ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو آبادی کا جن تمام وسائل ہڑپ کرجائے گا ایکسپریس فورم
خاندانی منصوبہ بندی آگے بڑھانے کی پلاننگ کرلی، ذکیہ شاہنواز، دیہی علاقوں میں آبادی کی شرح زیادہ ہے، ڈاکٹرمنور صابر
پاکستان جب وجود میں آیا تو اس کی آبادی سوا 3 کروڑ تھی، تاہم آج ہمارا ملک 20 کروڑ کی آبادی کے ساتھ دنیا کا چھٹا بڑا ملک بن چکا ہے، ہر سال 30 لاکھ افراد مزید بڑھ رہے ہیں۔
اگر اس کو روکنے کیلیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے گئے تو آبادی کا جن تمام وسائل ہڑپ کر جائے گا، فوری طور پر نئی مردم شماری کروائی جائے تاکہ اس مسئلے کے حل کے لیے مؤثر پلاننگ کی جا سکے، ان ملے جلے خیالات کا اظہار عالمی یوم آبادی کے موقع پر حکومت سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے ''ایکسپریس فورم'' میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
صوبائی وزیر بہبود آبادی پنجاب ذکیہ شاہنواز نے کہا کہ بدقسمتی سے غیر جمہوری ادوار میں آبادی میں اضافے کو روکنے کا پروگرام ہمیشہ سبوتاژ کیا جاتا رہا، لیکن اب وفاق نے اور پنجاب نے بھی خاطر خواہ فنڈز دیے ہیں اور انشاء اللہ اس دفعہ ہم نے بھرپور طریقے سے خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کو آگے بڑھانے کی پلاننگ کی ہے اور ہمارا ہدف ہے کہ 2020 تک شرح افزائش 1.3فیصد تک لے آئیں، اس دوران محفوظ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں تک تمام افراد کی رسائی کو ممکن بنانا بھی ہمارے مقاصد میں شامل ہے، حکومت دن رات اپنے اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہے، تاہم علما، میڈیا اور سول سوسائٹی کے تعاون کے بغیر کامیابی ناممکن ہے۔
حکومت اس سلسلے میں علما کو اعتماد میں لینے کیلیے اکتوبر میں ایک عالمی کانفرنس بھی منعقد کروا رہی ہے، شعبہ جغرافیہ جامعہ پنجاب کے ڈاکٹر منور صابر نے کہا کہ پاکستان میں ہر سال 30 لاکھ افراد بڑھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے جنگل اور زیرکاشت رقبہ ختم ہو رہا ہے، ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو آبادی کا ''جن'' تمام وسائل کو ہڑپ کر جائے گا، آبادی میں اضافے کی شرح شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں زیادہ ہے، جب بنگلا دیش ہم سے الگ ہوا تو اس کی آبادی ہم سے زیادہ تھی اور آج اس کی آبادی ہم سے ڈیڑھ کروڑ کم ہے، حکومت وسائل کی کمی کا رونا نہ روئے بلکہ اپنی ترجیحات کا تعین کرے۔
خطیب اور امام بادشاہی مسجد لاہور مولانا عبدالخبیر آزاد نے کہا کہ موجودہ حالات میں شہری دنیا کو جن سنگین مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے ایک اہم مسئلہ آبادی میں بڑھتے ہوئے اضافے کو روکنا ہے، عورت فائونڈیشن کی نمائندہ ممتاز مغل نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں 1998 کے بعد سے مردم شماری نہیں ہوئی، جب تک ہمیں یہ نہیں پتہ ہوگا کہ ہماری صحیح آبادی کتنی ہے، ہم مسائل کے حل کیلیے مؤثر پلاننگ نہیں کر سکتے، ہمارے ہاں ماں اور پیدا ہونے والے بچے کی شرح اموات بہت زیادہ ہے۔
اگر اس کو روکنے کیلیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے گئے تو آبادی کا جن تمام وسائل ہڑپ کر جائے گا، فوری طور پر نئی مردم شماری کروائی جائے تاکہ اس مسئلے کے حل کے لیے مؤثر پلاننگ کی جا سکے، ان ملے جلے خیالات کا اظہار عالمی یوم آبادی کے موقع پر حکومت سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے ''ایکسپریس فورم'' میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
صوبائی وزیر بہبود آبادی پنجاب ذکیہ شاہنواز نے کہا کہ بدقسمتی سے غیر جمہوری ادوار میں آبادی میں اضافے کو روکنے کا پروگرام ہمیشہ سبوتاژ کیا جاتا رہا، لیکن اب وفاق نے اور پنجاب نے بھی خاطر خواہ فنڈز دیے ہیں اور انشاء اللہ اس دفعہ ہم نے بھرپور طریقے سے خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کو آگے بڑھانے کی پلاننگ کی ہے اور ہمارا ہدف ہے کہ 2020 تک شرح افزائش 1.3فیصد تک لے آئیں، اس دوران محفوظ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں تک تمام افراد کی رسائی کو ممکن بنانا بھی ہمارے مقاصد میں شامل ہے، حکومت دن رات اپنے اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہے، تاہم علما، میڈیا اور سول سوسائٹی کے تعاون کے بغیر کامیابی ناممکن ہے۔
حکومت اس سلسلے میں علما کو اعتماد میں لینے کیلیے اکتوبر میں ایک عالمی کانفرنس بھی منعقد کروا رہی ہے، شعبہ جغرافیہ جامعہ پنجاب کے ڈاکٹر منور صابر نے کہا کہ پاکستان میں ہر سال 30 لاکھ افراد بڑھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے جنگل اور زیرکاشت رقبہ ختم ہو رہا ہے، ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو آبادی کا ''جن'' تمام وسائل کو ہڑپ کر جائے گا، آبادی میں اضافے کی شرح شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں زیادہ ہے، جب بنگلا دیش ہم سے الگ ہوا تو اس کی آبادی ہم سے زیادہ تھی اور آج اس کی آبادی ہم سے ڈیڑھ کروڑ کم ہے، حکومت وسائل کی کمی کا رونا نہ روئے بلکہ اپنی ترجیحات کا تعین کرے۔
خطیب اور امام بادشاہی مسجد لاہور مولانا عبدالخبیر آزاد نے کہا کہ موجودہ حالات میں شہری دنیا کو جن سنگین مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے ایک اہم مسئلہ آبادی میں بڑھتے ہوئے اضافے کو روکنا ہے، عورت فائونڈیشن کی نمائندہ ممتاز مغل نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں 1998 کے بعد سے مردم شماری نہیں ہوئی، جب تک ہمیں یہ نہیں پتہ ہوگا کہ ہماری صحیح آبادی کتنی ہے، ہم مسائل کے حل کیلیے مؤثر پلاننگ نہیں کر سکتے، ہمارے ہاں ماں اور پیدا ہونے والے بچے کی شرح اموات بہت زیادہ ہے۔