احتساب سے انتقام تک
28 سیاستدانوں نے مقدمہ لڑ کر اپنی صفائی پیش کی، جن میں سے 22 مقدمہ ہارگئے
پاکستان کی سیاست میں جمہوریت کو کبھی استحکام نصیب نہ ہو سکا۔ کم و بیش ہر ایک دہائی کے بعد غیر سیاسی قوتوں نے پارلیمانی نظام حکومت پر شب خون مارا اور جمہوریت کی بساط پر آمریت کے پہرے بٹھا دیے گئے۔ فوجی حکمرانوں کو یہ زعم رہا کہ وہی ملک کے نجات دہندہ ہیں۔ جغرافیائی حدود کی حفاظت کے پہلو بہ پہلو امور سلطنت چلانے میں بھی وہ یکتا و یگانہ ہیں۔ ان کا کوئی ثانی نہیں اور جمہوریت کی آبیاری کے دعوے دار سیاستدان بدعنوان، نااہل اور حکمرانی کے معیار پر پورا نہیں اترتے لہٰذا ان کا ہر صورت کڑا احتساب ضروری ہے۔
ملک کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے نزدیک ملک میں جمہوری نظام کی ناکامی کی بنیادی وجہ سیاست دانوں کی نااہلی اور بدعنوانی تھی۔ انھوں نے سیاستدانوں کا کڑا احتساب کرنے کے لیے ایبڈو قانون بنایا۔ یہ الیکٹیو باڈیز ڈس کوالیفکیشن آرڈر کا مخفف ہے اور اسی مختصر نام سے مشہور ہوا۔ سیاست دانوں پر مقدمات چلانے کے لیے ٹریبونل بنائے گئے۔ ایبڈو قانون میں کہا گیا تھا کہ اگر ٹریبونلز میں کسی ملزم پر الزامات ثابت ہو جائیں تو وہ ازخود جنوری 1960 سے 31 دسمبر 1966 تک یعنی آیندہ چھ سال تک کے لیے کسی بھی سیاسی عہدے کے لیے نااہل قرار پائے گا۔ معروف بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب کے بقول ایبڈو قانون کے تحت مشرقی و مغربی پاکستان کے 98 ممتاز سیاستدانوں کے خلاف کارروائی شروع کی گئی جن میں سے 70 رضاکارانہ طور پر نااہلی قبول کر کے سیاست سے تائب ہوگئے۔
28 سیاستدانوں نے مقدمہ لڑ کر اپنی صفائی پیش کی، جن میں سے 22 مقدمہ ہارگئے اور صرف چھ سیاستدان بری ہوئے۔جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو جمہوریت کی بساط لپیٹ کر اپنے آمرانہ اقتدارکا آغاز کیا تو سیاستدانوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے احتساب آرڈیننس نافذ کیا۔ قومی احتساب بیوروکا ادارہ بنایا۔ بدعنوانی و کرپشن میں ملوث سیاستدانوں کو سزائیں دینے کے لیے نیب قوانین بنائے اور سیاستدانوں پر مقدمات قائم کیے۔ قومی سیاست کے دو بڑے خاندانوں، بھٹو خاندان اور شریف خاندان کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات قائم کر کے انھیں سیاسی میدان سے باہرکرنے کا کھیل کھیلا گیا۔
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت میں نیب قوانین میں ترامیم کی گئی تھیں، جن کے طفیل دونوں سیاسی خاندانوں کے بڑے رہنماؤں جن میں صدر آصف زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف اور دیگر سیاسی رہنما شامل ہیں کے خلاف مقدمات کی فائلیں بند کردی گئی تھیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے پی ڈی ایم اتحادی حکومت کی ترامیم کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا تھا۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ان ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ گزشتہ سال وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کے کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس میں وفاق، نیب اور چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بناتے ہوئے نیب ترامیم کے خلاف فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے عمر عطا بندیال کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکومتی اپیل منظور کر کے نیب ترامیم بحال کردیں۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی ثابت نہیں کرسکے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت کے دوران نیب کے قانون میں 27 ترامیم کی گئی تھیں۔ نیب ترمیمی بل کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان ترامیم کو احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ سمجھا جائے گا۔
نیب ترمیمی بل 22 کے تحت نیب 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکے گا۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے میں بینچ کے ایک معزز جج جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں وفاقی حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کی دفعہ 5 کے تحت وفاقی حکومت یہ اپیل دائر کرنے کی مجاز نہیں تھی۔ دوسرے معزز جج جسٹس سید اظہر حسن رضوی نے بھی ایک علیحدہ اضافی نوٹ قلم بند کرتے ہوئے قرار دیا کہ وہ اپیلیں منظور کرنے کی اپنی وجوہات بعد میں تحریر کریں گے۔
عدالتی فیصلے سے بھٹو اور شریف خاندان کے معروف رہنماؤں کے ساتھ ساتھ عمران خان کو بھی مقدمات میں ریلیف ملے گا۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان کے بقول نیب ترامیم پر عدالتی فیصلے کے بعد توشہ خانہ ٹو کیس ختم ہو گیا اور عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس بھی نہیں چل سکے گا۔بانی پی ٹی آئی نے اپنے ردعمل میں نیب ترامیم بحال کرنے کے فیصلے کو زبردست تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے اشرافیہ کے کیس ختم ہوں گے لیکن اس عدالتی فیصلے کے بعد انھوں نے اپنے مقدمات بھی ختم کرنے کے لیے اپیل دائر کردی ہے۔
ہماری سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سیاسی و غیر سیاسی ہر دو حکمرانوں نے احتساب کے نام پر سیاسی انجینئرنگ کا کھیل کھیلا، مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے۔ انھیں ہراساں اور بلیک میل کیا گیا۔ احتساب کے نام پر انتقام کی آبیاری کی گئی۔ سزائیں، جیلیں، پھانسی، جلاوطنی، غداری اور آئین شکنی کی داستانیں رقم کی گئیں، لیکن شفاف و منصفانہ احتساب کا سوال آج بھی جواب طلب ہے۔