سندھ میں نان فارمل ایجوکیشن کیلیے 3 ہزار سینٹر قائم کیے جائیں گے وزیر تعلیم
40 لاکھ سے زائد بجوں کی تعلیم کیلیے نان فارمل ایجوکیشن طریقہ کار سے مدد لی جائے گی، سید سردار علی شاہ
وزیرتعلیم سندھ سید سردار علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ میں نان فارمل ایجوکیشن کے لے 3 ہزار سینٹر قائم کیے جائیں گے۔
عالمی یوم خواندگی کے سلسلے میں کراچی کے میریٹ ہوٹل میں "Promoting Multilingual Education: Literacy for Mutual Understanding and Peace" کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے وزیرتعلیم سندھ نے کہا کہ سندھ میں آؤٹ آف اسکولز چلڈرین کو تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ہنرمند بنانے کے لیے نان فارمل ایجوکیشن مکینزم کو مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے، اس حوالے سے ہر ضلع میں 100 نان فارمل ایجوکیشن سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں، پہلے مرحلے میں قائم ہونے والے ان 3 ہزار سینٹر میں اسکولز سے ڈراپ ہونے والے بچوں کو تعلیم کے ساتھ ہنری تربیت بھی دی جائے گی۔
صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ نے مزید کہا کہ آئوٹ آف اسکول چلڈرن کی بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جو والدین کی معاشی ضروریات کا سبب سے بڑا سبب ہیں، بدقسمتی سے آبادی پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں تعلیم سے زیادہ معاشی فائدے پر توجہ دی جاتی ہے، لیکن صحیح تعلیم و تربیت نہ ملنے کی وجہ سے ایسے بچے استحصال کا شکار ہوتے ہیں جو سلسلہ پھر نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔
سید سردار علی شاہ نے کہا کہ وفاق کی طرف درست اعداد و شمار مرتب نہیں کیے جاتے، ہمیں سرکاری، نجی، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور رجسٹرڈ مدارس میں ایک کروڑ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں، جبکہ 40 لاکھ سے زائد بجے آئوٹ آف اسکول بچے ہیں جن کی تعلیم مکمل کرنے کے لیے نان فارمل ایجوکیشن طریقہ کار سے مدد لی جائے گی۔
سردار شاہ نے مزید کہا کہ جی ڈی پی کا فقط 2 فیصد تعلیم پر خرچ ہو رہا ہے، جو پیسے آئی پی پی پیز کو دیے جا رہے ہیں وہی اگر تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے مل جائیں تو بہت سے چیلینجز ہر پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری ترجیحات مختلف ہیں۔
سیکریٹری اسکول ایجوکیشن سندھ نے کہا کہ بچہ کا بنیادی حق سمجھ کر اسے ماردی زبان میں تعلیم دینے کی ضرورت ہے، دنیا کے معاشی طور پر مضبوط ممالک میں مادری زبان میں تعلیم دی جاتی ہے، ہمیں انگریزی کے کمپلیکس کے نکلنا ہوگا، بچے کو ایکٹوٹی بیس لرننگ کے طریقے سے سکھانا ہوگا، سندھ میں مڈ ٹیک تعلیم کا کریکیولم تیار ہوچکا ہے، سندھ میں کلاسز بڑھنے کے ساتھ اردو، سندھ اور انگریزی کی میں نصاب پڑھایا جاتا ہے۔
سماجی شخصیت شہزاد رائے نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں ٹیچنگ لائسنس آ گیا ہے، پڑھانے کو ایک مکمل شعبہ تسلیم کرلیا گیا ہے، آنے والے وقت میں اس کا فائدہ ہوگا، سندھ نے بہت سے اقدامات میں پہل کی ہے، سندھ نے میوزک ٹیچرز ہائر کیے ہیں، آپ کی تخلیق کہیں کے بھی جنم لے سکتی ہے، مستقبل میں نوجوانوں کو مواقع دینا ہماری ذمہ داری ہے۔
سابق وفاقی وزیر جاوید جبار نے کہا کہ کیا پڑھایا جا رہا ہے بچوں کو یہ سمجھانے کی بھی ضرورت ہے، کئی لوگ ایسے ہیں جو پڑے لکھے نہیں مگر پھر بھی وہ موبائل استعمال کر لیتے ہیں، اقوامی متحدہ کے اس سال کا پیغام بھی یہی ہے کہ تعلیم کو سمجھ کر حاصل کریں، اس کے علاوہ ڈجیٹل لٹریسی پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کے ایم ڈی قاضی کبیر نے کہا کہ ہمیں بچوں کی دلچسپی کے پہلو کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے، اگر کوئی بچہ بڑھنے میں کمزور ہے تو اس کو کیس اسٹڈی کے طور پر لے کر سمجھنا ہوگا کہ یہ بچہ کس طرح اپنی دیگر صلاحیت سے آگے بڑھ سکتا ہے، ہر چیز فارمل انداز میں نہیں سکھائی جا سکتی۔
یونیسف کے نمائندے پریم بہادر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کا تعلق نیپال سے ہے مگر وہ اردو سمجھتے ہیں، اردو زبان آنے کی وجہ سے انہیں سندھ میں کام کرنا بہت آسان لگا، جب آپ دوسری کوئی زبان سیکھتے ہو تو وہ آپ کی ایک اور طاقت ہوتی ہے۔
چاپان کوآپریٹو ایجنسی (جائکا) کے نمائندے عابد گِل نے کہا کہ خواندگی کی لکھنے اور پڑنے کے علاوہ بھی وصف تبدیل ہونے چاہیے، کیا کھا اور پڑھا جا رہا ہے اس کو بھی سمجھنے کے عمل کو خواندگی کی وصف میں شامل کیا جائے۔
ڈائریکٹوریٹ آف لٹریسی اینڈ نان فارمل ایجوکیشن ڈائریکٹر عبدالجبار مری نے کہا کہ سندھ میں تین ہزار نان فارمل ایجوکیشن سینٹرز قائم ہونے سے 90 ہزار اسکول سے باہر بچوں کو تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ اسکل بیس ایجوکیشن بھی دی جاۓ گی۔ یہ سینٹرز ایسے علاقوں میں قائم کیے جا رہے ہیں جہاں آئوٹ آف چلڈرین کی تعداد زیادہ ہے جبکہ ان سینٹرز کے اوقات کار بچوں کے سہولت سے حساب سے رکھے جائیں گے۔
اس موقع پر نان فارمل ایجوکیشن کے نصاب کی رونمائی بھی کی گئی ملک میں پہلی دفعہ سندھ نے مڈل کلاس تک نان فارمل ایجوکیشن کا نصاب تیار کیا ہے، یہ نصاب مڈل اسکول کے حساب کے مرتب کیا گیا ہے، تقریب کے آخر میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والے اداروں کے نمائندوں کو تعریفی شیلڈز بھی پیش کی گئیں۔
عالمی یوم خواندگی کے سلسلے میں کراچی کے میریٹ ہوٹل میں "Promoting Multilingual Education: Literacy for Mutual Understanding and Peace" کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے وزیرتعلیم سندھ نے کہا کہ سندھ میں آؤٹ آف اسکولز چلڈرین کو تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ہنرمند بنانے کے لیے نان فارمل ایجوکیشن مکینزم کو مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے، اس حوالے سے ہر ضلع میں 100 نان فارمل ایجوکیشن سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں، پہلے مرحلے میں قائم ہونے والے ان 3 ہزار سینٹر میں اسکولز سے ڈراپ ہونے والے بچوں کو تعلیم کے ساتھ ہنری تربیت بھی دی جائے گی۔
صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ نے مزید کہا کہ آئوٹ آف اسکول چلڈرن کی بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جو والدین کی معاشی ضروریات کا سبب سے بڑا سبب ہیں، بدقسمتی سے آبادی پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں تعلیم سے زیادہ معاشی فائدے پر توجہ دی جاتی ہے، لیکن صحیح تعلیم و تربیت نہ ملنے کی وجہ سے ایسے بچے استحصال کا شکار ہوتے ہیں جو سلسلہ پھر نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔
سید سردار علی شاہ نے کہا کہ وفاق کی طرف درست اعداد و شمار مرتب نہیں کیے جاتے، ہمیں سرکاری، نجی، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور رجسٹرڈ مدارس میں ایک کروڑ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں، جبکہ 40 لاکھ سے زائد بجے آئوٹ آف اسکول بچے ہیں جن کی تعلیم مکمل کرنے کے لیے نان فارمل ایجوکیشن طریقہ کار سے مدد لی جائے گی۔
سردار شاہ نے مزید کہا کہ جی ڈی پی کا فقط 2 فیصد تعلیم پر خرچ ہو رہا ہے، جو پیسے آئی پی پی پیز کو دیے جا رہے ہیں وہی اگر تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے مل جائیں تو بہت سے چیلینجز ہر پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری ترجیحات مختلف ہیں۔
سیکریٹری اسکول ایجوکیشن سندھ نے کہا کہ بچہ کا بنیادی حق سمجھ کر اسے ماردی زبان میں تعلیم دینے کی ضرورت ہے، دنیا کے معاشی طور پر مضبوط ممالک میں مادری زبان میں تعلیم دی جاتی ہے، ہمیں انگریزی کے کمپلیکس کے نکلنا ہوگا، بچے کو ایکٹوٹی بیس لرننگ کے طریقے سے سکھانا ہوگا، سندھ میں مڈ ٹیک تعلیم کا کریکیولم تیار ہوچکا ہے، سندھ میں کلاسز بڑھنے کے ساتھ اردو، سندھ اور انگریزی کی میں نصاب پڑھایا جاتا ہے۔
سماجی شخصیت شہزاد رائے نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں ٹیچنگ لائسنس آ گیا ہے، پڑھانے کو ایک مکمل شعبہ تسلیم کرلیا گیا ہے، آنے والے وقت میں اس کا فائدہ ہوگا، سندھ نے بہت سے اقدامات میں پہل کی ہے، سندھ نے میوزک ٹیچرز ہائر کیے ہیں، آپ کی تخلیق کہیں کے بھی جنم لے سکتی ہے، مستقبل میں نوجوانوں کو مواقع دینا ہماری ذمہ داری ہے۔
سابق وفاقی وزیر جاوید جبار نے کہا کہ کیا پڑھایا جا رہا ہے بچوں کو یہ سمجھانے کی بھی ضرورت ہے، کئی لوگ ایسے ہیں جو پڑے لکھے نہیں مگر پھر بھی وہ موبائل استعمال کر لیتے ہیں، اقوامی متحدہ کے اس سال کا پیغام بھی یہی ہے کہ تعلیم کو سمجھ کر حاصل کریں، اس کے علاوہ ڈجیٹل لٹریسی پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کے ایم ڈی قاضی کبیر نے کہا کہ ہمیں بچوں کی دلچسپی کے پہلو کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے، اگر کوئی بچہ بڑھنے میں کمزور ہے تو اس کو کیس اسٹڈی کے طور پر لے کر سمجھنا ہوگا کہ یہ بچہ کس طرح اپنی دیگر صلاحیت سے آگے بڑھ سکتا ہے، ہر چیز فارمل انداز میں نہیں سکھائی جا سکتی۔
یونیسف کے نمائندے پریم بہادر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کا تعلق نیپال سے ہے مگر وہ اردو سمجھتے ہیں، اردو زبان آنے کی وجہ سے انہیں سندھ میں کام کرنا بہت آسان لگا، جب آپ دوسری کوئی زبان سیکھتے ہو تو وہ آپ کی ایک اور طاقت ہوتی ہے۔
چاپان کوآپریٹو ایجنسی (جائکا) کے نمائندے عابد گِل نے کہا کہ خواندگی کی لکھنے اور پڑنے کے علاوہ بھی وصف تبدیل ہونے چاہیے، کیا کھا اور پڑھا جا رہا ہے اس کو بھی سمجھنے کے عمل کو خواندگی کی وصف میں شامل کیا جائے۔
ڈائریکٹوریٹ آف لٹریسی اینڈ نان فارمل ایجوکیشن ڈائریکٹر عبدالجبار مری نے کہا کہ سندھ میں تین ہزار نان فارمل ایجوکیشن سینٹرز قائم ہونے سے 90 ہزار اسکول سے باہر بچوں کو تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ اسکل بیس ایجوکیشن بھی دی جاۓ گی۔ یہ سینٹرز ایسے علاقوں میں قائم کیے جا رہے ہیں جہاں آئوٹ آف چلڈرین کی تعداد زیادہ ہے جبکہ ان سینٹرز کے اوقات کار بچوں کے سہولت سے حساب سے رکھے جائیں گے۔
اس موقع پر نان فارمل ایجوکیشن کے نصاب کی رونمائی بھی کی گئی ملک میں پہلی دفعہ سندھ نے مڈل کلاس تک نان فارمل ایجوکیشن کا نصاب تیار کیا ہے، یہ نصاب مڈل اسکول کے حساب کے مرتب کیا گیا ہے، تقریب کے آخر میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والے اداروں کے نمائندوں کو تعریفی شیلڈز بھی پیش کی گئیں۔