وقت کی اہم ضرورت
ہمارا گزشتہ کالم ’’رمضان کی برکتیں‘‘ عام گھروں، اداروں اور ٹی وی چینلز کی رمضان نشریات پر تھا۔
ہمارا گزشتہ کالم ''رمضان کی برکتیں'' عام گھروں، اداروں اور ٹی وی چینلز کی رمضان نشریات پر تھا۔ اس بار یہ برکتیں، گراں فروشوں، ذخیرہ اندوزوں، رشوت خوروں اور بدعنوانوں پر تقریباً مکمل تھا کہ اللہ بھلا کرے ایم کیو ایم کے قائد کا کہ انھوں نے افواج پاکستان سے یکجہتی کے اظہار کے لیے ایک عظیم الشان جلسے کا رمضان کے گرم دن میں اہتمام کر ڈالا۔ خیال تھا کہ بری طرح ناکام ہوگا کہ بھلا چار ساڑھے چار بجے شام وہ بھی حالت روزہ میں کون محض تقاریر سننے گھر سے نکلے گا۔
صرف ان کی اپنی پارٹی کے کارکنان، عہدیداران اور افطار کے انتظام کا سن کر کچھ بھولے بھٹکے آجائیں گے اور کہہ دیا جائے گا کہ جلسہ بے حد کامیاب رہا وغیرہ وغیرہ۔ مگر اول تو کئی ایسے گزشتہ جلسوں جو کراچی کے انتہائی برے حالات میں بھی بے حد کامیاب رہے تھے کا تجربہ تھا اور کچھ میڈیا کی موجودگی کا خیال کہ اب کوئی چار افراد کے یکجا ہوجانے کو عظیم الشان اجتماع کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
بہرحال یہ تو ہمارے خدشات تھے مگر جب چینلز بدل بدل کر جلسے کی کارروائی دیکھی تو اندازہ ہوا کہ واقعی بڑا نہیں بلکہ بہت بڑا جلسہ ہے۔ صبح اخبارات میں رپورٹ بھی پڑھی۔ جو ہمارے تمام قارئین پڑھ ہی چکے ہوں گے اس لیے جلسے کے متعلق کچھ بیان کرنا مقصود نہیں صرف چند حقائق پر روشنی ڈالنی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ جلسے، جلوس، ریلیاں تو تمام سیاسی پارٹیاں نکالتی اور کرتی رہتی ہیں کیونکہ یہ سب کا جمہوری حق ہے۔ ان کو روکنا نہ صرف غیر جمہوری بلکہ صاحبان اقتدار کے لیے نیک شگون بھی نہیں ہوتا۔
متحدہ کے قائد نے روایتی انداز سے ہٹ کر جس انداز کو اپنایا وہ منفرد تھا کیونکہ یہ ریلی افواج پاکستان سے اظہار یکجہتی کے لیے منعقد کی گئی تھی اس لیے انھوں نے نہ صرف تمام سیاسی جماعتوں بلکہ تمام مکاتب فکر اور مذاہب کے نمایندوں کو اس جلسے میں مدعو کرکے اول تو اپنے وژن کے عین مطابق دوسرے وقت اور حالات کے پیش نظر بے حد دانشمندانہ قدم اٹھایا۔ اس سے بڑھ کر اہم، خوشی اور اطمینان کا باعث یہ ہے کہ تقریباً (سوائے ایک دو سیاسی عناصر کے) سب سیاسی اور مکاتب فکر کے افراد نے قائد تحریک کے دعوت نامے کو نہ صرف قبول کیا بلکہ شرکت کرکے ثابت کردیا کہ ہم ایک محب وطن اور متحد قوم ہیں جس کے اتحاد اور حب الوطنی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے چند نادیدہ عناصر سرگرم عمل ہیں۔
میرے اس دعوے کا ثبات یہ ہے کہ ان تمام اکابر نے اپنے خیالات کا اظہار بھی اس پلیٹ فارم پر آکر کیا اور کسی نے بھی اس اجتماع کو سیاسی یا ذاتی اسکورنگ قرار نہیں دیا بلکہ حقیقتاً پاکستانی عوام جو دہشت گردی سے ہر صورت میں جان چھڑا کر ملک کو امن و سکون اور استحکام و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے متمنی ہیں انھوں نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے افواج پاکستان کے آپریشن ضرب عضب کو نہ صرف سراہا بلکہ اپنی بھرپور حمایت و تائید کا یقین بھی دلایا۔
اس جلسے کے اسٹیج پر ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتوں، مذہبی رہنماؤں اور تمام مذاہب کے نمایندوں کو پہلو بہ پہلو بیٹھے دیکھ کر یہی خیال ذہن میں گردش کرتا رہا کہ کاش یہ اتحاد و یکجہتی پہلے اختیار کرلی جاتی تو دہشت گردی ملک میں ناسور کی شکل اختیار نہ کرتی اور پچاس ہزار (تقریباً) جانیں ضایع ہونے سے بچ جاتیں۔ ہزاروں گھر اجڑنے اور بے شمار افراد معذور و بے سہارا ہونے سے بچ سکتے تھے۔ بہرحال اب بھی اگر یہ جذبہ برقرار رہے تو زخموں پر مرہم کا کام کرسکتا ہے۔
سیاسی، مسلکی، مذہبی اختلافات اپنی جگہ مگر ایک جذبہ بہرحال ہر شخص ہر فرد کے دل میں ہر وقت موجزن رہنا چاہیے یعنی جذبہ حب الوطنی، اختلافات ایک طرف مگر ملکی استحکام و بقا ہر شے پر مقدم ہونا ضروری ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ نظریات، یہ اختلافات بھی تو اس ملک کے ہوتے ہوئے ہی ہیں اگر خدانخواستہ ملک ہی نہ رہے یا ہم بطور غلام اپنی سرزمین پر پھر ایک بار زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجائیں تو کیا اس صورت میں نظریات اور اختلافات کی گنجائش رہ جائے گی؟جس طرح اس اہم وقت میں جب ملک کو تمام افراد قوم کے اتحاد و اتفاق کی ازحد ضرورت ہے الطاف حسین نے ایک پرچم کے تلے اکٹھا کیا یہ صورتحال محض جلسے کی حد تک نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوجانی چاہیے۔
''اے کاش کہ ایسا ہوجائے۔'' مگر یہ وقت محض دکھاوے کے لیے نہیں یا یہ کہ دعوت دی گئی تھی لہٰذا ہم نے قبول کرلی کے بجائے دل سے دل ملانے اور حقیقتاً پاک افواج کے شانہ بہ شانہ ملک بچانے کے لیے سنجیدگی اختیار کرنے کا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی مشکل ملک کو درپیش ہو تو اپنے اپنے محاذ پر خلوص دل اور نیت سے اپنا کردار ادا کرکے ہر مشکل کو حل اور ہر خطرے کو ٹالا جاسکتا ہے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بیرونی خطرات تو ہر ملک کو درپیش ہوسکتے ہیں، مگر اندرونی خطرات صرف ان ہی ممالک کو پیش آتے ہیں جس کے عوام معاشی طور پر مستحکم نہ ہوں یا جس کے افراد آپس میں متفق و متحد نہ ہوں جو اپنے ملکی مفاد کے خلاف کام کر رہے ہوں یا ایسے عناصر کی پشت پناہی کرتے ہوں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ہمارے وطن عزیز کو درپیش رہی ہے کہ ہم میں سے کچھ مفاد پرستوں نے ملکی مفادات پر اپنے مفاد کو ترجیح دی۔
تھوڑے سے مالی یا سیاسی فوائد کی خاطر ملک دشمن عناصر کے ہاتھ مضبوط کیے (اس کے پس منظر میں معاشی بدحالی ایک بڑی وجہ ہے) جیساکہ متحدہ کے قائد نے دوران تقریر کہا کہ نفرتوں کے بیج بوئے گئے تو یہ واقعی وہ حقیقت ہے کہ جس کو ہر محب وطن پاکستانی تسلیم کرتا ہے۔ جب بیج نفرت کے بوئے جائیں تو محبت کی فصلوں کے بجائے نفرتوں کی ہی فصلیں اگیں گی جو ہم آج کاٹ رہے ہیں۔
بہرحال جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا اب اس کا ازالہ صرف یہی ہے کہ ہم اپنے درمیان بلکہ ہر ادارے ہر شعبہ زندگی سے کالی بھیڑوں کو نکالیں، آپس میں پیار و محبت کو نہ صرف فروغ دیں بلکہ تمام گزشتہ گلے شکوے، غلط فہمیاں بھلاکر ایک دوسرے کو ملکی بقا و سلامتی کی خاطر، امن و سکون کے لیے، اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے پیش نظر گلے لگائیں کیونکہ ہر مسلک، ہر مذہب اور ہر سیاسی نظریے کی بقا اور مفاد اسی پرامن ملک سے وابستہ ہے۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارا اپنا آئین ہے (جو ملک کے ہر فرد کو یکساں حقوق دیتا ہے) ثقافت ہے، ہر صوبے کی اپنی روایات ہیں یہ سب اپنی جگہ مگر سب پر مقدم اپنا دیس، اپنا وطن اور قومی وقار ہو تو سب ایک دوسرے کی ثقافت، عقائد اور روایات کا احترام کریں گے۔ کیونکہ مساوات انسانی اور احترام باہمی کے بغیر نہ آپ چین سے جی سکتے ہیں اور نہ دوسروں کو جینے دے سکتے ہیں لہٰذا نفرتوں کی بجائے پیار و محبت اور اخلاص کو پروان چڑھایا جائے باقی مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔
ہمارے زمانہ طالب علمی میں سب پاکستانی تھے ۔ حتیٰ کہ یونین کے انتخابات میں بھی جو ہمیں اپنے رویے انکساری اور ہمدردانہ انداز سے متاثر کرتی ہم اس لڑکی کو منتخب کرلیتے ہمیں کبھی بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ یہ تو سندھی یا اردو بولنے والی ہے یا پنجابی۔ کیا یہ ماحول، یہ خوبصورت طرز حیات ہماری اولاد کو میسر نہیں آسکتا؟ ضرور آسکتا ہے اگر ہم ایک بار صدق دل سے صرف اور صرف پاکستانی بن جائیں۔
اس صورت حال کا آغاز ہوچکا ہے، اب یہ ہم سب کا کام ہے کہ اس رویے، اس جذبے کو برقرار رکھیں اور دنیا کو بتا دیں کہ ہم ایک متحد قوم ہیں اور اپنے وطن کی آزادی و خودمختاری کا دفاع بھی کرسکتے ہیں ۔
صرف ان کی اپنی پارٹی کے کارکنان، عہدیداران اور افطار کے انتظام کا سن کر کچھ بھولے بھٹکے آجائیں گے اور کہہ دیا جائے گا کہ جلسہ بے حد کامیاب رہا وغیرہ وغیرہ۔ مگر اول تو کئی ایسے گزشتہ جلسوں جو کراچی کے انتہائی برے حالات میں بھی بے حد کامیاب رہے تھے کا تجربہ تھا اور کچھ میڈیا کی موجودگی کا خیال کہ اب کوئی چار افراد کے یکجا ہوجانے کو عظیم الشان اجتماع کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
بہرحال یہ تو ہمارے خدشات تھے مگر جب چینلز بدل بدل کر جلسے کی کارروائی دیکھی تو اندازہ ہوا کہ واقعی بڑا نہیں بلکہ بہت بڑا جلسہ ہے۔ صبح اخبارات میں رپورٹ بھی پڑھی۔ جو ہمارے تمام قارئین پڑھ ہی چکے ہوں گے اس لیے جلسے کے متعلق کچھ بیان کرنا مقصود نہیں صرف چند حقائق پر روشنی ڈالنی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ جلسے، جلوس، ریلیاں تو تمام سیاسی پارٹیاں نکالتی اور کرتی رہتی ہیں کیونکہ یہ سب کا جمہوری حق ہے۔ ان کو روکنا نہ صرف غیر جمہوری بلکہ صاحبان اقتدار کے لیے نیک شگون بھی نہیں ہوتا۔
متحدہ کے قائد نے روایتی انداز سے ہٹ کر جس انداز کو اپنایا وہ منفرد تھا کیونکہ یہ ریلی افواج پاکستان سے اظہار یکجہتی کے لیے منعقد کی گئی تھی اس لیے انھوں نے نہ صرف تمام سیاسی جماعتوں بلکہ تمام مکاتب فکر اور مذاہب کے نمایندوں کو اس جلسے میں مدعو کرکے اول تو اپنے وژن کے عین مطابق دوسرے وقت اور حالات کے پیش نظر بے حد دانشمندانہ قدم اٹھایا۔ اس سے بڑھ کر اہم، خوشی اور اطمینان کا باعث یہ ہے کہ تقریباً (سوائے ایک دو سیاسی عناصر کے) سب سیاسی اور مکاتب فکر کے افراد نے قائد تحریک کے دعوت نامے کو نہ صرف قبول کیا بلکہ شرکت کرکے ثابت کردیا کہ ہم ایک محب وطن اور متحد قوم ہیں جس کے اتحاد اور حب الوطنی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے چند نادیدہ عناصر سرگرم عمل ہیں۔
میرے اس دعوے کا ثبات یہ ہے کہ ان تمام اکابر نے اپنے خیالات کا اظہار بھی اس پلیٹ فارم پر آکر کیا اور کسی نے بھی اس اجتماع کو سیاسی یا ذاتی اسکورنگ قرار نہیں دیا بلکہ حقیقتاً پاکستانی عوام جو دہشت گردی سے ہر صورت میں جان چھڑا کر ملک کو امن و سکون اور استحکام و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے متمنی ہیں انھوں نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے افواج پاکستان کے آپریشن ضرب عضب کو نہ صرف سراہا بلکہ اپنی بھرپور حمایت و تائید کا یقین بھی دلایا۔
اس جلسے کے اسٹیج پر ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتوں، مذہبی رہنماؤں اور تمام مذاہب کے نمایندوں کو پہلو بہ پہلو بیٹھے دیکھ کر یہی خیال ذہن میں گردش کرتا رہا کہ کاش یہ اتحاد و یکجہتی پہلے اختیار کرلی جاتی تو دہشت گردی ملک میں ناسور کی شکل اختیار نہ کرتی اور پچاس ہزار (تقریباً) جانیں ضایع ہونے سے بچ جاتیں۔ ہزاروں گھر اجڑنے اور بے شمار افراد معذور و بے سہارا ہونے سے بچ سکتے تھے۔ بہرحال اب بھی اگر یہ جذبہ برقرار رہے تو زخموں پر مرہم کا کام کرسکتا ہے۔
سیاسی، مسلکی، مذہبی اختلافات اپنی جگہ مگر ایک جذبہ بہرحال ہر شخص ہر فرد کے دل میں ہر وقت موجزن رہنا چاہیے یعنی جذبہ حب الوطنی، اختلافات ایک طرف مگر ملکی استحکام و بقا ہر شے پر مقدم ہونا ضروری ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ نظریات، یہ اختلافات بھی تو اس ملک کے ہوتے ہوئے ہی ہیں اگر خدانخواستہ ملک ہی نہ رہے یا ہم بطور غلام اپنی سرزمین پر پھر ایک بار زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجائیں تو کیا اس صورت میں نظریات اور اختلافات کی گنجائش رہ جائے گی؟جس طرح اس اہم وقت میں جب ملک کو تمام افراد قوم کے اتحاد و اتفاق کی ازحد ضرورت ہے الطاف حسین نے ایک پرچم کے تلے اکٹھا کیا یہ صورتحال محض جلسے کی حد تک نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوجانی چاہیے۔
''اے کاش کہ ایسا ہوجائے۔'' مگر یہ وقت محض دکھاوے کے لیے نہیں یا یہ کہ دعوت دی گئی تھی لہٰذا ہم نے قبول کرلی کے بجائے دل سے دل ملانے اور حقیقتاً پاک افواج کے شانہ بہ شانہ ملک بچانے کے لیے سنجیدگی اختیار کرنے کا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی مشکل ملک کو درپیش ہو تو اپنے اپنے محاذ پر خلوص دل اور نیت سے اپنا کردار ادا کرکے ہر مشکل کو حل اور ہر خطرے کو ٹالا جاسکتا ہے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بیرونی خطرات تو ہر ملک کو درپیش ہوسکتے ہیں، مگر اندرونی خطرات صرف ان ہی ممالک کو پیش آتے ہیں جس کے عوام معاشی طور پر مستحکم نہ ہوں یا جس کے افراد آپس میں متفق و متحد نہ ہوں جو اپنے ملکی مفاد کے خلاف کام کر رہے ہوں یا ایسے عناصر کی پشت پناہی کرتے ہوں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ہمارے وطن عزیز کو درپیش رہی ہے کہ ہم میں سے کچھ مفاد پرستوں نے ملکی مفادات پر اپنے مفاد کو ترجیح دی۔
تھوڑے سے مالی یا سیاسی فوائد کی خاطر ملک دشمن عناصر کے ہاتھ مضبوط کیے (اس کے پس منظر میں معاشی بدحالی ایک بڑی وجہ ہے) جیساکہ متحدہ کے قائد نے دوران تقریر کہا کہ نفرتوں کے بیج بوئے گئے تو یہ واقعی وہ حقیقت ہے کہ جس کو ہر محب وطن پاکستانی تسلیم کرتا ہے۔ جب بیج نفرت کے بوئے جائیں تو محبت کی فصلوں کے بجائے نفرتوں کی ہی فصلیں اگیں گی جو ہم آج کاٹ رہے ہیں۔
بہرحال جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا اب اس کا ازالہ صرف یہی ہے کہ ہم اپنے درمیان بلکہ ہر ادارے ہر شعبہ زندگی سے کالی بھیڑوں کو نکالیں، آپس میں پیار و محبت کو نہ صرف فروغ دیں بلکہ تمام گزشتہ گلے شکوے، غلط فہمیاں بھلاکر ایک دوسرے کو ملکی بقا و سلامتی کی خاطر، امن و سکون کے لیے، اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے پیش نظر گلے لگائیں کیونکہ ہر مسلک، ہر مذہب اور ہر سیاسی نظریے کی بقا اور مفاد اسی پرامن ملک سے وابستہ ہے۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارا اپنا آئین ہے (جو ملک کے ہر فرد کو یکساں حقوق دیتا ہے) ثقافت ہے، ہر صوبے کی اپنی روایات ہیں یہ سب اپنی جگہ مگر سب پر مقدم اپنا دیس، اپنا وطن اور قومی وقار ہو تو سب ایک دوسرے کی ثقافت، عقائد اور روایات کا احترام کریں گے۔ کیونکہ مساوات انسانی اور احترام باہمی کے بغیر نہ آپ چین سے جی سکتے ہیں اور نہ دوسروں کو جینے دے سکتے ہیں لہٰذا نفرتوں کی بجائے پیار و محبت اور اخلاص کو پروان چڑھایا جائے باقی مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔
ہمارے زمانہ طالب علمی میں سب پاکستانی تھے ۔ حتیٰ کہ یونین کے انتخابات میں بھی جو ہمیں اپنے رویے انکساری اور ہمدردانہ انداز سے متاثر کرتی ہم اس لڑکی کو منتخب کرلیتے ہمیں کبھی بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ یہ تو سندھی یا اردو بولنے والی ہے یا پنجابی۔ کیا یہ ماحول، یہ خوبصورت طرز حیات ہماری اولاد کو میسر نہیں آسکتا؟ ضرور آسکتا ہے اگر ہم ایک بار صدق دل سے صرف اور صرف پاکستانی بن جائیں۔
اس صورت حال کا آغاز ہوچکا ہے، اب یہ ہم سب کا کام ہے کہ اس رویے، اس جذبے کو برقرار رکھیں اور دنیا کو بتا دیں کہ ہم ایک متحد قوم ہیں اور اپنے وطن کی آزادی و خودمختاری کا دفاع بھی کرسکتے ہیں ۔