قرض منظوری کا اہم وقت IMF نے پاکستان میں نیا نمائندہ لگا دیا
جیو پولیٹکس کا کھیل کھیلا جارہا ہے کہ ملک کو جان بوجھ کر ڈیفالٹ کی طرف دھکیلا جارہا ہے
قرض منظوری کے حوالے سے اہم وقت پر آئی ایم ایف نے ماہر بینیسی کو اس وقت پاکستان میں نیا کنٹری ہیڈ مقرر کردیاہے جب پاکستانی حکومت ستمبر کے آخری ہفتہ میں 7ارب ڈالر کے قرض کی منظوری کو حاصل کرنے کے لیے کوششیں تیز کر رہی ہے۔
اس دوران عالمی مالیاتی ادارے کے مقاصد کے حوالے سے شکوک گہرے ہوتے جار ہے ہیں۔ گزشتہ دو پروگراموں کے دوران آئی ایم ایف کی جانب سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کے متعلق غلط مفروضے قائم کرنے کے اقدام اور ان غلط مفروضوں کو درست کرنے کے لیے پاکستان کو نئے ایکسٹرنل قرضوں پر مجبور کرنے کے اقدام پر نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار سمیت کئی افراد عالمی ادارے کے مقاصد پر سوالات اٹھانے پر مجبور ہوگئے۔
حکومتی عہدیداروں کے مطابق مس ایستھر پیریز کی جگہ مسٹر ماہر بیسینی کی تعیناتی کی گئی ہے۔ بیسینی ایک ترک شہری ہیں ۔ آیا ایستھر پیریز کی مدت کے خاتمے کے بعد مسٹر بیسینی کی تعیناتی کی گئی تو اس حوالے سے آئی ایم ایف کے ترجمان نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ آئی ایم ایف کے پاکستان میں گزشتہ دو کنٹری ہیڈز کا تعلق سپین سے تھا اور وہ سپین میں وزارت خزانہ میں خدمات انجام دے چکے تھے۔
نئے کنٹری ہیڈ مسٹربیسینی ترکی کے سنٹرل بینک میں کام کر چکے اور انہیں میکرو اکنامک پالیسیوں اور ابھرتی ہوئی مارکیٹس پر مرکوز فنانشل سیکٹر میں مہارت حاصل ہے۔ مسٹر بیسینی کو جو بڑا چیلنج درپیش ہوگا وہ یہ ہے کہ بہت زیادہ خواہش کردہ 7ارب ڈالر ایکسٹنڈڈ فنڈ فسیلٹی پروگرام کو سہولت سے نافذ کریں کیونکہ اسے ایگزیٹو بورڈ کی جانب سے منظوری سے قبل ہی خطرات کا سامنا ہے۔
اسٹیٹ بنک گورنر نے کہا تھا کہ ستمبر کے پہلے نصف میں اس قرض کی منظور ی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم ایک سینئر حکومتی افسر نے کہا ہے کہ ہم ستمبر کے چوتھے ہفتے میں آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے اگست میں پاکستان کو اس وقت فہرست سے نکال دیا تھا جب پاکستان 12ارب ڈالر کے کیشن ڈپازٹ کو رول اوور کرانے اور 2ارب ڈالر کا نیا انتظام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔
مسٹر بیسینی کا دوسرا چیلنج پاکستان میں اپنے آفس کو اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان ایک بریج کے طور پر قائم کرنا ہوگا۔ حالیہ سالوں میں آئی ایم ایف کو حکومت، ماہرین اور عوام کی جانب سے بڑے عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان کی اپنی غلطیوں کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی شرائط بھی ملک میں معیشت کی سست روی، پاور سیکٹر کی مسلسل ابتری، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ رہی ہیں۔
آئی ایم ایف کو آخری امید کا قرض دہندہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس نے پاکستان کے لیے منظوری سے قبل دو ارب ڈالر قرض لینے کی شرط عائد کردی ہے۔ اس شرط نے پاکستانی حکومت کو تاریخ کے سب سے مہنگے قرضے لینے پر مجبور کیا۔ آئی ایم ایف کے پاکستان میں کردار اور اس کے پروگراموں کے ڈیزائن کے حوالے سے حکومتی حلقوں میں تشویش بڑھتی جارہی ہے۔ تمام حلقوں کی جانب سے کڑی تنقید کے باوجود آئی ایم ایف نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ FBRکے غیر حقیقی 13ٹریلین روپے کے ٹارگٹ کو قبول کرے۔ FBRپہلے ہی دو ماہ میں 98ارب روپے کے شارٹ فال میں چل رہا ہے۔
سات ستمبر کو نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے انکشاف کیا کہ آئی ایم ایف 2022 میں پاکستان کو ڈیفالٹ کرنا چاہتا تھا۔ اسحاق ڈار نے اپنے ساتھی سیاستدانوں کو خبردار کیا کہ وہ پاکستان کی ایٹمی ریاست کی حیثیت کو متاثر کرنے والے اقدامات سے ہوشیار رہیں۔ گزشتہ سال بھی اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ جیو پولیٹکس کا کھیل کھیلا جارہا ہے کہ ملک کو جان بوجھ کر ڈیفالٹ کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف نے دعویٰ کیا تھا کہ 2023کے مالی سال میں پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 6.5ارب ڈالر رہے گا۔
اس وقت پاکستانی حکومت کا کہنا تھا کہ یہ خسارہ 4ارب ڈالر رہے گا اور اسے اضافی فنانسنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3.3ارب ڈالر رہا اور اسحاق ڈار درست ثابت ہوئے تھے۔ لیکن آئی ایم ایف نے اس وقت پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے والے اپنے سٹاف کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اس وقت بھی آئی ایم ایف پاکستان کو انٹرسیٹ ریٹ کو کم کرنے کی اجازت نہیں دے رہا، حالانکہ آئی ایم ایف کے اپنے بنچ مارک کے تحت یہ ریٹ 14سے 15فیصد کے درمیان ہونا چاہیے۔ ایسی سخت شرائط پاکستان میں آئی ایم ایف کی ساکھ کو متاثر کر رہی ہیں۔
اس دوران عالمی مالیاتی ادارے کے مقاصد کے حوالے سے شکوک گہرے ہوتے جار ہے ہیں۔ گزشتہ دو پروگراموں کے دوران آئی ایم ایف کی جانب سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کے متعلق غلط مفروضے قائم کرنے کے اقدام اور ان غلط مفروضوں کو درست کرنے کے لیے پاکستان کو نئے ایکسٹرنل قرضوں پر مجبور کرنے کے اقدام پر نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار سمیت کئی افراد عالمی ادارے کے مقاصد پر سوالات اٹھانے پر مجبور ہوگئے۔
حکومتی عہدیداروں کے مطابق مس ایستھر پیریز کی جگہ مسٹر ماہر بیسینی کی تعیناتی کی گئی ہے۔ بیسینی ایک ترک شہری ہیں ۔ آیا ایستھر پیریز کی مدت کے خاتمے کے بعد مسٹر بیسینی کی تعیناتی کی گئی تو اس حوالے سے آئی ایم ایف کے ترجمان نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ آئی ایم ایف کے پاکستان میں گزشتہ دو کنٹری ہیڈز کا تعلق سپین سے تھا اور وہ سپین میں وزارت خزانہ میں خدمات انجام دے چکے تھے۔
نئے کنٹری ہیڈ مسٹربیسینی ترکی کے سنٹرل بینک میں کام کر چکے اور انہیں میکرو اکنامک پالیسیوں اور ابھرتی ہوئی مارکیٹس پر مرکوز فنانشل سیکٹر میں مہارت حاصل ہے۔ مسٹر بیسینی کو جو بڑا چیلنج درپیش ہوگا وہ یہ ہے کہ بہت زیادہ خواہش کردہ 7ارب ڈالر ایکسٹنڈڈ فنڈ فسیلٹی پروگرام کو سہولت سے نافذ کریں کیونکہ اسے ایگزیٹو بورڈ کی جانب سے منظوری سے قبل ہی خطرات کا سامنا ہے۔
اسٹیٹ بنک گورنر نے کہا تھا کہ ستمبر کے پہلے نصف میں اس قرض کی منظور ی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم ایک سینئر حکومتی افسر نے کہا ہے کہ ہم ستمبر کے چوتھے ہفتے میں آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے اگست میں پاکستان کو اس وقت فہرست سے نکال دیا تھا جب پاکستان 12ارب ڈالر کے کیشن ڈپازٹ کو رول اوور کرانے اور 2ارب ڈالر کا نیا انتظام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔
مسٹر بیسینی کا دوسرا چیلنج پاکستان میں اپنے آفس کو اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان ایک بریج کے طور پر قائم کرنا ہوگا۔ حالیہ سالوں میں آئی ایم ایف کو حکومت، ماہرین اور عوام کی جانب سے بڑے عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان کی اپنی غلطیوں کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی شرائط بھی ملک میں معیشت کی سست روی، پاور سیکٹر کی مسلسل ابتری، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ رہی ہیں۔
آئی ایم ایف کو آخری امید کا قرض دہندہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس نے پاکستان کے لیے منظوری سے قبل دو ارب ڈالر قرض لینے کی شرط عائد کردی ہے۔ اس شرط نے پاکستانی حکومت کو تاریخ کے سب سے مہنگے قرضے لینے پر مجبور کیا۔ آئی ایم ایف کے پاکستان میں کردار اور اس کے پروگراموں کے ڈیزائن کے حوالے سے حکومتی حلقوں میں تشویش بڑھتی جارہی ہے۔ تمام حلقوں کی جانب سے کڑی تنقید کے باوجود آئی ایم ایف نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ FBRکے غیر حقیقی 13ٹریلین روپے کے ٹارگٹ کو قبول کرے۔ FBRپہلے ہی دو ماہ میں 98ارب روپے کے شارٹ فال میں چل رہا ہے۔
سات ستمبر کو نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے انکشاف کیا کہ آئی ایم ایف 2022 میں پاکستان کو ڈیفالٹ کرنا چاہتا تھا۔ اسحاق ڈار نے اپنے ساتھی سیاستدانوں کو خبردار کیا کہ وہ پاکستان کی ایٹمی ریاست کی حیثیت کو متاثر کرنے والے اقدامات سے ہوشیار رہیں۔ گزشتہ سال بھی اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ جیو پولیٹکس کا کھیل کھیلا جارہا ہے کہ ملک کو جان بوجھ کر ڈیفالٹ کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف نے دعویٰ کیا تھا کہ 2023کے مالی سال میں پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 6.5ارب ڈالر رہے گا۔
اس وقت پاکستانی حکومت کا کہنا تھا کہ یہ خسارہ 4ارب ڈالر رہے گا اور اسے اضافی فنانسنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3.3ارب ڈالر رہا اور اسحاق ڈار درست ثابت ہوئے تھے۔ لیکن آئی ایم ایف نے اس وقت پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے والے اپنے سٹاف کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اس وقت بھی آئی ایم ایف پاکستان کو انٹرسیٹ ریٹ کو کم کرنے کی اجازت نہیں دے رہا، حالانکہ آئی ایم ایف کے اپنے بنچ مارک کے تحت یہ ریٹ 14سے 15فیصد کے درمیان ہونا چاہیے۔ ایسی سخت شرائط پاکستان میں آئی ایم ایف کی ساکھ کو متاثر کر رہی ہیں۔