6 ستمبر کا معرکہ

جب پاکستان نے بھارتی افواج کو ناکوں چنے چبوا دیئے


September 08, 2024
فوٹو : فائل

6 ستمبر پاک و ہند کی پچپن سالہ پرانی تاریخ کا ایک ایسا معرکہ ہے جسے امت مسلمہ کی مائیں آج بھی گود میں بچوں کو لوری کے طور پر سناتی ہیں جسے جوان آج بھی گنگناتے ہیں ، چھ ستمبر برصغیر کی تاریخ کا وہ میلہ ہے ، قوموں کا وہ کٹھ ہے، چھ ستمبر ہندوستان کے افق پر حق و باطل کی ایک ایسی لڑائی ہے جسے مسلم امہ صدیوں یاد رکھے گی ، چھ ستمبر دل کی چوکھٹ پہ پہلا وار ہے۔

یہ ہندوستان کے ماتھے پہ پہلی ضرب ہے جس کے زخم کے رستے ہوئے لہو سے گنگا جمنا آج بھی سرخ ہے ، یہ وہ درد ہے جس کی کراہیں ہفت اقلیم تک کو کراس کر گیئں ، انڈیا کی تاریخ کا یہ وہ دکھ ہے جو صدیوں کی مسافت کے بعد بھی مندمل نہ ہوا ، چھ ستمبر مسلم امہ کی فتح کا جنم دن ہے جب رات کے گھپ اَندھیرے میں طاقت کے نشے میں چور ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر دشمن ناپاک عزائم کے ساتھ سر زمین مقدس پہ مسلم قوم کے شیر دل جوانوں کے ساتھ نبردآزما ہوا۔ چھ ستمبر کا دن ہے جب بھارت نے مسلم فوج کو للکارا ۔ کون جانتا تھا کہ صبح کا سورج اس ملک کے لیے آزمائش کا سبب بنے گا ، ماؤں کے لال ان سے جدا ہو جائیں گئے ۔ بچوں کے سروں سے سائبان آٹھ جائیں گئے ۔

عورتوں کے سہاگ اجڑ جائیں گئے ۔ لیکن مسلم امہ نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک کر دیا ۔ اور آنے والی نسل کے لئے مشعل راہ کا سبب بنے ۔6 ستمبر 1965ء کا دن عسکری اعتبار سے تاریخ عالم میں کبھی نہ بھولنے والا قابلِ فخر دن ہے جب کئی گنا بڑے ملک نے افرادی تعداد میں کئی گنا زیادہ لشکر اور دفاعی وسائل کے ساتھ اپنے چھوٹے سے پڑوسی ملک پر کسی اعلان کے بغیر رات کے اندھیرے میں فوجی حملہ کر دیا ۔ اس چھوٹے مگر غیور اور متحد ملک نے اپنے دشمن کے جنگی حملہ کا اس پامردی اور جانثاری سے مقابلہ کیا کہ دشمن کے سارے عزائم خاک میں مل گئے ۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اسے شرمندگی اٹھانا پڑی ۔ جارحیت کرنے والا وہ بڑا ملک ہندوستان اور غیور و متحد ملک پاکستان ہے ۔ 1965ء کی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی اس جنگ میں ثابت ہوا کہ جنگیں ریاستی عوام اور فوج متحد ہو کر ہی لڑتی اور جیت سکتی ہیں ۔

پاکستانی قوم نے اپنے ملک سے محبت اور مسلح افواج کی پیشہ وارانہ مہارت اورجانثاری کے جرأت مندانہ جذبے نے مل کر نا ممکن کو ممکن بنا کر دکھایا اور پاکستان پر1965ء میں ہندوستان کی طرف سے جنگ کا تھوپا جانا پاکستانی قوم کے ریاستی نصب العین دوقومی نظریہ ، قومی اتحاد اور حب الوطنی کو بہت بڑا چیلنج تھا ۔ جسے جری قوم نے کمال و قار اور بے مثال جذبہ حریت سے قبول کیا اور لازوال قربانیوں کی مثال پیش کر کے زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا ۔ دوران جنگ ہر پاکستانی کو ایک ہی فکر تھی کہ اُسے دشمن کا سامنا کرنا اور کامیابی پانا ہے ۔ جنگ کے دوران نہ تو جوانوں کی نظریں دشمن کی نفری اور عسکری طاقت پر تھیں اور نہ پاکستانی عوام کا دشمن کو شکست دینے کے سوا کوئی اور مقصد تھا ۔

تمام پاکستانی میدان جنگ میں کود پڑے تھے ، اساتذہ ، طلبہ ، شاعر ، ادیب ، فنکار ، گلوکار، ڈاکٹرز، سول ڈیفنس کے رضا کار ، مزدور ، کسان اور ذرائع ابلاغ سب کی ایک ہی دھن اور آواز تھی کہ''اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا'' ستمبر 1965ء کی جنگ کا ہمہ پہلو جائزہ لینے سے ایک حقیقی اور گہری خوشی محسوس ہوتی ہے کہ وسائل نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑے اور ہر لحاظ سے مضبوط ہندوستان کے مقابلے میں چھوٹے سے پاکستان میں وہ کون سا عنصر اور جذبہ تھا جس نے پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی نا قابل عبور دیوار میں بدل دیا تھا مثلاً ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ سرحد''رن آف کچھ'' پر طے شدہ قضیہ کو ہندوستان نے بلا جواز زندہ کیا ، فوجی تصادم کے نتیجہ میں ہزیمت اٹھائی تو یہ اعلان کر دیا کہ آئندہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ جنگ کے لئے اپنی پسند کا محاذ منتخب کرے گا اس کے باوجود پاکستان نے ہندوستان سے ملحقہ سرحدوں پر کوئی جارحانہ اقدام نہ کئے تھے ۔

صرف اپنی مسلح افواج کو معمول سے زیادہ الرٹ کر رکھا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ چھ ستمبر کی صبح جب ہندوستان نے حملہ کیا تو آناً فاناً ساری قوم ، فوجی جوان اور افسر سارے سرکاری ملازمین جاگ کر اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف گئے ۔ صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ایمان فروز اور جذبہ جہاد سے لبریز قوم سے خطاب کی وجہ سے ملک اللہ اکبر پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اُٹھا ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے اس جملے'' پاکستانیو! اٹھو لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو اور دشمن کو بتا دو کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے '' ان کے اس خطاب نے قوم کے اندر گویا بجلیاں بھر دی تھیں ۔ پاکستان آرمی نے ہر محاذ پر دشمن کی جارحیت اور پیش قدمی کو حب الوطنی کے جذبے اور پیشہ وارانہ مہارتوں سے روکا ہی نہیں ، انہیں پسپا ہونے پر بھی مجبور کر دیا تھا ۔

ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ لاہور کے جم خانہ میں شام کو شراب کی محفل سجائیں گے ۔ ہماری مسلح افواج نے جواب میں کمانڈر انچیف کے منہ پر وہ طمانچے جڑے کہ وہ مرتے دم تک منہ چھپاتا پھرا ۔ لاہور کے سیکٹر کو میجر عزیز بھٹی جیسے سپوتوں نے سنبھالا ، جان دے دی مگر وطن کی زمین پر دشمن کا ناپاک قدم قبول نہ کیا ۔ چونڈہ کے سیکٹر پر (ہندوستان کا پسندیدہ اور اہم محاذ تھا ) پاکستانی فوج کے جوانوں نے اسلحہ وبارود سے نہیں اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر ہندوستانی فوج اور ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا ۔

ہندوستان کی اس سطح پر نقصان اور تباہی کو دیکھ کر بیرون ممالک سے آئے ہوئے صحافی بھی حیران اور پریشان ہوئے ۔ پاکستانی مسلح افواج کو دلیری اور شجاعت کی داد دی ، اس کے علاوہ جسٹر سیکٹر قصور ، کھیم کرن اور مونا باؤ سیکٹرز میں بھی دشمن کوعبرت ناک شکست اس انداز میں ہوئی کہ اسے پکا ہوا کھانا ، فوجی ساز و سامان ، جیپیں اور جوانوں کی وردیاں چھوڑ کر میدان سے بھاگنا پڑا ۔ ستمبر1965ء میں نیوی کی جنگی سرگرمیاں بھی دیگر دفاعی اداروں کی طرح قابل فخر رہیں ۔ اعلان جنگ ہونے کے ساتھ بحری یونٹس کو متحرک و فنکشنل کر کے اپنے اپنے اہداف کی طرف روانہ کیا گیا ۔ کراچی بندرگاہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ ساحلی پٹی پر پٹرولنگ شروع کرائی گئی ۔ پاکستان کے بحری ، تجارتی روٹس کی حفاظت بھی پاکستانی بحریہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔ اس لئے سمندری تجارت کو بحال رکھنے کے لئے گہرے سمندروں میں بھی یونٹس بھجوائے گئے ۔ یہ امر تسلی بخش ہے کہ پوری جنگ کے دوران پاکستان کا سامان تجارت لانے لے جانے والے بحری جہاز بلا روک ٹوک اپنا سفر کرتے رہے۔

اس کے علاوہ ہندوستانی بحریہ کو بندرگاہوں سے باہر تک نہ آنے دیا گیا۔ پاکستان نیوی کی کامیابی کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ ہندوستان کے تجارتی جہاز ''سرسو تی'' اور دیگر کو عملے سمیت کافی عرصہ تک پاکستان میں زیر حراست و حفاظت کراچی کی بندرگاہ میں رکھا ۔ 7 ستمبر کا دن پاکستان کی فتح اور کامیابیوں کا دن تھا۔ پاکستان نیوی کا بحری بیڑا ، جس میں پاکستان کی واحد آبدوزیں این ایس غازی بھی شامل تھی ۔ ہندوستان کے ساحلی مستقر ''دوارکا'' پر حملہ کے لئے روانہ ہوئی اس قلعہ پر نصب ریڈار ہما ر ے پاک فضائیہ کے آپریشنز میں ایک رکاوٹ تھی ۔ مذکورہ فلیٹ صرف 20 منٹ تک اس دوار کا پر حملہ آور رہا ۔ توپوں کے دھانے کھلے اور چند منٹ میں دوار کا تباہ ہو چکا تھا ۔

پی این ایس غازی کا خوف ہندوستان کی نیوی پر اس طرح غالب تھا کہ ہندوستانی فلیٹ بندرگاہ سے باہر آنے کی جرأت نہ کر سکا ۔ ہندوستانی جہاز''تلوار''کو پاکستانی بیڑے کا سراغ لگانے کے لئے بھیجا گیا مگر وہ بھی''غازی'' کے خوف سے کسی اور طرف نکل گیا ۔ پاک فضائیہ نے ائیر مارشل اصغر خان اور ائیر مارشل نور خان جیسے قابل فخر سپوتوں اور کمانڈروں کی جنگی حکمت عملی اور فوجی ضرورتوں کے پیش نظر تجویز کردہ نصاب کے مطابق پاک فضائیہ نے اپنے دشمن کے خلاف''ہوا باز گھوڑوں کو تیار کر رکھا تھا'' جیسا کہ مسلمانوں کو اپنے دشمن کے خلاف تیار رہنے کا حکم ہے۔

ہمارے ہوا باز7 ستمبر کو اپنے اپنے مجوزہ ہدف کو حاصل کرنے کے لئے دشمن پر جھپٹ پڑے ۔ ایک طرف سکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم جیسے سپوت نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کو مار گرایا ۔ تو دوسری طرف سکوارڈرن لیڈر سر فراز رفیقی اور سکوارڈرن لیڈر منیر الدین اور علاؤالد ین جیسے شہیدوں نے بھی ثابت کر دیا کہ حرمت وطن کی خاطر ان کی جانوں کا نذرانہ کوئی مہنگا سودا نہیں ۔ پاکستان کے غازی اور مجاہد ہوا بازوں نے ہندوستان کے جنگی ہوائی اڈوں کو اس طرح نقصان پہنچایا کہ ''ہلواڑا''بنا دیا۔ پاک فضائیہ نے میدان جنگ میں اپنی کارکردگی برتری ثابت کر دی۔ 1965ء کی جنگ کا غیر جانبداری سے اور غیر جذباتی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بڑے سرکش اورخونخوار شکار کو پاکستان نے چھوٹے سے جال میں آسانی سے قید کر لیا ۔ سب کچھ قائد اعظم کے بتائے اصول (ایمان، اتحاد، نظم) پر عمل کرنے سے حاصل ہوا۔

کسی بھی زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو یہی اصول1965ء کی جنگ میں پاکستان کی کامیابی کا مرکز اور محور تھے ۔ پاکستانی قوم کی طرف سے ملی یکجہتی، نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ہر طرح کا فرق مٹا کر اختلاف بھلا کر متحد ہو کر دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کا بے مثال عملی مظاہرہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے ملک عزیز پاکستان کی حفاظت فرمائے اور صبح قیامت تک قائم و دائم رکھے اور تمام شرور، فتنوں ا ور دشمن کی ناپاک جسارتوں اور آفات سے محفوظ رکھے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں