بلوچستان میں قتل و غارت علیحدگی پسند عناصرکا دعویٰجھوٹ یا سچ

پاکستانی حکومت بلوچستان پہ توجہ نہیں دیتی اور بلوچ قوم کا استحصال کیا جاتا ہے۔

صوبے بھر کو دہشت گردی اور بدامنی کا نشانہ بنا دینے والے شاطر مفاد پرستوں کے نظریاتی پروپیگنڈے کا تاریخ کی روشنی میں پوسٹ مارٹم ۔ فوٹو : فائل

26 اگست کو ہمارا پیارا صوبہ بلوچستان ایک بار پھر علیحدگی پسند وں کی تشدد آمیز کارروائیوں سے گونج اٹھا۔ انھوں نے صوبے بھر میں بے گناہ شہریوں اور اہلکاروں کو نشانہ بنایا اور کئی عمارات و گاڑیاں تباہ کر دیں۔

حملوں میں 74 پاکستانی شہید اور کئی زخمی ہوئے۔ یوں صوبے کے علیحدگی پسندوں کی گمراہ کن اور نفرت پہ مبنی سوچ کئی انسانوں کی قیمتی زندگیاں تباہ کرنے کا سبب بن گئی۔انھیں احساس ہی نہیں کہ وہ صرف ذاتی مفادات اور لالچ و ہوس کا شکار اپنے سرداروں کی کٹھ پتلی بن کر پاکستان ہی نہیں بلوچستان کو بھی کتنا بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جس بلوچستان کو ترقی و تعمیر کے ادوار سے گزر کر خوشحال و امیر علاقہ بننا تھا، وہ مفادات کے اسیر سرداروں کی مسلط کردہ دہشت گردی اور بدامنی کا شکار ہو کر بدستور غربت وجہالت کے پنجوں میں پھنسا ہوا ہے۔

علیحدگی پسند تنظیموں کی پشت پناہ پاکستان دشمن طاقتیں ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں کہ گمراہ کن نظریات نئی بلوچ نسل میں پھیل جائیں تاکہ وہ بھی ریاست پاکستان کے خلاف ہو کر ہتھیار اٹھا لیں۔ ان کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر خصوصاً بیروزگار بلوچ نوجوان علیحدگی پسند تنظیموں کا حصّہ بن سکتے ہیں کیونکہ وہاں انھیں تنخواہ ملتی ہے اور سامان ِ طعام بھی۔ غیرملکی طاقتیں علیحدگی پسند تنظیموں کو وافر سرمایہ فراہم کرتی ہیں، اس لیے ان کے پاس پیسے کی کمی نہیں۔ یہ بہت ضروری ہو گیا ہے کہ بلوچ نئی نسل کے سامنے حقائق رکھے جائیں تاکہ وہ سچ اور جھوٹ کے مابین تمیز کرنے کے قابل ہو سکے اور دشمن طاقتوں کے بہکاوے میں آ کر اپنے پیر پر کلہاڑی نہ مارے۔

کھرا سچ

یہ سب سے بڑا سچ ہے کہ انگریزوں کے ماتحت بلوچستان کا علاقہ جو ''بلوچستان ایجنسی'' کہلاتا تھا، جب پاکستان کا حصّہ بنا تو اس کے لاکھوں عوام کو حقیقی معنوں میں آزادی نصیب ہوئی۔وجہ یہ ہے کہ بلوچستان ایجنسی میں انگریز سرداری نظام کے ذریعے حکومت کر رہا تھا۔اس نظام میں سردار ڈکٹیٹر اور عوام ان کے محکوم کی حیثیت رکھتے تھے۔یقیناً اچھے سرداربھی سامنے آئے مگر ان کی اکثریت اپنی رعایا کو پاؤں کی جوتی سمجھتی اور یہ چاہتی تھی کہ وہ ہر حکم پر بے چوں وچرا عمل کریں۔ گویا ہر سردار کا علاقہ اس کی سلطنت جیسا تھا اور وہاں وہ مطلق العنان حکمران کی مانند عیش وآرام سے حکومت کرتا ۔جب بلوچستان ایجنسی پاکستان میں شامل ہو کر صوبہ بن گئی تو اس نئے بندوبست نے سرداری نظام کو کمزور کر دیا کیونکہ اب وہ اپنے پشت پناہ ، انگریز سے محروم ہو گیا۔

اب بلوچستان میں نئے قانون و اصول نافذ ہونے لگے۔ نیا انتظام حکومت متعارف کرانے کی تیاری شروع ہوئی۔ اس نئے سیٹ اپ کو سرداروں نے اپنے اقتدار و تزک واحتشام ، اپنی طاقت اور آمدن کے لیے خطرہ سمجھا۔ وہ اپنی عمل داری میں پاکستانی حکومت کا دخل برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔بعض صُلح کل اور تجربے کار سرداروں نے تو بدلتے وقت کو قبول کر لیا، بقیہ مزاحمت کرنے لگے۔انھوں نے یہ بیانیہ اپنا لیا کہ ریاست ان کی حدود و حقوق میں مداخلت کر رہی ہے۔ حقیقتاً وہ اس ظالمانہ نظام کو برقرار رکھنا چاہتے تھے جو صدیوں سے عوام پر مسلط تھا اور جس نے عام آدمی کو سردار کا تقریباً غلام بنا دیا تھا۔ تاریخ شاہد ہے، اپنے اقتدار و طاقت کی حفاظت کے لیے ہی بعض سردار ریاست پاکستان سے نبردآزما ہو ئے...اس لیے نہیں کہ وہ اپنے عوام کو غربت وجہالت و بیماری کے عفریتوں سے نجات دلوا کر انھیں بلند و اعلی معیار زندگی عطا کر سکیں۔

بلوچستان وہ خطّہ ہے جہاں تین عظیم اقوام...بروہی، بلوچ اور پشتون کے افراد آباد ہیں۔ یہ تینوں اقوام اپنی تہذیب وتمدن، ثقافت، زبان، ادب ، فنون لطیفہ، رسوم ورواج اور روایات رکھتی ہیں۔ساتھ ساتھ رہنے کے باعث ان کی تہذیبوں کے اثرات ایک دوسرے پر بھی پڑے جو ایک مثبت عمل ہے۔ان کے مابین دوستانہ روابط رہے تو آپس میں جنگیں بھی ہوئیں۔ آج مگر وہ پاکستان کے طفیل ہی باہم شیروشکر ہو کر زندگی گذار رہے ہیں۔ یہ صرف چند لالچی سرداروں کی کارستانی ہے کہ وہ دشمن طاقتوں کے ساتھ مل کر بلوچستان میں دہشت گردی کراتے اور بدامنی پھیلاتے ہیں۔ اس امر کا ثبوت یہ ہے کہ تمام علیحدگی پسند تنظیموں کو کسی نہ کسی پاکستان مخالف سردار کی حمایت حاصل ہے جو اپنے اقتدار و قوت سے محروم ہو کر ماہی بے آب کی طرح تڑپتا رہتا ہے۔

علیحدگی پسند سردار تو یہ تسلیم نہیں کرتے کہ حکمرانی و دولت سے محرومی پہ وہ بغاوت پر اتر آئے۔ انھوں نے اپنا بیانیہ تین نکات پر استوار کر لیا ہے۔انہی کی بنیاد پر وہ پاکستان سے الگ آزاد بلوچستان ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ وہ نکات یہ ہیں:

٭بلوچستان ماضی میں ایک آزاد ریاست رہا ہے۔(لہذا اب بھی اسے آزاد مملکت ہونا چاہیے)

٭بلوچستان کو زبردستی اور سازش سے پاکستان میں شامل کیا گیا۔

٭پاکستانی حکومت بلوچستان پہ توجہ نہیں دیتی اور بلوچ قوم کا استحصال کیا جاتا ہے۔

آئیے بلوچ اور غیر بلوچ مورخین و دانشوروں کی کتب سے مدد لیتے ہوئے درج بالا نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔

پہلا نکتہ

بلوچستان کے ممتاز مورخین کی اکثریت نے اپنی کتب میں تحریر کیا ہے کہ اس صوبے کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں زیادہ معلومات میسّر نہیں۔ان مورخین میں محمد سردار خان بلوچ، جسٹس میر خدا بخش مری، عنایت اللہ بلوچ، ڈاکٹر تاج محمد بریسگ، گل خان نصیر، نصیر دشتی، گلاور خان اور دیگر شامل ہیں۔ ماہرین اثریات بتاتے ہیں کہ قدیم سنگی دور (Paleolithic)میں انسان اس علاقے میں آباد ہوا۔ یہ دور تیتیس لاکھ سال پہلے شروع ہو کر تقریباً گیارہ ہزار سال پہلے ختم ہوا۔ نو دس ہزار سال پہلے یہاں دیہہ آباد ہوئے جن میں ''مہرگڑھ''نے عالمی شہرت پائی۔ اس کے باسی 'دراوڑ'ہو سکتے ہیں جو افریقہ سے ہندوستان آنے والے اولیّں انسانوں کی اولاد تھے۔

تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ بلوچستان کا موجودہ علاقہ کئی ایرانی، افغان،عرب اور ہندوستانی سلطنتوں کا حصّہ یا ان کا باج گذار رہا ۔اس عمل کی طویل داستان کئی صفحات کی متقاضی ہے۔مختصر یہ کہ پندرہویں صدی تک یہ علاقہ تین اقوام ...بروہی (یا براہوی )، بلوچ اور پشتون کا مسکن بن چکا تھا۔ پشتون شمالی بلوچستان کے علاقوں میں بستے تھے۔ مغربی اور جنوبی علاقوں میں بلوچوں کی اکثریت تھی۔ وسطی اور مشرقی علاقے بروہی افراد کا مسکن تھے۔

بروہی مورخین کا دعوی ہے کہ بروہی قوم ہی بلوچستان کی اصل مالک ہے کیونکہ وہی بلوچستان کو آباد کرنے والے دراوڑوں کی اولاد ہے۔ان کی زبان بھی دراوڑی زبانوں کے خاندان کا حصّہ ہے۔ماہرین کی رو سے مینگل، رئیسانی، زہری،بنگل زئی،قمبرانی،بزنجو،قلندرانی،کرد،عمرانی، احمدزئی، محمد حسنی، محمد شاہی، ساسولی، جتک،پرکانی،سرپرہ،پندرانی،لانگو، شاہوانی وغیرہ بروہی قبائل ہیں۔ان کی کل تعداد پینتیس سے زائد ہے۔

یہ یاد رہے کہ صدیوں کے باہمی ملاپ کی وجہ سے بروہی اور بلوچ قبائل مخلوط صورت اختیار کر چکے۔ حتی کہ کئی بروہی قبائل میں اب صرف بلوچی بولی جاتی ہے۔ایسے قبیلوں میں بزنجو، لانگو،محمد حسنی،عمرانی،رئیسانی، زہری اور شاہوانی نمایاں ہیں۔بقیہ بروہی قبیلے بھی بروہی اور بلوچی، دونوں زبانیں بولتے ہیں۔صرف بروہی زبان بولنے والے کم رہ گئے ہیں۔کہا جا سکتا ہے کہ بلوچ قوم نے غالب آ کر بروہیوں کو اپنے اندر جذب کر لیا۔ تاہم قوم پرست بروہی اپنا وجود اور شناخت علیحدہ رکھنا چاہتے ہیں اور بلوچ قوم کی بالادستی کو قبول نہیں کرتے۔

بروہی مورخ ، شاکر براہوی اپنی کتاب ''براہوی اور بلوچ ''(شائع شدہ براہوی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان) میں لکھتے ہیں:''بلوچ ایرانی نسل ہیں جو ایران پر چنگیز خانی حملوں کے بعد بلوچستان وارد ہوئے۔سرزمین بلوچستان کے اصل وارث اور قدیم حاکم براہوی ہیں ۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے کئی صدیوں تک قلات میں براہوی حکمران رہے ۔ براہوی قوم نے 550 سال تک بلوچستان پر حکومت قائم رکھی۔ اسے سازش کے تحت غیر دراوڑ یعنی بلوچ' آریا' تورانی اور عرب قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ کام 1931ء سے تاحال جاری ہے۔


براہویوںکو زبردستی بلوچی سیاسی تحریکوں میں جوتا اور ہماری تاریخ کا تہذیبی ورثہ بلوچوں کے نام منتقل کیا جا رہا ہے ۔حالانکہ 1931ء سے قبل براہوی عوام بلوچ نہیں براہوی ہونے پر فخر کرتے تھے۔ ''

بعض قوم پرست بلوچ مورخین کا دعوی ہے کہ بلوچ اور بروہی ایک ہی سّکے کے دو رخ ہیں۔'' تاریخ بلوچستان'' کے مصنف گل خان نصیر لکھتے ہیں:'' زمانہ قدیم میں قلات اور گردونواح پر سیوانامی ایک ہندو خاندان کی حکومت تھی جو غالباً دراوڑوں کی زبان بولتے تھے۔ بلوچوں کا ایک نووارد کہستانی قبیلہ جو 'برز کوہی' کے نام سے مشہور ہوا ،رفتہ رفتہ داروڑی زبان کے لفظ سے بگڑ کر بروہی یا براہوی ہوگیا۔ آگے چل کر وہ مزید لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں کسی غیر بلوچ سے ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کو معیوب خیال کیا جاتا تھا لیکن برز کوہی قبیلے کے افراد کو مجبوراً یہ رسم ترک کرنی پڑی کیونکہ قبیلے کی بیشتر عورتیں اور لڑکیاں ایرانی سپاہ کی غارتگریوں کا شکار ہوگئی تھیں۔ ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی اور علاقے کے اصل باشندوں سے الگ تھلگ رہنا تقریباً ناممکن تھا۔اس لیے انھوں نے دراوڑوں سے دوستانہ تعلق اور میل جول قائم کر کے ان سے شادیاں کیں۔ چند ہی پشتوں بعد انھوں نے اپنی بعض دیگر صفات کے علاوہ اپنی مادری زبان کو بھی خیرباد کہا۔ اس طرح دراوڑوں کی زبان سے ملی جلی ایسی زبان بولنے لگے جو بعد میں براہوی زبان مشہور ہوئی۔''

بلوچ قوم روایتی طور پہ خود کو حضرت امیر حمزہ ؓ کی اولاد میں سے بتاتی ہے۔ روایت ہے کہ آپؓ کی اولاد حلب، شام میں آباد ہو گئی تھی۔بعد ازاں یزید اول کے زمانے میں وہ بحیرہ خزر (Sea Caspian)مشرقی علاقوں میں چلے آئے جن میں سیستان (ایران)کا علاقہ قابل ذکر ہے۔وہاں سے پھر وقفے وقفے سے ان کی اولاد بلوچستان کے علاقے میں آئی، اسے اپنا مسکن بنا لیا اور بلوچ کہلائی ۔ بحر خزر سے بلوچستان ہجرت کرنے کی کوئی ایک وجہ نمایاں نہیں، البتہ مورخین نے مختلف قیاس اور اندازے ضرور لگائے ہیں۔ جدید مورخین کا بھی استدلال ہے کہ بلوچوں کے اجداد کا تعلق بحر خزر کے مشرقی یا جنوب مشرقی علاقوں سے تھا۔ بعض مورخ بلوچوں کو آریہ قوم کا حصّہ بتاتے ہیں۔یاد رہے، آریہ بھی بحر خزر کے علاقے سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے اور اسے اپنا نیا دیس بنایا۔ انھوں نے بلوچستان ، سندھ اور پنجاب میں بستے دراوڑوں کو شکست دے کر جنوبی ہند بسنے پر مجبور کر دیا اور ان کی قائم کردہ عظیم ''وادی سندھ کی تہذیب'' کو تباہ کرنے میں کردار ادا کیا۔

زمانہ قدیم میں بروہی، بلوچ اور پشتون ، تینوں اقوام چھوٹے بڑے قبائل میں منقسم تھیں ۔ہر قبیلے کا مخصوص علاقہ تھا جہاں صرف سردار قبیلہ کا حکم چلتا ۔ عام طور پر قبائل مجلس شوری قسم کا ادارہ بنا لیتے جس کے ارکان باہمی تنازعات نپٹاتے تھے۔بعض اوقات کوئی سردار زیادہ طاقت پا کر قبائل میں مرکزی حیثیت اختیار کر لیتا ، تاہم دیگر سردار 'چیک اینڈ بیلنس'رکھ کر اسے آمر یعنی کُلی اختیارات کا مالک نہ بننے دیتے ۔ چونکہ بلوچستان مختلف قبائل میں منقسم تھا، اس لیے ان کے مابین تنازعات کا جنم لینا اور چھوٹی بڑی لڑائیاں لڑنا معمول کی بات تھی۔

بروہی مورخین کا دعوی ہے کہ 1400 ء میں قلات کی سیوا حکومت نے ایک بروہی قمبرانی سردار،امیر میروانی بلوچ کی خدمات حاصل کیں تاکہ سندھ و پنجاب کے قبائل کے حملوں سے محفوظ رہا جا سکے۔ امیر میروانی نے اسی سال سیوا خاندان کو شکست دے کر قلات پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ یوں ''قلات ریاست '' کا آغاز ہوا۔ 1666ء میں میروانی سردار، میر حسن بے اولاد فوت ہو گیا۔ تب بروہی سرداروں نے قمبرانی قبیلے کی ایک شاخ، احمد زئی کے سردار، میر احمد خان کو نیا والی بنا دیا۔ یوں حکومت میروانیوں سے نکل کر احمد زئیوں کے پاس چلی گئی۔

قلات ریاست کے نئے سرداروں نے غیر بروہی قبیلوں سے جنگ وجدل اور دیگر بروہی قبائل سے دوستانہ معاہدے کر کے اپنی ریاست کو وسعت دی۔ رفتہ رفتہ ریاست کے تین بڑے علاقے...جھالاوان(زیریں قلات)، سراوان(بالائی قلات) اور کچھی(وسطی قلات) وجود میں آ گئے۔ جھالاوان پر براہوی قبیلے ، زہری کے سردار کی حکومت تھی۔سراوان پر رئیسانی قبیلے کا عمل دخل تھا۔ کچھی میں مختلف قبائل کے سرادروں کی عمل داری تھی۔ تاہم یہ سبھی سردار خان قلات کو اپنا حاکم تسلیم کرتے تھے۔ کسی قضیے کا فیصلہ نہ ہوتا تو خان کی آرا ہی مانی جاتی۔مزید براں خان اہم معاملات میں تمام سرداروں سے مشورہ کرتا ۔مشورہ سازی کے اس عمل سے بھی جرگے کے ادارے کی بنیاد پڑی جو وسطی ایشیا میں مسائل حل کرنے کا عمدہ طریق کار رہا ہے۔خان کے دربار میں جھالاوان اور سراوان کے رئیس اس کے دائیں بائیں بیٹھتے تھے۔

بیشتر مورخین نے لکھا ہے کہ بلوچ قبائل کی اکثریت نے براہوی خوانین قلات کو کبھی اپنا حاکم تسلیم نہیں کیا۔ ان بلوچ قبائل میں مری، بگٹی، مزاری، بلیدی، کھوسہ، بجارانی، لغاری، دشتی، سندرانی، لنڈ، دریشک، گشکوری، گوپانگ وغیرہ شامل ہیں۔ اسی لیے ریاست قلات اور بلوچ سرداروں کے مابین کئی چھوٹی بڑی لڑائیاں لڑی گئیں۔ کبھی قلات کی فوج انھیں شکست دے کر اپنا مطیع بنا لیتی۔ کبھی بلوچ سردار بغاوت کر کے جنگ چھیڑ دیتے۔ ایسی مثالیں کم ہی ہیں کہ کسی بڑے بلوچ سردار نے بہ رضا ورغبت بروہی خان ِ قلات کی اطاعت کی اور اس کی حاکمیت تسلیم کر لی۔

اسی طرح موجودہ بلوچستان کے پشتون قبائل بھی ریاست قلات سے نبردآزما رہے۔ پشتون سردار بھی خان قلات کو خطّے کا بلاشرکت غیرے حاکم نہیں مانتے تھے۔کاکڑ، ترین، کانسی، شیرانی، غلزئی، پنیی،داوی اور بابئی بلوچستان کے ممتاز پشتون قبیلے ہیں۔ (آج بلوچستان کے نو اضلاع میں ان کی اکثریت ہے۔)

قلات ریاست کو مستحکم کرنے کی خاطر بروہی قبائل اور ان کے اتحادی غیر بروہی قبیلے بھی اس لیے متحد ہوئے کہ اپنے طاقتور پڑوسیوں...فارس، افغانستان، سندھ اور پنجاب کی سازشوں اور حملوں کا مقابلہ کر سکیں۔بعض اوقات بیرونی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاست قلات اور بلوچی وپشتون قبائل نے مل کر بھی مزاحمت کی۔ اس عارضی انتظام کے باوجود ہر قبیلے کے سردار نے اپنے مخصوص علاقے میں اپنی عمل داری برقرار رکھی اور اسے ماند نہیں پڑنے دیا۔ تاہم خصوصاً امور خارجہ میں خان کی حیثیت سپریم تھی، وہ حسب منشا کسی سے بھی جنگ یا دوستی کرنے کا فیصلہ کر سکتا تھا۔تاہم ریاست کے انتظامی امور سردار ہی اپنے کارندوں کی مدد سے انجام دیتے۔

قلات ریاست میں آباد تمام قبائل کے بزرگ اپنے اپنے قبیلے کے سردار کا انتخاب کرتے تھے۔ مگر اس سردار کی تقرری کی منظوری خان دیتا۔ اس منظوری کے بعد سردار پہ لازم ہو جاتا تھا کہ امور خارجہ میں خان کے تمام احکامات تسلیم کرے۔اگر کبھی جنگ چھڑ جائے تو سردار اپنے کوٹے کے مطابق سپاہی خان کو فراہم کرتا۔نیز دیگر اہم معاملات میں بھی خان کا فیصلہ مانا جاتا۔ یہ سردار ہی پھر نئے خان کا انتخاب کرتے تھے ۔گو یہ ضروری تھا کہ امیدوار کا تعلق حکمران خاندان سے ہی ہو۔

خوانین قلات میں سب سے مشہور میر نصیر خان نوری اول گذرا ہے جس کا دور حکومت 1749ء تا 1817ء رہا۔دور جدید کے قوم پرست بلوچ اسے 'خان اعظم' کہتے ہیں جو ریاست قلات کی تعمیر وترقی میں تا عمر مصروف رہا۔ اس کے دور میں ریاست کی سرحدیں پھیل گئیں اور باقاعدہ انتظام ریاست وجود میں آیا۔مگر مورخین کی کتب میں درج ہے کہ اس نے بھی جنگ وجدل کے ذریعے اپنی ریاست کو وسعت دی۔ خاران اور مکران کی پڑوسی ریاستوں پر ہلّہ بول کر انھیں قبضے میں لے لیا۔ ریاست لس بیلہ کے جام (والی )، میاں خان کو دھمکی دی کہ وہ مطیع نہ ہوا تو اس کی خیر نہیں۔ بیچارے نے خوفزدہ ہو کر اس کی اطاعت قبول کر لی۔ خاران ومکران کے مقامی مورخوں نے اپنی کتابوں میں میر نصیر خان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مثلاً مورخین لکھتے ہیں کہ موصوف مکران پہ قابض ہوا تو ہزارہا مقامی باشندے قتل کر دئیے۔ اس نے مقتول گچکی حکمران کے بزرگوں کی قبریں کھدوائیں، ان کی ہڈیاں نکال کر جلا ڈالیں اور ان کی راکھ زمین پر بکھیر دی۔

ڈاکٹر اصغر علی دشتی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے استاذ ہیں۔ آج کل وفاقی اردو یونیورسٹی، کراچی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے ممتازدانشور اور بلوچی اکادمی، کوئٹہ کے سابق سربراہ، واجہ جان محمد دشتی کی انگریزی کتاب ''The Baloch Cultural Heritage ''پر تبصرہ کیا جو کوئٹہ کے ایک اخبار (آزادی)میں شائع ہوا۔وہ تبصرے میں لکھتے ہیں:''مکران فتح کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ خان کے اختیارات اور حکمرانی کو وسیع کیا جاسکے۔ خلیج فارس میں خان کے معاشی، تجارتی اور عسکری مفادات کو تحفظ مل جائے۔ مکران پر قبضہ کرنے کے بعد ریاست قلات کو زیادہ تر آمدن (سمندری تجارت کے باعث)مکران سے ہی حاصل ہوئی۔ حیرت کی بات ہے ، خان قلات کے خاندان کے کسی فرد نے جو خود کو اب تک بلوچوں کا سربراہ سمجھتے ہیں، مکران کے قتل عام پر عوامی سطح پہ آج تک معافی ( Apology Public) نہیں مانگی۔''

ریاست خاران پر شیروانی قبیلے کی حکومت تھی۔یہ قبیلہ خود کو ایرانی بادشاہ، نوشیروان کی اولاد بتاتا ۔خاران کے ممتاز مورخ، عبدالقادر بلوچ خارانی اپنی کتاب ''تاریخ خاران''میں لکھتے ہیں کہ شیروانی حکمرانوںنے کبھی قلات کے براہوئی خاندان کی بالادستی قبول نہیں کی۔اسی کتاب کے صفحہ نمبر دس اور گیارہ میں مرقوم ہے: ''میر گل خان نصیر کی کتاب 'تاریخ بلوچستان جلد اول و دوم 'کے علاوہ' تاریخ خوانین بلوچ' میں بھی خاران کی سرزمین اور والیان خاران سے متعلق کوئی اہم تذکرہ شامل نہیں بلکہ خطہ ِخاران کو ریاست قلات اور احمد زئی خاندان کی رعیت شمار کرکے حقائق سے رو گردانی کی گئی ۔ والیان ِخاران اور بلوچان ِخاران کبھی کسی ریاست کے محکوم نہیں رہے۔ بلکہ اکثر مشکل اور نا مساعد حالات میں ریاست قلات کے خوانین اور امرا اکثر اوقات شیروانی خاندان اور خارانی بلوچوں کے ہاں بطور باہوٹ پناہ لیتے رہے۔''

یہی وجہ ہے، تینوں پڑوسی ریاستوں کے سرداروں نے دل سے کبھی خان قلات کو اپنا حاکم تسلیم نہیں کیا۔ بس وہ خان قلات کی طاقت سے خائف ہو کر اس کے باج گزار اور مطیع بنے رہے۔ اس کے باوجود ان ریاستوں میں بھی وقتاً فوقتاً بغاوت ابھرتی رہی جسے قلات کی فوج فرو کر دیتی۔ نیز ایسے اقدامات کیے جاتے کہ مقامی حاکم و رعایا مستقبل میں آوازِ احتجاج بلند نہ کر سکے۔ بلوچ اور پشتون قبائل کو بھی عام طور پہ طاقت سے مطیع کرنے کی کوششیں ہوتی تھیں۔ یہی وجہ ہے، یہ دونوں اقوام بھی کسی نہ کسی مسئلے پر اکثر ریاست قلات سے برسرپیکار رہتیں۔

غرض عملی طور پہ موجودہ بلوچستان کا علاقہ مختلف قبائلی سرداروں کے مابین تقسیم تھا۔ ہر سردار کے علاقے میں اسی کا حکم چلتا تاہم اہم معاملات میں بڑے سردار مثلاً خان قلات کا فیصلہ تسلیم کیا جاتا ۔ یہ تھی صورت حال جب اٹھارہویں صدی کے وسط میں ایک نئی طاقت...انگریز کا ظہور ہوا۔ تب انگریز سرمایہ داروں اور تجاّر کی ملکیتی ایسٹ انڈیا کمپنی سازشوں اور روپے پیسے کے بل پہ ہندوستان پر قبضہ کر چکی تھی۔ اُسے بلوچستان کے بے آب وگیاہ علاقے سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی جہاں انسانی آبادی بھی بہت کم تھی۔ تاہم روسیوں کے بڑھتے قدموں نے انگریزوں کو چوکنا کر دیا۔ وہ ہندوستان جیسی سونے کی چڑیا کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے تھے۔اسی لیے انھوں نے بلوچستان ، شمالی علاقہ جات اور افغانستان کو ہندوستان اور روس کے درمیان 'بفرزون 'بنانے کا فیصلہ کر لیا۔

مالدار انگریز خان قلات کو ڈیرھ لاکھ روپے سالانہ دینے لگا جو اس زمانے میں بھاری رقم تھی۔مدعا یہ تھا کہ خان اپنی فوج کو مضبوط کر سکے۔اس طرح خود کو عسکری طور پہ طاقتور بنا کر خان اپنے علاقے میں امن وامان قائم کر دے اور روسیوں کو پر پھیلانے کا موقع نہ مل سکے۔ مگر وہ عسکری قوت پا کر بھی منہ زور اور سرکش بلوچ و پشتون قبائل کو قابو میں نہیں رکھ سکا۔یہ قبائل افغانستان جانے والے انگریز لشکروں پہ حملے کر کے انھیں نقصان پہنچاتے رہے۔کمپنی کے بنیا انگریز اپنی سرمایہ کاری ضائع ہوتے دیکھ کر اتنے زیادہ طیش میں آئے کہ انھوں نے قلات پر حملہ کر دیا۔ چار نومبر 1839ء کو انگریز فوج نے تب کے خان قلات، محراب خان کو قتل کیا اور اس کے رشتے دار کو نیا خان بنا دیا۔فاتح کی حیثیت سے انگریز نے جھالاوان اور کچھی کے کچھ علاقے اپنی حکومت میں شامل کر لیے۔نیز انگریز سے تعلقات میں خان قلات کی حیثیت ثانوی ہو گئی۔

انگریز نے مگر خان کو رقم دینا جاری رکھی۔مقصد یہی تھا کہ وہ ان کا ماتحت بنا رہے۔ انھوں نے قلات میں اپنا پولٹیکل ایجنٹ تعینات کر دیا تاکہ ریاست کے حالات پر ان کی نظر رہے۔ رقم پا کر عسکری قوت میں اضافہ ہوا تو نئے خوانین قلات مغرور و متکبر ہو گئے۔گویا ان میں ڈکٹیٹر بننے کے جراثیم نے جنم لیا۔ ان کے معاصرین سے تنازع بڑھ گئے۔اب تو جھالاوان اور سراوان کے سردار بھی حکم عدولی پر اتر آئے۔مکران اور لس بیلہ میں بغاوتوں نے سر اٹھایا۔ بلوچ قبائل جنگ کرنے لگے۔ 1873ء تک نوبت یہ پہنچ گئی کہ انگریز سرکار نے پولیٹکل ایجنٹ، میجر ہیریسن کو واپس بلوا لیا۔ خان قلات کو دی جانے والی رقم روک لی گئی۔حتی کہ کمشنر سندھ، ولیم میری ویدر نے برطانوی ہند حکومت کو تجویز دی کہ خان قلات (میر خداداد خان) کو برطرف کر دیا جائے۔نیز مری بگٹی قبیلوں کے علاقے میں لشکرکشی کی جائے۔

تب تک ہندوستان پر ملکہ برطانیہ کا تسلط ہو چکا تھا۔ انگریز بیوروکریسی کو احساس ہوا کہ بلوچستان کی شورش سے فائدہ اٹھا کر روسی وہاں اپنا اثر بڑھا سکتے ہیں۔اس لیے انگریز نے علاقے پر نا راست (ان ڈائرکٹ )طریق سے حکومت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس انوکھی پالیسی کو ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان، رابرٹ سینڈیمن نے بڑی ہوشیاری و چالاکی سے عملی جامہ پہنایا۔

(مضمون کا آخری حصّہ اگلے سنڈے میگزین میں ملاحظہ فرمائیے)
Load Next Story