’’ نازک دور‘‘ سے گزرتی ملکی کرکٹ
ٹیسٹ میں شان مسعود نے وہ کر دکھایا جو کبھی کوئی پاکستانی کپتان نہ کر چکا
ہم بچپن سے اب تک کئی بار سن چکے کہ ''ملک بڑے نازک دور سے گذر رہا ہے'' اب بھی یہی باتیں سننے میں آتی ہیں، البتہ ملک جتنے بھی '' نازک دور'' سے گذرا ہماری کرکٹ پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا اور وہ پھلتی پھولتی ہی رہی، مگر اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ ''ملکی کرکٹ نازک دور سے گذر رہی ہے''۔ میری ایج گروپ کے کرکٹ مداحوں میں سے شاید ہی کسی نے کھیل کا ایسا زوال دیکھا ہوا۔
ہمارے زمانے میں تو جب بنگلہ دیش نے پاکستان کو ورلڈکپ میں ہرایا تو قیامت ٹوٹ پڑی، اب امریکا بھی زیر کر لیتا ہے تو کچھ نہیں ہوتا، موجودہ دور اس لحاظ سے ملکی کرکٹ کیلیے منحوس ثابت ہوا کہ 2،3 سال میں ہی زمبابوے، آئرلینڈ، امریکا،افغانستان اور بنگلہ دیش کیخلاف متواتر ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا۔
حیران کن طور پر ان تمام شکستوں میں چند چہرے یکساں رہے جو اب بھی شائقین کی آنکھوں کا تارا ہیں،ایک شکست سے سبق نہ لیا تو دوسری سامنے آئی، پھر تیسری اور اب وہ وقت آ گیا کہ بنگلہ دیشی ٹیم بھی ہمیں گھر پر ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کر کے چلی گئی، ورلڈکپ میں جب رسوائی سامنے آئی تو سرجری کے خواب دکھائے گئے مگر کچھ نہ ہوا جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کیخلاف بدترین شکستوں کی صورت میں نکلا۔
اب پھر22 ستمبر کو کسی میٹنگ کا اعلان ہوا ہے، دیکھتے ہیں اس میں کیا ہوگا، کپتانوں کی تبدیلی متوقع ہے، بابر اعظم جس طرح متواتر ناکامیوں کا شکار ہوئے انھیں خود ہی قیادت چھوڑ دینی چاہیے تھی مگر وہ انتظار کرتے رہے کہ شاید اگلی سیریز تک لوگ سابقہ شکستیں بھول جائیں، البتہ ایسا نہ ہوا، اب آسٹریلیا کے دورے میں انھیں کپتانی ملنے کا امکان کم ہے۔
اسی طرح ٹیسٹ میں شان مسعود نے وہ کر دکھایا جو کبھی کوئی پاکستانی کپتان نہ کر چکا،وہ مسلسل 5 میچزہارنے والے واحد پاکستانی کپتان بن گئے،اب تک تو ایسا لگتا ہے کہ آئندہ دونوں ہی بطور عام کھلاڑی کھیلیں گے،البتہ کیا صرف اس سے قومی ٹیم کی کارکردگی میں غیرمعمولی بہتری آ جائے گی؟ سچ پوچھیں تو ایسا ممکن نہیں لگتا، جتنی پستی میں ہماری ٹیم چلی گئی اسے دوبارہ اٹھنے میں بہت وقت لگے گا۔
ہم کھلاڑیوں پر تنقید کرتے رہتے ہیں کیونکہ وہ سافٹ ٹارگٹ ہیں ہمیں بورڈ کی جانب بھی دیکھنا چاہیے، متواتر تبدیلیوں سے فائدہ نہیں نقصان ہی ہوا، زیادہ دور نہیں بھارت کی مثال سامنے رکھتے ہیں، وہاں کئی برس سے ایک ہی جے شاہ کا راج ہے، ہمارے ملک میں کتنے چیئرمین بدل چکے آپ خود جانتے ہیں، ان سب نے مل کر ڈومیسٹک کرکٹ کے ساتھ جو کیا وہ لفظ میں یہاں لکھنا نہیں چاہتا آپ خود سمجھدار ہیں، اس کا نقصان یہ ہوا کہ نئے کھلاڑیوں کی آمد کم ہو گئی۔
پھر کچھ قصور بابر اعظم کا بھی ہے، جب تک وہ کپتان رہے انھوں نے زیادہ پلیئرز کو آگے نہیں آنے دیا ، جو آئے وہ محدود مواقع پا کر منظرعام سے غائب ہو گئے، جب تک بابر اچھی فارم میں رہے زیادہ خلا محسوس نہیں ہوا، ہم مڈل آرڈر بیٹنگ کو ہی بْرا بھلا کہتے رہے، اب سب زیرعتاب ہیں، ہمیں اپنی کرکٹ کو ٹھیک کرنا ہے تو سب سے پہلے پی سی بی کے معاملات درست کرنا ہوں گے، جسے چیئرمین بنائیں اسے مکمل وقت دیں اور یہ اس کا واحد کام ہونا چاہیے، وہ اپنا تمام تر وقت کرکٹ کو دے گا تو یقینی طور پر بہتری ہی آئے گی۔
ابھی جو حالات ہیں ان میں ہمیں چند ماہ بعد ہی ایک چیئرمین بْرا لگنے لگتا ہے پھر ہم سابق کو یاد کرتے ہیں،پھر جب کوئی تبدیلی آئے تو پھر پرانا اچھا لگنے لگتا ہے، محسن نقوی ایک باصلاحیت انسان ہیں، وہ ملکی کرکٹ کو ٹھیک بھی کرنا چاہتے ہیں، ان کی ایمانداری اور نیت پر بھی کسی کو شک نہیں، بس ان کے ساتھ واحد مسئلہ وقت کی کمی کا ہے، اس وقت ملک کے جو حالات چل رہے ہیں اس میں ہم ان سے یہ توقع بھی نہیں کر سکتے کہ وہ وزارت داخلہ کو کم اور کرکٹ کو زیادہ وقت دیں۔
نقوی صاحب خود بھی جانتے ہوں گے کہ کرکٹ نیچے جا رہی ہے لیکن اس وقت بورڈ کا عہدہ چھوڑنے کی انا اجازت بھی نہیں دے گی، زندگی بھر یہ بات ستاتی رہے گی کہ ان کے دور میں ورلڈکپ میں امریکا سے ہارے اور پھر بنگلہ دیش سے ٹیسٹ میں اولین شکستیں ملیں،کرکٹ زوال کی گہرائیوں میں چلی گئی، وہ کوشش کرتے رہیں گے کہ حالات بہتر ہوں، محسن نقوی ایسا کر بھی سکتے ہیں۔
آج سے 1،2 سال بعد جب ہم قذافی اسٹیڈیم، نیشنل اسٹیڈیم وغیرہ میں جائیں گے تو انہی کو دعائیں دیں گے کہ کیسا زبردست بنا دیا، انھیں کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری لانے کیلیے بھی غیرمعمولی اقدامات کرنے ہوں گے، جب وہ یہ طے کر چکے ہیں کہ دونوں کام ایک ساتھ کریں گے تو سب سے پہلے ایک باصلاحیت نائب کا تقرر کریں، یہ کوئی سابق یا موجودہ وزیر، کوئی ڈی سی وغیرہ نہیں ہونا چاہیے، ایک قابل شخص کو پراسس کے ذریعے لائیں، پھر اسے تمام تر اختیارات بھی سونپ دیں۔
بورڈ آفیشلز فائلز لے کر ہفتے بھر باس کا انتظار نہ کرتے رہیں بلکہ وہ سی ای او (یا جو بھی نام دیں ) سے ہی منظوری لے لیا کریں، شعبہ انٹرنیشنل کرکٹ، ہائی پرفارمنس اور ڈومیسٹک کرکٹ میں اہلیت کی بنا پر تقرریاں کریں، پرانے لوگ اتنے کام کے نہیں ہیں نقوی صاحب کو خود بھی اندازہ ہو گیا ہوگا، کروڑوں روپے سابق کرکٹرز کو بانٹنے کا کوئی فائدہ نہیں، ایسے لوگوں کو سامنے لائیں جو اپنا بینک بیلنس نہیں بلکہ ملکی ٹیلنٹ پول بڑھانا چاہتے ہیں۔
اگر صرف پیسے بانٹنے سے ملکی کرکٹ ٹھیک ہو جاتی تو اب تک ہم ورلڈ چیمپئن بن چکے ہوتے، چیمپئنز ٹرافی یقینی طور پر بہت اہمیت رکھتی ہے لیکن اس سے پہلے انگلینڈ کیخلاف سیریز بھی ہے اسے کیسے نظر انداز کر دیا گیا؟ چیمپئنز کپ ون ڈے ٹورنامنٹ کی جگہ کیا قومی کرکٹرز کو چند چار روزہ میچز کھلانا زیادہ بہتر نہیں ہوتا، خیر اب جو ہو گیا اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، مستقبل کا سوچنا چاہیے، اگر ہمیں کرکٹ میں پرانا وقت واپس لانا ہے تو بہت سخت اقدامات کرنا ہوں گے، امید ہے محسن نقوی ایسا ہی کریں گے، اور ہاں پی ایس ایل نام کا بھی ایک ٹورنامنٹ ہوتا ہے، کسی دن اس کے حوالے سے بھی ساتھیوں سے اپ ڈیٹ لے لیجیے، اس کے حالات کچھ اچھے نہیں لگ رہے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
ہمارے زمانے میں تو جب بنگلہ دیش نے پاکستان کو ورلڈکپ میں ہرایا تو قیامت ٹوٹ پڑی، اب امریکا بھی زیر کر لیتا ہے تو کچھ نہیں ہوتا، موجودہ دور اس لحاظ سے ملکی کرکٹ کیلیے منحوس ثابت ہوا کہ 2،3 سال میں ہی زمبابوے، آئرلینڈ، امریکا،افغانستان اور بنگلہ دیش کیخلاف متواتر ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا۔
حیران کن طور پر ان تمام شکستوں میں چند چہرے یکساں رہے جو اب بھی شائقین کی آنکھوں کا تارا ہیں،ایک شکست سے سبق نہ لیا تو دوسری سامنے آئی، پھر تیسری اور اب وہ وقت آ گیا کہ بنگلہ دیشی ٹیم بھی ہمیں گھر پر ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کر کے چلی گئی، ورلڈکپ میں جب رسوائی سامنے آئی تو سرجری کے خواب دکھائے گئے مگر کچھ نہ ہوا جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کیخلاف بدترین شکستوں کی صورت میں نکلا۔
اب پھر22 ستمبر کو کسی میٹنگ کا اعلان ہوا ہے، دیکھتے ہیں اس میں کیا ہوگا، کپتانوں کی تبدیلی متوقع ہے، بابر اعظم جس طرح متواتر ناکامیوں کا شکار ہوئے انھیں خود ہی قیادت چھوڑ دینی چاہیے تھی مگر وہ انتظار کرتے رہے کہ شاید اگلی سیریز تک لوگ سابقہ شکستیں بھول جائیں، البتہ ایسا نہ ہوا، اب آسٹریلیا کے دورے میں انھیں کپتانی ملنے کا امکان کم ہے۔
اسی طرح ٹیسٹ میں شان مسعود نے وہ کر دکھایا جو کبھی کوئی پاکستانی کپتان نہ کر چکا،وہ مسلسل 5 میچزہارنے والے واحد پاکستانی کپتان بن گئے،اب تک تو ایسا لگتا ہے کہ آئندہ دونوں ہی بطور عام کھلاڑی کھیلیں گے،البتہ کیا صرف اس سے قومی ٹیم کی کارکردگی میں غیرمعمولی بہتری آ جائے گی؟ سچ پوچھیں تو ایسا ممکن نہیں لگتا، جتنی پستی میں ہماری ٹیم چلی گئی اسے دوبارہ اٹھنے میں بہت وقت لگے گا۔
ہم کھلاڑیوں پر تنقید کرتے رہتے ہیں کیونکہ وہ سافٹ ٹارگٹ ہیں ہمیں بورڈ کی جانب بھی دیکھنا چاہیے، متواتر تبدیلیوں سے فائدہ نہیں نقصان ہی ہوا، زیادہ دور نہیں بھارت کی مثال سامنے رکھتے ہیں، وہاں کئی برس سے ایک ہی جے شاہ کا راج ہے، ہمارے ملک میں کتنے چیئرمین بدل چکے آپ خود جانتے ہیں، ان سب نے مل کر ڈومیسٹک کرکٹ کے ساتھ جو کیا وہ لفظ میں یہاں لکھنا نہیں چاہتا آپ خود سمجھدار ہیں، اس کا نقصان یہ ہوا کہ نئے کھلاڑیوں کی آمد کم ہو گئی۔
پھر کچھ قصور بابر اعظم کا بھی ہے، جب تک وہ کپتان رہے انھوں نے زیادہ پلیئرز کو آگے نہیں آنے دیا ، جو آئے وہ محدود مواقع پا کر منظرعام سے غائب ہو گئے، جب تک بابر اچھی فارم میں رہے زیادہ خلا محسوس نہیں ہوا، ہم مڈل آرڈر بیٹنگ کو ہی بْرا بھلا کہتے رہے، اب سب زیرعتاب ہیں، ہمیں اپنی کرکٹ کو ٹھیک کرنا ہے تو سب سے پہلے پی سی بی کے معاملات درست کرنا ہوں گے، جسے چیئرمین بنائیں اسے مکمل وقت دیں اور یہ اس کا واحد کام ہونا چاہیے، وہ اپنا تمام تر وقت کرکٹ کو دے گا تو یقینی طور پر بہتری ہی آئے گی۔
ابھی جو حالات ہیں ان میں ہمیں چند ماہ بعد ہی ایک چیئرمین بْرا لگنے لگتا ہے پھر ہم سابق کو یاد کرتے ہیں،پھر جب کوئی تبدیلی آئے تو پھر پرانا اچھا لگنے لگتا ہے، محسن نقوی ایک باصلاحیت انسان ہیں، وہ ملکی کرکٹ کو ٹھیک بھی کرنا چاہتے ہیں، ان کی ایمانداری اور نیت پر بھی کسی کو شک نہیں، بس ان کے ساتھ واحد مسئلہ وقت کی کمی کا ہے، اس وقت ملک کے جو حالات چل رہے ہیں اس میں ہم ان سے یہ توقع بھی نہیں کر سکتے کہ وہ وزارت داخلہ کو کم اور کرکٹ کو زیادہ وقت دیں۔
نقوی صاحب خود بھی جانتے ہوں گے کہ کرکٹ نیچے جا رہی ہے لیکن اس وقت بورڈ کا عہدہ چھوڑنے کی انا اجازت بھی نہیں دے گی، زندگی بھر یہ بات ستاتی رہے گی کہ ان کے دور میں ورلڈکپ میں امریکا سے ہارے اور پھر بنگلہ دیش سے ٹیسٹ میں اولین شکستیں ملیں،کرکٹ زوال کی گہرائیوں میں چلی گئی، وہ کوشش کرتے رہیں گے کہ حالات بہتر ہوں، محسن نقوی ایسا کر بھی سکتے ہیں۔
آج سے 1،2 سال بعد جب ہم قذافی اسٹیڈیم، نیشنل اسٹیڈیم وغیرہ میں جائیں گے تو انہی کو دعائیں دیں گے کہ کیسا زبردست بنا دیا، انھیں کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری لانے کیلیے بھی غیرمعمولی اقدامات کرنے ہوں گے، جب وہ یہ طے کر چکے ہیں کہ دونوں کام ایک ساتھ کریں گے تو سب سے پہلے ایک باصلاحیت نائب کا تقرر کریں، یہ کوئی سابق یا موجودہ وزیر، کوئی ڈی سی وغیرہ نہیں ہونا چاہیے، ایک قابل شخص کو پراسس کے ذریعے لائیں، پھر اسے تمام تر اختیارات بھی سونپ دیں۔
بورڈ آفیشلز فائلز لے کر ہفتے بھر باس کا انتظار نہ کرتے رہیں بلکہ وہ سی ای او (یا جو بھی نام دیں ) سے ہی منظوری لے لیا کریں، شعبہ انٹرنیشنل کرکٹ، ہائی پرفارمنس اور ڈومیسٹک کرکٹ میں اہلیت کی بنا پر تقرریاں کریں، پرانے لوگ اتنے کام کے نہیں ہیں نقوی صاحب کو خود بھی اندازہ ہو گیا ہوگا، کروڑوں روپے سابق کرکٹرز کو بانٹنے کا کوئی فائدہ نہیں، ایسے لوگوں کو سامنے لائیں جو اپنا بینک بیلنس نہیں بلکہ ملکی ٹیلنٹ پول بڑھانا چاہتے ہیں۔
اگر صرف پیسے بانٹنے سے ملکی کرکٹ ٹھیک ہو جاتی تو اب تک ہم ورلڈ چیمپئن بن چکے ہوتے، چیمپئنز ٹرافی یقینی طور پر بہت اہمیت رکھتی ہے لیکن اس سے پہلے انگلینڈ کیخلاف سیریز بھی ہے اسے کیسے نظر انداز کر دیا گیا؟ چیمپئنز کپ ون ڈے ٹورنامنٹ کی جگہ کیا قومی کرکٹرز کو چند چار روزہ میچز کھلانا زیادہ بہتر نہیں ہوتا، خیر اب جو ہو گیا اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، مستقبل کا سوچنا چاہیے، اگر ہمیں کرکٹ میں پرانا وقت واپس لانا ہے تو بہت سخت اقدامات کرنا ہوں گے، امید ہے محسن نقوی ایسا ہی کریں گے، اور ہاں پی ایس ایل نام کا بھی ایک ٹورنامنٹ ہوتا ہے، کسی دن اس کے حوالے سے بھی ساتھیوں سے اپ ڈیٹ لے لیجیے، اس کے حالات کچھ اچھے نہیں لگ رہے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)