہو، جسے قبل از وقت اپنے ملک بلاکر سیریز کی تیاری کا موقع فراہم کیا گیا ہو، وہ جس کے اکثرسینئر کھلاڑی گذشتہ کچھ عرصے سے آؤٹ آف فارم ہوں، جس کے بولنگ اٹیک میں دم نہ ہو، وہ بنگلہ دیشی ٹیم کیسے حقیقی بنگال ٹائیگرز کا روپ دھار سکتی ہے۔
اس وائٹ واش کی بنیاد اسی وقت رکھ دی گئی جب پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز ڈیکلیئرڈ کی گئی تھی، اس کے بعد ملکی انٹرنیٹ کی طرح سست پڑنے والا پیس اٹیک مہمان کھلاڑیوں کو بیٹنگ پریکٹس کراتا رہا اور انھوں نے ہنستے کھیلتے 565 رنز بنا دیے، جواب میں اسی پچ پر نام نہاد اسٹارز سے سجی پاکستانی ٹیم پر ایسا لرزہ طاری ہوا کہ پوری 10 وکٹیں 146 کے اسکور پر گرگئیں ، 30 رنز کا معمولی ہدف بنگلہ دیش نے بغیر کوئی وکٹ گنوائے حاصل کرلیا، پہلی بار بنگلہ دیش کے ہاتھوں ٹیسٹ میں شکست ہوئی، پہلی بار پاکستان ٹیم اپنے ملک میں 10 وکٹ کی ناکامی کا شکار ہوئی۔
اس رسوائی کے بعد ٹیم مینجمنٹ نے بجائے شکست کی اصل وجوہات پر توجہ دینے اور تلافی کرنے کے ساری خرابی کی جڑ فاسٹ بولرز شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کو تصور کرلیا، آخری 12 کھلاڑیوں میں شاہین کو شامل نہیں کیا اور پھر حتمی الیون سے نسیم شاہ کا نام بھی کاٹ دیا گیا۔ اس کے ساتھ الیون میں فاسٹ بولر میرحمزہ کے ساتھ اسپیشلسٹ اسپنر ابرار احمد کو شامل کیا گیا۔ پہلے میچ میں ٹیم مینجمنٹ اسپیشلسٹ اسپنر نہ کھلانے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ تب دوسری اننگز میں بنگلہ دیشی اسپن بولرز مہدی حسن اور شکیب الحسن نے میزبان سائیڈ پر کاری ضرب لگائی تھی، دوسرے ٹیسٹ میں ابرار کو کھلایا تو گیا مگر ان کی موجودگی سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔
دوسرے ٹیسٹ میں پاکستانی بیٹنگ لائن بڑا ٹوٹل بنانے میں ناکام رہی اور 274 رنز پر آؤٹ ہوگئی، جواب میں خرم شہزاد اور میرحمزہ کی عمدہ بولنگ نے بنگلہ دیش کی صرف 26 رنز کے دوران 6 وکٹیں اڑا دیں، اس موقع پر پاکستانی ٹیم شاید پھر خوش فہمی کا شکار ہوگئی کہ بس 50 کے اندر مہمان سائیڈ کا صفایا کرکے ان کو فالو آن کرادیں گے، بولرز نے بھی جو پریشر بنایا تھا اس کو خود ہی زائل کرنا شروع کردیا اور کچھ ہی دیر گزری تھی کہ پاکستانی بولنگ اٹیک لٹن داس اور مہدی حسن کی دھن پر ناچتا ہوا دکھائی دیا، دونوں نے ریکارڈ شراکت سے ٹیم کو نازک صورتحال سے نکالا اور پہلی اننگز کا ٹوٹل 262 رنز تک پہنچایا، اس طرح پاکستان کو 10 رنز کی ہی سبقت مل سکی، دوسری باری میں پھر پاکستانی بیٹنگ کا فیوز جلد ہی اڑگیا اور ٹیم 172 رنز پر ڈھیر ہوگئی ، بنگلہ دیشی سائیڈ185 رنز کا ہدف 4 وکٹ پر حاصل کرکے تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے خلاف کلین سوئپ کرنے میں کامیاب رہی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش نے اپنی پوری ٹیسٹ تاریخ میں ملک سے باہر تیسری مرتبہ ٹیسٹ سیریز جیتی ہے، پہلی بار 2009 میں اس وقت ویسٹ انڈیز میں 2 میچز کی سیریز میں کلین سوئپ کیا جب تمام اہم میزبان کرکٹرز آئی پی ایل کھیلنے کی اجازت نہ ملنے پر ہڑتال پر تھے، جس کی وجہ سے نئے کھلاڑیوں کو میدان میں اتارا گیا تھا، دوسری سیریز زمبابوے میں 0-1 سے جیتی اور اب پاکستان کے خلاف فتح پائی۔
اس شکست کے ساتھ پاکستان اپنے ملک میں ابتدائی 10 ٹیسٹ اقوام میں شامل تمام ٹیموں سے سیریز ہارنے والا دوسرا ملک بن گیا، پہلے ملک کا منفی ریکارڈ بنگلہ دیش کے نام ہے۔ کسی بھی طنز یا مذاق سے ہٹ کر پاکستان کرکٹ کو حقیقت میں بڑی سرجری کی ضرورت ہے مگر یہ سرجری صرف ٹیم تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کا آغاز فیصلہ سازوں سے ہونا چاہیے۔
وہ کون ہے جس کو اپنی ہوم کنڈیشنز پسند نہیں جو انھیں کبھی تو آسٹریلیا اور کبھی انگلینڈ جیسا بنانا چاہتا ہے، وہ کون ہے جو ملکی ماہرین سے فائدہ اٹھانے کے بجائے کیوریٹر بھی باہر سے بلوا رہا ہے، وہ کون لوگ ہیں جو یہ مشورے دیتے ہیں کہ ہمیں ریڈ بال فارمیٹ کوکابورا اور وائٹ بال کرکٹ ڈیوک بال سے کھیلنی چاہیے، ٹیم میں اگر اختلافات ہیں تو اس کی وجہ بننے والے کون ہیں، ٹیم کے اتحاد کو کپتانی کے چکر میں کس نے پارہ پارہ کیا، ٹیسٹ سیزن کے دوران ڈومیسٹک ون ڈے ٹورنامنٹ کیوں کھیلا جارہا ہے، بیٹرز اچانک بیٹنگ کرنا کیوں بھول گئے، وہ بھول گئے یا کھیلنا ہی نہیں چاہتے، شان کی کپتانی میں خرابی ہے یا شان کو کچھ لوگ کپتان دیکھنا ہی نہیں چاہتے، پیسرز کی اسپیڈ میں گراوٹ کیوں آئی، ان کا ردھم ایک میچ کھلا کر باہر بٹھانے سے کیا واپس آجائے گا، ناقص فیلڈنگ کا برسوں پرانا مسئلہ کیا میلے گدوں پر ڈائیو لگانے سے حل ہوجائے گا؟ اسی قسم کے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب ڈھونڈ کر ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔n