سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی بستی میں
وہ گزرگاہیں جہاں رسول کریمﷺ بکریاں چرایا کرتے تھے ان کی مٹی بھی ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے
سرزمین حرمین سے عبدالمالک مجاہدکا مضمون
مملکت سعودی عرب اسلام اور قرآن کی سرزمین ہے۔ یہاں مکہ المکرمہ ہے جس میں بیت اللہ واقع ہے۔ یہاں مدینہ منورہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کی جائے پیدائش ہے۔یہاں غارِ حرا ، غارِ ثور، بدر واحد ، حنین ، یرموک ، تبوک ہے ، مسجد قبا ، مسجد قبلتین اور جنت البقیع واقع ہے۔ یہاں وہ خطہ بھی ہے جہاں قبیلہ بنو سعد آباد تھا۔۔۔۔وہ قبیلہ جس میں رسول ﷺ نے پرورش پائی اور جس کی ایک خاتون حلیمہ سعدیہ نے رسول پاکﷺ کو دودھ پلایا۔
بچپن میں علماء اور خطبا، سے رسول ﷺ کی رضاعی ماں سیدہ حلیمہ سعیدیہ رضی اللہ عنہاکے حالات واقعات بڑے شوق سے سنا کرتے تھے۔دل میں حلیمہ سعدیہ کی بستی کو دیکھنے کی خواہش انگڑائیاں لیتی تھی۔ تب ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ایک وقت آئے گا جب سیدہ حلیمہ سعدیہ کی بستی کی مجھے زیارت نصیب ہوگی۔ یہ یقینا میری خوش قسمت ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے سیدہ حلیمہ سعدیہؓ کی بستی کی زیارت کا موقع دیا۔ وہ راستے ، وہ گزرگاہیں جہاں رسول مقبول ﷺ بکریاں چرایا کرتے تھے ، ان گزر گاہوں کی مٹی بھی ہمارے لئے آنکھوں کا سرمہ ہے۔ میں الحمد للہ عرصہ پنتالیس سے سعودی عرب میں مقیم ہوں۔ سفر کرنے کی ہر طرح کی سہولتیں حاصل ہیں اور مقدس و تاریخی مقامات کی زیارت کا شوق بھی ہے۔
ایسے ہی سیدہ حلیمہ سعدیہؓ کی بستی کی زیارت کیلئے بھی دل بے قرا رہا تھا۔ بڑی مدت سے سوچ رہا تھا کہ کسی وقت بنو سعد کا علاقہ دیکھا جائے۔ اس کے لیے موقع بھی درکار تھا اور کوئی اچھا سا ہم سفر بھی ، ایسا ہم سفر جسے جغرافیہ کے ساتھ دلچسپی اور واقفیت بھی ہو تو سفر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ میرے رشتہ کے ایک چچا سیف الرحمان ایک مدت سے طائف کے انٹرنیشنل سکول میں تعینات ہیں۔ کافی عرصہ وہ بطور ایکٹنگ پرنسپل بھی کام کرتے رہے ہیں۔ میں نے انہیں فون پر اپنی خواہش سے مطلع کیا کہ میں اس علاقہ کو دیکھنا چاہتا ہوں تو ان کا جواب تھا '' آ پ جب چاہیں آ جائیں میں اسکول سے ایک دن کی چھٹی لے لوں گا اور بذات خود آپ کو اس جگہ کی سیر کراوں گا۔ وہ خود متعدد بار وہاں جا چکے ہیں۔
ڈاکٹر زعیم الدین دبئی میں تھے تو میں نے ان سے کہا: جناب دارالسلام سے چھٹی لیناآ سان کام نہیں۔ دفتر کا کام کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اگر آ پ ریاض آ جائیں تو آ پ کو ساتھ لے کر بنو سعد کا علاقہ دیکھنے جائیں گے۔ وہ جگہ جہاں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنا بچپن گزارا، اسے دیکھنے کی خواہش کس مسلمان کو نہ ہوگی۔ دارالسلام جدہ برانچ کے منیجر اشرف علی خود ہی کوسٹر کی ڈرائیونگ کر رہے تھے وہ بھی اسلامی اقدار کے شیدائی ہیں۔ بڑے مشاق ڈرائیور ہیں اور پہلے بھی ایک بار بنو سعد جا چکے ہیں۔ چنانچہ ہم طے شدہ پروگرام کے مطابق مکہ مکرمہ سے طائف پہنچے تو سیف الرحمان ہمارے منتظر تھے۔ انھوں نے اشرف صاحب کو اشارہ کیا کہ ان کی گاڑی کے پیچھے پیچھے آجائیں۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد انھوں نے ایک جگہ پارکنگ میں گاڑی لگائی اور اس میں سے کھانے کی ڈھیر ساری اشیاء نکال کر ہماری گاڑی میں رکھ دیں۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ کہنے لگے معمولی سا ناشتہ ہے ، مگر یہ آ پ کو سیدہ حلیمہ سعدیہ کے گاؤں جا کر ملے گا۔ میری اہلیہ بھی رشتہ میں ان کی بھتیجی لگتی ہیں۔
رشتہ داروں سے ایک عرصے بعد ملاقات ہو تو اس کا اپنا ہی ایک مزہ ہوتا ہے۔ ان کو اپنی گاڑی میں بٹھایا، اب ہمارا رخ یمن کی طرف تھا۔سعودی عرب میں اب سڑکوں کا نظام بڑا عمدہ ہے۔ دو رویہ سڑک پر ہم کم و بیش 60 کلومیٹر تک چلتے گئے۔ سیف الرحمان اپنے فون سے گاہے بگاہے کسی عربی سے ہدایات لیتے رہے کہ اچانک شخصان نامی ایک گاؤں کے اڈے پر انھوں نے اشرف صاحب کو گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔ اب عقدہ کھلا کہ انھوں نے ایک سعودی بدو سے طے کر رکھا تھا کہ وہ ہمیں اس گاؤں سے سیدہ حلیمہ سعدیہ کے گاؤں تک اپنی گاڑی میں لے جائے گا۔ ہم نے اس کی گاڑی دیکھی پرانے ماڈل کی جی ایم سی تھی جس کا دروازہ بہت زور لگانے سے کھلتا تھا۔ خواتین پہلے تو دیکھ کر کہنے لگیں '' کیا اپنی گاڑی نہیں جا سکتی ؟ '' معلوم ہوا کہ یہاں سے مغرب کی طرف کچا راستہ ہے۔ یہ پہاڑی راستہ ہے جس میں بیسیوں موڑ ہیں۔
اونچی نیچی پہاڑیوں کے ان راستوں کو مقامی لوگ ہی جانتے ہیں اور ان پر اس قسم کی گاڑیاں ہی سفر کر سکتی ہیں۔ ہمارے قائد کا نام علی الاعتیبی تھا۔ بڑے مضبوط اور توانا جسم کا مالک بدو جو اسی علاقے میں پیدا ہوا۔ میرے استفسار پر بولا :میرا گاؤں یہاں سے 30 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔میرا والد اونٹ چرایا کرتا تھا۔ میں نے 25 سال تک سعودی عرب آرمی میں نوکری کی ہے اور اب میں نے ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ دو بیویوں سے میرے 10 بچے ہیں۔ ایک بیوی کو طلاق دے چکا ہوں۔ میں نے باتوں باتوں میں اس کا مکمل انٹرویو کر لیا۔ ہم بے دلی کے ساتھ اس کی گاڑی میں سوار ہوئے کہ خاصی پرانی اور بے آرام کرنے والی تھی ، مگر ہم چونکہ اس سفر کے نہایت ہی مشتاق تھے، اس لیے بادل نخواستہ ہی سہی اسی گاڑی میں جانے کو تیار ہو گئے۔ ظہر کا وقت قریب تھا ،طے یہ پایا کہ ہم ظہرکی نماز وہاں پہنچ کر ادا کریں گے۔
قریباََ 40 منٹ کا یہ سفر بڑا اچھا گزرا۔ پہاڑی راستہ، اونچی نیچی سڑک ، اس پر اگر ہم اپنی نئی نویلی گاڑی کو لے جاتے تو اس کا ستیاناس ہو جاتا اور ہم وہاں شائد ہی پہنچ پاتے کیوںکہ وہاں تک جانے کے لیے راستہ سے واقف شخص کا ساتھ ہونا ضروری تھا۔ میں اس جگہ کی زیارت کا سالہا سال سے منتظر تھا اور چشم تصور سے دیکھ رہا تھا کہ یہاں سے دس بدوی خواتین کا قافلہ اپنے شوہروں کی رہنمائی میں مکہ کی طرف جا رہا ہے۔ یہ علاقہ کوئی زرخیز نہیں۔ پہاڑوں پر کھیتی باڑی بھی زیادہ نہیں ہے۔ پہاڑی وادیوں اور نشیب میں کہیں کہیں تھوڑی سی جگہ پر زراعت ہو سکتی ہے۔یہا ں خاردار جھاڑیاں بھی کم ہی ہیں۔ لوگوں کا ذریعہ معاش اونٹوں اور بکریوں سے ہونے والی آمدنی ہے۔ وہ ان کا دودھ پیتے، ان کی کھال سے فائدہ اٹھاتے اور کبھی کبھار ذبح کر کے ان کا گوشت کھاتے ہیں۔ اگر قسمت ساتھ دے اور بارش ہو جائے تو کچھ کھیتی باڑی کی صورت نکل آ تی ہے جس سے گیہوں کی فصل ہو جاتی ہے۔ بنو سعد کے علاقے میں قبیلہ سعد بن ابی بکر دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ خاندان اصل میں بنو ہوازن ہی کی شاخ ہے۔
یہ وہی قبیلہ ہے جس نے حنین کے میدان میں رسول ﷺ کے ساتھ مقابلہ کیا تھا۔ یہاں کا موسم اور آب و ہوا نہایت صحت افزا تھی۔ ہر سال کچھ عورتیں مکہ مکرمہ آتیں اور وہاں کے خوشحال اور امیر قریشی گھرانوں کے شیرخوار بچوں کو لے جاتیں۔ دو سال تک انھیں دودھ پلاتیں، پھر والدین کے پاس پہنچا دیتیں اور ان سے ان کی حیثیت کے مطابق انعام و اکرام حاصل کرتیں۔ان 10 عورتوں کے قافلہ میں ایک خاتون حلیمہ بنت ابی ذوہیب بھی تھیں۔ ان کے خاوند کا نام حارث بن عبدالعزیٰ اور کنیت ابوکبشہ تھی۔دونوں میاں بیوی قبیلہ بنوسعد بن بکر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی دو بیٹیوں کے نام انیسہ اور حذافہ تھے۔ شیما انہی حذافہ کا لقب تھا اور وہ اسی نام سے زیادہ مشہور ہوئیں۔ بیٹے کا نام عبداللہ تھا اور یہ سب سے چھوٹا بچہ تھا۔ جب اللہ کے نبی حلیمہ سعدیہ کی چھاتی سے دودھ پیتے تھے تو یہی عبداللہ رضائی بھائی کے طور پر ان کی گود میں تھا۔ اس علاقے میں نہایت درجہ غربت وفلاس تھا۔
علاقے میں خوش سالی کے باعث قحط پڑا ہوا تھا۔ اس لیے قافلہ مکہ کی طرف جا رہا تھا۔ سیدہ حلیمہ ایک گدھی پر سوار تھیں۔ ان کے پاس ایک اونٹنی بھی تھی لیکن اس میں سے ایک قطرہ بھی دودھ نہ نکلتا تھا۔ چھوٹا سا عبداللہ اس قدر بلکتا تھا کہ وہ رات بھر سو نہیں سکتے تھے۔ جب قافلہ مکہ میں پہنچا تو تمام خواتین دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں نکل گئیں۔ ان کے سامنے نبی ؐ کو پیش کیا گیا مگر جب ان کو بتایا جاتا کہ یہ بچہ یتیم ہے، تو آ پ کو لینے سے انکار کر دیتیں۔ وہ صرف بڑے بڑے امیر گھرانوں کے بچوں کی تلاش میں تھیں۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ سیدہ حلیمہ کے سوا ہر عورت کو کوئی بچہ مل گیا۔ قافلہ واپس جانے لگا تو سیدہ حلیمہ نے اپنے خاوند سے کہا :
اللہ کی قسم ! مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میری تمام سہلیاں تو بچے لے کر جائیں اور میں تنہا کوئی بچہ لیے بغیر یہ واپس چلی جاؤں۔ سیدہ حلیمہ نے اپنے خاوند کو فیصلہ سنایا کہ میں جا کر اسی یتیم کو گود میں لے رہی ہوں۔ حارث کہنے لگے : کوئی حرج نہیںجاؤ! اسی بچے کو لے آؤ ، ممکن ہے اسی کے ذریعے ہمیں برکت حاصل ہو جائے۔ حلیمہ سعدیہ نبی ؐ کی والدہ سیدہ آ منہ کے پاس گئیں اور ان سے آپ کو گود لے لیا۔ سیدہ آ منہ بھی خوش تھیں کہ ان کا بیٹا دیہات کی صاف و شفاف آب ہوا میں نشونما پائے گا۔ اس وقت کے شرفاء کا یہی دستور تھا۔قریش کو اپنی زبان کی حفاظت کی بہت فکر رہتی تھی۔ قوم کے سردار کے لیے ضروری تھا کہ فصیح اللسان ہو۔ بچوں کو بچپن ہی سے فصیح و بلیغ عربی کا عادی بنایا جاتا تھا۔
قریش نے کچھ دیہاتی قبائل منتخب کر رکھے تھے۔ وہ بچپن ہی سے اپنے بچوں کو پرورش کے لیے قبائل میں بھجوا دیتے تھے۔ یہاں کی زبان شہری علاقوں کی نسبت زیادہ خالص اور فصیح و بلیغ ہوتی تھی۔ بچے کے بول چال پر اس کی فصیح لغت کے اثرات پوری زندگی باقی رہتے تھے۔ آ پؐ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا تھا: '' میں قریش میں سے سب سے زیادہ شستہ اور فصیح عربی بولنے والا ہوں ، میں قریشی ہوں اور قبیلہ بنو سعد میں دودھ پیا ہے ( جو فصاحت و بلاغت میں ایک اعلی مقام کا حامل ہے ) آپؐ کے چیچیرے بھائی ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب بھی زمانہ رضا عت میں بنو سعد میں ہی تھے انھوں نے بھی سیدہ حلیمہ کا دودھ پیا تھا، اس لیے آ پ کے رضائی بھائی ٹھہرے۔ آپؐ کے چچا سردار حمزہ بن عبدالمطلب بھی رضاعت کے لیے سعد کی ایک عورت کے حوالے کیے گئے تھے۔ ایک دن وہ عورت سیدہ حلیمہ کے پاس تھیں کہ سردار حمزہ کو بھی سیدہ حلیمہ نے اپنا دودھ پلا دیا اس طرح وہ آپؐ کے دودھ شریک بھائی ہو گئے، کیونکہ ان کو اور نبی کریمؐ دونوں کو سیدہ ثوبیہ نے بھی دودھ پلایا تھا۔
سیدہ حلیمہ نے آپؐ کو اپنی گود میں اٹھایا اور اپنے خیمے میں آکر اپنی آ غوش میں رکھا تو آ پؐ نے جس قدر چاہا سیر ہو کر دودھ پیا۔ا ن کے ساتھ ان کے رضائی بھائی عبداللہ نے بھی شکم سیر ہو کر پیا اور دونوں سو گئے۔ سیدہ حلیمہ فرماتی ہیں : اس سے پہلے بچہ بھوک کی وجہ سے روتا رہتا اور ہم رات کو سو نہیں سکتے تھے۔ ادھر سیدہ حلیمہ کے شوہر حارث اونٹنی دھونے گئے تو دیکھا کہ اس کے تھن دودھ سے لبریز ہیں۔ انہوں نے اتنادودھ دوہا کہ ہم دونوں نہایت آسودہ ہو کر پیا اور ہماری رات نہایت آرام سے گزری۔ہماری گاڑی کا ڈرائیور علی العتیبی بڑی چابک دستی اور مہارت سے اپنی پرانی لیکن مضبوط گاڑی چلا رہا تھا۔
وہ ہمیں اس علاقہ کی تاریخ سے آ گاہ کرتا گیا کہ ایک وقت تھا جب یہاں قبائل میں جنگ ہوتی رہتی تھی۔ ایک قبیلہ کا شخص دوسرے کے علاقے میں نہیں جا سکتا تھا۔مگر آل سعود کی حکومت آئی تو یہاںپر امن و امان قائم ہو گیا۔ دور پہاڑیوں کی چوٹیوں پر ہمیں بکریاں چرتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ ڈاکٹر زعیم الدین نے کچھ دیر تو صبر کیا مگرپھر وہ کہنے لگے : گاڑی روکیں، ہمیں اگلی سیٹ پر بیٹھنا ہے۔ انھوں نے اپنے موبائل سے علاقے کی ویڈیو بنانا شروع کر دی۔ سیدہ حلیمہ کے گاؤں کا نام '' شوحطہ '' تھا۔آج کل اسے بعض وقائع نگار اسے '' شحطہ '' بھی لکھتے ہیں مگر '' شوحطہ '' ہی صحیح ہے۔ یہ سڑک کے راستے مکہ سے 160 کلومیٹر اور طائف سے 70کلو میٹرکے فاصلہ پر ہے۔ شقصان سے شوحطہ تک کچا راستہ 15 سے 20 کلومیٹر تو ضرور ہوگا۔دور سے ایک وادی کی طرف محترم سیف الرحمان نے اشارہ کیا کہ یہ رہا سیدہ حلیمہ کا گاؤں۔
گاڑی نے سیدھی طرف سے ایک چکر لگایا اور قدر اونچے ٹیلے پر چڑھ گئی۔ پچھلی جانب شوحطہ نامی گاؤں نظر آرہا تھا جو دو فرلانگ کے فاصلے پر ہوگا۔گاڑی بتدریج اوپر چڑھتی چلی گئی۔ نیچے قبرستان نظر آیا اور اس کے ساتھ کھیتیاں جو اس وقت خشک تھیں۔ علی نے گاڑی کو الٹے ہاتھ گھمایا۔ میں نے سامنے کی طرف دیکھا تو چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں کچھ آ ثار نظر آئے کہ یہاں پر کبھی آبادی ہوتی تھی۔ علی نے گاڑی پارک کی اور ہم سے کہا: آپ لوگ یہاں پر گھومیںپھریں۔جب تک جی چاہے قیام کریں۔تصاویر بنائیں۔
جب جانے کا موڈ ہو مجھے اشارہ کر دیں تو میں آپ کو لے چلوں گا۔ اچانک اس نے مجھ سے کہا: بھائی آپ لوگوں کو تو نماز قصر ادا کرنی ہوگی ؟میں نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے کہا : میں تو مقامی ہوں اور فوراََ نیت باندھ کر نماز ادا کرنا شروع کر دی۔ یہ کوئی بڑی وادی نہیں ہے تاہم زیادہ چھوٹی بھی نہیں۔ یہاں ابر رحمت چھایا ہوا ہے اور ہر طرف نہایت ہی سکون واطمینان کی فضا ہے۔ رقبہ15 سے 20 ایکڑ تو ہوگا۔ سیدہ حلیمہ کے گاؤں کے حالات اب وہ نہیں رہے جو کبھی تھے۔ اس واقعہ کو قریباََ1500 سال گزر چکے ہیں۔ پتھروں کے نشانات ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چار دیواریاں ہیں۔
ہم لوگ پہاڑی کے اوپر الٹی طرف چڑھتے چلے گئے۔ دو یا تین مقامات کی طرف اشارہ کر کے ہمیں بتایا گیا کہ یہ سیدہ حلیمہ کے قبیلہ والوں کے گھر تھے۔ کسی پاکستانی نے سفیدی سے شکستہ خط میں لکھا ہوا تھا'' بیت حلیمہ'' یہ نہایت چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔غالباََ بارش کے وقت ہی ان میں رہا جاتا ہوگا اور باقی وقت خیموں میں گزرتا ہوگا۔ڈاکٹر زعیم الدین اپنی اہلیہ کے ہمراہ بڑی پھرتی سے پہاڑی کے اوپر چڑھ گئے۔
میں نے ایک بار پھر چشم تصور سے دیکھنا شروع کیا کہ سیدہ حلیمہ سرور دو عالمؐ کو اپنے ساتھ لیے مکہ سے بنو سعد کی طرف روانہ ہوئی ہیں جس قافلہ سے مکہ گئی تھیں اسی میں واپس آرہی تھیں۔ کہاں مکہ جاتے وقت یہ کیفیت تھی کہ ان کی گدھی کمزوری اور دبلے پن کا شکار تھی، مگر اب واپسی پر اس شان سے ہو رہی ہے کہ ان کے اپنے الفاظ ہیں : اپنی خستہ حال گدھی پر سوار ہوئی اور اس بچے کو بھی اپنے ساتھ لیا لیکن اب وہی گدھی اللہ کی قسم ! پورے قافلے کو کاٹ کر اس طرح آگے نکل گئی کہ کوئی سواری اس کے ساتھ نہ دے سکی۔
ساتھی خواتین کہہ رہی تھیں : حلیمہ! ذرا ہم پر مہربانی کرو ،آخرتمہاری وہی گدھی تو ہے جس پر تو سوار ہو کر آئی تھیں۔ میں کہتی: ہاں ہاں ! واللہ یہ وہی ہے۔ وہ کہتیں اس کا یقینا کوئی سبب تو ہوگا۔وادی کے شمالی جانب چھوٹے چھوٹے درخت اور گھاس اگی ہوئی نظر آئی۔ اس کے قریب ہی ایک چھوٹا سا ٹیلہ تھا۔ اس طرف اشارہ کر کے سیف الرحمان کہنے لگے : سینہ در سینہ روایات کے مطابق یہاں شق صدر کا واقعہ پیش آیا تھا۔ سیدہ حلیمہ کے گھر والی جگہ کی اگر پیمائش کی جائے تو ساری مل ملا کر دس پندرہ مرلہ سے زائد نہ ہو گی۔ میں بار بار اس وادی کی طرف دیکھتا، اس کے ذرے ذرے پر غور کرتا کہ سبحان اللہ ! یہ وہی جگہ ہے جہاں اللہ کے رسول ؐ نے اپنا بچپن گزارا تھا۔
اللہ کے رسولؐ اپنی رضاعی والدہ کے ساتھ بنو سعد میں تشریف لائے۔ میں نے تاریخ کی کتابوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس وقت عمر مبارک کتنے دن یا کتنے ماہ کی تھی۔ محمد ابو شہبہ اپنی سیرت نبوی کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پہلے سیدہ آمنہ نے آپ کو تین ،سات یا نو دن تک دودھ پلایا ،پھر ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے قریباََ اتنے ہی روز آپ کو دودھ پلایااور اس کے بعد حلیمہ سعدیہ وہاں تشریف لائیں اور آپؐ کو اپنے ساتھ لے گئیں۔ عزالدین ابن جماعۃ عبدالعزیز کنانی نے مختصر السیرۃ میں لکھا ہے : آپؐ کو پہلے سیدہ آمنہ نے سات روز تک دودھ پلایا ،پھر چند روز ثوبیہ نے اور اس کے بعد حلیمہ سعیدیہ دودھ پلاتی رہیں۔
تاہم آپؐ اس بستی میں آئے تو اپنی رضاعی والدین کے لیے رحمتیں اور برکتیں لے کر آئے۔ سیدہ حلیمہ اپنی بات کو پوری کرتے ہوئے فرماتی ہیں: ہم بنو سعد میں اپنے گھر کو آگئے۔مجھے معلوم نہیں کہ اللہ کی زمین کا کوئی خطہ ہمارے علاقے سے زیادہ قحط زدہ اور خشک سالی کا شکار تھا ،لیکن مکہ سے واپسی کے بعد میری بکریاں چرنے جاتیں تو آسودہ حال اور دودھ سے بھرپور واپس آتیں۔ہم انہیں دھوتے اور دودھ پیتے جب کہ کسی اور انسان کو دودھ کا ایک قطرہ بھی نصیب نہ ہوتا۔ ان کے جانوروں کے تھنوں میں دودھ سرے سے رہتا ہی نہ تھا حتی کہ ہماری قوم کے لوگ اپنے چرواہوں سے کہتے کم بختو : جانور وہاں چرنے لے جایا کرو جہاں ابو ذئیب کی بیٹی کا چرواہا لے کر جاتا ہے، لیکن تب بھی ان کی بکریاں بھوکی واپس آتیں اور ان کے اندر ایک قطرہ نہ دودھ رہتا، جبکہ میری بکریاں آسودہ دودھ سے بھرپور لوٹتیں۔ میں ادھر ادھر چل کر اس سرزمین کو محبت اور عقیدت سے دیکھتا رہا جہاں نبیؐ نے چلنا شروع کیا۔
ننھے سے محمد سے ان کے رضاعی بہن شیمہ کتنا پیار کرتی ہوںگی۔ان کو گود میں اٹھاتیں اور لوریاں سناتی، کھلاتی، پیلاتی اور ان کے ناز اٹھاتی ہوںگی۔ سیدہ حلیمہ کے بقول آپؐ دوسرے بچوں کے مقابلے میں اس تیزی سے بڑھ رہے تھے کہ دو سال پورے ہوتے ہوتے خاصے بڑے معلوم ہونے لگے تھے۔ سیدہ حلیمہ فرماتی ہیں: آپؐ کا معمول تھا کہ آ پ میری چھاتی کی دائیں جانب سے ہی دودھ پیتے اور جب بائیں جانب آگے کرتی تو آپ منہ ہٹا لیتے۔ مجھے اس پر حیرت ہوتی مگر سیدہ حلیمہ کو کیا معلوم تھا کہ یہ وہ بچہ ہے جو بڑا ہو کر قناعت کا معلم، مساوات کا علم بردار اور عدل و انصاف کا پیکر بنے گا، اس لیے اللہ تعالی نے بچپن ہی میں یہ انتظام فرما دیاکہ وہ صرف اپنے حصے کا دودھ ہی پییں اور اپنی رضاعی بھائیوں کے حق میں مداخلت نہ کریں۔ اللہ کے رسولؐ کے بچپن کے واقعات سیرت نگاروں نے بڑی محبت سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لکھے ہیں، ان کو پڑھتے یا لکھتے وقت آدمی کے ایمان میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ سیدہ حلیمہ کے گاؤں میں ہمارا وقت بہت تیزی سے گزر رہا تھا۔
جس طرف شق صدر کا واقعہ ہوا تھا وہاں خاردار تار لگا کر اس ایریے کو بند کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر زعیم الدین تو اپنی اہلیہ سمیت تیزی سے چلتے ہوئے وہاں کا چکر لگائے۔ ہمارا خیال تھا کہ دوپہر کا کھانا جسے سیف الرحمان ناشتے کا نام دے رہے تھے، ہم اسی نشیبی جگہ پر کھائیں گے۔ مگر زعیم صاحب نے اطلاع دی کہ وہاں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں ہم بیٹھ سکیں۔ ہمیں نمازیں ادا کرنا تھیں، اشرف صاحب نے نہایت پھرتی سے ایک بڑا قالین گاڑی سے نکالا اور اس سے بچھا دیا۔یہی ہماری جائے نماز ہے۔ میں نے بلند آواز سے تکبیر کہی اور ڈاکٹر زعیم الدین کو امامت کے لیے کھڑا کر دیا۔
انہوں نے نماز ظہر اور عصر قصر کر کے پڑھائی۔ سبحان اللہ! دین میں کتنی آسانیاں ہیں۔ مسافروں کو نماز میں چھوٹ اور دو نمازوں کو اکٹھا کرلینے کی اجازت اللہ تعالی کی خاص رحمت کا نتیجہ ہے۔محترم سیف الرحمان اور اشرف علی نے دسترخوان سجا دیا۔ ایک بڑے سے برتن کا جب ڈھکن اتارا گیا تو آلو کے پراٹھے نظر آئے۔ اب بھوک بھی چمک اٹھی تھی۔ ایک برتن میں حلوہ تھا۔المراعی کی زبادی اور لبن ،ضیافت کا مزہ آگیا۔ آئندہ کے لیے طے ہو گیا کہ یہ بہترین ضیافت ہے جب کبھی سفر میں جانا ہو تو آلو کے پراٹھے بہترین چیز ہے نہ برتنوں کی ضرورت نہ شوربہ گرنے کا اندیشہ۔۔۔۔۔۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ میری نگاہیں اس خوبصورت جھاڑی کی طرف تھیں جو اس جگہ واقع تھی جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہاں پر شق صدر کا واقعہ پیش آیا تھا۔یہ مقام سیدہ حلیمہ کے گھر سے زیادہ دور نہیں۔ وہاں سبزہ بھی ہے۔
اللہ کے رسولؐ کی عمر مبارک جب دو سال ہوئی زمانہ رضا عت پورا ہو گیا، تو سیدہ آپ کو لے کر مکہ مکرمہ آئیں تاکہ سیدہ آمنہ کی امانت ان کے سپرد کر دیں۔لیکن اس دوران میں بچے کی جو محبت سیدہ حلیمہ کے گھر والوں میں پیدا ہو چکی تھی اور جن خیر و برکات سے اس گھرانے کو فائدہ ہوا تھا۔ اس کی بنا پر سیدہ حلیمہ نے سیدہ آمنہ سے درخواست کی کہ کچھ عرصہ کے لیے اس بچے کو ہمارے پاس ہی رہنے دیا جائے۔
شاید ان دنوں مکہ میں وبا پھیلی ہوئی تھی۔ سیدہ حلیمہ نے بار بار درخواست کی تو سیدہ آمنہ ان کی درخواست منظور کر لی اور وہ آپؐ کو لے کر ایک مرتبہ پھر بنو سعد میں آگئیں۔ ہمارا ڈرائیور یا گائڈ علی اطیبی ایک بڑے پتھر کی اوٹ میں لیٹ گیا۔ہمارے پاس کھانا کافی مقدار میں تھا۔میں نے علی کو آواز دی: علی بھائی ! آؤ تم بھی ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہو جاؤ۔ پہلے تو اس نے انکار کیا مگر پھر میرے اصرار پر جھجکتے ہوئے شریک ہو گیا۔اسے بھی آلو کے پراٹھے بہت پسند آئے۔خواتین نے اپنے لیے جی ایم سی میں ہی دسترخوان بچھا لیا۔ میری نگاہیں اور خیالات کا رخ اس سہانے وقت کی طرف تھا جب اللہ کے رسولؐ بھی اپنی دودھ شریک بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانے کے لیے جانے لگے تھے۔
ایک دن گھر سے قدرے دور آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو پکڑ کر زمین پر لٹادیا۔ سینہ چاک کر کے دل نکالااور اس میں سے خون کا ایک لوتھڑانکال کر فرمایا: یہ تم سے شیطان کا حصہ تھا۔ پھر دل کو ایک تشت میں زمزم کے پانی سے دھویا اور پھر اسے واپس اسی جگہ پر جوڑ دیا۔ ادھر بچے دوڑ کر اپنی والدہ سیدہ حلیمہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے: محمد کو قتل کر دیا گیا ہے۔گھر والے بھاگم بھاگ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ آپ کا رنگ اترا ہوا تھا۔ سیدنا مالک بن مالک رضی اللہ عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں، فرماتے ہیں : میں سلائی کے نشانات آپؐ کے سینہ مبارک پر دیکھا کرتا تھا۔ ہم نے اس وادی میں کم و بیش دو گھنٹے کا وقت گزارا۔ بلاشبہ یہ میری زندگی کا بہت یادگار سفر تھا۔یہاں اس قدر لطف آیا کہ واپس آنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا ،مگر ڈاکٹر زعیم الدین مکہ مکرمہ واپسی پر ایک اور عمرہ کرنا چاہ رہے تھے اور میری بھی مغرب کے بعد امام و خطیب حرم شیخ عبدالرحمان السدیس کے ساتھ ملاقات طے تھی اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی ہم نے وہاں سے واپسی کے لیے رخت سفر باندھا۔ علی العتیبی ہمیں بغیر کسی تاخیر کے منزل مقصود پہنچا دیا۔ میرا تجربہ ہے کہ واپسی کا سفر بالعموم جلدی طے ہوا کرتا ہے۔ اب ہم مکہ مکرمہ کی طرف رواں دواں تھے۔
مملکت سعودی عرب اسلام اور قرآن کی سرزمین ہے۔ یہاں مکہ المکرمہ ہے جس میں بیت اللہ واقع ہے۔ یہاں مدینہ منورہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کی جائے پیدائش ہے۔یہاں غارِ حرا ، غارِ ثور، بدر واحد ، حنین ، یرموک ، تبوک ہے ، مسجد قبا ، مسجد قبلتین اور جنت البقیع واقع ہے۔ یہاں وہ خطہ بھی ہے جہاں قبیلہ بنو سعد آباد تھا۔۔۔۔وہ قبیلہ جس میں رسول ﷺ نے پرورش پائی اور جس کی ایک خاتون حلیمہ سعدیہ نے رسول پاکﷺ کو دودھ پلایا۔
بچپن میں علماء اور خطبا، سے رسول ﷺ کی رضاعی ماں سیدہ حلیمہ سعیدیہ رضی اللہ عنہاکے حالات واقعات بڑے شوق سے سنا کرتے تھے۔دل میں حلیمہ سعدیہ کی بستی کو دیکھنے کی خواہش انگڑائیاں لیتی تھی۔ تب ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ایک وقت آئے گا جب سیدہ حلیمہ سعدیہ کی بستی کی مجھے زیارت نصیب ہوگی۔ یہ یقینا میری خوش قسمت ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے سیدہ حلیمہ سعدیہؓ کی بستی کی زیارت کا موقع دیا۔ وہ راستے ، وہ گزرگاہیں جہاں رسول مقبول ﷺ بکریاں چرایا کرتے تھے ، ان گزر گاہوں کی مٹی بھی ہمارے لئے آنکھوں کا سرمہ ہے۔ میں الحمد للہ عرصہ پنتالیس سے سعودی عرب میں مقیم ہوں۔ سفر کرنے کی ہر طرح کی سہولتیں حاصل ہیں اور مقدس و تاریخی مقامات کی زیارت کا شوق بھی ہے۔
ایسے ہی سیدہ حلیمہ سعدیہؓ کی بستی کی زیارت کیلئے بھی دل بے قرا رہا تھا۔ بڑی مدت سے سوچ رہا تھا کہ کسی وقت بنو سعد کا علاقہ دیکھا جائے۔ اس کے لیے موقع بھی درکار تھا اور کوئی اچھا سا ہم سفر بھی ، ایسا ہم سفر جسے جغرافیہ کے ساتھ دلچسپی اور واقفیت بھی ہو تو سفر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ میرے رشتہ کے ایک چچا سیف الرحمان ایک مدت سے طائف کے انٹرنیشنل سکول میں تعینات ہیں۔ کافی عرصہ وہ بطور ایکٹنگ پرنسپل بھی کام کرتے رہے ہیں۔ میں نے انہیں فون پر اپنی خواہش سے مطلع کیا کہ میں اس علاقہ کو دیکھنا چاہتا ہوں تو ان کا جواب تھا '' آ پ جب چاہیں آ جائیں میں اسکول سے ایک دن کی چھٹی لے لوں گا اور بذات خود آپ کو اس جگہ کی سیر کراوں گا۔ وہ خود متعدد بار وہاں جا چکے ہیں۔
ڈاکٹر زعیم الدین دبئی میں تھے تو میں نے ان سے کہا: جناب دارالسلام سے چھٹی لیناآ سان کام نہیں۔ دفتر کا کام کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اگر آ پ ریاض آ جائیں تو آ پ کو ساتھ لے کر بنو سعد کا علاقہ دیکھنے جائیں گے۔ وہ جگہ جہاں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنا بچپن گزارا، اسے دیکھنے کی خواہش کس مسلمان کو نہ ہوگی۔ دارالسلام جدہ برانچ کے منیجر اشرف علی خود ہی کوسٹر کی ڈرائیونگ کر رہے تھے وہ بھی اسلامی اقدار کے شیدائی ہیں۔ بڑے مشاق ڈرائیور ہیں اور پہلے بھی ایک بار بنو سعد جا چکے ہیں۔ چنانچہ ہم طے شدہ پروگرام کے مطابق مکہ مکرمہ سے طائف پہنچے تو سیف الرحمان ہمارے منتظر تھے۔ انھوں نے اشرف صاحب کو اشارہ کیا کہ ان کی گاڑی کے پیچھے پیچھے آجائیں۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد انھوں نے ایک جگہ پارکنگ میں گاڑی لگائی اور اس میں سے کھانے کی ڈھیر ساری اشیاء نکال کر ہماری گاڑی میں رکھ دیں۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ کہنے لگے معمولی سا ناشتہ ہے ، مگر یہ آ پ کو سیدہ حلیمہ سعدیہ کے گاؤں جا کر ملے گا۔ میری اہلیہ بھی رشتہ میں ان کی بھتیجی لگتی ہیں۔
رشتہ داروں سے ایک عرصے بعد ملاقات ہو تو اس کا اپنا ہی ایک مزہ ہوتا ہے۔ ان کو اپنی گاڑی میں بٹھایا، اب ہمارا رخ یمن کی طرف تھا۔سعودی عرب میں اب سڑکوں کا نظام بڑا عمدہ ہے۔ دو رویہ سڑک پر ہم کم و بیش 60 کلومیٹر تک چلتے گئے۔ سیف الرحمان اپنے فون سے گاہے بگاہے کسی عربی سے ہدایات لیتے رہے کہ اچانک شخصان نامی ایک گاؤں کے اڈے پر انھوں نے اشرف صاحب کو گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔ اب عقدہ کھلا کہ انھوں نے ایک سعودی بدو سے طے کر رکھا تھا کہ وہ ہمیں اس گاؤں سے سیدہ حلیمہ سعدیہ کے گاؤں تک اپنی گاڑی میں لے جائے گا۔ ہم نے اس کی گاڑی دیکھی پرانے ماڈل کی جی ایم سی تھی جس کا دروازہ بہت زور لگانے سے کھلتا تھا۔ خواتین پہلے تو دیکھ کر کہنے لگیں '' کیا اپنی گاڑی نہیں جا سکتی ؟ '' معلوم ہوا کہ یہاں سے مغرب کی طرف کچا راستہ ہے۔ یہ پہاڑی راستہ ہے جس میں بیسیوں موڑ ہیں۔
اونچی نیچی پہاڑیوں کے ان راستوں کو مقامی لوگ ہی جانتے ہیں اور ان پر اس قسم کی گاڑیاں ہی سفر کر سکتی ہیں۔ ہمارے قائد کا نام علی الاعتیبی تھا۔ بڑے مضبوط اور توانا جسم کا مالک بدو جو اسی علاقے میں پیدا ہوا۔ میرے استفسار پر بولا :میرا گاؤں یہاں سے 30 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔میرا والد اونٹ چرایا کرتا تھا۔ میں نے 25 سال تک سعودی عرب آرمی میں نوکری کی ہے اور اب میں نے ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ دو بیویوں سے میرے 10 بچے ہیں۔ ایک بیوی کو طلاق دے چکا ہوں۔ میں نے باتوں باتوں میں اس کا مکمل انٹرویو کر لیا۔ ہم بے دلی کے ساتھ اس کی گاڑی میں سوار ہوئے کہ خاصی پرانی اور بے آرام کرنے والی تھی ، مگر ہم چونکہ اس سفر کے نہایت ہی مشتاق تھے، اس لیے بادل نخواستہ ہی سہی اسی گاڑی میں جانے کو تیار ہو گئے۔ ظہر کا وقت قریب تھا ،طے یہ پایا کہ ہم ظہرکی نماز وہاں پہنچ کر ادا کریں گے۔
قریباََ 40 منٹ کا یہ سفر بڑا اچھا گزرا۔ پہاڑی راستہ، اونچی نیچی سڑک ، اس پر اگر ہم اپنی نئی نویلی گاڑی کو لے جاتے تو اس کا ستیاناس ہو جاتا اور ہم وہاں شائد ہی پہنچ پاتے کیوںکہ وہاں تک جانے کے لیے راستہ سے واقف شخص کا ساتھ ہونا ضروری تھا۔ میں اس جگہ کی زیارت کا سالہا سال سے منتظر تھا اور چشم تصور سے دیکھ رہا تھا کہ یہاں سے دس بدوی خواتین کا قافلہ اپنے شوہروں کی رہنمائی میں مکہ کی طرف جا رہا ہے۔ یہ علاقہ کوئی زرخیز نہیں۔ پہاڑوں پر کھیتی باڑی بھی زیادہ نہیں ہے۔ پہاڑی وادیوں اور نشیب میں کہیں کہیں تھوڑی سی جگہ پر زراعت ہو سکتی ہے۔یہا ں خاردار جھاڑیاں بھی کم ہی ہیں۔ لوگوں کا ذریعہ معاش اونٹوں اور بکریوں سے ہونے والی آمدنی ہے۔ وہ ان کا دودھ پیتے، ان کی کھال سے فائدہ اٹھاتے اور کبھی کبھار ذبح کر کے ان کا گوشت کھاتے ہیں۔ اگر قسمت ساتھ دے اور بارش ہو جائے تو کچھ کھیتی باڑی کی صورت نکل آ تی ہے جس سے گیہوں کی فصل ہو جاتی ہے۔ بنو سعد کے علاقے میں قبیلہ سعد بن ابی بکر دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ خاندان اصل میں بنو ہوازن ہی کی شاخ ہے۔
یہ وہی قبیلہ ہے جس نے حنین کے میدان میں رسول ﷺ کے ساتھ مقابلہ کیا تھا۔ یہاں کا موسم اور آب و ہوا نہایت صحت افزا تھی۔ ہر سال کچھ عورتیں مکہ مکرمہ آتیں اور وہاں کے خوشحال اور امیر قریشی گھرانوں کے شیرخوار بچوں کو لے جاتیں۔ دو سال تک انھیں دودھ پلاتیں، پھر والدین کے پاس پہنچا دیتیں اور ان سے ان کی حیثیت کے مطابق انعام و اکرام حاصل کرتیں۔ان 10 عورتوں کے قافلہ میں ایک خاتون حلیمہ بنت ابی ذوہیب بھی تھیں۔ ان کے خاوند کا نام حارث بن عبدالعزیٰ اور کنیت ابوکبشہ تھی۔دونوں میاں بیوی قبیلہ بنوسعد بن بکر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی دو بیٹیوں کے نام انیسہ اور حذافہ تھے۔ شیما انہی حذافہ کا لقب تھا اور وہ اسی نام سے زیادہ مشہور ہوئیں۔ بیٹے کا نام عبداللہ تھا اور یہ سب سے چھوٹا بچہ تھا۔ جب اللہ کے نبی حلیمہ سعدیہ کی چھاتی سے دودھ پیتے تھے تو یہی عبداللہ رضائی بھائی کے طور پر ان کی گود میں تھا۔ اس علاقے میں نہایت درجہ غربت وفلاس تھا۔
علاقے میں خوش سالی کے باعث قحط پڑا ہوا تھا۔ اس لیے قافلہ مکہ کی طرف جا رہا تھا۔ سیدہ حلیمہ ایک گدھی پر سوار تھیں۔ ان کے پاس ایک اونٹنی بھی تھی لیکن اس میں سے ایک قطرہ بھی دودھ نہ نکلتا تھا۔ چھوٹا سا عبداللہ اس قدر بلکتا تھا کہ وہ رات بھر سو نہیں سکتے تھے۔ جب قافلہ مکہ میں پہنچا تو تمام خواتین دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں نکل گئیں۔ ان کے سامنے نبی ؐ کو پیش کیا گیا مگر جب ان کو بتایا جاتا کہ یہ بچہ یتیم ہے، تو آ پ کو لینے سے انکار کر دیتیں۔ وہ صرف بڑے بڑے امیر گھرانوں کے بچوں کی تلاش میں تھیں۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ سیدہ حلیمہ کے سوا ہر عورت کو کوئی بچہ مل گیا۔ قافلہ واپس جانے لگا تو سیدہ حلیمہ نے اپنے خاوند سے کہا :
اللہ کی قسم ! مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میری تمام سہلیاں تو بچے لے کر جائیں اور میں تنہا کوئی بچہ لیے بغیر یہ واپس چلی جاؤں۔ سیدہ حلیمہ نے اپنے خاوند کو فیصلہ سنایا کہ میں جا کر اسی یتیم کو گود میں لے رہی ہوں۔ حارث کہنے لگے : کوئی حرج نہیںجاؤ! اسی بچے کو لے آؤ ، ممکن ہے اسی کے ذریعے ہمیں برکت حاصل ہو جائے۔ حلیمہ سعدیہ نبی ؐ کی والدہ سیدہ آ منہ کے پاس گئیں اور ان سے آپ کو گود لے لیا۔ سیدہ آ منہ بھی خوش تھیں کہ ان کا بیٹا دیہات کی صاف و شفاف آب ہوا میں نشونما پائے گا۔ اس وقت کے شرفاء کا یہی دستور تھا۔قریش کو اپنی زبان کی حفاظت کی بہت فکر رہتی تھی۔ قوم کے سردار کے لیے ضروری تھا کہ فصیح اللسان ہو۔ بچوں کو بچپن ہی سے فصیح و بلیغ عربی کا عادی بنایا جاتا تھا۔
قریش نے کچھ دیہاتی قبائل منتخب کر رکھے تھے۔ وہ بچپن ہی سے اپنے بچوں کو پرورش کے لیے قبائل میں بھجوا دیتے تھے۔ یہاں کی زبان شہری علاقوں کی نسبت زیادہ خالص اور فصیح و بلیغ ہوتی تھی۔ بچے کے بول چال پر اس کی فصیح لغت کے اثرات پوری زندگی باقی رہتے تھے۔ آ پؐ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا تھا: '' میں قریش میں سے سب سے زیادہ شستہ اور فصیح عربی بولنے والا ہوں ، میں قریشی ہوں اور قبیلہ بنو سعد میں دودھ پیا ہے ( جو فصاحت و بلاغت میں ایک اعلی مقام کا حامل ہے ) آپؐ کے چیچیرے بھائی ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب بھی زمانہ رضا عت میں بنو سعد میں ہی تھے انھوں نے بھی سیدہ حلیمہ کا دودھ پیا تھا، اس لیے آ پ کے رضائی بھائی ٹھہرے۔ آپؐ کے چچا سردار حمزہ بن عبدالمطلب بھی رضاعت کے لیے سعد کی ایک عورت کے حوالے کیے گئے تھے۔ ایک دن وہ عورت سیدہ حلیمہ کے پاس تھیں کہ سردار حمزہ کو بھی سیدہ حلیمہ نے اپنا دودھ پلا دیا اس طرح وہ آپؐ کے دودھ شریک بھائی ہو گئے، کیونکہ ان کو اور نبی کریمؐ دونوں کو سیدہ ثوبیہ نے بھی دودھ پلایا تھا۔
سیدہ حلیمہ نے آپؐ کو اپنی گود میں اٹھایا اور اپنے خیمے میں آکر اپنی آ غوش میں رکھا تو آ پؐ نے جس قدر چاہا سیر ہو کر دودھ پیا۔ا ن کے ساتھ ان کے رضائی بھائی عبداللہ نے بھی شکم سیر ہو کر پیا اور دونوں سو گئے۔ سیدہ حلیمہ فرماتی ہیں : اس سے پہلے بچہ بھوک کی وجہ سے روتا رہتا اور ہم رات کو سو نہیں سکتے تھے۔ ادھر سیدہ حلیمہ کے شوہر حارث اونٹنی دھونے گئے تو دیکھا کہ اس کے تھن دودھ سے لبریز ہیں۔ انہوں نے اتنادودھ دوہا کہ ہم دونوں نہایت آسودہ ہو کر پیا اور ہماری رات نہایت آرام سے گزری۔ہماری گاڑی کا ڈرائیور علی العتیبی بڑی چابک دستی اور مہارت سے اپنی پرانی لیکن مضبوط گاڑی چلا رہا تھا۔
وہ ہمیں اس علاقہ کی تاریخ سے آ گاہ کرتا گیا کہ ایک وقت تھا جب یہاں قبائل میں جنگ ہوتی رہتی تھی۔ ایک قبیلہ کا شخص دوسرے کے علاقے میں نہیں جا سکتا تھا۔مگر آل سعود کی حکومت آئی تو یہاںپر امن و امان قائم ہو گیا۔ دور پہاڑیوں کی چوٹیوں پر ہمیں بکریاں چرتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ ڈاکٹر زعیم الدین نے کچھ دیر تو صبر کیا مگرپھر وہ کہنے لگے : گاڑی روکیں، ہمیں اگلی سیٹ پر بیٹھنا ہے۔ انھوں نے اپنے موبائل سے علاقے کی ویڈیو بنانا شروع کر دی۔ سیدہ حلیمہ کے گاؤں کا نام '' شوحطہ '' تھا۔آج کل اسے بعض وقائع نگار اسے '' شحطہ '' بھی لکھتے ہیں مگر '' شوحطہ '' ہی صحیح ہے۔ یہ سڑک کے راستے مکہ سے 160 کلومیٹر اور طائف سے 70کلو میٹرکے فاصلہ پر ہے۔ شقصان سے شوحطہ تک کچا راستہ 15 سے 20 کلومیٹر تو ضرور ہوگا۔دور سے ایک وادی کی طرف محترم سیف الرحمان نے اشارہ کیا کہ یہ رہا سیدہ حلیمہ کا گاؤں۔
گاڑی نے سیدھی طرف سے ایک چکر لگایا اور قدر اونچے ٹیلے پر چڑھ گئی۔ پچھلی جانب شوحطہ نامی گاؤں نظر آرہا تھا جو دو فرلانگ کے فاصلے پر ہوگا۔گاڑی بتدریج اوپر چڑھتی چلی گئی۔ نیچے قبرستان نظر آیا اور اس کے ساتھ کھیتیاں جو اس وقت خشک تھیں۔ علی نے گاڑی کو الٹے ہاتھ گھمایا۔ میں نے سامنے کی طرف دیکھا تو چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں کچھ آ ثار نظر آئے کہ یہاں پر کبھی آبادی ہوتی تھی۔ علی نے گاڑی پارک کی اور ہم سے کہا: آپ لوگ یہاں پر گھومیںپھریں۔جب تک جی چاہے قیام کریں۔تصاویر بنائیں۔
جب جانے کا موڈ ہو مجھے اشارہ کر دیں تو میں آپ کو لے چلوں گا۔ اچانک اس نے مجھ سے کہا: بھائی آپ لوگوں کو تو نماز قصر ادا کرنی ہوگی ؟میں نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے کہا : میں تو مقامی ہوں اور فوراََ نیت باندھ کر نماز ادا کرنا شروع کر دی۔ یہ کوئی بڑی وادی نہیں ہے تاہم زیادہ چھوٹی بھی نہیں۔ یہاں ابر رحمت چھایا ہوا ہے اور ہر طرف نہایت ہی سکون واطمینان کی فضا ہے۔ رقبہ15 سے 20 ایکڑ تو ہوگا۔ سیدہ حلیمہ کے گاؤں کے حالات اب وہ نہیں رہے جو کبھی تھے۔ اس واقعہ کو قریباََ1500 سال گزر چکے ہیں۔ پتھروں کے نشانات ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چار دیواریاں ہیں۔
ہم لوگ پہاڑی کے اوپر الٹی طرف چڑھتے چلے گئے۔ دو یا تین مقامات کی طرف اشارہ کر کے ہمیں بتایا گیا کہ یہ سیدہ حلیمہ کے قبیلہ والوں کے گھر تھے۔ کسی پاکستانی نے سفیدی سے شکستہ خط میں لکھا ہوا تھا'' بیت حلیمہ'' یہ نہایت چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔غالباََ بارش کے وقت ہی ان میں رہا جاتا ہوگا اور باقی وقت خیموں میں گزرتا ہوگا۔ڈاکٹر زعیم الدین اپنی اہلیہ کے ہمراہ بڑی پھرتی سے پہاڑی کے اوپر چڑھ گئے۔
میں نے ایک بار پھر چشم تصور سے دیکھنا شروع کیا کہ سیدہ حلیمہ سرور دو عالمؐ کو اپنے ساتھ لیے مکہ سے بنو سعد کی طرف روانہ ہوئی ہیں جس قافلہ سے مکہ گئی تھیں اسی میں واپس آرہی تھیں۔ کہاں مکہ جاتے وقت یہ کیفیت تھی کہ ان کی گدھی کمزوری اور دبلے پن کا شکار تھی، مگر اب واپسی پر اس شان سے ہو رہی ہے کہ ان کے اپنے الفاظ ہیں : اپنی خستہ حال گدھی پر سوار ہوئی اور اس بچے کو بھی اپنے ساتھ لیا لیکن اب وہی گدھی اللہ کی قسم ! پورے قافلے کو کاٹ کر اس طرح آگے نکل گئی کہ کوئی سواری اس کے ساتھ نہ دے سکی۔
ساتھی خواتین کہہ رہی تھیں : حلیمہ! ذرا ہم پر مہربانی کرو ،آخرتمہاری وہی گدھی تو ہے جس پر تو سوار ہو کر آئی تھیں۔ میں کہتی: ہاں ہاں ! واللہ یہ وہی ہے۔ وہ کہتیں اس کا یقینا کوئی سبب تو ہوگا۔وادی کے شمالی جانب چھوٹے چھوٹے درخت اور گھاس اگی ہوئی نظر آئی۔ اس کے قریب ہی ایک چھوٹا سا ٹیلہ تھا۔ اس طرف اشارہ کر کے سیف الرحمان کہنے لگے : سینہ در سینہ روایات کے مطابق یہاں شق صدر کا واقعہ پیش آیا تھا۔ سیدہ حلیمہ کے گھر والی جگہ کی اگر پیمائش کی جائے تو ساری مل ملا کر دس پندرہ مرلہ سے زائد نہ ہو گی۔ میں بار بار اس وادی کی طرف دیکھتا، اس کے ذرے ذرے پر غور کرتا کہ سبحان اللہ ! یہ وہی جگہ ہے جہاں اللہ کے رسول ؐ نے اپنا بچپن گزارا تھا۔
اللہ کے رسولؐ اپنی رضاعی والدہ کے ساتھ بنو سعد میں تشریف لائے۔ میں نے تاریخ کی کتابوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس وقت عمر مبارک کتنے دن یا کتنے ماہ کی تھی۔ محمد ابو شہبہ اپنی سیرت نبوی کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پہلے سیدہ آمنہ نے آپ کو تین ،سات یا نو دن تک دودھ پلایا ،پھر ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے قریباََ اتنے ہی روز آپ کو دودھ پلایااور اس کے بعد حلیمہ سعدیہ وہاں تشریف لائیں اور آپؐ کو اپنے ساتھ لے گئیں۔ عزالدین ابن جماعۃ عبدالعزیز کنانی نے مختصر السیرۃ میں لکھا ہے : آپؐ کو پہلے سیدہ آمنہ نے سات روز تک دودھ پلایا ،پھر چند روز ثوبیہ نے اور اس کے بعد حلیمہ سعیدیہ دودھ پلاتی رہیں۔
تاہم آپؐ اس بستی میں آئے تو اپنی رضاعی والدین کے لیے رحمتیں اور برکتیں لے کر آئے۔ سیدہ حلیمہ اپنی بات کو پوری کرتے ہوئے فرماتی ہیں: ہم بنو سعد میں اپنے گھر کو آگئے۔مجھے معلوم نہیں کہ اللہ کی زمین کا کوئی خطہ ہمارے علاقے سے زیادہ قحط زدہ اور خشک سالی کا شکار تھا ،لیکن مکہ سے واپسی کے بعد میری بکریاں چرنے جاتیں تو آسودہ حال اور دودھ سے بھرپور واپس آتیں۔ہم انہیں دھوتے اور دودھ پیتے جب کہ کسی اور انسان کو دودھ کا ایک قطرہ بھی نصیب نہ ہوتا۔ ان کے جانوروں کے تھنوں میں دودھ سرے سے رہتا ہی نہ تھا حتی کہ ہماری قوم کے لوگ اپنے چرواہوں سے کہتے کم بختو : جانور وہاں چرنے لے جایا کرو جہاں ابو ذئیب کی بیٹی کا چرواہا لے کر جاتا ہے، لیکن تب بھی ان کی بکریاں بھوکی واپس آتیں اور ان کے اندر ایک قطرہ نہ دودھ رہتا، جبکہ میری بکریاں آسودہ دودھ سے بھرپور لوٹتیں۔ میں ادھر ادھر چل کر اس سرزمین کو محبت اور عقیدت سے دیکھتا رہا جہاں نبیؐ نے چلنا شروع کیا۔
ننھے سے محمد سے ان کے رضاعی بہن شیمہ کتنا پیار کرتی ہوںگی۔ان کو گود میں اٹھاتیں اور لوریاں سناتی، کھلاتی، پیلاتی اور ان کے ناز اٹھاتی ہوںگی۔ سیدہ حلیمہ کے بقول آپؐ دوسرے بچوں کے مقابلے میں اس تیزی سے بڑھ رہے تھے کہ دو سال پورے ہوتے ہوتے خاصے بڑے معلوم ہونے لگے تھے۔ سیدہ حلیمہ فرماتی ہیں: آپؐ کا معمول تھا کہ آ پ میری چھاتی کی دائیں جانب سے ہی دودھ پیتے اور جب بائیں جانب آگے کرتی تو آپ منہ ہٹا لیتے۔ مجھے اس پر حیرت ہوتی مگر سیدہ حلیمہ کو کیا معلوم تھا کہ یہ وہ بچہ ہے جو بڑا ہو کر قناعت کا معلم، مساوات کا علم بردار اور عدل و انصاف کا پیکر بنے گا، اس لیے اللہ تعالی نے بچپن ہی میں یہ انتظام فرما دیاکہ وہ صرف اپنے حصے کا دودھ ہی پییں اور اپنی رضاعی بھائیوں کے حق میں مداخلت نہ کریں۔ اللہ کے رسولؐ کے بچپن کے واقعات سیرت نگاروں نے بڑی محبت سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لکھے ہیں، ان کو پڑھتے یا لکھتے وقت آدمی کے ایمان میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ سیدہ حلیمہ کے گاؤں میں ہمارا وقت بہت تیزی سے گزر رہا تھا۔
جس طرف شق صدر کا واقعہ ہوا تھا وہاں خاردار تار لگا کر اس ایریے کو بند کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر زعیم الدین تو اپنی اہلیہ سمیت تیزی سے چلتے ہوئے وہاں کا چکر لگائے۔ ہمارا خیال تھا کہ دوپہر کا کھانا جسے سیف الرحمان ناشتے کا نام دے رہے تھے، ہم اسی نشیبی جگہ پر کھائیں گے۔ مگر زعیم صاحب نے اطلاع دی کہ وہاں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں ہم بیٹھ سکیں۔ ہمیں نمازیں ادا کرنا تھیں، اشرف صاحب نے نہایت پھرتی سے ایک بڑا قالین گاڑی سے نکالا اور اس سے بچھا دیا۔یہی ہماری جائے نماز ہے۔ میں نے بلند آواز سے تکبیر کہی اور ڈاکٹر زعیم الدین کو امامت کے لیے کھڑا کر دیا۔
انہوں نے نماز ظہر اور عصر قصر کر کے پڑھائی۔ سبحان اللہ! دین میں کتنی آسانیاں ہیں۔ مسافروں کو نماز میں چھوٹ اور دو نمازوں کو اکٹھا کرلینے کی اجازت اللہ تعالی کی خاص رحمت کا نتیجہ ہے۔محترم سیف الرحمان اور اشرف علی نے دسترخوان سجا دیا۔ ایک بڑے سے برتن کا جب ڈھکن اتارا گیا تو آلو کے پراٹھے نظر آئے۔ اب بھوک بھی چمک اٹھی تھی۔ ایک برتن میں حلوہ تھا۔المراعی کی زبادی اور لبن ،ضیافت کا مزہ آگیا۔ آئندہ کے لیے طے ہو گیا کہ یہ بہترین ضیافت ہے جب کبھی سفر میں جانا ہو تو آلو کے پراٹھے بہترین چیز ہے نہ برتنوں کی ضرورت نہ شوربہ گرنے کا اندیشہ۔۔۔۔۔۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ میری نگاہیں اس خوبصورت جھاڑی کی طرف تھیں جو اس جگہ واقع تھی جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہاں پر شق صدر کا واقعہ پیش آیا تھا۔یہ مقام سیدہ حلیمہ کے گھر سے زیادہ دور نہیں۔ وہاں سبزہ بھی ہے۔
اللہ کے رسولؐ کی عمر مبارک جب دو سال ہوئی زمانہ رضا عت پورا ہو گیا، تو سیدہ آپ کو لے کر مکہ مکرمہ آئیں تاکہ سیدہ آمنہ کی امانت ان کے سپرد کر دیں۔لیکن اس دوران میں بچے کی جو محبت سیدہ حلیمہ کے گھر والوں میں پیدا ہو چکی تھی اور جن خیر و برکات سے اس گھرانے کو فائدہ ہوا تھا۔ اس کی بنا پر سیدہ حلیمہ نے سیدہ آمنہ سے درخواست کی کہ کچھ عرصہ کے لیے اس بچے کو ہمارے پاس ہی رہنے دیا جائے۔
شاید ان دنوں مکہ میں وبا پھیلی ہوئی تھی۔ سیدہ حلیمہ نے بار بار درخواست کی تو سیدہ آمنہ ان کی درخواست منظور کر لی اور وہ آپؐ کو لے کر ایک مرتبہ پھر بنو سعد میں آگئیں۔ ہمارا ڈرائیور یا گائڈ علی اطیبی ایک بڑے پتھر کی اوٹ میں لیٹ گیا۔ہمارے پاس کھانا کافی مقدار میں تھا۔میں نے علی کو آواز دی: علی بھائی ! آؤ تم بھی ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہو جاؤ۔ پہلے تو اس نے انکار کیا مگر پھر میرے اصرار پر جھجکتے ہوئے شریک ہو گیا۔اسے بھی آلو کے پراٹھے بہت پسند آئے۔خواتین نے اپنے لیے جی ایم سی میں ہی دسترخوان بچھا لیا۔ میری نگاہیں اور خیالات کا رخ اس سہانے وقت کی طرف تھا جب اللہ کے رسولؐ بھی اپنی دودھ شریک بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانے کے لیے جانے لگے تھے۔
ایک دن گھر سے قدرے دور آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو پکڑ کر زمین پر لٹادیا۔ سینہ چاک کر کے دل نکالااور اس میں سے خون کا ایک لوتھڑانکال کر فرمایا: یہ تم سے شیطان کا حصہ تھا۔ پھر دل کو ایک تشت میں زمزم کے پانی سے دھویا اور پھر اسے واپس اسی جگہ پر جوڑ دیا۔ ادھر بچے دوڑ کر اپنی والدہ سیدہ حلیمہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے: محمد کو قتل کر دیا گیا ہے۔گھر والے بھاگم بھاگ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ آپ کا رنگ اترا ہوا تھا۔ سیدنا مالک بن مالک رضی اللہ عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں، فرماتے ہیں : میں سلائی کے نشانات آپؐ کے سینہ مبارک پر دیکھا کرتا تھا۔ ہم نے اس وادی میں کم و بیش دو گھنٹے کا وقت گزارا۔ بلاشبہ یہ میری زندگی کا بہت یادگار سفر تھا۔یہاں اس قدر لطف آیا کہ واپس آنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا ،مگر ڈاکٹر زعیم الدین مکہ مکرمہ واپسی پر ایک اور عمرہ کرنا چاہ رہے تھے اور میری بھی مغرب کے بعد امام و خطیب حرم شیخ عبدالرحمان السدیس کے ساتھ ملاقات طے تھی اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی ہم نے وہاں سے واپسی کے لیے رخت سفر باندھا۔ علی العتیبی ہمیں بغیر کسی تاخیر کے منزل مقصود پہنچا دیا۔ میرا تجربہ ہے کہ واپسی کا سفر بالعموم جلدی طے ہوا کرتا ہے۔ اب ہم مکہ مکرمہ کی طرف رواں دواں تھے۔