نو مسلم خاتون کیساتھ جنسی زیادتی پر معروف اسکالر طارق رمضان کو 3 سال قید
طارق رمضان آکسفورڈ یونی ورسٹی میں اسلامی علوم کے پروفیسر اور اخوان المسلمین کے بانی حسن البنا کے نواسے بھی ہیں
عدالت نے اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا کے نواسے اور عالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر طارق رمضان کی بریت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 3 سال کی سزا سنا دی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جنیوا کی عدالت نے نومسلم سوئس خاتون کے 16 سال قبل کے ایک ہوٹل میں جنسی زیادتی اور ہراسانی کے الزام پر 62 سالہ اسلامی اسکالر، پروفیسر طارق رمضان کو مجرم قرار دیتے ہوئے بریت کو کالعدم قرار دیدیا۔
عدالت نے اسلامی اسکالر طارق رمضان کو 3 سال قید کی سزا بھی سنائی۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس ایک نچلی عدالت نے شواہد کی کمی اور متضاد شہادتوں کے پیش نظر طارق رمضان کو اس کیس میں بری کر دیا تھا۔
جس کے بعد متاثرہ خاتون نے سوئٹزرلینڈ کی شہری ہونے کی حیثیت سے جنیوا کی ایک عدالت میں بریت کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔
متاثرہ خاتون جو کہ ایک مسلمان ہیں، کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی بلکہ انھیں ایک عرفیت بریجیٹ دی گئی ہے اور یہی ان کی شناخت بن گئی ہے۔
خاتون نے الزام عائد کیا تھا کہ اسلامی تعلیمات کے حصول کے سلسلے میں پروفیسر طارق رمضان سے رابطہ ہوا تھا اور ان کے کہنے پر 2008 میں ایک ہوٹل میں ملنے گئی تھی۔
خاتون کے بقول پروفیسر طارق رمضان نے ہوٹل میں انھیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور ڈراتے دھمکاتے رہے۔ بعد ازاں جنسی طور پر ہراساں کرتے رہے۔
پروفیسر طارق رمضان اپنی سزا کے خلاف وفاقی عدالت میں اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ اخوان المسلمین کے بانی کے پوتے اور پھر اسلامی اسکالر ہونے کے باعث مضان طارق یورپ میں کافی مقبول تھے اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔
علاوہ ازیں وہ یورپ کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور ایشیا بھر میں بھی اسلامی لیکچرز دیتے رہے ہیں جس کے لیے ان کا ان ممالک میں آنا جانا رہتا ہے۔
ٹائم میگزین نے انہیں 2004 میں دنیا کے 100 بااثر لوگوں میں بھی شامل کیا تھا تاہم 2009 میں فرانس میں جنسی تشدد کا ایک واقعہ سامنے کے بعد سے ان مقبولیت کو ٹھیس پہنچی تھی۔
بعد ازاں 2000 تک مزید 4 فرانسیسی خواتین نے طارق رمضان پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا تھا۔ اس کے بعد 2018 میں سوئس خاتون کا کیس سامنے آیا تھا۔
ان سنگین الزامات کے سامنے آنے پر آکسفورڈ یونیورسٹی نے طارق رمضان کو پڑھانے سے روک دیا تھا جہاں وہ شعبہ عصری اسلامی علوم میں 12 سال سے پروفیسر تھے۔
دوسری جانب ان مقدمات پر طارق رمضان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ان خواتین کے ساتھ "ایک بھی ایسا عمل، برتاؤ یا جنسی عمل نہیں کیا جس پر پہلے بات نہ کی گئی ہو"۔
طارق رمضان نے 2018 میں اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے ایک فرانسیسی خاتون کے ساتھ جنسی تعلق رکھا تھا۔
بعد ازاں طارق رمضان نے ڈپریشن سمیت متعدد ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کا کہہ کر ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔
یاد رہے کہ 2020 میں طارق رمضان کو اپنی کتاب کی رونمائی اور ایک ٹی وی پروگرام میں جنسی زیادتی کا الزام لگانے والی پانچوں خواتین کی شناخت ظاہر کردی تھی جس پر فرانسیسی عدالت نے ان کو 10 ہزار یورو جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
طارق رمضان جنسی زیادتی قتل میں دو ماہ قید بھی رہے ہیں۔ انھیں جیل میں اچھے برتاؤ کے باعث ضمانت پر رہا کیا گیا تھا جب کہ اُن پر اپنے افیئرز کو چھپانے کے لیے رقم کے عوض سوشل میڈیا پوسٹیں اور مواد ہٹوانے کا بھی الزام ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جنیوا کی عدالت نے نومسلم سوئس خاتون کے 16 سال قبل کے ایک ہوٹل میں جنسی زیادتی اور ہراسانی کے الزام پر 62 سالہ اسلامی اسکالر، پروفیسر طارق رمضان کو مجرم قرار دیتے ہوئے بریت کو کالعدم قرار دیدیا۔
عدالت نے اسلامی اسکالر طارق رمضان کو 3 سال قید کی سزا بھی سنائی۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس ایک نچلی عدالت نے شواہد کی کمی اور متضاد شہادتوں کے پیش نظر طارق رمضان کو اس کیس میں بری کر دیا تھا۔
جس کے بعد متاثرہ خاتون نے سوئٹزرلینڈ کی شہری ہونے کی حیثیت سے جنیوا کی ایک عدالت میں بریت کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔
متاثرہ خاتون جو کہ ایک مسلمان ہیں، کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی بلکہ انھیں ایک عرفیت بریجیٹ دی گئی ہے اور یہی ان کی شناخت بن گئی ہے۔
خاتون نے الزام عائد کیا تھا کہ اسلامی تعلیمات کے حصول کے سلسلے میں پروفیسر طارق رمضان سے رابطہ ہوا تھا اور ان کے کہنے پر 2008 میں ایک ہوٹل میں ملنے گئی تھی۔
خاتون کے بقول پروفیسر طارق رمضان نے ہوٹل میں انھیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور ڈراتے دھمکاتے رہے۔ بعد ازاں جنسی طور پر ہراساں کرتے رہے۔
پروفیسر طارق رمضان اپنی سزا کے خلاف وفاقی عدالت میں اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ اخوان المسلمین کے بانی کے پوتے اور پھر اسلامی اسکالر ہونے کے باعث مضان طارق یورپ میں کافی مقبول تھے اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔
علاوہ ازیں وہ یورپ کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور ایشیا بھر میں بھی اسلامی لیکچرز دیتے رہے ہیں جس کے لیے ان کا ان ممالک میں آنا جانا رہتا ہے۔
ٹائم میگزین نے انہیں 2004 میں دنیا کے 100 بااثر لوگوں میں بھی شامل کیا تھا تاہم 2009 میں فرانس میں جنسی تشدد کا ایک واقعہ سامنے کے بعد سے ان مقبولیت کو ٹھیس پہنچی تھی۔
بعد ازاں 2000 تک مزید 4 فرانسیسی خواتین نے طارق رمضان پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا تھا۔ اس کے بعد 2018 میں سوئس خاتون کا کیس سامنے آیا تھا۔
ان سنگین الزامات کے سامنے آنے پر آکسفورڈ یونیورسٹی نے طارق رمضان کو پڑھانے سے روک دیا تھا جہاں وہ شعبہ عصری اسلامی علوم میں 12 سال سے پروفیسر تھے۔
دوسری جانب ان مقدمات پر طارق رمضان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ان خواتین کے ساتھ "ایک بھی ایسا عمل، برتاؤ یا جنسی عمل نہیں کیا جس پر پہلے بات نہ کی گئی ہو"۔
طارق رمضان نے 2018 میں اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے ایک فرانسیسی خاتون کے ساتھ جنسی تعلق رکھا تھا۔
بعد ازاں طارق رمضان نے ڈپریشن سمیت متعدد ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کا کہہ کر ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔
یاد رہے کہ 2020 میں طارق رمضان کو اپنی کتاب کی رونمائی اور ایک ٹی وی پروگرام میں جنسی زیادتی کا الزام لگانے والی پانچوں خواتین کی شناخت ظاہر کردی تھی جس پر فرانسیسی عدالت نے ان کو 10 ہزار یورو جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
طارق رمضان جنسی زیادتی قتل میں دو ماہ قید بھی رہے ہیں۔ انھیں جیل میں اچھے برتاؤ کے باعث ضمانت پر رہا کیا گیا تھا جب کہ اُن پر اپنے افیئرز کو چھپانے کے لیے رقم کے عوض سوشل میڈیا پوسٹیں اور مواد ہٹوانے کا بھی الزام ہے۔