حلیفوں کی بے وفائیاں
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی بے وفائی مولانا کو بہت گراں گزری تھی
ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہمیں مستقل نظراندازکر رہی ہے۔ ایسی ہی شکایات جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو بھی ہیں۔ وہ پی ڈی ایم کے سربراہ تھے۔اتحادی حکومت میں جے یو آئی کو پانچ وفاقی وزارتیں اور کے پی کی گورنری ملی ہوئی تھی۔
وہ میاں نواز شریف اور وزیر اعظم شہباز شریف سے پہلے اور اب صدر مملکت آصف زرداری سے حالیہ ملاقاتوں میں کر چکے ہیں۔ پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے حالیہ حکومت سازی سے قبل واقعی مولانا فضل الرحمن کو نظرانداز کیا تھا اور حکومتی بندر بانٹ میں الیکشن سے پہلے یا بعد میں مشورہ تک کرنا گوارا نہیں کیا تھا حالانکہ آٹھ فروری کے بعد انتخابی صورت حال واضح تھی جس میں کے پی میں جے یو آئی کو پی ٹی آئی کے ہاتھوں بری شکست ہوئی تھی ۔ جب کہ بلوچستان میں جے یو آئی کو قومی اور صوبائی اسمبلی میں کچھ کامیابی ملی تھی۔ مولانا فضل الرحمن اور مولانا غفورحیدری بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور جے یو آئی بلوچستان اسمبلی میں پی پی اور (ن) لیگ کے بعد تیسری پوزیشن حاصل کی تھی اور تینوں جماعتوں کی کامیابی میں کوئی بڑا نہیں معمولی فرق تھا اور تینوں جماعتیں پی ڈی ایم حکومت میں شامل تھیں اور پرانی حلیف تھیں۔
پی ڈی ایم حکومت کے وقت ایم کیو ایم کی قومی اسمبلی کی نشستیں کم تھیں اور اسے دو وفاقی وزارتیں ملی ہوئی تھیں جب کہ اب ایم کیو ایم کے پاس 2018 سے ڈبل نشستیں ہیں مگر اسے صرف ایک وزارت دی گئی ہے اور مسلم لیگ (ن) نے اپنے الیکشن میں کامیاب ارکان قومی اسمبلی کو ہی نہیں بلکہ ہارے ہوئے رہنماؤں اور شریف فیملی کے قریبی رہنماؤں کو بھی وزارتیں دے رکھی ہیں اور پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں جان بوجھ کر شامل نہیں ہوئی تھی مگر پی پی کے پاس صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور پنجاب و کے پی کی گورنری ملی ہوئی ہے جو اہم آئینی عہدے ہیں اور وفاقی حکومت میں (ن) لیگ نے اپنے حصے سے ایم کیو ایم کے گورنر سندھ کو برقرار رکھا ہوا ہے اور صرف بلوچستان کی گورنرشپ مسلم لیگ (ن) کو ملی ہے اور بلوچستان کی حکومت پی پی اور (ن) لیگ نے مل کر بنائی تھی جس میں وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی ہیں اور نگراں حکومت میں وزارت داخلہ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ بلوچستان کی حکومت سازی میں جے یو آئی کو تیسری بڑی پارٹی ہونے کے باوجود آصف زرداری اور میاں نواز شریف نے نظرانداز کیا اور مولانا فضل الرحمن کو بالکل بھول گئے تھے اور ان سے مشاورت تک نہیں کی تھی۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی بے وفائی مولانا کو بہت گراں گزری تھی۔ حکومت سازی کے بعد پہلے نواز شریف نے اور بعد میں مولانا کے گھر جا کر انھیں منانے کی کوشش کی تھی جس پر مولانا نے شکوہ کیا تھا کہ آپ کو میں اب یاد آیا ہوں۔ یادآوری میں آپ نے دیر کردی ہے جس پر دونوں شریفوں نے معذرت بھی کی تھی کیونکہ دونوں سے مولانا فضل الرحمن کے شکوے جائز تھے اور آصف زرداری کی طرح نواز شریف اور شہباز شریف نے مولانا اور جے یو آئی سے بے وفائی کی تھی جو پی پی کے مقابلے میں(ن) لیگ کے زیادہ قریب تھے۔
آصف زرداری شاید مولانا سے اس لیے خفا تھے کہ جے یو آئی نے پہلی بار سندھ میں پیپلز پارٹی سے بھرپور ٹکر لی تھی جس میں کوئی کامیابی تو نہیں ملی تھی مگر سندھ میں جے یو آئی کے امیدواروں کو لاکھوں ووٹ ملے تھے۔ پی پی کے سابق اور ناراض رہنماؤں نے پی پی کے خلاف جے یو آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا مگر انھیں کے پی کی طرح کامیاب نہیں ہونے دیا گیا کیونکہ سندھ میں پی پی کو چوتھی بار حکومت دینا مقصود تھا اور پی پی کو بھٹو اور بے نظیر دور میں سندھ میں اتنی بڑی کامیابی نہیں ملی تھی جتنی اب آصف زرداری کی حکمت عملی سے ملی اور بلاول بھٹو نے بھی سندھ سے زیادہ پنجاب میں (ن) لیگ کے خلاف بھرپور انتخابی مہم چلائی تھی اور خود لاہور سے ہارے تھے۔آصف زرداری مولانا سے اتنے ناراض تھے کہ انھوں نے اپنے صدارتی الیکشن میں بھی مولانا سے ووٹ نہیں مانگے مگر اب نہ جانے صدر مملکت کو پانچ ماہ بعد اپنے پرانے حلیف کا خیال کیسے آگیا اور وہ بھی مولانا کے گھر پہنچ گئے جہاں مولانا نے یقینی طور اپنے پرانے حلیف سے بے وفائی کے شکوے کیے مگر حیرت تو یہ تھی کہ انھوں نے ناراضگی ختم کرکے مولانا کو ایک بندوق کا تحفہ پیش کیا جو مولانا نے قبول بھی کیا۔
ملکی سیاست میں حلیفوں سے بے وفائی کوئی نئی بات نہیں بلکہ پی پی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) زیادہ سیاسی بے وفائی کرتی رہی ہے جس میں (ن) لیگ نے جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم سے بے وفائی کی تھی جس پر ایم کیو ایم نے (ن) لیگی حکومت چھوڑی تھی۔ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی بھی متعدد بار حلیف رہی مگر دونوں کی کبھی مستقل نہیں نبھی اور ایم کیو ایم پی پی حکومت چھوڑ گئی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت نے اختر جان مینگل سے کیا گیا معاہدہ پورا نہ کیا تو وہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے ہی پی ٹی آئی کی حمایت سے کنارہ کش ہوگئے تھے پھر (ن) لیگ اور پی پی نے بھی بی این پی مینگل سے بے وفائی کی تو وہ اپوزیشن میں بیٹھی ہوئی ہے۔
1973 میں خود کو مضبوط کر لینے کے بعد وزیر اعظم بھٹو نے اپنی حکومت بنانے کے لیے نیپ اور جے یو آئی سے بے وفائی کی تھی اور ان کی حکومتوں کی جگہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں بنوائی تھیں اور دونوں پارٹیوں کو ناراض کیا تھا اور بعد میں مولانا فضل الرحمن جے یو آئی اور پی پی کو قریب لائے تھے۔ جنرل پرویز کے صدارتی الیکشن میں سرحد میں آئی جے آئی کی حکومت اور جے یو آئی کے وزیر اعلیٰ تھا جہاں مولانا فضل الرحمن نے جماعت اسلامی کو ناراض کر کے حکومت چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔
حلیفوں سے بے وفائی میں عمران خان بھی کم نہیں تھے بلکہ وہ تو حلیفوں کو ناراض بھی کرتے تھے اور بعد میں حلیفوں پر کڑی تنقید اور الزامات بھی لگاتے تھے جس کی واضح مثال ایم کیو ایم ہے اور سیاسی مفاد پرستی میں اتنے گر جاتے ہیں کہ اپنے ماضی کے سخت حریفوں مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی اور چوہدری پرویز الٰہی پر سخت الزامات کے بعد یو ٹرن لے کر اپنا حلیف بنا لیتے ہیں اور اپنے رہنما مولانا کی قدم بوسی کے لیے بھیجنا بھی گوارا کر لیتے ہیں۔
وہ میاں نواز شریف اور وزیر اعظم شہباز شریف سے پہلے اور اب صدر مملکت آصف زرداری سے حالیہ ملاقاتوں میں کر چکے ہیں۔ پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے حالیہ حکومت سازی سے قبل واقعی مولانا فضل الرحمن کو نظرانداز کیا تھا اور حکومتی بندر بانٹ میں الیکشن سے پہلے یا بعد میں مشورہ تک کرنا گوارا نہیں کیا تھا حالانکہ آٹھ فروری کے بعد انتخابی صورت حال واضح تھی جس میں کے پی میں جے یو آئی کو پی ٹی آئی کے ہاتھوں بری شکست ہوئی تھی ۔ جب کہ بلوچستان میں جے یو آئی کو قومی اور صوبائی اسمبلی میں کچھ کامیابی ملی تھی۔ مولانا فضل الرحمن اور مولانا غفورحیدری بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور جے یو آئی بلوچستان اسمبلی میں پی پی اور (ن) لیگ کے بعد تیسری پوزیشن حاصل کی تھی اور تینوں جماعتوں کی کامیابی میں کوئی بڑا نہیں معمولی فرق تھا اور تینوں جماعتیں پی ڈی ایم حکومت میں شامل تھیں اور پرانی حلیف تھیں۔
پی ڈی ایم حکومت کے وقت ایم کیو ایم کی قومی اسمبلی کی نشستیں کم تھیں اور اسے دو وفاقی وزارتیں ملی ہوئی تھیں جب کہ اب ایم کیو ایم کے پاس 2018 سے ڈبل نشستیں ہیں مگر اسے صرف ایک وزارت دی گئی ہے اور مسلم لیگ (ن) نے اپنے الیکشن میں کامیاب ارکان قومی اسمبلی کو ہی نہیں بلکہ ہارے ہوئے رہنماؤں اور شریف فیملی کے قریبی رہنماؤں کو بھی وزارتیں دے رکھی ہیں اور پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں جان بوجھ کر شامل نہیں ہوئی تھی مگر پی پی کے پاس صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور پنجاب و کے پی کی گورنری ملی ہوئی ہے جو اہم آئینی عہدے ہیں اور وفاقی حکومت میں (ن) لیگ نے اپنے حصے سے ایم کیو ایم کے گورنر سندھ کو برقرار رکھا ہوا ہے اور صرف بلوچستان کی گورنرشپ مسلم لیگ (ن) کو ملی ہے اور بلوچستان کی حکومت پی پی اور (ن) لیگ نے مل کر بنائی تھی جس میں وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی ہیں اور نگراں حکومت میں وزارت داخلہ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ بلوچستان کی حکومت سازی میں جے یو آئی کو تیسری بڑی پارٹی ہونے کے باوجود آصف زرداری اور میاں نواز شریف نے نظرانداز کیا اور مولانا فضل الرحمن کو بالکل بھول گئے تھے اور ان سے مشاورت تک نہیں کی تھی۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی بے وفائی مولانا کو بہت گراں گزری تھی۔ حکومت سازی کے بعد پہلے نواز شریف نے اور بعد میں مولانا کے گھر جا کر انھیں منانے کی کوشش کی تھی جس پر مولانا نے شکوہ کیا تھا کہ آپ کو میں اب یاد آیا ہوں۔ یادآوری میں آپ نے دیر کردی ہے جس پر دونوں شریفوں نے معذرت بھی کی تھی کیونکہ دونوں سے مولانا فضل الرحمن کے شکوے جائز تھے اور آصف زرداری کی طرح نواز شریف اور شہباز شریف نے مولانا اور جے یو آئی سے بے وفائی کی تھی جو پی پی کے مقابلے میں(ن) لیگ کے زیادہ قریب تھے۔
آصف زرداری شاید مولانا سے اس لیے خفا تھے کہ جے یو آئی نے پہلی بار سندھ میں پیپلز پارٹی سے بھرپور ٹکر لی تھی جس میں کوئی کامیابی تو نہیں ملی تھی مگر سندھ میں جے یو آئی کے امیدواروں کو لاکھوں ووٹ ملے تھے۔ پی پی کے سابق اور ناراض رہنماؤں نے پی پی کے خلاف جے یو آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا مگر انھیں کے پی کی طرح کامیاب نہیں ہونے دیا گیا کیونکہ سندھ میں پی پی کو چوتھی بار حکومت دینا مقصود تھا اور پی پی کو بھٹو اور بے نظیر دور میں سندھ میں اتنی بڑی کامیابی نہیں ملی تھی جتنی اب آصف زرداری کی حکمت عملی سے ملی اور بلاول بھٹو نے بھی سندھ سے زیادہ پنجاب میں (ن) لیگ کے خلاف بھرپور انتخابی مہم چلائی تھی اور خود لاہور سے ہارے تھے۔آصف زرداری مولانا سے اتنے ناراض تھے کہ انھوں نے اپنے صدارتی الیکشن میں بھی مولانا سے ووٹ نہیں مانگے مگر اب نہ جانے صدر مملکت کو پانچ ماہ بعد اپنے پرانے حلیف کا خیال کیسے آگیا اور وہ بھی مولانا کے گھر پہنچ گئے جہاں مولانا نے یقینی طور اپنے پرانے حلیف سے بے وفائی کے شکوے کیے مگر حیرت تو یہ تھی کہ انھوں نے ناراضگی ختم کرکے مولانا کو ایک بندوق کا تحفہ پیش کیا جو مولانا نے قبول بھی کیا۔
ملکی سیاست میں حلیفوں سے بے وفائی کوئی نئی بات نہیں بلکہ پی پی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) زیادہ سیاسی بے وفائی کرتی رہی ہے جس میں (ن) لیگ نے جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم سے بے وفائی کی تھی جس پر ایم کیو ایم نے (ن) لیگی حکومت چھوڑی تھی۔ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی بھی متعدد بار حلیف رہی مگر دونوں کی کبھی مستقل نہیں نبھی اور ایم کیو ایم پی پی حکومت چھوڑ گئی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت نے اختر جان مینگل سے کیا گیا معاہدہ پورا نہ کیا تو وہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے ہی پی ٹی آئی کی حمایت سے کنارہ کش ہوگئے تھے پھر (ن) لیگ اور پی پی نے بھی بی این پی مینگل سے بے وفائی کی تو وہ اپوزیشن میں بیٹھی ہوئی ہے۔
1973 میں خود کو مضبوط کر لینے کے بعد وزیر اعظم بھٹو نے اپنی حکومت بنانے کے لیے نیپ اور جے یو آئی سے بے وفائی کی تھی اور ان کی حکومتوں کی جگہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں بنوائی تھیں اور دونوں پارٹیوں کو ناراض کیا تھا اور بعد میں مولانا فضل الرحمن جے یو آئی اور پی پی کو قریب لائے تھے۔ جنرل پرویز کے صدارتی الیکشن میں سرحد میں آئی جے آئی کی حکومت اور جے یو آئی کے وزیر اعلیٰ تھا جہاں مولانا فضل الرحمن نے جماعت اسلامی کو ناراض کر کے حکومت چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔
حلیفوں سے بے وفائی میں عمران خان بھی کم نہیں تھے بلکہ وہ تو حلیفوں کو ناراض بھی کرتے تھے اور بعد میں حلیفوں پر کڑی تنقید اور الزامات بھی لگاتے تھے جس کی واضح مثال ایم کیو ایم ہے اور سیاسی مفاد پرستی میں اتنے گر جاتے ہیں کہ اپنے ماضی کے سخت حریفوں مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی اور چوہدری پرویز الٰہی پر سخت الزامات کے بعد یو ٹرن لے کر اپنا حلیف بنا لیتے ہیں اور اپنے رہنما مولانا کی قدم بوسی کے لیے بھیجنا بھی گوارا کر لیتے ہیں۔