’حفاظتی ایپس‘ اور جدید ٹیکنالوجی۔۔۔۔
یہ خواتین کے تحفظ کے لیے معاون تو ہیں، لیکن ضامن نہیں
''خیریت سے گھر پہنچ کر میسج یا کال کر دینا۔۔۔!''
''میں نے اپنی 'لائیو لوکیشن' شیئر کر دی ہے، پلیز، ذرا دھیان رکھنا!''
''بے فکر ہو جائیں میں آپ کی ٹیکسی/کیب کو ٹریک کر رہا ہوں!''
اگر آپ ایک خاتون ہیں تو آپ یقیناً ان جملوں اور ان کے مطلب سے واقف ہوں گی۔
جان و مال اور عزت کا تحفظ کسی بھی انسان کا بنیادی حق ہے۔ لیکن خواتین آج بھی اپنے اس بنیادی حق کے لیے جدوجہد کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اپنی جان و مال اور عزت کے تحفظ کے لیے آج بھی ان کو قوانین کی توثیق اور دلائل کی ضرورت ہے۔ کسی زیادتی یا تشدد کی صورت میں خواتین انصاف کے حصول کے لیے آج بھی عدالت اور قانون کے بہ جائے ذرائع اِبلاغ، سماجی ذرائع اِبلاغ (سوشل میڈیا) غیر سرکاری تنظیمیں اور دیگر اداروں کی مرہون منت ہیں۔
ہمارے معاشرے کی عورت نہ بہت سے گھر میں محفوظ ہے اور نہ ہی اسے کام کی جگہ پر اور سڑکوں پر تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ عالمی سطح کی بات کی جائے تو ایک اندازے کے مطابق تقریباً 736 ملین خواتین یعنی اوسطاً تین میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار جسمانی یا جنسی ہراسگی/ تشدد کا ضرور سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عالمی سطح پر خواتین کے خلاف تشدد کی سب سے زیادہ عام شکل گھریلو تشدد ہے تاہم، کچھ معاملات میں یہ مسئلہ باہمی تعلقات سے بڑھ کر دوسری شکل اختیار کرلیتا ہے۔
پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے روک تھام کے لیے مختلف قوانین متعارف کرائے گئے جس میں گھریلو تشدد بل 2009ء، ایسڈ کرائم پریوینشن ایکٹ 2010ء، اور 2010ء کا انسدادِ ہراسانی کا ایکٹ شامل ہیں۔ جو خواتین کو گھریلو زیادتی، تیزاب کے حملوں، کام کی جگہ پر ہراساں کرنے، اور ثقافتی امتیاز سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کو یقینی بناتا ہے۔
خواتین کے خلاف تشدد پاکستان اور پوری دنیا میں انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے۔ نجی اور عوامی مقامات پر ہونے والے تشدد کی متعدد شکلیں ہیں، جن میں گھریلو تشدد سے لے کر جنسی طور پر ہراساں کرنے اسمگلنگ، حملے اور غیرت کے نام پر قتل تک شامل ہیں۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق 16 سے 48 سال کی 22 فی صد خواتین کو جسمانی تشدد، 26 فی صد کو جذباتی یا نفسیاتی تشدد، جب کہ 5 فی صد خواتین کو گھریلو تشدد (شوہر یا قریبی رشتہ داروں کی طرف سے) یا جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
پاکستانی آبادی کی 90 فی صد سے زائد خواتین خود کو مقامی جگہوں پر محفوظ تصور نہیں کرتیں، جب کہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے یا شہر سفر کرنے والی 66 فی صد خواتین کا ماننا ہے کہ ان کو سڑکوں اور دیگر مقامات پر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ ایک ایسی دردناک حقیقت ہے جس کا سامنا خواتین کو ہر روز ہوتا ہے۔ لیکن اس تاریک حقیقت کے درمیان، 'ٹیکنالوجی' امید کی ایک کرن نظر آتی ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں خواتین کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں، وہاں ٹیکنالوجی ایک معاون کردار ادا کر رہی ہے۔
صنفی مساوات اور تحفظ کو فروغ دینے، پاکستانی خواتین کو تشدد سے بچانے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بہت سی سیفٹی ایپس متعارف کرائی گئی ہیں۔ ساتھ ہی 'ڈیجیٹل جیولری' کی شکل میں ٹیکنالوجی خواتین کو ایسی سہولت فراہم کر رہی ہے جو ان کی حفاظت میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں، انہیں بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ بہت سے معاملات میں ان کی جان بھی بچا سکتے ہیں۔
ان سیفٹی ایپس میں لائیو لوکیشن، سفر کے اختیار کیا گیا راستہ اور دیگر اہم معلومات اور ٹریکرز موجود ہوتے ہیں جن کو 'سیفٹی پنز' کہا جاتا ہے۔ یہ خواتین کو محفوظ راستے کا آپشن فراہم کرتے ہیں، مثال کے طور پر اگر آپ کسی خطرناک راستے کا انتخاب کرتے ہیں تو یہ طریقہ یا سیفٹی پنز آپ کی فراہم کردہ رابطوں کی لسٹ کے نمبرز کو فوری طور پر مطلع کرتے ہیں۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ 'ٹیکنالوجی' اور حفاظتی ایپس کے فعال نہ ہونے یا کسی ایسی صورت حال میں کیا ہوگا جب کسی کو فون کے سگنل تک رسائی نہ مل سکے، موبائل نیٹ ورک یا ایپ میں کوئی مسئلہ درپیش ہو؟ یقیناً یہ 'ٹیکنالوجی' خواتین کے خلاف جرائم کا خاتمہ نہیں ہے، بلکہ صرف ایک حفاظتی تدبیر ہے۔ یہ ایک ایسی صنعت بن چکی ہے، جس میں صرف حکومتیں ہی نہیں، بلکہ نجی ادارے بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور خواتین کے لیے حفاظتی ایپس متعارف کرارہے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق خواتین کے تحفظ کے سافٹ ویئر کی مارکیٹ 2031ء تک تین بلین ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ آج ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہاں جرائم کے ہاٹ اسپاٹس کی پیش گوئی اور ان تک رسائی کے لیے الگورتھم اور ڈیٹا اینالٹکس کا استعمال عام ہے۔
مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جینس) پرمبنی سیفٹی اپیس کا استعمال خواتین کے لیے ایک مثبت قدم ضرور ہے، لیکن ڈیٹا اینالیٹکس اور الگورتھم اگر درست طور پر کام نہ کریں یا ان کو نیٹ ورک تک رسائی نہ ہونے کی صورت میں اپڈیٹ نہ کیا جائے، تو یہی ٹیکنالوجی جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
ضروری نہیں کہ خواتین کے لیے ٹیکنالوجی اور اس کے اثرات مثبت ہی ثابت ہوں۔ تھوڑی سی مِس کیلکولیشن یا نیٹ ورک اپڈیٹ میں تاخیر کسی کی جان بھی لے سکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ ہی حفاظتی ایپس کسی قریبی رشتے دار، دوست یا ساتھی کی جانب سے خواتین کے تعاقب اور ان کی جاسوسی کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ ساتھ ہی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی خواتین کی نقل و حرکت کو روکنے کا بہانہ بھی بن سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں، ٹیکنالوجی خواتین کے تحفظ کے لیے معاون ضرور ہے، لیکن ضامن نہیں۔
لہٰذا یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے ہم معاشرے میں ان عوامل کی نشاندہی کریں اور ان کو درست کریں، جن کے باعث خواتین غیر محفوظ ہیں، کیوں ہر دوسرے روزبچیوں اور خواتین سے زیادتی کی خبریں سامنے آتی ہیں؟ کیوں ہمارے معاشرے کی عورت کے تحفظ کو اس کا حق نہیں سمجھا جاتا، بلکہ مرد کی موجودگی کو اس کی حفاظت کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔
یقیناً ٹیکنالوجی خواتین کو مختلف قسم کے جرائم اور تشدد سے تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، لیکن ساتھ ہی ہم کو معاشرتی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ معاشرے کی مثبت ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ خواتین کا تحفظ ان کا استحقاق ہے کسی کا احسان نہیں۔
''میں نے اپنی 'لائیو لوکیشن' شیئر کر دی ہے، پلیز، ذرا دھیان رکھنا!''
''بے فکر ہو جائیں میں آپ کی ٹیکسی/کیب کو ٹریک کر رہا ہوں!''
اگر آپ ایک خاتون ہیں تو آپ یقیناً ان جملوں اور ان کے مطلب سے واقف ہوں گی۔
جان و مال اور عزت کا تحفظ کسی بھی انسان کا بنیادی حق ہے۔ لیکن خواتین آج بھی اپنے اس بنیادی حق کے لیے جدوجہد کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اپنی جان و مال اور عزت کے تحفظ کے لیے آج بھی ان کو قوانین کی توثیق اور دلائل کی ضرورت ہے۔ کسی زیادتی یا تشدد کی صورت میں خواتین انصاف کے حصول کے لیے آج بھی عدالت اور قانون کے بہ جائے ذرائع اِبلاغ، سماجی ذرائع اِبلاغ (سوشل میڈیا) غیر سرکاری تنظیمیں اور دیگر اداروں کی مرہون منت ہیں۔
ہمارے معاشرے کی عورت نہ بہت سے گھر میں محفوظ ہے اور نہ ہی اسے کام کی جگہ پر اور سڑکوں پر تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ عالمی سطح کی بات کی جائے تو ایک اندازے کے مطابق تقریباً 736 ملین خواتین یعنی اوسطاً تین میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار جسمانی یا جنسی ہراسگی/ تشدد کا ضرور سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عالمی سطح پر خواتین کے خلاف تشدد کی سب سے زیادہ عام شکل گھریلو تشدد ہے تاہم، کچھ معاملات میں یہ مسئلہ باہمی تعلقات سے بڑھ کر دوسری شکل اختیار کرلیتا ہے۔
پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے روک تھام کے لیے مختلف قوانین متعارف کرائے گئے جس میں گھریلو تشدد بل 2009ء، ایسڈ کرائم پریوینشن ایکٹ 2010ء، اور 2010ء کا انسدادِ ہراسانی کا ایکٹ شامل ہیں۔ جو خواتین کو گھریلو زیادتی، تیزاب کے حملوں، کام کی جگہ پر ہراساں کرنے، اور ثقافتی امتیاز سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کو یقینی بناتا ہے۔
خواتین کے خلاف تشدد پاکستان اور پوری دنیا میں انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے۔ نجی اور عوامی مقامات پر ہونے والے تشدد کی متعدد شکلیں ہیں، جن میں گھریلو تشدد سے لے کر جنسی طور پر ہراساں کرنے اسمگلنگ، حملے اور غیرت کے نام پر قتل تک شامل ہیں۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق 16 سے 48 سال کی 22 فی صد خواتین کو جسمانی تشدد، 26 فی صد کو جذباتی یا نفسیاتی تشدد، جب کہ 5 فی صد خواتین کو گھریلو تشدد (شوہر یا قریبی رشتہ داروں کی طرف سے) یا جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
پاکستانی آبادی کی 90 فی صد سے زائد خواتین خود کو مقامی جگہوں پر محفوظ تصور نہیں کرتیں، جب کہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے یا شہر سفر کرنے والی 66 فی صد خواتین کا ماننا ہے کہ ان کو سڑکوں اور دیگر مقامات پر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ ایک ایسی دردناک حقیقت ہے جس کا سامنا خواتین کو ہر روز ہوتا ہے۔ لیکن اس تاریک حقیقت کے درمیان، 'ٹیکنالوجی' امید کی ایک کرن نظر آتی ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں خواتین کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں، وہاں ٹیکنالوجی ایک معاون کردار ادا کر رہی ہے۔
صنفی مساوات اور تحفظ کو فروغ دینے، پاکستانی خواتین کو تشدد سے بچانے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بہت سی سیفٹی ایپس متعارف کرائی گئی ہیں۔ ساتھ ہی 'ڈیجیٹل جیولری' کی شکل میں ٹیکنالوجی خواتین کو ایسی سہولت فراہم کر رہی ہے جو ان کی حفاظت میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں، انہیں بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ بہت سے معاملات میں ان کی جان بھی بچا سکتے ہیں۔
ان سیفٹی ایپس میں لائیو لوکیشن، سفر کے اختیار کیا گیا راستہ اور دیگر اہم معلومات اور ٹریکرز موجود ہوتے ہیں جن کو 'سیفٹی پنز' کہا جاتا ہے۔ یہ خواتین کو محفوظ راستے کا آپشن فراہم کرتے ہیں، مثال کے طور پر اگر آپ کسی خطرناک راستے کا انتخاب کرتے ہیں تو یہ طریقہ یا سیفٹی پنز آپ کی فراہم کردہ رابطوں کی لسٹ کے نمبرز کو فوری طور پر مطلع کرتے ہیں۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ 'ٹیکنالوجی' اور حفاظتی ایپس کے فعال نہ ہونے یا کسی ایسی صورت حال میں کیا ہوگا جب کسی کو فون کے سگنل تک رسائی نہ مل سکے، موبائل نیٹ ورک یا ایپ میں کوئی مسئلہ درپیش ہو؟ یقیناً یہ 'ٹیکنالوجی' خواتین کے خلاف جرائم کا خاتمہ نہیں ہے، بلکہ صرف ایک حفاظتی تدبیر ہے۔ یہ ایک ایسی صنعت بن چکی ہے، جس میں صرف حکومتیں ہی نہیں، بلکہ نجی ادارے بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور خواتین کے لیے حفاظتی ایپس متعارف کرارہے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق خواتین کے تحفظ کے سافٹ ویئر کی مارکیٹ 2031ء تک تین بلین ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ آج ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہاں جرائم کے ہاٹ اسپاٹس کی پیش گوئی اور ان تک رسائی کے لیے الگورتھم اور ڈیٹا اینالٹکس کا استعمال عام ہے۔
مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جینس) پرمبنی سیفٹی اپیس کا استعمال خواتین کے لیے ایک مثبت قدم ضرور ہے، لیکن ڈیٹا اینالیٹکس اور الگورتھم اگر درست طور پر کام نہ کریں یا ان کو نیٹ ورک تک رسائی نہ ہونے کی صورت میں اپڈیٹ نہ کیا جائے، تو یہی ٹیکنالوجی جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
ضروری نہیں کہ خواتین کے لیے ٹیکنالوجی اور اس کے اثرات مثبت ہی ثابت ہوں۔ تھوڑی سی مِس کیلکولیشن یا نیٹ ورک اپڈیٹ میں تاخیر کسی کی جان بھی لے سکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ ہی حفاظتی ایپس کسی قریبی رشتے دار، دوست یا ساتھی کی جانب سے خواتین کے تعاقب اور ان کی جاسوسی کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ ساتھ ہی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی خواتین کی نقل و حرکت کو روکنے کا بہانہ بھی بن سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں، ٹیکنالوجی خواتین کے تحفظ کے لیے معاون ضرور ہے، لیکن ضامن نہیں۔
لہٰذا یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے ہم معاشرے میں ان عوامل کی نشاندہی کریں اور ان کو درست کریں، جن کے باعث خواتین غیر محفوظ ہیں، کیوں ہر دوسرے روزبچیوں اور خواتین سے زیادتی کی خبریں سامنے آتی ہیں؟ کیوں ہمارے معاشرے کی عورت کے تحفظ کو اس کا حق نہیں سمجھا جاتا، بلکہ مرد کی موجودگی کو اس کی حفاظت کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔
یقیناً ٹیکنالوجی خواتین کو مختلف قسم کے جرائم اور تشدد سے تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، لیکن ساتھ ہی ہم کو معاشرتی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ معاشرے کی مثبت ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ خواتین کا تحفظ ان کا استحقاق ہے کسی کا احسان نہیں۔