من چلے کا سودا
1947 کا سال ہندوستان میں بسنے والے تمام مسلمانوں اور غیر مسلم لوگوں کے لیے نہایت اہم ثابت ہوا۔
1947 کا سال ہندوستان میں بسنے والے تمام مسلمانوں اور غیر مسلم لوگوں کے لیے نہایت اہم ثابت ہوا۔ اس سال مسلمانوں کو نظریاتی طور پر آزاد حیثیت سے تسلیم کیا گیا اور ہندو انگریز سامراج کی غلام گردشوں سے آزاد ہوئے، یعنی ہندو توا اور اسلامی شریعت پر مبنی دو الگ الگ ریاستیں جنوبی ایشیا کے نقشے پر نمودار ہوئیں اور ان نظریات کا پڑوس آباد ہوا لیکن افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان نے ابتداء سے لے کر اب تک پاکستان کا نہ تو وجود برداشت کیا اور نہ ہی اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی اور اس سے الحاق ہونے والی کئی مسلم ریاستوں کو فوجی جارحیت سے اپنے قبضہ میں کیے رکھا ہے۔
جن میں جونا گڑھ اور جموں وکشمیر کی ریاستیں قابل ذکر ہیں جہاں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود حق خودارادیت کی پامالی کی جا رہی ہے قیام کے بعد وطن عزیز کے لیے طے شدہ رقم بھی اس لیے ہتھیا لی گئی تاکہ ملک میں مالی بدحالی کی صورتحال پیدا ہو، عوام پریشان ہوں اوراس کے سامنے ہاتھ پھیلائیں اور امداد کے عوض بھارت ملک کے داخلی معاملات میں اپنی باتوں کو نہ صرف منواسکے بلکہ اس کے اشاروں پر کاروبار زندگی آگے بڑھے مگر پاکستان کے غیور قوم تو وہ ہیں جو ایسے رزق کو قبول نہیں کرتے جس سے ان کی پرواز میں کمی آئے، لہٰذا اس نے اللہ کی مدد سے استقامت کا مظاہرہ کیا اور کم کو زیادہ جانا۔ بھارت نے اس صورتحال کو آڑے ہاتھوں لیا اور دونوں ممالک کے درمیان کئی جنگیں بھی ہوئیں۔
1965 میں پاکستان پر چڑھائی کردی جب کہ عوام نے افواج کے شانہ بشانہ اللہ کی مدد سے سرخروئی پائی اور دشمن کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر اس نے بدلہ لینے کے لیے تعصب کا حملہ کیا اور 1971 میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں قومیت و لسانیت کی آگ لگائی جو کارگر ثابت ہوئی اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ یہ ایک بہت ہی گہرا زخم تھا جو ہمارے ملک کو لگایا گیا۔ بھارت کو کبھی بھی پاکستان یا اس کے عوام سے کوئی ہمدردی نہیں رہی۔ اس نے ہمیشہ پیچھے سے وار کیا، دہشت گردی کے ذریعے ملک کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، راولپنڈی میں لیاقت علی خان کا قتل اس کی واضح مثال ہے جب کہ اپنے ملک میں ہونے والی کارروائیوں میں بلاجواز پاکستان ہی کو قصور وار ٹھہرایا۔
پاکستان نے کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی امداد کا بیڑا اٹھایا تو اس نے بلوچ علیحدگی پسندوں کو گود لے لیا۔ ان تمام خرابیوں کے باوجود ہمارا ظرف دیکھیے کہ پاکستان نے ہمیشہ اسے بڑے بھائی کا درجہ دیا اور ملک میں برسراقتدار تمام سربراہوں نے خطے میں پائیدار امن کے لیے سیاسی، اقتصادی اور سفارتی سطح پر ہمیشہ مثبت پیش رفت کی کوششیں کیں۔ بہتر تعلقات کی خاطر تمام برسراقتدار سربراہان نے نہ صرف ملک کی سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود بھارت کے دورے کیے بلکہ اس طرف سے اہم اہم شخصیات کی آمد پر ان کا پرتپاک استقبال بھی کیا تاکہ دونوں ممالک کے مابین ثقافتی وتجارتی تعلقات میں بہتری آئے اور عوام کے باہمی دیرینہ مراسم بھی بحال رہیں۔
نواز شریف اس حوالے سے اہم شخصیت تصورکیے جاتے ہیں، انھوں نے اپنے ہر دور حکومت میںخارجہ پالیسی کو مضبوط بنایا، سفارتی لحاظ سے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات اور خطے میں سازگار ماحول کے لیے اقدامات کیے۔ 1999ء میں بھارتی ہم منصب وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ان ہی نکات پر خصوصی مفاہمتی کوششیں کیں لیکن بدقسمتی سے طیارہ کیس نے انھیں بارآور نہ ہونے دیا۔ مشرف نے بھی کسی حد تک اس جانب پیش رفت کے لیے کام کیا پر بھارت کی ہٹ دھرمی آڑے آئی جس نے اسے آگے بڑھنے نہ دیا۔ بی جے پی گو کہ کانگریس کی نسبت قد آور بھارت کی سیاسی جماعت نہیں ہے اس کے باوجود اس نے باہمی تعلقات کے لیے ہمیشہ پیش رفت کا قدرے بہتر جواب دیا ہے۔
کانگریس کے گزشتہ دو ادوار میں تعلقات میں تعطل من موہن سنگھ کی کمزور حکومت کا اہم کردار رہا ہے اس کی بنیادی وجہ کانگریس کی حکومت اتحادیوں کے بل بوتے چلتی رہی جب کہ اختیار کل من موہن کی بجائے پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی تھیں جو حکومتی فیصلہ سازی پر مسلط اور متاثر ہوتی رہیں۔ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے پر گمان ہے کہ نہ صرف یہ حکومت فیصلہ ساز ہوگی بلکہ مودی ایک طاقت ور وزیر اعظم کے طور پر سامنے آئیں گے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ انھیں معاشی ترقی کا وسیع تجربہ ہے، ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں گجرات کی نمایاں ترقی دیکھی گئی۔
ملک بھر کے سرمایہ کاروں کو ان پر اعتماد ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ وہ ان سرمایہ کاروں ہی کے نمایندے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب نو منتخب بھارتی وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے دہلی پہنچ گئے۔ دہلی پہنچ کر انھوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کردیا کہ انھیں مودی سے متعلق کسی قسم کے خدشات نہیں ہیں، وہ مودی سے وہیں سے تعلقات کی بنیاد رکھیں گے، جہاں سے 1999ء میں تعطل کا شکار ہوئے تھے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں حکومتوں کو جو بھاری مینڈیٹ ملا ہے وہ باہمی تعلقات میں نئے دور کے آغاز کا نقیب اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل میں سود مند ثابت ہوگا۔
علاوہ ازیں انھوں نے دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد، بد ظنی اورخوف کے خاتمہ پر زور دیا۔ تجزیہ کاروں اور میڈیا نے مودی نواز ملاقات کو اعلیٰ سطح پر بہتری کے لیے نیا موڑ قرار دیا کیونکہ ایک طویل عرصہ بعد اعلیٰ سطح پر پہلی ملاقات تھی جب کہ مودی نے بھی اپنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بیان میں کہا کہ کسی ملک کی خارجہ پالیسی اس کی اندرونی معاشی طاقت اور استحکام کی بناء پر استوار ہوتی ہے، ہم اس پر عمل پیرا ہوکر ملک کا مستقبل تابناک بنائیں گے۔ یہ تاریخی حقیقت بھی ہے کہ کوئی ملک فوجی طاقت سے دنیا میں مہمیز نہیں ہوتا بلکہ معاشی استحکام ہی اس کے لیے بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ وہ سلطنت جو فوجی اخراجات کو بڑھادیتی ہے آخر میں فنا ہوجاتی ہے۔
عظیم رومن سلطنت سے لے کرسوویت یونین تک کی ایک ہی کہانی ہے۔ عام تاثر تھا کہ نواز شریف کی مودی سے پون گھنٹے پر محیط ملاقات میں اہم معاملات پر بات چیت ہوگی جس سے خطے میں مسائل کے حل کی جانب راہ ہموار ہوگی لیکن بھارتی ہم منصب نے میاں صاحب کو چارج شیٹ تھما دی جس میں وہ مطالبات پیش کر ڈالے جن سے یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ بھی خطے میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور پاکستان کو خطے میں دہشت گردی کا ذمے دار گردانتے ہیں۔
انھوں نے اس کا ذکر بھی اپنے مطالبات میں کیا ہے جن میں پاکستان بھارت کے ساتھ خطے میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے تعاون کرے حالانکہ پاکستان 9/11 کے بعد اب تک پرائی جنگ میں اپنے اندر دہشت گردی سمو چکا ہے اور اسے جس قدر نقصان پہنچا ہے اس کا تصور کرنا بہت مشکل ہے جب کہ ممبئی حملوں میں ملوث منصوبہ سازوں کے لیے بھارت کا کارروائی کا مطالبہ اور یہ کہنا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کرنے میں نرم گوشہ رکھتا ہے۔
پاکستان کے اخلاص پر شبہ، دوستی پر قدغن اور محاذ آرائی کی کوشش ہے جب کہ ملاقات کے دوران میاں صاحب مسلسل محاذآرائی کی روش ترک کرنے کا اصرار کرتے رہے، مسئلہ کشمیر پر تو بات چیت کا آغاز ہی نہیں ہوا تو دیگر معاملات پر کیا کان دھرے جاتے۔ گمان تھا کہ جس پرتپاک انداز سے نواز شریف کا استقبال کیا گیا تھا اسی گرم جوشی کو آگے بڑھاتے ہوئے ان سے بات چیت کی جاتی اور معاملہ فہمی کی بنیاد پر خارجہ سیکٹریریوں کی سطح پر بات چیت کے لیے آیندہ کی حکمت عملی بھی طے کی جاتی۔ کراچی ائرپورٹ پر حالیہ حملہ میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں، ملک بھر میں اس حوالے سے بہت کچھ کہا سنا گیا اور میاں صاحب نے مودی کو اس بارے میں خط بھی لکھا اور اس کا جواب گوکہ مثبت ہے لیکن بھارت سر کار کی ہٹ دھرمی محسوس ہوتی ہے۔
ہماری ذاتی رائے ہے کہ بھارت سے مذاکرات شروع کرناکوئی مشکل کام نہیں البتہ اسے الیکٹرانک میڈیا کے بے صبر حملوں سے بچانا ناگزیر ہے، یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پڑوسی ملک میں بھی اس قسم کی شدت سے بھرپور صورتحال پائی جاتی ہے۔ میاں صاحب کا عزم ہے کہ تصادم کو تعاون میں تبدیل کیا جائے کیونکہ الزام تراشی سے کچھ حاصل نہیں۔ نواز شریف بھارت سے سازگار ماحول میں تجارتی تعلقات بڑھانے اور خارجہ سیکٹریز کی سطح پر رابطوں کی بحالی چاہتے ہیں۔ وہ بد ترین ہمسائیوں کی بجائے پر امن اور امریکا، کینیڈا جیسی ہمسائیگی کے خواہاں ہیں۔ گوکہ بھارت اس معیار پر پورا نہیں اترتا مگر یہ من چلے کا سودا ہے دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔