دکھی پریم نگری کی یادیں اور باتیں
دکھی پریم نگری نے روزنامہ انجام میں ملّا دوپیازہ کے قلمی نام سے مزاحیہ کالم کا آغاز کیا
دکھی صاحب اپنے دور کے مشہور شاعر تھے، وہ بس نام کے دکھی تھے، مگر ان کے ہونٹوں پر ہر وقت ایک ہنسی سجی رہتی تھی، وہ بمبئی کی فلمی دنیا میں صحافت سے ایک طویل عرصے تک وابستہ رہے۔ یہ 1940 کا زمانہ تھا، وہ بمبئی میںروزگارکی تلاش میں پہنچے تھے۔ انھوں نے بمبئی میں بڑے دکھ اٹھائے اور فاقوں بھی سہے تھے مگر انھوں نے اپنے حوصلوں کو کمزور نہیں ہونے دیا تھا۔
انھوں نے بمبئی یونیورسٹی سے بی اے آنرزکی ڈگری حاصل کی اور صحافت سے اپنے کیریئرکا آغاز کیا تھا، '' شمع'' دہلی اور دیگر رسائل میں لکھتے رہے، فلمی ہفت روزہ بمبئی کے مدیر بھی رہے، انھوں نے اپنا ایک ذاتی رسالہ '' سنسار'' بھی نکالا ، پھر انھیں بمبئی کے ایک مشہور رسالے کہکشاں میں سینئر ایڈیٹر کی ملازمت مل گئی، ان کا بمبئی کے فلم اسٹوڈیوز میں آنا جانا شروع ہوگیا تھا۔ اسی دوران ان کی فلم ساز، ہدایت کار و اداکار راج کپور سے ملاقات ہوگئی۔ وہ راج کپورکے کہنے پر ان کی پروڈکشن میں بطور رائٹر شامل ہوگئے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب بڑے فلم پروڈکشن ہاؤسز میں کئی کئی رائٹر شامل ہوا کرتے تھے اور وہ سب مل کر فلم کے لیے اسکرپٹ لکھا کرتے تھے۔ دکھی پریم نگری راج کپور پروڈکشن میں اپنی کچھ ذمے داریاں بھی سنبھالتے تھے اور خاص طور پر فلم کے آرٹسٹوں کو مکالموں کی ادائیگی میں معاونت کرتے تھے اورتلفظ بھی درست کراتے تھے۔ پاکستان وجود میں آگیا تو دکھی پریم نگری یہاں آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی اور کراچی کے مشہور روزنامہ '' انجام'' میں ملازمت اختیار کر لی ۔ اس روزنامہ کے ایڈیٹر عثمان آزاد تھے، جو دہلی سے روزنامہ ''انجام'' نکالا کرتے تھے۔
دکھی پریم نگری نے روزنامہ انجام میں ملّا دوپیازہ کے قلمی نام سے مزاحیہ کالم کا آغاز کیا ، جو کافی پسند کیا جانے لگا تھا ، انجام کے ایڈیٹر عثمان آزاد کے چھوٹے بھائی الیاس رشیدی کو فلمی دنیا سے بڑی دلچسپی تھی، انھوں نے اپنے دیرینہ دوست ابنِ حسن نگار سے ان کا ماہنامہ نگار خرید کر اسے ہفت روزہ نگار کا روپ دے دیا تھا اور الیاس رشیدی نے دکھی پریم نگری کو بطور سینئر ایڈیٹر نگار میں ملازمت دے دی تھی ، پھر دکھی پریم نگری اپنی عمر کے آخری دنوں تک نگار ویکلی سے ہی وابستہ رہے تھے۔ جب کراچی میں فلم انڈسٹری کا آغاز ہوا تو بعد کے سندھی فلموں کے نامور ہدایت کار شیخ حسن نے اپنی پہلی اردو فلم ''شہناز'' کے مکالمے اور گیت دکھی پریم نگری سے لکھوائے تھے، اس فلم میں ایک گیت بڑا ہٹ ہوا تھا، جو اس وقت کی مشہور گلوکارہ امیر بائی کرناٹکی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا، جس کے بول تھے:
تقدیر نے ہنسا کے ہمیں
پھر رُلا دیا
پھر ہدایت کار شیخ حسن نے لاکھوں فسانے کے نام سے ایک اور فلم بنائی تھی اس کے مکالمے اور بھی دکھی پریم نگری ہی نے لکھے تھے، ہدایت کار شیخ حسن کی فلم ''جاگ اُٹھا انسان'' کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ زیبا اور محمد علی اس فلم کے مرکزی کردار تھے۔ اب میں آتا ہوں دکھی پریم نگری کی ابتدائی زندگی اور ادبی شخصیت پر۔ یہ 1917 میں یوپی کے علاقے فیروز پور میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد پیشے کے اعتبار سے ایک مشہور حکیم تھے۔ دکھی پریم نگری نے ابتدائی تعلیم پہلے فیروز پور پھر ناگپور کے مارس کالج میں حاصل کی تھی۔ ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ مارس کالج میں ہندوستان فلم انڈسٹری کے نامور اداکار اشوک کمار بھی دکھی پریم نگری کے ساتھی رہے تھے جب کہ ایک اور مشہور فنکار کشور ساہو بھی ان کے ساتھیوں میں شامل اور کلاس فیلو بھی تھے۔
دکھی پریم نگری کو جب اس بات کا علم ہوا کہ ان کے طالب علمی کے دوست فلمی دنیا کے جانے مانے فنکار ہوگئے ہیں تو پھر فلمی دنیا کی چمک دمک ان کی آنکھوں میں بھی گھر کرنے لگی اور پھر ایک دن انھوں نے بھی بمبئی جانے کا ارادہ کر لیا اور رختِ سفر باندھا اور 1940 میں وہ بمبئی چلے آئے۔ دکھی پریم نگری پاکستان آئے تو یہاں فلم انڈسٹری میں بھی انھوں نے اپنے لیے ایک جگہ بنا لی تھی۔ انھوں نے کراچی کی بیش تر فلموں میں گیت اور مکالمے تحریر کیے جن میں جاگ اٹھا انسان، جھک گیا آسمان، روٹھا نہ کرو، گاتا جائے بنجارا، انسان بدلتا ہے، جنون، باپ کا باپ اور فنٹوش وغیرہ کے نام شامل ہیں، ان کے جن فلمی گیتوں کو پذیرائی حاصل ہوئی ان کے مکھڑے درج ذیل ہیں۔
دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں
(جاگ اٹھا انسان)
جب ساون گھر گھر آئے
(جاگ اٹھا انسان)
ذرا کنگنے سے کنگنا بجا گورئیے (نادان)
سیّاں اناڑی سے نیناں لگا بیٹھی (نادان)
چمن کے گلوں کو یوں ہنس کر نہ دیکھو
(جھک گیا آسمان)
نہ شیشہ ہے نہ پیمانہ ہے اپنا (آنچل اور طوفان)
تیری پہلی نظر او جادوگر (لاکھوں فسانے)
کیسا گھروندا ٹوٹا (گھروندا)
ڈم ڈم باجے ڈمری (گھروندا)
تم ملے مل گئی زندگی (روٹھا نہ کرو)
دکھی پریم نگری نے ہی مجھے ایک دن بڑی سنجیدگی سے مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا'' یونس ہمدم! تمہاری شاعری جب بھی سنتا ہوں تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ تم بھی فلموں کے لیے گیت لکھو، تمہاری جگہ کراچی نہیں لاہور کی فلم انڈسٹری ہے۔''' پھر میں نے لاہور جانے کا تہیہ کر لیا تھا۔ مگر مجھے کوئی دروازہ ایسا نظر نہیں آرہا تھا جس کے ذریعے میں فلمی دنیا میں داخل ہو سکوں، پھر جب میں نے ایک دن دکھی پریم نگری سے باتوں ہی باتوں میں اپنے دل کی بات کا اظہار کیا تو وہ بولے کہ '' تم فکر نہ کرو، میں الیاس رشیدی سے کہہ کر تم کو لاہور میں نگار ویکلی کا نمایندہ بنوا کر بھجوا دوں گا، باقی وہاں جا کر اپنے رہنے سہنے کا انتظام تم نے خود کرنا ہے اور فلمی دنیا میں جانے کا راستہ تم خود بناؤ گے، بس ارادے مضبوط ہونے چاہئیں، راستے خود بخود منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔''
پھر ایک دن نگار ویکلی کے ایڈیٹر الیاس رشیدی نے مجھ سے کہا'' میاں! اگر تم لاہور میں نگار کے نمایندے بن کر جانا چاہتے ہو تو ہم تمہیں لاہور بھیج دیتے ہیں۔ وہاں ایورنیو اسٹوڈیو میں سنگیتا پروڈکشن کا بڑا نام ہے، وہاں جا کر تم اس پروڈکشن کے اسکرپٹ ڈپارٹمنٹ میں شامل ہو کر اپنے لیے راہیں ہموار کر سکتے ہو'' پھر میں کچھ دنوں بعد لاہور آگیا تھا۔ یہاں مجھے سنگیتا پروڈکشن نے بڑا سہارا دیا۔ میں نے پہلی بار ان کے لیے میں چپ رہوں گی کے نام سے فلم کا اسکرپٹ لکھا جس میں سنگیتا اور قوی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔
یہ فلم اپنی مضبوط کہانی اور جان دار ڈائریکشن کی وجہ سے بڑی پسند کی گئی تھی۔ اس فلم کی نمایاں کامیابی کے بعد میں نے سنگیتا پروڈکشن کے لیے کہانی، مکالمے اور زیادہ تر فلموں کے گیت لکھے جنھیں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میں اور شاعر تسلیم فاضلی دونوں مل کر ان کی فلموں کے لیے گیت لکھا کرتے تھے۔ میں نے سنگیتا پروڈکشن کے علاوہ بھی کئی اور فلم سازوں اور ہدایت کاروں کے لیے لکھا۔
میں نے لاہور میں آٹھ دس سال گزارے، لاہور کی فلم انڈسٹری میں جتنا بھی وقت گزارا بہت اچھا گزارا۔ دکھی پریم نگری کبھی لاہور نہیں گئے۔ انھیں کراچی ہی راس آتا تھا مگر مجھے لاہور میں اچھے لوگ اور اچھا ماحول ملا، پھر لاہور فلم انڈسٹری میں پنجابی فلمیں زیادہ بننے لگیں اور اردو فلموں پر زوال آنے لگا۔ اردو فلموں کے فنکار، ہدایت کار لاہور سے واپس آنے لگے۔ وحید مراد، زیبا، دیبا، روزینہ، ہدایت کار اقبال اختر، اقبال یوسف، ہدایت کار پرویز ملک، شاعر اور رائٹر مسرور انور بھی ہمت ہار بیٹھے تھے اور پھر لاہور میں اردو فلمیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ کراچی کے فنکار اور ہنرمند لاہور چھوڑ کر واپس کراچی آنے لگے ، میں نے بھی اپنا بوریا بسترا باندھا اور کراچی آگیا اور یہاں بطور کمرشل پروڈیوسر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔
انھوں نے بمبئی یونیورسٹی سے بی اے آنرزکی ڈگری حاصل کی اور صحافت سے اپنے کیریئرکا آغاز کیا تھا، '' شمع'' دہلی اور دیگر رسائل میں لکھتے رہے، فلمی ہفت روزہ بمبئی کے مدیر بھی رہے، انھوں نے اپنا ایک ذاتی رسالہ '' سنسار'' بھی نکالا ، پھر انھیں بمبئی کے ایک مشہور رسالے کہکشاں میں سینئر ایڈیٹر کی ملازمت مل گئی، ان کا بمبئی کے فلم اسٹوڈیوز میں آنا جانا شروع ہوگیا تھا۔ اسی دوران ان کی فلم ساز، ہدایت کار و اداکار راج کپور سے ملاقات ہوگئی۔ وہ راج کپورکے کہنے پر ان کی پروڈکشن میں بطور رائٹر شامل ہوگئے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب بڑے فلم پروڈکشن ہاؤسز میں کئی کئی رائٹر شامل ہوا کرتے تھے اور وہ سب مل کر فلم کے لیے اسکرپٹ لکھا کرتے تھے۔ دکھی پریم نگری راج کپور پروڈکشن میں اپنی کچھ ذمے داریاں بھی سنبھالتے تھے اور خاص طور پر فلم کے آرٹسٹوں کو مکالموں کی ادائیگی میں معاونت کرتے تھے اورتلفظ بھی درست کراتے تھے۔ پاکستان وجود میں آگیا تو دکھی پریم نگری یہاں آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی اور کراچی کے مشہور روزنامہ '' انجام'' میں ملازمت اختیار کر لی ۔ اس روزنامہ کے ایڈیٹر عثمان آزاد تھے، جو دہلی سے روزنامہ ''انجام'' نکالا کرتے تھے۔
دکھی پریم نگری نے روزنامہ انجام میں ملّا دوپیازہ کے قلمی نام سے مزاحیہ کالم کا آغاز کیا ، جو کافی پسند کیا جانے لگا تھا ، انجام کے ایڈیٹر عثمان آزاد کے چھوٹے بھائی الیاس رشیدی کو فلمی دنیا سے بڑی دلچسپی تھی، انھوں نے اپنے دیرینہ دوست ابنِ حسن نگار سے ان کا ماہنامہ نگار خرید کر اسے ہفت روزہ نگار کا روپ دے دیا تھا اور الیاس رشیدی نے دکھی پریم نگری کو بطور سینئر ایڈیٹر نگار میں ملازمت دے دی تھی ، پھر دکھی پریم نگری اپنی عمر کے آخری دنوں تک نگار ویکلی سے ہی وابستہ رہے تھے۔ جب کراچی میں فلم انڈسٹری کا آغاز ہوا تو بعد کے سندھی فلموں کے نامور ہدایت کار شیخ حسن نے اپنی پہلی اردو فلم ''شہناز'' کے مکالمے اور گیت دکھی پریم نگری سے لکھوائے تھے، اس فلم میں ایک گیت بڑا ہٹ ہوا تھا، جو اس وقت کی مشہور گلوکارہ امیر بائی کرناٹکی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا، جس کے بول تھے:
تقدیر نے ہنسا کے ہمیں
پھر رُلا دیا
پھر ہدایت کار شیخ حسن نے لاکھوں فسانے کے نام سے ایک اور فلم بنائی تھی اس کے مکالمے اور بھی دکھی پریم نگری ہی نے لکھے تھے، ہدایت کار شیخ حسن کی فلم ''جاگ اُٹھا انسان'' کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ زیبا اور محمد علی اس فلم کے مرکزی کردار تھے۔ اب میں آتا ہوں دکھی پریم نگری کی ابتدائی زندگی اور ادبی شخصیت پر۔ یہ 1917 میں یوپی کے علاقے فیروز پور میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد پیشے کے اعتبار سے ایک مشہور حکیم تھے۔ دکھی پریم نگری نے ابتدائی تعلیم پہلے فیروز پور پھر ناگپور کے مارس کالج میں حاصل کی تھی۔ ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ مارس کالج میں ہندوستان فلم انڈسٹری کے نامور اداکار اشوک کمار بھی دکھی پریم نگری کے ساتھی رہے تھے جب کہ ایک اور مشہور فنکار کشور ساہو بھی ان کے ساتھیوں میں شامل اور کلاس فیلو بھی تھے۔
دکھی پریم نگری کو جب اس بات کا علم ہوا کہ ان کے طالب علمی کے دوست فلمی دنیا کے جانے مانے فنکار ہوگئے ہیں تو پھر فلمی دنیا کی چمک دمک ان کی آنکھوں میں بھی گھر کرنے لگی اور پھر ایک دن انھوں نے بھی بمبئی جانے کا ارادہ کر لیا اور رختِ سفر باندھا اور 1940 میں وہ بمبئی چلے آئے۔ دکھی پریم نگری پاکستان آئے تو یہاں فلم انڈسٹری میں بھی انھوں نے اپنے لیے ایک جگہ بنا لی تھی۔ انھوں نے کراچی کی بیش تر فلموں میں گیت اور مکالمے تحریر کیے جن میں جاگ اٹھا انسان، جھک گیا آسمان، روٹھا نہ کرو، گاتا جائے بنجارا، انسان بدلتا ہے، جنون، باپ کا باپ اور فنٹوش وغیرہ کے نام شامل ہیں، ان کے جن فلمی گیتوں کو پذیرائی حاصل ہوئی ان کے مکھڑے درج ذیل ہیں۔
دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں
(جاگ اٹھا انسان)
جب ساون گھر گھر آئے
(جاگ اٹھا انسان)
ذرا کنگنے سے کنگنا بجا گورئیے (نادان)
سیّاں اناڑی سے نیناں لگا بیٹھی (نادان)
چمن کے گلوں کو یوں ہنس کر نہ دیکھو
(جھک گیا آسمان)
نہ شیشہ ہے نہ پیمانہ ہے اپنا (آنچل اور طوفان)
تیری پہلی نظر او جادوگر (لاکھوں فسانے)
کیسا گھروندا ٹوٹا (گھروندا)
ڈم ڈم باجے ڈمری (گھروندا)
تم ملے مل گئی زندگی (روٹھا نہ کرو)
دکھی پریم نگری نے ہی مجھے ایک دن بڑی سنجیدگی سے مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا'' یونس ہمدم! تمہاری شاعری جب بھی سنتا ہوں تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ تم بھی فلموں کے لیے گیت لکھو، تمہاری جگہ کراچی نہیں لاہور کی فلم انڈسٹری ہے۔''' پھر میں نے لاہور جانے کا تہیہ کر لیا تھا۔ مگر مجھے کوئی دروازہ ایسا نظر نہیں آرہا تھا جس کے ذریعے میں فلمی دنیا میں داخل ہو سکوں، پھر جب میں نے ایک دن دکھی پریم نگری سے باتوں ہی باتوں میں اپنے دل کی بات کا اظہار کیا تو وہ بولے کہ '' تم فکر نہ کرو، میں الیاس رشیدی سے کہہ کر تم کو لاہور میں نگار ویکلی کا نمایندہ بنوا کر بھجوا دوں گا، باقی وہاں جا کر اپنے رہنے سہنے کا انتظام تم نے خود کرنا ہے اور فلمی دنیا میں جانے کا راستہ تم خود بناؤ گے، بس ارادے مضبوط ہونے چاہئیں، راستے خود بخود منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔''
پھر ایک دن نگار ویکلی کے ایڈیٹر الیاس رشیدی نے مجھ سے کہا'' میاں! اگر تم لاہور میں نگار کے نمایندے بن کر جانا چاہتے ہو تو ہم تمہیں لاہور بھیج دیتے ہیں۔ وہاں ایورنیو اسٹوڈیو میں سنگیتا پروڈکشن کا بڑا نام ہے، وہاں جا کر تم اس پروڈکشن کے اسکرپٹ ڈپارٹمنٹ میں شامل ہو کر اپنے لیے راہیں ہموار کر سکتے ہو'' پھر میں کچھ دنوں بعد لاہور آگیا تھا۔ یہاں مجھے سنگیتا پروڈکشن نے بڑا سہارا دیا۔ میں نے پہلی بار ان کے لیے میں چپ رہوں گی کے نام سے فلم کا اسکرپٹ لکھا جس میں سنگیتا اور قوی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔
یہ فلم اپنی مضبوط کہانی اور جان دار ڈائریکشن کی وجہ سے بڑی پسند کی گئی تھی۔ اس فلم کی نمایاں کامیابی کے بعد میں نے سنگیتا پروڈکشن کے لیے کہانی، مکالمے اور زیادہ تر فلموں کے گیت لکھے جنھیں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میں اور شاعر تسلیم فاضلی دونوں مل کر ان کی فلموں کے لیے گیت لکھا کرتے تھے۔ میں نے سنگیتا پروڈکشن کے علاوہ بھی کئی اور فلم سازوں اور ہدایت کاروں کے لیے لکھا۔
میں نے لاہور میں آٹھ دس سال گزارے، لاہور کی فلم انڈسٹری میں جتنا بھی وقت گزارا بہت اچھا گزارا۔ دکھی پریم نگری کبھی لاہور نہیں گئے۔ انھیں کراچی ہی راس آتا تھا مگر مجھے لاہور میں اچھے لوگ اور اچھا ماحول ملا، پھر لاہور فلم انڈسٹری میں پنجابی فلمیں زیادہ بننے لگیں اور اردو فلموں پر زوال آنے لگا۔ اردو فلموں کے فنکار، ہدایت کار لاہور سے واپس آنے لگے۔ وحید مراد، زیبا، دیبا، روزینہ، ہدایت کار اقبال اختر، اقبال یوسف، ہدایت کار پرویز ملک، شاعر اور رائٹر مسرور انور بھی ہمت ہار بیٹھے تھے اور پھر لاہور میں اردو فلمیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ کراچی کے فنکار اور ہنرمند لاہور چھوڑ کر واپس کراچی آنے لگے ، میں نے بھی اپنا بوریا بسترا باندھا اور کراچی آگیا اور یہاں بطور کمرشل پروڈیوسر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔