بھارت میں اقلیتوں کی حالت زار
زیادہ وقت نہیں گزرا کہ مَنی پور میں مسیحی خواتین کے ساتھ ر بدسلوکی کی گئی تھی
اگر کوئی یہ سوچتا تھا کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی سوچ اور پالیسی میں تبدیلی آجائے گی تو یہ اس کی خوش فہمی یا خام خیالی ہے۔ بھر تری ہری کا قول ہے کہ:
پھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
مسلم دشمنی مودی کے خون میں شامل ہے۔ بھارت کے 2024 کے گزشتہ لوک سبھا چناؤ کے دوران مودی کا نعرہ تھا'' اب کی بار چار سو پار'' لیکن شاندار فتح ہونے کے بجائے مودی اور بی جے پی کی بُری ہار ہوئی اور وہ اس قابل نہیں رہا کہ اکثریت کی بنا پر حکومت بنا سکے۔ چار و ناچار حکومت بنانے کے لیے بی جے پی کی قیادت کو ہم خیال اتحادی جماعتوں کا سہارا لینا پڑا لیکن اس کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی کی سخت گیر پالیسی میں نرمی نہیں آئی ہے کیونکہ مسلم دشمنی بی جے پی کی فطرت کے خلاف ہے۔چناچہ بھارت میں کئی ریاستوں میں وِدھان سبھا یعنی صوبائی اسمبلی کے الیکشن ہورہے ہیں۔انتخابی مہم کے دوران بی جے پی ہندو توا کارڈ استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے میں مصروف ہے۔
مسلمان ووٹرز کو پریشان اور کنفیوز کیا جا رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بی جے پی کے مقامی کارکن مسلمان ووٹرز کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں ۔ برداشت کی ایک حد ہوتی ہے لیکن اگر کوئی اس حد کو پار کر لے تو کمزور سے کمزور انسان بھی مجبوراً مقابلہ پر اُتر آتا ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد۔
بی جے پی کے کارکن آئے دن کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کرنے سے نہیں چوکتے جس سے مسلم ووٹرزکو کوئی نہ کوئی زد پہنچے۔ ابھی تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ ایک عمر رسیدہ مسلمان بزرگ کلیان سے بذریعہ ٹرین ممبئی جا رہے تھے کہ بی جے پی کے حامیوں نے اُن کو بُری طرح زد وکوب کیا اور مار پیٹ کر ادھ موا کر دیا۔ بیچارے بوڑھے نے بہت منت سماجت کی اور رو رو کر دہائی دی کہ آخر میرا قصور کیا ہے۔ کم سے کم میرے بڑھاپے کا تو خیال کریں۔ میں آپ کے نانا دادا کی عمر کا انسان ہوں، اگر کوئی آپ کے نانا دادا کے ساتھ اِس طرح کی بدسلوکی کرے تو آپ کا دل کیا کہے گا۔ آخر انسانیت بھی کوئی چیز ہے۔
ٹرین میں موجود لوگ اِس واقعے کو بُت بنے دیکھتے رہے۔ کسی کی ہمت و جرات نہیں تھی کہ اُس بوڑھے کی مدد کو آگے بڑھ سکے اور اِس اتیا چار کو روک سکے۔ بی جے پی کی حکومت اور اس کے کارکن مسلمانوں پر کھُلے عام تشدد کرتے ہیں اور اُن کا پُرسانِ حال کوئی نہیں ہے۔ ساری دنیا یہ تماشہ بے حسی سے دیکھ رہی ہے اور کسی کو یہ توفیق نہیں ہے کہ اپنی آواز بلند کرسکے اور اس زیادتی کو رکوا سکے۔
صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی اور اس پارٹی کی حکومت اور دیگر ہندو انتہاپسندی جماعتوں کے لوگ ہے برسر اقتدار آنے کے بعد اپنے ایجنڈے پر بلا روک ٹوک عمل پیرا ہیں۔ بھارت کے مسلمان ان کا سب سے بڑا ٹارگٹ ہیں۔ لگتا ہے کہ وقت ایک نئی کروٹ لینے والا ہے، جس کے آثار نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اب بھارت کی دوسری اقلیتوں کی باری ہے، جس میںدلت، مسیحی اور سِکھ بھی شامل ہوگئے ہیں۔
زیادہ وقت نہیں گزرا کہ مَنی پور میں مسیحی خواتین کے ساتھ ر بدسلوکی کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں وہاں بی جے پی کی حکومت کے خلاف شدید احتجاج ہوا تھا جس کے بعد وہاں احتجاج کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور مودی سرکار بُری طرح بوکھلائی ہوئی ہے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ منی پور کے لوگوں کو اب کوئی طاقت کنٹرول نہیں کرسکتی۔حالات حکومت کی دسترس سے باہر ہوچکے ہیں اور منی پور کے عوام نے ٹھان لی ہے کہ وہ انتقام لے کر رہیں گے۔ منی پور کی انتظامیہ حیران و پریشان ہے کہ صورتحال کو کس طرح کنٹرول کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے۔
صرف منی پور ہی نہیں بلکہ اس سے ملحقہ علاقے بھی حکومت کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ میزورَم کے عوام بھی جو پہلے سے ہی بھارت کی حکومت کے خلاف تحریکِ آزادی چلا رہے تھے، اب اپنے سر سے بھارتی تسلط کا جوا اتار پھینکنے کے لیے پُرعزم ہوگئے ہیں اور وہ دن اب زیادہ دور نہیں ہے کہ جب وہ بھارت کی غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزاد ہوجائیں گے۔
پھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
مسلم دشمنی مودی کے خون میں شامل ہے۔ بھارت کے 2024 کے گزشتہ لوک سبھا چناؤ کے دوران مودی کا نعرہ تھا'' اب کی بار چار سو پار'' لیکن شاندار فتح ہونے کے بجائے مودی اور بی جے پی کی بُری ہار ہوئی اور وہ اس قابل نہیں رہا کہ اکثریت کی بنا پر حکومت بنا سکے۔ چار و ناچار حکومت بنانے کے لیے بی جے پی کی قیادت کو ہم خیال اتحادی جماعتوں کا سہارا لینا پڑا لیکن اس کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی کی سخت گیر پالیسی میں نرمی نہیں آئی ہے کیونکہ مسلم دشمنی بی جے پی کی فطرت کے خلاف ہے۔چناچہ بھارت میں کئی ریاستوں میں وِدھان سبھا یعنی صوبائی اسمبلی کے الیکشن ہورہے ہیں۔انتخابی مہم کے دوران بی جے پی ہندو توا کارڈ استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے میں مصروف ہے۔
مسلمان ووٹرز کو پریشان اور کنفیوز کیا جا رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بی جے پی کے مقامی کارکن مسلمان ووٹرز کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں ۔ برداشت کی ایک حد ہوتی ہے لیکن اگر کوئی اس حد کو پار کر لے تو کمزور سے کمزور انسان بھی مجبوراً مقابلہ پر اُتر آتا ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد۔
بی جے پی کے کارکن آئے دن کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کرنے سے نہیں چوکتے جس سے مسلم ووٹرزکو کوئی نہ کوئی زد پہنچے۔ ابھی تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ ایک عمر رسیدہ مسلمان بزرگ کلیان سے بذریعہ ٹرین ممبئی جا رہے تھے کہ بی جے پی کے حامیوں نے اُن کو بُری طرح زد وکوب کیا اور مار پیٹ کر ادھ موا کر دیا۔ بیچارے بوڑھے نے بہت منت سماجت کی اور رو رو کر دہائی دی کہ آخر میرا قصور کیا ہے۔ کم سے کم میرے بڑھاپے کا تو خیال کریں۔ میں آپ کے نانا دادا کی عمر کا انسان ہوں، اگر کوئی آپ کے نانا دادا کے ساتھ اِس طرح کی بدسلوکی کرے تو آپ کا دل کیا کہے گا۔ آخر انسانیت بھی کوئی چیز ہے۔
ٹرین میں موجود لوگ اِس واقعے کو بُت بنے دیکھتے رہے۔ کسی کی ہمت و جرات نہیں تھی کہ اُس بوڑھے کی مدد کو آگے بڑھ سکے اور اِس اتیا چار کو روک سکے۔ بی جے پی کی حکومت اور اس کے کارکن مسلمانوں پر کھُلے عام تشدد کرتے ہیں اور اُن کا پُرسانِ حال کوئی نہیں ہے۔ ساری دنیا یہ تماشہ بے حسی سے دیکھ رہی ہے اور کسی کو یہ توفیق نہیں ہے کہ اپنی آواز بلند کرسکے اور اس زیادتی کو رکوا سکے۔
صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی اور اس پارٹی کی حکومت اور دیگر ہندو انتہاپسندی جماعتوں کے لوگ ہے برسر اقتدار آنے کے بعد اپنے ایجنڈے پر بلا روک ٹوک عمل پیرا ہیں۔ بھارت کے مسلمان ان کا سب سے بڑا ٹارگٹ ہیں۔ لگتا ہے کہ وقت ایک نئی کروٹ لینے والا ہے، جس کے آثار نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اب بھارت کی دوسری اقلیتوں کی باری ہے، جس میںدلت، مسیحی اور سِکھ بھی شامل ہوگئے ہیں۔
زیادہ وقت نہیں گزرا کہ مَنی پور میں مسیحی خواتین کے ساتھ ر بدسلوکی کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں وہاں بی جے پی کی حکومت کے خلاف شدید احتجاج ہوا تھا جس کے بعد وہاں احتجاج کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور مودی سرکار بُری طرح بوکھلائی ہوئی ہے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ منی پور کے لوگوں کو اب کوئی طاقت کنٹرول نہیں کرسکتی۔حالات حکومت کی دسترس سے باہر ہوچکے ہیں اور منی پور کے عوام نے ٹھان لی ہے کہ وہ انتقام لے کر رہیں گے۔ منی پور کی انتظامیہ حیران و پریشان ہے کہ صورتحال کو کس طرح کنٹرول کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے۔
صرف منی پور ہی نہیں بلکہ اس سے ملحقہ علاقے بھی حکومت کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ میزورَم کے عوام بھی جو پہلے سے ہی بھارت کی حکومت کے خلاف تحریکِ آزادی چلا رہے تھے، اب اپنے سر سے بھارتی تسلط کا جوا اتار پھینکنے کے لیے پُرعزم ہوگئے ہیں اور وہ دن اب زیادہ دور نہیں ہے کہ جب وہ بھارت کی غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزاد ہوجائیں گے۔