شعیب شاہین کے جسمانی ریمانڈ کی پراسیکیوٹر کی استدعا پر فیصلہ محفوظ

اے ٹی سی کے فیصلے کے تناظر میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سماعت ملتوی کر دی


ویب ڈیسک September 10, 2024
(فوٹو: فائل)

انسداد دہشت گردی عدالت نے پی ٹی آئی وکیل شعیب شاہین کے جسمانی ریمانڈ کی پراسیکیوٹر کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے وکیل شعیب شاہین کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ صدر ہائیکورٹ بار ریاست علی آزاد نے شعیب شاہین کی جانب سے دلائل دیے۔

شعیب شاہین کے وکیل ریاست علی آزاد نے کہا کہ جلسے کا وقت ختم ہونے کا وقت سات بجے اور وقوعہ ساڑھے چھ بجے لکھا ہے، لکھا ہے شعیب شاہین ڈکیت ہے، صرف ہدایت کی حد تک شعیب شاہین کے حوالے سے یہ لکھا گیا ہے، شعیب شاہین ہمارے سابق صدر ہائیکورٹ بار ہیں اور بڑے باوقار آدمی ہیں، سینیئر وکیل ہیں۔

ریاست علی آزاد نے کہا کہ یہاں کوئی سانس لیتا ہے تو ایف آئی آر ہو جاتی ہے، صرف یہ بتا دیں کیا شعیب شاہین ڈکیتی کر سکتے ہیں، ایک عزت دار شخص ہے آپ اسے دہشت گرد بنا کر پیش کر رہے ہیں، شعیب شاہین اپنے آفس میں مصروف تھے جہاں سے ان کو اغوا کیا گیا۔

پراسیکیوٹر راجا نوید نے کہا کہ شعیب شاہین کی حد تک کوئی ریکوری نہیں، ان کی ہدایت پر یہ سب کیا گیا ہے اس لیے ریمانڈ مانگ رہے ہیں۔ ملزمان سے پولیس کی کٹس برآمد کرنی ہیں، پولیس کا سامان استعمال کرتے ہوئے پولیس پر حملہ کیا گیا، 90 روز کا جسمانی ریمانڈ انسداد دِہشت گردی عدالت ایکٹ کے تحت دیا جاسکتا ہے

پراسیکیوٹر راجا نوید نے 15 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کر دی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کتنے لوگ گرفتار ہوئے ہیں؟ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ 60 سے 70 لوگ گرفتار ہوئے ہیں۔ عدالت نے ہدایت کی کہ جو ملزم باہر گاڑی میں بیٹھے ہیں ان کو پانی پلائیں۔

جج ابو الحسنات نے استفسار کیا کہ یہ وقوعہ اور سنگجانی جلسہ کا فاصلہ کتنا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ 8 سے 10 کلو میٹر ہے۔ جج نے ریمارکس دیے کہ یہی تو میں سمجھنا چاہ رہا ہوں اتنی دور کیا ہوا۔

وکیل صفائی نے استدعا کی کہ شعیب شاہین کو اس کیس میں ڈسچارج کیا جائے۔

جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ امن و امان قائم رکھنے کے لیے انتظامیہ اور کارکنان کی ذمہ داری ہے، شعیب شاہین قابل احترام ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں۔

عدالت نے شعیب شاہین کو کمرہ عدالت میں ہی بٹھانے کی ہدایت کر دی۔

انسدادِ دہشت گردی میں گفتگو کرتے ہوئے شعیب شاہین نے کہا کہ سب کو کہتا ہوں آج پر سکون رہیں، ڈٹ کے کھڑے رہیں آپ سچ کے ساتھ کھڑے ہیں، اللہ نے ہمیں ہمت دی ہے۔

صحافی نے شعیب شاہین سے سوال کیا کہ آپ سے تفتیش میں کیا پوچھا گیا؟ شعیب شاہین نے جواب دیا کہ تفتیش یہ ہوئی ہے کہ موبائل کا پاسورڈ مانگا گیا ہے، میرا جواب تھا میں ڈیجٹیل دہشت گرد نہیں ہوں۔

دوسری جانب، پی ٹی آئی رہنما اور وکیل شعیب شاہین کی بازیابی کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی کو طلب کیا تھا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے شعیب شاہین کے بھائی عمیر بلوچ کی درخواست پر حکم جاری کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور ایس ایچ او کو بھی طلب کیا تھا۔

مختصر عدالتی نوٹس پر آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی عدالت پیش ہوئے۔ آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ شعیب صاحب اس وقت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہیں جہاں شعیب شاہین کو پیش کر کے جسمانی ریمانڈ مانگا گیا ہے، جتنے لوگوں کو بھی اٹھایا گیا وہ باضابطہ گرفتار کیے گئے ہیں، میں اس بات کی خود تحقیق کر لوں گا کہ گرفتاری کس ٹیم نے کی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی اس پٹیشن کو رکھ رہا ہوں، مجھے اے ٹی سی کا آرڈر بتا دیں۔ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔

واضح رہے کہ ایڈووکیٹ شعیب شاہین کو کل پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ گرفتار کیا گیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔