شیوک کنارے دوسرا اور آخری حصہ

بائیک پر تنہا طویل سفر کا قصہ


September 08, 2024
فوٹو : فائل

چھت سے نیچے اتر کر میں نے گیٹ کھولا اور سوغا کی جانب چل دیا۔ میں اب دریا شیوک کی دوسری طرف چل رہا تھا۔ یہ روڈ کچا تھا تھا مگر خراب نہیں۔ اسی راستے پر چلتے چلتے ایک بورڈ نظر آیا جس پر لکھا تھا،''بدھا کارونگز۔'' گلگت بلتستان میں کئی مقامات جیسے چلاس، شتیال، ہنزہ (ہلدیکش)، اسکردو، گانچھے میں اس طرح کی قدیم چٹانیں ہیں جہاں پر کوئی ہزار سال قبل مسافروں نے نقش و نگار بنائے تھے جس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ گزر گاہیں کتنی قدیم ہیں۔

میں جس راستے پر چل رہا تھا وہ سوغا سے کھارکو اور وہاں سے ڈاغون اور پھر بلغاری جا ملتا تھا۔ سوغا میں ٹراؤٹ مچھلی کے فارم ہیں جہاں کا صاف شفاف پانی آپ کا دل لبھاتا ہے۔ واپسی پر سیلنگ میں موجود ایک چھوٹی سی خوب صورت چراگاہ کے پاس کچھ دیر رکا اور کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد واپس ہوٹل پہنچ گیا۔ ہوٹل سمیت سارا گاؤں جاگ چکا تھا۔

میں سوچ رہا تھا ابھی مجھے آرمی سے اجازت لینی ہے بارڈر تک جانے کی۔ ناشتہ تمام ہوا، دوبارہ بائیک پر سامان باندھا، بل ادا کیا، اور واپس دوبارہ یوچنگ پوسٹ پر آ گیا۔ ایک پنجابی اہل کارم جس نے پہلے پوچھا تھا کہ ہیلمٹ پر جو ڈبی لگی ہے یہ کیا ہے؟ اور میں نے بتایا تھا کہ یہ کیمرا ہے اسی نے کہا آ گئے پھر آپ، چلو بھیجتے ہیں آپ کو آگے۔ اگلی چیک پوسٹ سے کمیونیکیشن ہوئی۔ بتایا گیا کہ اس آئی ڈی کارڈ کا حامل بندہ، اس بائیک نمبر کے ساتھ آگے آ رہا ہے، خود کو وی لاگر کہتا ہے (حالاںکہ میں نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا) اس کو وصول کرلیں۔ شناختی کارڈ ایک نادرا ڈیوائس کے ساتھ ویریفائی کیا گیا اور آگے جانے کی اجازت مل گئی۔

سب سے پہلے مجھے مشربرم کے ویو پر بریک لگانا پڑا۔ مشربرم سطح سمندر سے 7821 میٹر بلند ہے۔ یہ دنیا کی بائیسویں اور پاکستان کی نویں اونچی چوٹی ہے۔ اس کے قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں واضح نظر آنے کی وجہ سے نمبر 1 دیا گیا ہے، کے ٹو اس کے بعد آتا ہے۔ اب میں وادی چھوربت کی جانب دریا شیوک کے ساتھ ساتھ مزید آگے بڑھنے لگا۔ یوچنگ چیک پوسٹ سے ہدایت ملی تھی کہ چھے بجے واپسی لازمی ہے۔ جہاں سے مشربرم کا نظارہ ہوتا ہے وہاں دریا شیوک کا پاٹ اپنے سفر میں سب سے چوڑا ہوتا ہے۔ دریا شیوک سیاچن گلیشئیر کے ایک ہمسایہ گلیشئیر ریمو سے اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے۔ یہ لداخ کے شمال میں بہتا ہوا یوٹرن لیتا ہے اور بلتستان کی جانب بہنا شروع ہوجاتا ہے۔

اس یوٹرن سے قبل اکسائی چن کی دو وادیوں گلوان کا پانی بھی اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ دریا شیوک کے اس مقام کے اردگرد یوچنگ، سُرمو، غُرسے، ہلدی، مچلو، اور سیلنگ کے گاؤں واقع ہیں۔ سرمو گاؤں سے گزرنے کے بعد ایک پل آیا جس کو پار کریں تو دریا کی دوسری طرف غرسے گاؤں آتا ہے جس کے پہاڑ کے ساتھ ساتھ چلتے رہیں تو ہلدی، تھگس، گلشن کبیر کے بعد آپ دَم سَم پہنچ جاتے ہیں۔ دم سم سے مزید آگے دو راستے ہوجاتے ہیں ایک کھورقندس دوسرا گوما کی طرف جاتا ہے۔ یہ دونوں گاؤں ہائی ایلٹیٹیوڈ سیٹلمنٹس ہیں جو کہ تقریباً 3400 میٹر کی بلندی پر ہیں۔

یہ وادی سالتورو کے علاقے ہیں اور یہی سے سیاچن کے محاذ کا آغاز ہوتا ہے۔ گوما سے آگے سیاچن گیاری سیکٹر تک اب سیاحت کی اجازت ہے۔ گاری سیکٹر میں ایک بہت بڑی لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں پاکستان آرمی کا ایک پورا کا پورا یونٹ دب گیا تھا۔ میری منزل وادی سالتورو نہیں تھی، مجھے دریا شیوک کا ساتھ نہیں چھوڑنا تھا۔ شیوک کنارے چلتے چلتے جیسے ہی میں نے سُرمو کو پیچھے چھوڑا تو میں ایک کھلی وادیٔ میں داخل ہوگیا۔ یہ وادی چھوربت تھی۔ وادی چھوربت میں داخل ہوتے ہی خاموشی اور تنہائی کا راج نظر آنے لگا۔ ایل او سی یہاں سے کوئی 45 کلومیٹر دور ہے۔

چلتے چلتے وادی چھوربت کا پہلا گاؤں لونکھا ملا جس میں داخل ہوتے ہی دو مقامیوں نے مجھے روک لیا کہ کدھر جا رہا ہوں؟ ان کو بتایا کہ فرونو بارڈر تک جانا ہے تو بولے آگے راستہ بند ہے۔ سڑک دریا کے اندر آئی ہوئی ہے۔ پھر پوچھا کوئی اور آپشن تو راہ نمائی ملی کہ دریا کی دوسری طرف والا روڈ لو اس کے لیے فلاں جگہ سے پل پار کرو۔ واپس مڑا اور دریا کا مطلوبہ پل ڈھونڈا کیوں کہ وہ سڑک سے نظر نہیں آ رہا تھا اور اب میں دریا کی دوسری طرف آ گیا۔ وادی چھوربت میں سڑک تو ہے مگر ٹوٹی پھوٹی ہے۔

کھلی وادی، ویرانہ، پہاڑوں کا مخصوص لینڈ اسکیپ، دریا شیوک اور اکیلا میں، یہاں مجھے وحشت زدہ تنہائی محسوس ہورہی تھی لیکن یہی اس رائیڈ کی سنسنی تھی۔ لونکھا کے بعد اگلا گاؤں ڈاوو تھا اور پھردریا کی دوسری طرف امیر آباد اور پھر میری طرف مِرچھا گاؤں آیا۔ مرچھا کے ساتھ ہی دریا کی دوسری طرف حسین آباد چھوربت اور پھر میری طرف پرتوک گاؤں آیا جہاں آرمی کی چیک پوسٹ تھی اور مجھے رکنے کو کہا گیا۔ اطمینان تھا کہ یوچنگ پوسٹ والوں نے مجھے کلیئر کیا ہوا ہے مگر پرتوک چیک پوسٹ کے جوان نے کہا ہمیں آپ کے آنے کی کوئی اپڈیٹ نہیں۔

میں نے ترلا منت شروع کر دیا کہ اب صرف 17 کلومیٹر دور ہوں بارڈر تک تو جانے دو۔ نہیں مانا تو کہا پوسٹ کمانڈنٹ سے بات کروادوں جو انہوں نے کروا دی۔ پوسٹ کمانڈنٹ نے کہا کہ ایک تو آگے کوئی ایکٹیوٹی چل رہی ہے تو آپ غیرمقامی ہیں آگے جانے نہیں دے سکتے دوسرا آپ کی ہمارے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے۔ انہوں نے پکی معذرت کرلی اور کہا صرف ایک صورت ہے کہ آپ کسی ہائی رینک آفیسر سے بات کروا دیں جس پر آپ کو باقاعدہ تحریری اجازت نامہ ملے گا پھر آپ جا سکتے ہیں۔ میں نے سوچا چلو مٹی پاؤ واپس چلتے ہیں۔ پوسٹ کمانڈنٹ کی اجازت سے فاصلوں کے بورڈ کی تصویر بنائی اور اب میری واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔

اکہتر کی پاک بھارت جنگ سے قبل سے فرونو بارڈر سے آگے 17 کلومیٹر ترتوک گاؤں تک ایل او سی ہوا کرتی تھی۔ اس جنگ کے دوران ترتوک سمیت تین گاؤں انڈیا نے اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا نے سرحدی سلامتی کے خدشات کو وجہ قرار دیتے ہوئے پھر یہ گاؤں پاکستان کو آج تک واپس نہیں کیے۔

1971 میں جنگ کے زمانے میں جو لوگ کام کاج کے سلسلے میں یا دوستوں رشتے داروں سے ملاقات کے لیے گاؤں سے باہر تھے وہ کبھی واپس نہیں آ سکے اور برسوں تک انڈیا نے نہ صرف اس علاقے کو بند رکھا بلکہ اس پر کڑا کنٹرول رکھا۔ پھر 2010 میں ترتوک کو سیاحوں کے لیے کھولا گیا جس کے بعد باہر کی دنیا کو اس گاؤں اور یہاں کے باسیوں کی زندگی کے بارے میں علم ہوا۔ اب انڈین حکومت نے یہاں کے لوگوں کو شناختی کارڈ جاری کر کے انھیں انڈین شہری بنالیا ہے۔ اگر یہ راستے کھلے ہوتے تو میں یہاں سے دو سو کلومیٹر دور پینگ گونگ جھیل دیکھنے جا سکتا تھا، ڈھائی سو کلومیٹر دور دنیا کا سب سے اونچا موٹر ایبل پاس کھردونگ لا پار کرکے لیہہ لداخ جا سکتا تھا اور پھر میرے خوابوں کی سرزمین دنیا کی چھت تبت کچھ ہی دوری پر تھی۔

دن کے بارہ بج رہے تھے۔ دور دراز لداخ بارڈر کے پاس وادی چھوربٹ میں ایس کام کے فورجی کی اسپیڈ لاہور میں چلنے میں والے ہر نیٹ ورک کے فورجی سے بہترین آ رہی تھی۔ بیگم کو واٹس ایپ کیا کہ اب آرمی آگے نہیں جانے دے رہی تو واپسی کا باضابطہ سفر شروع کرنے لگا ہوں۔ بیگم نے ریپلائی کیا پاک آرمی زندہ باد جس نے آپ کی موٹر سائیکل کو روک دیا۔ گھر کی لوکیشن گوگل میپ سے دیکھی تو 1100 کلومیٹر کی رائیڈ کرنی تھی۔واپس رائیڈ کرتا ہوا واپس یوچنگ پوسٹ پر اپنا خروج لگوایا۔

چھوربٹ سے ہی ہلکی پھلکی بوندا باندی جاری تھی جو خپلو پہنچنے تک کچھ تیز ہوچکی تھی۔ خپلو کے بعد کھرفق میں ایک شارٹ بریک لی اور کھرفق واٹر فال کے کچھ شاٹس لیے اور پھر یوگو جا کر رک گیا۔ یوگو میں گندم کے کھیتوں نے سب سے منفرد لینڈ اسکیپ بنایا ہوا تھا۔ آتے ہوئے میری اس پر نظر تھی کہ واپسی پر یوگو کچھ دیر رکوں گا۔ اس دوران میرا گوپرو میرے ہاتھ سے پتھر پر گرا اور اس کی اسکرین ٹوٹ گئی۔ چیک کیا تو کیم ابھی بھی فنکشنل تھا لیکن ڈسپلے اسکرین کا ایک حصہ ڈیمیج ہو چکا تھا۔

آرگینک گارڈن بہت محنت اور خوب صورتی سے بنایا گیا ہوا ہے۔ خپلو کے گرلز کالج کی طالبات بھی وہاں سیر کرنے آئی ہوئی تھیں۔ غواڑی میں موجود ایک ٹورازم پولیس اہل کار سے درخواست کر کے اپنی اس ٹور کی پہلی اور آخری دو تین تصاویر بنوائیں اور پھر آگے چل دیا۔ چھمدو چیک پوسٹ پر گانچھے کو الوداعی سلام کر کے میں نے خروج لگوایا اور اب مجھے ٹاپو ٹاپ گھر پہنچا تھا۔ اسکردو کے مضافات میں پہنچا تو شام ہونے کو تھی۔ دور سے سرفرنگا کی چمکتی ہوئی اڑتی ریت نہایت خوب صورت نظارہ پیش کر رہی تھی۔

اسکردو شہر سے 2500 روپے میں ٹینک ری فل کروایا اور فیصلہ کیا کہ رائیڈ جاری رکھوں اور آج رات دمبوداس پہنچ کر قیام کروں۔

اسکردو سے کچھورا پہنچنے تک اندھیرا چھا چکا تھا۔ یہاں دوبارہ بارش شروع ہوگئی۔ کچھورا سے دمبوداس 40 کلومیٹر دور تھا۔ بارش میں رائیڈ جاری رکھی۔ رات نو بجے دمبو داس پہنچ کر ایک گیسٹ ہاؤس میں کمرہ لیا۔ بارش، تھکاوٹ اور رات کی وجہ سے بارگین کرنے کی گنجائش نہیں تھی۔ چار ہزار میں رات کے کھانے سمیت ریٹ طے ہوا کھانا کھایا اور اور میں لم لیٹ ہوگیا۔

ذہن میں پلان یہ تھا کہ دمبوداس سے ون گو میں 900 کلومیٹر لاہور جایا جائے اس کے لیے مجھے رات آٹھ / نو بجے تک یہاں سے مانسہرہ پہنچنا لازمی تھا تاکہ وہاں سے بس میں بائیک لوڈ کروا کر میں لاہور پہنچ سکوں لیکن اوپر والے کا پلان کچھ اور ہی تھا۔ دمبوداس ہوٹل سے صبح سویرے اٹھا، اپنا سامان اٹھایا، بائیک پر سیٹ کرنے لگا تو دیکھا کہ ٹاپ باکس فکس کرنے والا لاک کام نہیں کر رہا تھا۔ میں بائیک پر ٹاپ باکس رکھ کر لاک پریس کروں تو وہ لاک نہ ہو۔ یہ پریشانی والی بات تھی۔ باکس کے لاک کو دیکھا تو اس کی لاک والی پتری ٹیڑھی ہوچکی تھی اور اب وہ لاک والی جگہ پر اندر نہیں جا رہی تھی۔

تھوڑی سی کوشش کے بعد وہ پتری اندر پھنس تو گئی مگر فکر لاحق ہونا شروع ہوگئی کہ اگر کہیں چلتے ہوئے باکس گر گیا تو اندر موجود سارا سامان برباد ہو جانا ہے۔ پھر سوچا اس میں سے جو نہایت اہم سامان ہے وہ نکال کر سیڈل بیگز میں ٹھونس لیا جائے اور باقی کے بارے میں سوچ لیا جائے کہ یہ گر بھی ہو جائے تو گزارا کرلیں گے۔ آتے ہوئے نئی جے ایس آر یعنی جگلوٹ اسکردو روڈ پر میں نے رات کی تاریکی میں سفر کیا تھا اب واپسی پر دن ہونے کی وجہ سے یہ میرے لیے نیا سفر ہونا تھا۔

اسکردو سے واپس آتے ہوئے آپ کو دریائے سندھ کے کنارے والی طرف رائیڈ کرنی پڑتی ہے۔ یہاں تقریباً 170 کلومیٹر دریا سندھ ایک گھاٹی نما راستے میں بہتا ہے تو اس کی ہیبت، چنگھاڑ، اور رفتار اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔ نیا جگلوٹ اسکردو روڈ بنا تو شان دار ہے مگر سفر محفوظ کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں ہیں۔ آپ کسی بھی وقت لینڈ سلائیڈنگ یا حادثے کی صورت میں دریا برد ہوسکتے ہیں۔ اردگرد پہاڑوں کی وحشت ابھی بھی قائم دائم تھی۔ بائیک پر اوپن ویو کی جو سہولت موجود ہوتی ہے اس کی وجہ سے دریا سندھ کم و بیش پوری رائیڈ میں نظروں کے سامنے رہا۔ سسی گاؤں پہنچ کر سوچا شاید یہاں سے مجھے ہراموش نظر آئے مگر اندازہ ہوا کہ روڈ سے ہراموش نظر نہیں آ سکتی۔

چلتے چلتے میں تقریباً ساڑھے نو بجے جگلوٹ پہنچ گیا، یعنی میں آرام سے مانسہرہ پہنچ کر آج کی ہی تاریخ میں لاہور واپس پہنچ سکتا تھا۔ جگلوٹ سے رائے کوٹ اور پھر چلاس اور پھر بابوسر کی جانب چڑھائی کرتے ہوئے راستے میں تھک گاؤں پہنچ کر اسی ڈھابے سے دوبارہ دال ماش، پیاز کا سلاد کھایا اور چائے پی جہاں آتے ہوئے بھی بریک لی تھی۔ ڈھابے کے بندے نے مجھے پہچان لیا اور مسکرا کر کہنے لگا گھوم شوم لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں یک دم تیز بارش شروع ہوگئی لیکن کچھ دیر بعد رک گئی۔ بارش کا رکنا میرے لیے ضروری تھا۔ تھک گاؤں سے سفر کی دعا دوبارہ پڑھی اور مست مست بابوسر چڑھنے لگا۔ تھک گاؤں چلاس سے کوئی پندرہ کلومیٹر اوپر ہے یہاں نہ تو بابوسر جیسی ٹھنڈ ہے اور نہ ہی چلاس جیسی گرمی۔ بابوسر ٹاپ پر پہنچ گیا تو رش اور گند دیکھ کر کراہیت جیسا احساس جاگا اور وہ بھلا وقت یاد آیا جب بابوسر ٹاپ پر پہنچ کر بریک لیا کرتے تھے۔

بابوسر سے نیچے ناران تک کی رائیڈ اپنے سرسبز خوب صورت مناظر کی وجہ سے انتہائی رومانٹک رہی۔ میں گٹی داس، بیسل، جل کھڈ، بٹہ کنڈی، سہوچ، وقفے وقفے سے جہاں جہاں دل کیا رک رک کر رائیڈ کرتے کرتے ناران پہنچ گیا۔ اب دوبارہ بارش والا ماحول بن رہا تھا، میں نے سوچا فوری نکل جاؤں تو بارش سے بچ سکتا ہوں۔ سکی کناری ٹنل کراس کرتے ہی بارش کی چھینٹیں پڑنی شروع ہوگئیں جو بتدریج تیز ہوتی جا رہی تھیں۔

راجوال کے پاس پہنچ کر بارش اتنی تیز ہوگئی کہ مجھے بائیک روک کر اپنا آپ اور اپنا سامان کور کرنا پڑا۔ کاغان پہنچنے تک مکمل تاریکی چھا چکی تھی اور بارش اب خطرناک صورت حال اختیار کرچکی تھی۔ پہاڑی نالے منہ زور ہوتے جا رہے تھے اور اوپر سے پانی اور ساتھ چھوٹے چھوٹے پتھر سڑک پر آ رہے تھے۔ بہت سنبھل کر مکمل توجہ سے رائیڈ کرنی پڑ رہی تھی۔

واپسی کی ناران کی گندی ٹریفک اپنی جگہ تنگ کر رہی تھی۔ خیر مہانڈری پہنچ کر میری بس ہوگئی۔ میں بری طرح بھیگ چکا تھا۔ وہاں سو روپے کی چائے پی اور سوچنے لگ گیا یہ بارش کب رکے گی۔ جب بالاکوٹ پہنچا تو بارش کم ہوچکی تھی ساتھ ہی میری ہمت بھی جواب دے چکی تھی۔ مانسہرہ جا کر بس میں بائیک لوڈ کروا کر گھر پہنچنے کا پلان موخر کیا اور فیصلہ کیا کہ بالاکوٹ ہی قیام کیا جائے۔ پیٹرول بھی تقریباً ختم ہوچکا تھا جو اسکردو سے ری فل کروایا تھا۔ بالاکوٹ میں 4300 میں کمرا اور کھانا ملا۔

بارش کی وجہ سے سارا گیلا سامان ہوٹل کے کمرے میں سوکھنے کے لیے پھیلا دیا اور پھر رات کی کچھ گھنٹوں کی نیند لے کر صبح تین بجے اٹھ گیا۔ ابھی ہوٹل سمیت سارا بالاکوٹ سویا ہوا تھا، فیول ٹینک ری فل کروایا اور گھر کی جانب رائیڈ شروع کردی۔ یہ رائیڈ کافی سخت رہی اور میں بارہ گھنٹے بعد دن تین بجے گھر پہنچ گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں