ریلیف حکومتوں نے دینا ہے یا جماعتوں نے
پٹرولیم مصنوعات کے نرخ آئی ایم ایف کے کہنے پر نہیں بلکہ عالمی منڈی کے نرخوں کے مطابق بڑھتے گھٹتے ہیں
مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف نے اپنے وزیر اعظم بھائی کی موجودگی میں تجویز دی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں، حکومتوں اور اداروں کو مل کر عوام کو ریلیف دینے کے فیصلے کرنے چاہئیں اور ملک کے بعد اب عوام کو ڈیفالٹ سے بچانا بڑا امتحان ہے، حکومتی اخراجات میں کمی کر کے لوگوں کو ریلیف دیا جائے۔ میاں نواز شریف کو احساس ہے کہ عوام کے لیے بجلی بہت مہنگی اور بجلی بل ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ انھوں نے اپنی صاحبزادی وزیر اعلیٰ پنجاب کی موجودگی میں خود پنجاب کے صارفین کے لیے بجلی دو ماہ کے لیے چودہ روپے فی یونٹ سستی کر کے جو اعلان کیا تھا اس پر تنقید بھی ہوئی تھی کہ وہ اعلان وزیر اعلیٰ پنجاب کو کرنا چاہیے تھا۔
میاں نواز شریف نے جو تجویز دی ہے اس پر سوال اٹھ رہا ہے کہ عوام کو ریلیف موجودہ حکومتوں نے دینا ہے یا ریلیف دینے کا فیصلہ تمام جماعتوں اور اداروں نے کرنا ہے کیونکہ قانونی طور پر یہ کام حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد مہنگائی پر کنٹرول صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے مگر پنجاب کے سوا تمام صوبائی حکومتیں سوئی ہوئی ہیں جہاں پنجاب سے زیادہ مہنگائی ہے۔ صوبائی حکومتوں کی خاموشی اور کاہلی کی وجہ سے ہے مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے اور وہ اپنے صوبوں میں عوام کو ریلیف توکیا دیں گی، انھوں نے تو ناجائز منافع خوروں کو من مانے نرخ مقرر کر کے عوام کو لوٹنے کی مکمل آزادی دی ہوئی ہے، جس کا ایک واضح ثبوت کراچی میںا دودھ، سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں ہیں جن کے سرکاری نرخ تک مقرر نہیں کیے جاتے تو یہ حکومتیں عوام کو ریلیف کیا دیں گی؟
سابق وزیر اعظم نواز شریف کو یہ تو یاد ہے کہ 2017 تک ان کی حکومت کی برطرفی تک ملک ہ اپریل 2022 سے ستمبر 2024 تک میاں شہباز شریف دو سال سے وزیر اعظم چلے آ رہے ہیں جنھوں نے عوام کو ریلیف نہ دینے کی قسم کھا رکھی ہے اور 6 ماہ کی نگراں حکومت کی طرح موجودہ حکومت نے ہی بجلی و گیس مہنگی کرنے کے سوا اور ملک کو مزید مقروض کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔
پٹرول کی قیمت عالمی نرخوں کے مطابق کم زیادہ ہوتی ہے مگر موجودہ حکومت پٹرولیم مصنوعات میں بھی عوام کو ریلیف عالمی نرخوں کے مطابق نہیں بلکہ برائے نام دیتی ہے جب کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ آئی ایم ایف کے کہنے پر نہیں بلکہ عالمی منڈی کے نرخوں کے مطابق بڑھتے گھٹتے ہیں مگر موجودہ حکومت اس سلسلے میں اوگرا کی تجویز کے مطابق بھی کم نہیں کرتی بلکہ من مانے نرخ مقرر کر کے اپنی آمدنی بڑھاتی ہے کیونکہ ملک کی وفاقی حکومتوں نے پٹرولیم مصنوعات کو بھی اپنی کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے جس سے حکومت کے کم ہونے کے بجائے بڑھائے گئے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں مگر میاں نواز شریف کی حکومتی اخراجات کم کرنے کی ہدایت پر بھی (ن) لیگی حکومت عمل نہیں کر رہی بلکہ حالیہ بجٹ میں وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے بجٹ میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔
میاں نواز شریف ایوان صدر کے اخراجات کم کرنے کا تو کہہ نہیں سکتے، یہ ذمے داری تو پیپلز پارٹی کے صدر مملکت آصف زرداری کی ہے مگر (ن) لیگ کے وزیر اعظم نے بھی اپنی پارٹی کے صدر کی ہدایت پر عمل نہیں کیا اور حکومتی اخراجات میں کمی پر کوئی توجہ ہی نہ دی تو حکومتی اخراجات کیسے کم ہو سکتے تھے؟عوام کو ریلیف دینا وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے جو بجلی و گیس کی قیمتیں کم کرکے اور آئی پی پیز کے ذریعے ان کی شرائط نرم کرا سکتی ہے ۔ عوام کے لیے بجلی کے بل برسوں سے ناقابل برادشت چلے آ رہے ہیں ۔
ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین بجلی اور دیگر اشیاء کی مہنگائی پر اپنی سیاست چمکا رہی ہیں، اپوزیشن کیسیاسی جماعتیں مہنگی بجلی کا ذمے دار (ن) لیگی حکومت کو قرار دیتی ہیں۔ حالانکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی اس حکومت کی اتحادی ہیں۔
میاں نواز شریف نے جو تجویز دی ہے اس پر سوال اٹھ رہا ہے کہ عوام کو ریلیف موجودہ حکومتوں نے دینا ہے یا ریلیف دینے کا فیصلہ تمام جماعتوں اور اداروں نے کرنا ہے کیونکہ قانونی طور پر یہ کام حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد مہنگائی پر کنٹرول صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے مگر پنجاب کے سوا تمام صوبائی حکومتیں سوئی ہوئی ہیں جہاں پنجاب سے زیادہ مہنگائی ہے۔ صوبائی حکومتوں کی خاموشی اور کاہلی کی وجہ سے ہے مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے اور وہ اپنے صوبوں میں عوام کو ریلیف توکیا دیں گی، انھوں نے تو ناجائز منافع خوروں کو من مانے نرخ مقرر کر کے عوام کو لوٹنے کی مکمل آزادی دی ہوئی ہے، جس کا ایک واضح ثبوت کراچی میںا دودھ، سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں ہیں جن کے سرکاری نرخ تک مقرر نہیں کیے جاتے تو یہ حکومتیں عوام کو ریلیف کیا دیں گی؟
سابق وزیر اعظم نواز شریف کو یہ تو یاد ہے کہ 2017 تک ان کی حکومت کی برطرفی تک ملک ہ اپریل 2022 سے ستمبر 2024 تک میاں شہباز شریف دو سال سے وزیر اعظم چلے آ رہے ہیں جنھوں نے عوام کو ریلیف نہ دینے کی قسم کھا رکھی ہے اور 6 ماہ کی نگراں حکومت کی طرح موجودہ حکومت نے ہی بجلی و گیس مہنگی کرنے کے سوا اور ملک کو مزید مقروض کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔
پٹرول کی قیمت عالمی نرخوں کے مطابق کم زیادہ ہوتی ہے مگر موجودہ حکومت پٹرولیم مصنوعات میں بھی عوام کو ریلیف عالمی نرخوں کے مطابق نہیں بلکہ برائے نام دیتی ہے جب کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ آئی ایم ایف کے کہنے پر نہیں بلکہ عالمی منڈی کے نرخوں کے مطابق بڑھتے گھٹتے ہیں مگر موجودہ حکومت اس سلسلے میں اوگرا کی تجویز کے مطابق بھی کم نہیں کرتی بلکہ من مانے نرخ مقرر کر کے اپنی آمدنی بڑھاتی ہے کیونکہ ملک کی وفاقی حکومتوں نے پٹرولیم مصنوعات کو بھی اپنی کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے جس سے حکومت کے کم ہونے کے بجائے بڑھائے گئے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں مگر میاں نواز شریف کی حکومتی اخراجات کم کرنے کی ہدایت پر بھی (ن) لیگی حکومت عمل نہیں کر رہی بلکہ حالیہ بجٹ میں وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے بجٹ میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔
میاں نواز شریف ایوان صدر کے اخراجات کم کرنے کا تو کہہ نہیں سکتے، یہ ذمے داری تو پیپلز پارٹی کے صدر مملکت آصف زرداری کی ہے مگر (ن) لیگ کے وزیر اعظم نے بھی اپنی پارٹی کے صدر کی ہدایت پر عمل نہیں کیا اور حکومتی اخراجات میں کمی پر کوئی توجہ ہی نہ دی تو حکومتی اخراجات کیسے کم ہو سکتے تھے؟عوام کو ریلیف دینا وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے جو بجلی و گیس کی قیمتیں کم کرکے اور آئی پی پیز کے ذریعے ان کی شرائط نرم کرا سکتی ہے ۔ عوام کے لیے بجلی کے بل برسوں سے ناقابل برادشت چلے آ رہے ہیں ۔
ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین بجلی اور دیگر اشیاء کی مہنگائی پر اپنی سیاست چمکا رہی ہیں، اپوزیشن کیسیاسی جماعتیں مہنگی بجلی کا ذمے دار (ن) لیگی حکومت کو قرار دیتی ہیں۔ حالانکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی اس حکومت کی اتحادی ہیں۔