بنگلا دیش کا بھارت سے حسینہ واجد کی حوالگی کا مطالبہ

بنگلا دیش کا بھارت کے ساتھ مجرمان کی حوالگی کا معاہدہ بھی حسینہ واجد کی حکومت میں طے پایا تھا


ویب ڈیسک September 09, 2024
بنگلا دیش کا بھارت کے ساتھ مجرمان کی حوالگی کا معاہدہ بھی حسینہ واجد کی حکومت میں طے پایا تھا

بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے پراسیکیوٹر نے بھارت سے حسینہ واجد کی حوالگی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم پر جنگی جرائم کے تحت مقدمات درج ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق بنگلا دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے چیف پراسیکیوٹر محمد تاج السلام نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ چونکہ مرکزی ملزمہ ملک سے فرار ہو چکی ہیں تو ہم انہیں واپس لانے کے لیے قانونی کارروائی شروع کریں گے۔

انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے چیف پراسیکیوٹر نے کہا کہ حسینہ واجد ملک میں اپوزیشن جماعتوں اور مخالفین کے قتل عام میں ملوث رہی ہیں۔ انھیں قرار واقعی سزا دلوائیں گے۔

خیال رہے کہ بنگلا دیش کا بھارت کے ساتھ مجرمان کی حوالگی کا معاہدہ ہے جس پر 2013 میں دستخط کیے گئے تھے۔ تاہم معاہدے کی ایک شق کے تحت اگر جرم "سیاسی نوعیت" کا ہو تو حوالگی سے انکار کیا جا سکتا ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں : اقوام متحدہ کا فیکٹ فائنڈنگ ٹیم بنگلادیش بھیجنے کا فیصلہ

یہ معاہدہ شیخ حسینہ کی حکومت میں ہی طے پایا تھا۔ اسی طرح انٹرنینشل کرائمز ٹریبونل بھی 2010 میں حسینہ واجد نے ہی 1971 کی جنگ کے دوران ہونے والے مظالم کی تحقیقات کے لیے قائم کیا تھا اور اس کے تحت جماعت اسلامی کے کئی رہنماؤں کو پھانسی دی گئی تھی۔

یاد رہے کہ بنگلا دیش میں طلبا تحریک کے باعث 5 اگست کو حسینہ واجد کے مسلسل 15 سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوگیا تھا۔ اس احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لیے سیکڑوں نوجوانوں کو قتل کیا گیا تھا۔

حسینہ واجد ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرار ہو کر اپنے پرانے اتحادی ملک بھارت چلی گئی تھیں اور تاحال وہیں مقیم ہیں۔

ملک کے نوبل امن انعام یافتہ معیشت دان اور بغاوت کے بعد اقتدار سنبھالنے والے عبوری رہنما محمد یونس نے بھی گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ حسینہ واجد کو بھارت میں جلاوطنی کے دوران خاموش رہنا چاہیے جب تک انہیں مقدمے کے لیے وطن واپس نہ لایا جائے۔

اقوام متحدہ کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی تحقیقاتی ٹیم بھی بنگلادیش میں حسینہ واجد کے جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے جلد ہی ڈھاکا پہنچے گی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں