ورلڈ لٹریسی ڈے سیاسی و معاشی استحکام کیلئے شرح خواندگی میں اضافہ کرنا ہوگا
خطے میں سب سے کم شرح خواندگی پاکستان میں ہے، لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کرنے کا مطلب ریاست پر خرچ کرنا ہے
8 ستمبر کو دنیا بھر میں ''خواندگی کا عالمی دن'' منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس موقع پر مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
اس دن کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور ماہرین تعلیم کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر خرم شہزاد
(ڈی جی لٹریسی اینڈ نان فارمل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب)
1967ء سے آج تک، ہر سال 8 ستمبر کو یونیسکو کے زیر اہتمام دنیا بھر میں خواندگی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ رواں برس اس کا موضوع ''مختلف زبانوں میں تعلیم کا فروغ، افہام، تفہیم اور امن کیلئے خواندگی'' ہے۔ اس میں علاقائی زبانوں پر زیادہ توجہ ہے۔ ہمارے ملک میں بھی مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں لہٰذا اگر ان میں تعلیم دی جائے تو شرح خواندگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
2023ء کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق ملک میں خواندگی کی شرح 61 فیصد ہے جو علاقائی ممالک میں سب سے کم ہے۔ پنجاب میں یہ شرح 66 فیصد ہے جو تمام صوبوں میں سب سے زیادہ ہے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں شرح خواندگی کم جبکہ پنجاب اور سندھ میں زیادہ ہے۔ 2017ء میں 22.6 ملین بچے سکولوں سے باہر تھے ، آج یہ تعداد 25.3 ملین ہوچکی ہے۔ پنجاب میں 5 برس سے 16 برس عمر کے 90 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے جنہیں سکولوں میں لانا بڑا چیلنج ہے۔ انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں نان فارمل ایجوکیشن کا الگ شعبہ موجود ہے۔ محکمہ لٹریسی و نان فارمل ایجوکیشن کے 20 ہزار 500 سکولز ہیں جن میں ساڑھے 6 لاکھ 'آؤٹ آف سکول' بچے زیر تعلیم ہیں،انہیں 48 ماہ میں پرائمری کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسی طرح 16 برس سے بڑی عمر کے افراد کو 6 ماہ کا سرٹیفکیٹ کورس کروایا جارہا ہے جس سے بہتری آرہی ہے۔ ہم نے ایکسلریٹڈ لرننگ پروگرام کا آغاز بھی کیا ہے جس کے تحت 48 ماہ کے بجائے 30 ماہ میں بچوں کو پرائمری پاس کروائی جاتی ہے۔ اس وقت جنوبی پنجاب کے 5 اضلاع میں قائم 1 ہزار سکولوں میں 40 ہزار بچے یہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ہم ایلیمنٹری سکولز بھی قائم کر رہے ہیں، جہاں ٹیوٹا و دیگر اداروں کے تعاون سے 18 ماہ میں مڈل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو 13 مختلف سکلز بھی سکھائی جائیں گی۔ ہم یکساں قومی نصاب کے تحت تعلیم دے رہے ہیں، ہماری تعلیم کی مدت روایتی سکولوں کی نسبت کم ہے مگر ہمارے اداروںمیں گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیاں کم ہوتی ہیں جن میں بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔
ہر ضلع میں ہمارے 15 سے 20 لٹریسی موبلائزرز موجود ہیں جو کمیونٹی کو موبلائز کرتے ہیں اور آؤٹ آف سکول بچوں کو انرول کرواتے ہیں۔ غربت اور آبادی، شرح خواندگی میں کمی کی بڑی وجوہات ہیں،ہم اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے کام کر رہے ہیں، 2030ء تک لٹریسی کو 80 فیصد تک لے کر جائیں گے، اس حوالے سے آگاہی بہت ضروری ہے، اس پر کام جاری ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر فلیحہ زہرہ کاظمی
(وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس )
ہم خواندگی کا عالمی دن منا رہے ہیں لیکن ہمارا تعلق جس مذہب سے ہے، اس کی تعلیمات میں علم کا حصول شامل ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے۔ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے۔ علم تو ہمارے فرائض میں شامل ہے لہٰذا ہمیں بچوں کی پیدائش کے وقت سے ہی تعلیم کو ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔اگر ہم معاشرے کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ اگر ہم لڑکی کو تعلیم دیں گے تو اس سے پورا گھرانہ تعلیم یافتہ ہوگا لہٰذا بچیوں کی تعلیم پر خرچ کرنا، معاشرے پر خرچ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ درست ہے کہ ماضی کی نسبت لڑکیوں کی تعلیم میں بہتری آئی ہے، مختلف شعبوں میں خواتین آگے آئی ہیں مگر انہیں جہاں ہونا چاہیے وہ مقام ابھی دور ہے۔ ملکی آبادی کا 52 فیصد خواتین ہیں مگر شرح خواندگی میں وہ بہت پیچھے ہیں، اس پر کام کرنا ہوگا۔ ہمارے ہاں بچے کی تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے، بچی کو پرایا دھن کہہ کر تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے، ہمیں اپنی سوچ اور رویے بدلنا ہوں گے۔
حکومت کو چاہیے کہ سکول سے یونیورسٹی تک، لڑکیوں کیلئے سہولیات پیدا کرے اور ان کے مسائل میں کمی لائے۔ یہ خوش آئند ہے کہ ملک میں ایک خاتون وزیراعظم بنی اور اس وقت پنجاب کی وزیراعلیٰ بھی ایک خاتون ہیں۔ یہ خواتین کیلئے حوصلہ افزاء ہے اور ان کی ترجیحات میں بھی خواتین شامل ہیں، ہمیں خواتین کے حوالے سے زیادہ کام کرنا ہوگا۔
سرکاری ادارے ملکی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا ہمیں پبلک سیکٹر کو مضبوط کرنا ہے، سکول، کالج اور یونیورسٹیز کو بہتر بنانا ہوگا اورانہیں سہولیات دینا ہونگی۔ ہمارے ہاں تعلیم کا بجٹ کم ہے بلکہ اس میں مزید کمی کی جا رہی ہے۔ سرکاری اداروں میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے داخلے کم ہو رہے ہیں، ساری کریم نجی اداروں میںجا رہی ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔ ہمارے ہاں آبادی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، اسے کنڑول کرنا ہوگا۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالقیوم چودھری
(چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف ایلیمنٹری ایجوکیشن، پنجاب یونیورسٹی)
کسی بھی ملک کی معاشی، معاشرتی، سماجی و سیاسی ترقی کیلئے اس میں رہنے والوں کا تعلیم یافتہ ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ اگر ہم بھی ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہر شہری کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا۔ہمارے ہاں ایک جملہ پڑھنے والے کو خواندہ کہا جاتا تھا مگر 2017ء میں خواندہ کی تعریف میں کچھ اضافہ کیا گیا جس کے بعد ایسا شخص جو جملہ پڑھ سکے، لفظ لکھ سکے، اسے اعداد کا معلوم ہو اور وہ سادہ جمع تفریق کرسکے، اسے خواندہ کہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کم ترین تعریف ہے جبکہ دنیا ڈیجیٹل لٹریسی کی بات کر رہی ہے، ہمیں اس حوالے سے کام کرنا ہوگا۔
پاکستان میں شرح خواندگی 60 فیصد سے زائد ہے، اس حوالے سے مختلف اعداد و شمار موجود ہیں۔ شرح خواندگی میں اضافے کیلئے شروع سے ہی کاوشیں جاری ہیں مگر جس سطح پر کام ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا۔ اسی لیے یہ سوال اٹھتا ہے کہ ملک میں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر کیوں؟ ہمارے ڈراپ آؤٹ کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ کیوں؟ ہم پہلے بچوں کو سکول سے متنفر کرتے ہیں اور پھر دوبارہ سے انہیں سکول میں لانے کیلئے کاوشیں کرتے ہیں۔ ہم سکول میں پاس اور فیل کرکے بچے کو کامیاب یا ناکام بنا دیتے ہیں جبکہ دنیا کے جدید ممالک جہاں لٹریسی ریٹ بھی سب سے زیادہ ہے، وہاں پاس، فیل کا نظام ہی نہیں۔ فن لینڈ میں ڈراپ آؤٹ کا تصور ہی نہیں ہے۔
میرے نزدیک ہمیں بھی پاس، فیل کے نظام کو تبدیل کرکے اسیسمنٹ کی طرف جانا ہوگا۔ بچوں کو سکول میں زیادہ سے زیادہ سہولیات دی جائیں، ا ن کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جائے اور انہیں معاشرے کا کارآمد شہری بننے کیلئے تیار کیا جائے۔ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ پالیسی سازی کا ہے۔ پالیسی بناتے وقت سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ نہیں لیا جاتا۔اکیڈیمیا جو دنیا میں تھنک ٹینک کی حیثیت رکھتا ہے، اسے بھی شامل نہیں کیا جاتا۔ ہمارے ہاں پالیسیوں میں عدم تسلسل، دیرپا پالیسیوں کا نہ ہونا بھی مسئلہ ہے۔ میرے نزدیک اکیڈیمیا اور متعلقہ ماہرین کو شامل کرنے سے پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد میں بہتری آئے گی۔
پنجاب یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کا بڑا ادارہ موجود ہے مگر اس سے بھی مشاورت نہیں کی جاتی۔ ہم خود سے حکومت اور اداروں کو تجاویز دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے پاس 12 ہزار سے زائد ریسرچ ورک موجود ہے جس سے استفادہ کرکے حکومت نظام کے نقائص دور اور اس میں جدت لاسکتی ہے۔ خواندہ مرد اور خواتین میں فرق بڑھ رہا ہے۔ اس وقت 70 فیصد مرد جبکہ 50 فیصد خواتین خواندہ ہیں، یہ فرق ختم کرنا ہوگا۔ صوبائی صورتحال کا جائزہ لیں تو پنجاب اور سندھ میں شرح خواندگی بہتر جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کم ہے، وہاں مسائل زیادہ ہیں۔ شہری اور دیہی تفریق بھی زیادہ ہے، شہروں میں شرح خواندگی زیادہ اور دیہات میں کم ہے۔ میرے نزدیک حکومت کو ٹارگٹ کرکے ایسے علاقوں میں زیادہ کام کرنا چاہیے جہاں شرح خواندگی کم ہے، اس کیلئے سماجی تنظیموں، این جی اوز، اکیڈیمیا، بزنس کمیونٹی و دیگر سٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کیا جائے تاکہ سب مل کر اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔
آزادی سے لے کر اب تک، ایلیمنٹری ایجوکیشن پر حکومتوں کی توجہ رہی ہے مگر بجٹ 2.5 فیصد سے زیادہ مختص نہیں ہوسکا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ صرف خواب دیکھنے سے اس کی تعبیر نہیں ملے گی، اگر اسے پورا کرنا چاہتے ہیں تو وسائل دینا ہونگے۔ میرے نزدیک حکومت کو عالمی معیار کے مطابق جی ڈی پی کا کم از کم 4 فیصد تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے۔ شرح خواندگی میں بہتری کیلئے نان فارمل ایجوکیشن، پیف، سکولز ایجوکیشن، مسجد مکتب سکولز و دیگر کو فروغ دینا ہوگا، انہیں بااختیار اور مضبوط بنانا ہوگا۔ ہمیں نئے اور سمارٹ حل کی طرف بڑھنا ہے، موبائل ایپ و جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جائے۔
رانا لیاقت علی
(سیکرٹری جنرل پنجاب ٹیچرز یونین )
بدقسمتی سے ملک میں شرح خواندگی کے حوالے سے اعداد و شمار دینے والے ادارے موجود نہیں لہٰذا درست اعداد و شمار نہ ہونے کی وجہ سے شرح خواندگی کا علم نہیں، اسی لیے پالیسی سازی میں مسائل درپیش ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی عدم استحکام بڑا مسئلہ ہے۔ ہر نئی آنے والے حکومت ماضی کی پالیسیوں کو ختم کرکے، کچھ ترامیم کے ساتھ نئی پالیسی اورنئے منصوبے لاتی ہے۔
اس سے پالیسیوں کا تسلسل برقرا ر نہیں رہتا اور مزید مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ پالیسی سازی میں سٹیک ہولڈرز کو شامل نہیں کیا جاتا بلکہ منظور نظر افراد غیر حقیقی پالیسیاں بناتے ہیں جن سے نقصان ہوتا ہے۔ ہمارے اساتذہ معاشی اور معاشرتی طور پر کمزور ہیں۔ استاد کو معلوم ہی نہیں کہ اس کی اصل ڈیوٹی کیا ہے، الیکشن ڈیوٹی، سروے سمیت جہاں افرادی قوت کی ضرورت ہو، اساتذہ کو بھیج دیا جاتا ہے۔ اس وقت سکولوں میں سٹاف کی کمی ہے،نئی بھرتیاں نہیں ہو رہی۔ تعلیمی اداروں سے ڈگریاں حاصل کرنیوالے بیروزگار ہیں، انہیں سکولوں میں جگہ نہیں مل رہی، اگر ہم صحیح معنوں میں شرح خواندگی میں اضافہ چاہتے ہیں تو تربیت یافتہ اساتذہ بھرتی کرنا ہونگے۔
محکمہ سکولز ایجوکیشن، دانش سکولز، سینٹر آف ایکسی لنس، پیف، نان فارمل ایجوکیشن سمیت متعدد ادارے تعلیم کیلئے کام کر رہے ہیں مگر شرح خواندگی میں بہتری نہیں آرہی بلکہ آج بھی کروڑوں بچے سکول نہیں جاتے۔ غربت، شرح خواندگی میں کمی کی بڑی وجہ ہے۔ لوگوں کے پاس راشن خریدنے کے پیسے نہیں، ان کے روزمرہ کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ والدین بچوں کیلئے خوراک خریدیں یا کتاب؟ اس وقت سکولوں سے بچوں کے ڈراپ آؤٹ کی شرح زیادہ ہے۔ والدین بچوں کو سکول سے ہٹا کر کام پر بھیج رہے ہیں تاکہ گھر کا خرچ چلایا جاسکے۔ اگر ہم ملک میں شرح خواندگی بڑھانا چاہتے ہیں تو سیاسی استحکام لانا ہوگا، غربت کم کرنا ہوگی، اساتذہ اور بچوں کو سکول میں بہتر ماحول فراہم کرنا ہوگا۔
اس دن کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور ماہرین تعلیم کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر خرم شہزاد
(ڈی جی لٹریسی اینڈ نان فارمل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب)
1967ء سے آج تک، ہر سال 8 ستمبر کو یونیسکو کے زیر اہتمام دنیا بھر میں خواندگی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ رواں برس اس کا موضوع ''مختلف زبانوں میں تعلیم کا فروغ، افہام، تفہیم اور امن کیلئے خواندگی'' ہے۔ اس میں علاقائی زبانوں پر زیادہ توجہ ہے۔ ہمارے ملک میں بھی مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں لہٰذا اگر ان میں تعلیم دی جائے تو شرح خواندگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
2023ء کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق ملک میں خواندگی کی شرح 61 فیصد ہے جو علاقائی ممالک میں سب سے کم ہے۔ پنجاب میں یہ شرح 66 فیصد ہے جو تمام صوبوں میں سب سے زیادہ ہے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں شرح خواندگی کم جبکہ پنجاب اور سندھ میں زیادہ ہے۔ 2017ء میں 22.6 ملین بچے سکولوں سے باہر تھے ، آج یہ تعداد 25.3 ملین ہوچکی ہے۔ پنجاب میں 5 برس سے 16 برس عمر کے 90 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے جنہیں سکولوں میں لانا بڑا چیلنج ہے۔ انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں نان فارمل ایجوکیشن کا الگ شعبہ موجود ہے۔ محکمہ لٹریسی و نان فارمل ایجوکیشن کے 20 ہزار 500 سکولز ہیں جن میں ساڑھے 6 لاکھ 'آؤٹ آف سکول' بچے زیر تعلیم ہیں،انہیں 48 ماہ میں پرائمری کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسی طرح 16 برس سے بڑی عمر کے افراد کو 6 ماہ کا سرٹیفکیٹ کورس کروایا جارہا ہے جس سے بہتری آرہی ہے۔ ہم نے ایکسلریٹڈ لرننگ پروگرام کا آغاز بھی کیا ہے جس کے تحت 48 ماہ کے بجائے 30 ماہ میں بچوں کو پرائمری پاس کروائی جاتی ہے۔ اس وقت جنوبی پنجاب کے 5 اضلاع میں قائم 1 ہزار سکولوں میں 40 ہزار بچے یہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ہم ایلیمنٹری سکولز بھی قائم کر رہے ہیں، جہاں ٹیوٹا و دیگر اداروں کے تعاون سے 18 ماہ میں مڈل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو 13 مختلف سکلز بھی سکھائی جائیں گی۔ ہم یکساں قومی نصاب کے تحت تعلیم دے رہے ہیں، ہماری تعلیم کی مدت روایتی سکولوں کی نسبت کم ہے مگر ہمارے اداروںمیں گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیاں کم ہوتی ہیں جن میں بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔
ہر ضلع میں ہمارے 15 سے 20 لٹریسی موبلائزرز موجود ہیں جو کمیونٹی کو موبلائز کرتے ہیں اور آؤٹ آف سکول بچوں کو انرول کرواتے ہیں۔ غربت اور آبادی، شرح خواندگی میں کمی کی بڑی وجوہات ہیں،ہم اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے کام کر رہے ہیں، 2030ء تک لٹریسی کو 80 فیصد تک لے کر جائیں گے، اس حوالے سے آگاہی بہت ضروری ہے، اس پر کام جاری ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر فلیحہ زہرہ کاظمی
(وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس )
ہم خواندگی کا عالمی دن منا رہے ہیں لیکن ہمارا تعلق جس مذہب سے ہے، اس کی تعلیمات میں علم کا حصول شامل ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے۔ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے۔ علم تو ہمارے فرائض میں شامل ہے لہٰذا ہمیں بچوں کی پیدائش کے وقت سے ہی تعلیم کو ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔اگر ہم معاشرے کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ اگر ہم لڑکی کو تعلیم دیں گے تو اس سے پورا گھرانہ تعلیم یافتہ ہوگا لہٰذا بچیوں کی تعلیم پر خرچ کرنا، معاشرے پر خرچ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ درست ہے کہ ماضی کی نسبت لڑکیوں کی تعلیم میں بہتری آئی ہے، مختلف شعبوں میں خواتین آگے آئی ہیں مگر انہیں جہاں ہونا چاہیے وہ مقام ابھی دور ہے۔ ملکی آبادی کا 52 فیصد خواتین ہیں مگر شرح خواندگی میں وہ بہت پیچھے ہیں، اس پر کام کرنا ہوگا۔ ہمارے ہاں بچے کی تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے، بچی کو پرایا دھن کہہ کر تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے، ہمیں اپنی سوچ اور رویے بدلنا ہوں گے۔
حکومت کو چاہیے کہ سکول سے یونیورسٹی تک، لڑکیوں کیلئے سہولیات پیدا کرے اور ان کے مسائل میں کمی لائے۔ یہ خوش آئند ہے کہ ملک میں ایک خاتون وزیراعظم بنی اور اس وقت پنجاب کی وزیراعلیٰ بھی ایک خاتون ہیں۔ یہ خواتین کیلئے حوصلہ افزاء ہے اور ان کی ترجیحات میں بھی خواتین شامل ہیں، ہمیں خواتین کے حوالے سے زیادہ کام کرنا ہوگا۔
سرکاری ادارے ملکی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا ہمیں پبلک سیکٹر کو مضبوط کرنا ہے، سکول، کالج اور یونیورسٹیز کو بہتر بنانا ہوگا اورانہیں سہولیات دینا ہونگی۔ ہمارے ہاں تعلیم کا بجٹ کم ہے بلکہ اس میں مزید کمی کی جا رہی ہے۔ سرکاری اداروں میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے داخلے کم ہو رہے ہیں، ساری کریم نجی اداروں میںجا رہی ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔ ہمارے ہاں آبادی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، اسے کنڑول کرنا ہوگا۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالقیوم چودھری
(چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف ایلیمنٹری ایجوکیشن، پنجاب یونیورسٹی)
کسی بھی ملک کی معاشی، معاشرتی، سماجی و سیاسی ترقی کیلئے اس میں رہنے والوں کا تعلیم یافتہ ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ اگر ہم بھی ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہر شہری کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا۔ہمارے ہاں ایک جملہ پڑھنے والے کو خواندہ کہا جاتا تھا مگر 2017ء میں خواندہ کی تعریف میں کچھ اضافہ کیا گیا جس کے بعد ایسا شخص جو جملہ پڑھ سکے، لفظ لکھ سکے، اسے اعداد کا معلوم ہو اور وہ سادہ جمع تفریق کرسکے، اسے خواندہ کہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کم ترین تعریف ہے جبکہ دنیا ڈیجیٹل لٹریسی کی بات کر رہی ہے، ہمیں اس حوالے سے کام کرنا ہوگا۔
پاکستان میں شرح خواندگی 60 فیصد سے زائد ہے، اس حوالے سے مختلف اعداد و شمار موجود ہیں۔ شرح خواندگی میں اضافے کیلئے شروع سے ہی کاوشیں جاری ہیں مگر جس سطح پر کام ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا۔ اسی لیے یہ سوال اٹھتا ہے کہ ملک میں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر کیوں؟ ہمارے ڈراپ آؤٹ کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ کیوں؟ ہم پہلے بچوں کو سکول سے متنفر کرتے ہیں اور پھر دوبارہ سے انہیں سکول میں لانے کیلئے کاوشیں کرتے ہیں۔ ہم سکول میں پاس اور فیل کرکے بچے کو کامیاب یا ناکام بنا دیتے ہیں جبکہ دنیا کے جدید ممالک جہاں لٹریسی ریٹ بھی سب سے زیادہ ہے، وہاں پاس، فیل کا نظام ہی نہیں۔ فن لینڈ میں ڈراپ آؤٹ کا تصور ہی نہیں ہے۔
میرے نزدیک ہمیں بھی پاس، فیل کے نظام کو تبدیل کرکے اسیسمنٹ کی طرف جانا ہوگا۔ بچوں کو سکول میں زیادہ سے زیادہ سہولیات دی جائیں، ا ن کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جائے اور انہیں معاشرے کا کارآمد شہری بننے کیلئے تیار کیا جائے۔ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ پالیسی سازی کا ہے۔ پالیسی بناتے وقت سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ نہیں لیا جاتا۔اکیڈیمیا جو دنیا میں تھنک ٹینک کی حیثیت رکھتا ہے، اسے بھی شامل نہیں کیا جاتا۔ ہمارے ہاں پالیسیوں میں عدم تسلسل، دیرپا پالیسیوں کا نہ ہونا بھی مسئلہ ہے۔ میرے نزدیک اکیڈیمیا اور متعلقہ ماہرین کو شامل کرنے سے پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد میں بہتری آئے گی۔
پنجاب یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کا بڑا ادارہ موجود ہے مگر اس سے بھی مشاورت نہیں کی جاتی۔ ہم خود سے حکومت اور اداروں کو تجاویز دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے پاس 12 ہزار سے زائد ریسرچ ورک موجود ہے جس سے استفادہ کرکے حکومت نظام کے نقائص دور اور اس میں جدت لاسکتی ہے۔ خواندہ مرد اور خواتین میں فرق بڑھ رہا ہے۔ اس وقت 70 فیصد مرد جبکہ 50 فیصد خواتین خواندہ ہیں، یہ فرق ختم کرنا ہوگا۔ صوبائی صورتحال کا جائزہ لیں تو پنجاب اور سندھ میں شرح خواندگی بہتر جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کم ہے، وہاں مسائل زیادہ ہیں۔ شہری اور دیہی تفریق بھی زیادہ ہے، شہروں میں شرح خواندگی زیادہ اور دیہات میں کم ہے۔ میرے نزدیک حکومت کو ٹارگٹ کرکے ایسے علاقوں میں زیادہ کام کرنا چاہیے جہاں شرح خواندگی کم ہے، اس کیلئے سماجی تنظیموں، این جی اوز، اکیڈیمیا، بزنس کمیونٹی و دیگر سٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کیا جائے تاکہ سب مل کر اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔
آزادی سے لے کر اب تک، ایلیمنٹری ایجوکیشن پر حکومتوں کی توجہ رہی ہے مگر بجٹ 2.5 فیصد سے زیادہ مختص نہیں ہوسکا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ صرف خواب دیکھنے سے اس کی تعبیر نہیں ملے گی، اگر اسے پورا کرنا چاہتے ہیں تو وسائل دینا ہونگے۔ میرے نزدیک حکومت کو عالمی معیار کے مطابق جی ڈی پی کا کم از کم 4 فیصد تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے۔ شرح خواندگی میں بہتری کیلئے نان فارمل ایجوکیشن، پیف، سکولز ایجوکیشن، مسجد مکتب سکولز و دیگر کو فروغ دینا ہوگا، انہیں بااختیار اور مضبوط بنانا ہوگا۔ ہمیں نئے اور سمارٹ حل کی طرف بڑھنا ہے، موبائل ایپ و جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جائے۔
رانا لیاقت علی
(سیکرٹری جنرل پنجاب ٹیچرز یونین )
بدقسمتی سے ملک میں شرح خواندگی کے حوالے سے اعداد و شمار دینے والے ادارے موجود نہیں لہٰذا درست اعداد و شمار نہ ہونے کی وجہ سے شرح خواندگی کا علم نہیں، اسی لیے پالیسی سازی میں مسائل درپیش ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی عدم استحکام بڑا مسئلہ ہے۔ ہر نئی آنے والے حکومت ماضی کی پالیسیوں کو ختم کرکے، کچھ ترامیم کے ساتھ نئی پالیسی اورنئے منصوبے لاتی ہے۔
اس سے پالیسیوں کا تسلسل برقرا ر نہیں رہتا اور مزید مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ پالیسی سازی میں سٹیک ہولڈرز کو شامل نہیں کیا جاتا بلکہ منظور نظر افراد غیر حقیقی پالیسیاں بناتے ہیں جن سے نقصان ہوتا ہے۔ ہمارے اساتذہ معاشی اور معاشرتی طور پر کمزور ہیں۔ استاد کو معلوم ہی نہیں کہ اس کی اصل ڈیوٹی کیا ہے، الیکشن ڈیوٹی، سروے سمیت جہاں افرادی قوت کی ضرورت ہو، اساتذہ کو بھیج دیا جاتا ہے۔ اس وقت سکولوں میں سٹاف کی کمی ہے،نئی بھرتیاں نہیں ہو رہی۔ تعلیمی اداروں سے ڈگریاں حاصل کرنیوالے بیروزگار ہیں، انہیں سکولوں میں جگہ نہیں مل رہی، اگر ہم صحیح معنوں میں شرح خواندگی میں اضافہ چاہتے ہیں تو تربیت یافتہ اساتذہ بھرتی کرنا ہونگے۔
محکمہ سکولز ایجوکیشن، دانش سکولز، سینٹر آف ایکسی لنس، پیف، نان فارمل ایجوکیشن سمیت متعدد ادارے تعلیم کیلئے کام کر رہے ہیں مگر شرح خواندگی میں بہتری نہیں آرہی بلکہ آج بھی کروڑوں بچے سکول نہیں جاتے۔ غربت، شرح خواندگی میں کمی کی بڑی وجہ ہے۔ لوگوں کے پاس راشن خریدنے کے پیسے نہیں، ان کے روزمرہ کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ والدین بچوں کیلئے خوراک خریدیں یا کتاب؟ اس وقت سکولوں سے بچوں کے ڈراپ آؤٹ کی شرح زیادہ ہے۔ والدین بچوں کو سکول سے ہٹا کر کام پر بھیج رہے ہیں تاکہ گھر کا خرچ چلایا جاسکے۔ اگر ہم ملک میں شرح خواندگی بڑھانا چاہتے ہیں تو سیاسی استحکام لانا ہوگا، غربت کم کرنا ہوگی، اساتذہ اور بچوں کو سکول میں بہتر ماحول فراہم کرنا ہوگا۔