قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں ایک تبصرہ
قوموں کی ناکامی کا مسئلہ صرف معیشت یا سیاست کا نہیں بلکہ انسانی اقدار، انصاف اور حقوق کا بھی ہے
ڈیرن ایس موگلو اور جیمز اے رابنسن نے 2012 میں قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟ لکھی۔ ڈیرن ماہر اقتصادیات ہیں اورکئی یونیورسٹیوں سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے سیاسی معیشت پہ بہت کام کیا ہے اور ان کی لکھی کتابیں لوگوں میں بہت مقبول ہیں۔
جیمس ایک منجھے ہوئے ماہر سیاسیات ہیں اور سیاست اور معیشت پہ ان کا بہت کام ہے۔ قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں، ان دونوں لکھاریوں نے مل کر لکھی ہے اورکیا خوب لکھی ہے۔
انسانی تاریخ میں قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں ہمیشہ سے قارئین کی دلچسپی کا مرکز رہی ہیں۔کچھ قومیں اتنی ترقی کرتی ہیں کہ ہر طرف ان کا چرچا ہوتا ہے۔ وہ تہذیب و تمدن کی بنیادیں رکھتی ہیں اور نہ صرف خود بلکہ دنیا کو بھی ترقی کی راہوں پرگامزن کرتی ہیں، جب کہ اس کے برعکس دوسری قومیں تنزلی کا شکار ہوکر تاریخ کے اندھیروں میں گم ہو جاتی ہیں۔
ڈیرن اور جیمز نے اپنی کتاب قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟ میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا عوامل اور وجوہ ہوتے ہیں جوکچھ قومیں تو بہت ترقی کرتی ہیں اورکچھ قومیں ایسے حالات کا شکار ہوتی ہیں کہ ان کی سالمیت کو خطرہ ہوتا ہے۔ اس کتاب میں ہمیں اس سوال کا جواب ملتا ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہ ہیں جو قوموں کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کرتی ہیں۔کتاب کا آغاز ہی اس بنیادی سوال سے ہوتا ہے کہ دنیا میں بعض قومیں خوشحال اور ترقی یافتہ ہیں جب کہ دوسری قومیں غربت، بدحالی اور ظلم و ستم کا شکار کیوں ہیں؟
ڈیرن اور جیمز اس بات کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ معاشی اور سیاسی اداروں کی نوعیت اس بات کا تعین کرتی ہے۔ ان کے نزدیک وہ قومیں کامیاب ہوتی ہیں جہاں شراکتی ادارے ہوں جو عوام کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھیں اور ان کو ان کے حقوق فراہم کرتے ہوں۔ جب کہ وہ قومیں ناکام ہوتی ہیں جن کے ادارے استحصالی ہوں ان کا مقصد صرف اشرافیہ کے مفادات کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے اور جس کی وجہ سے عوام ظلم و زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔
قوموں کی ناکامی کا مسئلہ صرف معیشت یا سیاست کا نہیں بلکہ انسانی اقدار، انصاف اور حقوق کا بھی ہے۔ قوموں کی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ عوام کو ان کا جائز مقام دیا جائے ان کے ساتھ برابری کا سلوک ہو اور یہ کوشش کی جائے کہ معاشرے کے کچلے ہوئے طبقے کو طاقتور بنایا جاسکے۔ قوموں کی ترقی میں سیاسی اور معاشی اداروں کا کردار ان کی ترقی یا تنزلی کا تعین کرتا ہے۔ معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ادارے اپنا کردار درست طریقے سے انجام دیں اور عوام الناس کے مفادات کو یقینی بنایا جائے۔ سیاسی ادارے اپنا کردار کس طرح ادا کر رہے اور کتنے عوام دوست ہیں یہ بہت اہم بات ہے۔جب بھی کسی قوم میں جمہوری اور شراکتی ادارے معاشی اور سیاسی سرگرمیوں میں وسیع پیمانے پر شرکت کی اجازت دیتے ہیں۔ مساوی مواقع فراہم کرتے ہیں، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھا جاتا ہے اور چند افراد کے بجائے اکثریت کے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے تو سماج ترقی کرتا ہے۔
اس کتاب میں مصنفین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ شراکتی ادارے قوموں کی خوشحالی اور کامیابی کے لیے بہت اہم ہیں۔ یہ ادارے استحصالی اداروں کے برعکس ہوتے ہیں، جو طاقت اور دولت کو چند افراد کے ہاتھوں میں سونپ دیتے ہیں، جو قوموں کی ناکامی کا سبب بنتا ہے۔
قوموں کے زوال کا سبب صرف بیرونی طاقتوں کا تسلط نہیں بلکہ اندرونی سماجی ڈھانچے کی خرابی بھی ہے۔ جب استحصالی طبقہ عوام کے حقوق کو غضب کرتا ہے تو وہ قوم اپنی شناخت اور آزادی کھو دیتی ہے۔اگر ہم تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اشرافیہ نے ہمیشہ عوام کا استحصال کیا اور انھیں آگے بڑھنے سے روکا ہے۔ اس کتاب میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ قوموں کی کامیابی یا ناکامی جغرافیائی حالات یا ثقافتی رکاوٹوں کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ اس کتاب کے مصنفین اس بات پہ زور دیتے ہیں کہ اصل مسئلہ اداروں کا ہے، اس سے جغرافیہ کا کوئی تعلق نہیں۔ کتاب میں اس بات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے کہ قدرتی وسائل کی کمی یا جغرافیہ کسی قوم کی ناکامی کی وجہ نہیں بنتی۔
اصل بات یہ ہے کہ اس قوم کے حکمران کس قسم کے ادارے قائم کرتے ہیں اور عوام کے حقوق ان کو حاصل ہیں یا نہیں۔ اگر ادارے عوام کے حقوق کا تحفظ کریں اور ان کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کریں تو قومیں خوشحال ہوتی ہیں، ورنہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جہاں بھی ظلم و ستم کا نظام قائم ہوتا ہے وہاں قومیں زوال کا شکار ہوجاتی ہیں۔ انسان فطرتا آزادی، انصاف اور برابری کی خواہش رکھتا ہے اور جب جب انسان سے یہ حقوق چھینے جاتے ہیں تو بغاوت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ انصاف اور آزادی کی جستجو نہ کبھی رکی ہے نہ رکے گی۔کسی بھی قوم کی ترقی صرف معاشی پیمانوں سے نہیں ناپی جاسکتی بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس سماج میں لوگوں کوکس قدر انصاف، آزادی اور عزت ملتی ہے۔ لوگ جس سماج میں محفوظ ہوں اور انھیں بنیادی حقوق حاصل ہوں اور ان کے لیے آگے بڑھنا دشوار نہ ہو ایسے سماج اور قومیں ترقی کرتی ہیں۔سماج کی کامیابی کا راز اس بات میں ہے کہ انسانوں کو ان کا جائز مقام ملے انھیں غربت، ناانصافی، ظلم و ستم سے آزاد کیا جائے اور انھیں ترقی کے لیے برابر مواقع فراہم کیے جائیں۔
پاکستان بھی اس وقت جس دور سے گزر رہا ہے اس میں استحصالی طبقے نے ملک میں جو نظام رائج کیا ہوا ہے، اس کی بدولت اکثریت کے لیے مواقعے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے عوام پس رہے ہیں اور ترقی سے دور ہیں۔ ہمارے ہاں دولت اور وسائل کو ایک خاص طبقے تک محدود رکھا گیا ہے، اس لیے امیر امیر تر ہو رہا ہے اور غریب غریب تر۔انصاف عوام کی پہنچ سے دور ہے اور اشرافیہ کے لیے قانون ان کا غلام ہے۔ اس کتاب سے یہ سیکھ ملتی ہے کہ اگر قوموں کو ترقی کرنی ہے تو اداروں کو ایسی حکمت عملی بنانی ہوگی جس سے عام آدمی کے لیے خوشحالی اور ترقی کے سفر میں شامل ہونا ممکن ہو اور وہ اپنے آپ کو کٹا ہوا محسوس نہ کرے۔ وہ ترقی کے عمل میں حقیقتا شریک ہو اور اس کے لیے آگے بڑھنے کے راستے موجود ہوں۔
یہاں فیض صاحب کی غزل کے کچھ اشعار مجھے یاد آرہے ہیں
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کے جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
ان دونوں مفکرین نے جن پہلوؤں کی نشاندہی اپنی کتاب میں کی ہے ان پر عمل کر کے ترقی کا سفر طے کیا جا سکتا ہے، اگر اس پر تیسری دنیا کے ممالک کام کریں تو ہم جیسے ملک بھی نہ صرف ترقی کرسکتے ہیں بلکہ اپنے عوام کو ایک بہتر زندگی فراہم کرسکتے ہیں۔
جیمس ایک منجھے ہوئے ماہر سیاسیات ہیں اور سیاست اور معیشت پہ ان کا بہت کام ہے۔ قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں، ان دونوں لکھاریوں نے مل کر لکھی ہے اورکیا خوب لکھی ہے۔
انسانی تاریخ میں قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں ہمیشہ سے قارئین کی دلچسپی کا مرکز رہی ہیں۔کچھ قومیں اتنی ترقی کرتی ہیں کہ ہر طرف ان کا چرچا ہوتا ہے۔ وہ تہذیب و تمدن کی بنیادیں رکھتی ہیں اور نہ صرف خود بلکہ دنیا کو بھی ترقی کی راہوں پرگامزن کرتی ہیں، جب کہ اس کے برعکس دوسری قومیں تنزلی کا شکار ہوکر تاریخ کے اندھیروں میں گم ہو جاتی ہیں۔
ڈیرن اور جیمز نے اپنی کتاب قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟ میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا عوامل اور وجوہ ہوتے ہیں جوکچھ قومیں تو بہت ترقی کرتی ہیں اورکچھ قومیں ایسے حالات کا شکار ہوتی ہیں کہ ان کی سالمیت کو خطرہ ہوتا ہے۔ اس کتاب میں ہمیں اس سوال کا جواب ملتا ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہ ہیں جو قوموں کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کرتی ہیں۔کتاب کا آغاز ہی اس بنیادی سوال سے ہوتا ہے کہ دنیا میں بعض قومیں خوشحال اور ترقی یافتہ ہیں جب کہ دوسری قومیں غربت، بدحالی اور ظلم و ستم کا شکار کیوں ہیں؟
ڈیرن اور جیمز اس بات کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ معاشی اور سیاسی اداروں کی نوعیت اس بات کا تعین کرتی ہے۔ ان کے نزدیک وہ قومیں کامیاب ہوتی ہیں جہاں شراکتی ادارے ہوں جو عوام کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھیں اور ان کو ان کے حقوق فراہم کرتے ہوں۔ جب کہ وہ قومیں ناکام ہوتی ہیں جن کے ادارے استحصالی ہوں ان کا مقصد صرف اشرافیہ کے مفادات کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے اور جس کی وجہ سے عوام ظلم و زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔
قوموں کی ناکامی کا مسئلہ صرف معیشت یا سیاست کا نہیں بلکہ انسانی اقدار، انصاف اور حقوق کا بھی ہے۔ قوموں کی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ عوام کو ان کا جائز مقام دیا جائے ان کے ساتھ برابری کا سلوک ہو اور یہ کوشش کی جائے کہ معاشرے کے کچلے ہوئے طبقے کو طاقتور بنایا جاسکے۔ قوموں کی ترقی میں سیاسی اور معاشی اداروں کا کردار ان کی ترقی یا تنزلی کا تعین کرتا ہے۔ معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ادارے اپنا کردار درست طریقے سے انجام دیں اور عوام الناس کے مفادات کو یقینی بنایا جائے۔ سیاسی ادارے اپنا کردار کس طرح ادا کر رہے اور کتنے عوام دوست ہیں یہ بہت اہم بات ہے۔جب بھی کسی قوم میں جمہوری اور شراکتی ادارے معاشی اور سیاسی سرگرمیوں میں وسیع پیمانے پر شرکت کی اجازت دیتے ہیں۔ مساوی مواقع فراہم کرتے ہیں، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھا جاتا ہے اور چند افراد کے بجائے اکثریت کے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے تو سماج ترقی کرتا ہے۔
اس کتاب میں مصنفین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ شراکتی ادارے قوموں کی خوشحالی اور کامیابی کے لیے بہت اہم ہیں۔ یہ ادارے استحصالی اداروں کے برعکس ہوتے ہیں، جو طاقت اور دولت کو چند افراد کے ہاتھوں میں سونپ دیتے ہیں، جو قوموں کی ناکامی کا سبب بنتا ہے۔
قوموں کے زوال کا سبب صرف بیرونی طاقتوں کا تسلط نہیں بلکہ اندرونی سماجی ڈھانچے کی خرابی بھی ہے۔ جب استحصالی طبقہ عوام کے حقوق کو غضب کرتا ہے تو وہ قوم اپنی شناخت اور آزادی کھو دیتی ہے۔اگر ہم تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اشرافیہ نے ہمیشہ عوام کا استحصال کیا اور انھیں آگے بڑھنے سے روکا ہے۔ اس کتاب میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ قوموں کی کامیابی یا ناکامی جغرافیائی حالات یا ثقافتی رکاوٹوں کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ اس کتاب کے مصنفین اس بات پہ زور دیتے ہیں کہ اصل مسئلہ اداروں کا ہے، اس سے جغرافیہ کا کوئی تعلق نہیں۔ کتاب میں اس بات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے کہ قدرتی وسائل کی کمی یا جغرافیہ کسی قوم کی ناکامی کی وجہ نہیں بنتی۔
اصل بات یہ ہے کہ اس قوم کے حکمران کس قسم کے ادارے قائم کرتے ہیں اور عوام کے حقوق ان کو حاصل ہیں یا نہیں۔ اگر ادارے عوام کے حقوق کا تحفظ کریں اور ان کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کریں تو قومیں خوشحال ہوتی ہیں، ورنہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جہاں بھی ظلم و ستم کا نظام قائم ہوتا ہے وہاں قومیں زوال کا شکار ہوجاتی ہیں۔ انسان فطرتا آزادی، انصاف اور برابری کی خواہش رکھتا ہے اور جب جب انسان سے یہ حقوق چھینے جاتے ہیں تو بغاوت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ انصاف اور آزادی کی جستجو نہ کبھی رکی ہے نہ رکے گی۔کسی بھی قوم کی ترقی صرف معاشی پیمانوں سے نہیں ناپی جاسکتی بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس سماج میں لوگوں کوکس قدر انصاف، آزادی اور عزت ملتی ہے۔ لوگ جس سماج میں محفوظ ہوں اور انھیں بنیادی حقوق حاصل ہوں اور ان کے لیے آگے بڑھنا دشوار نہ ہو ایسے سماج اور قومیں ترقی کرتی ہیں۔سماج کی کامیابی کا راز اس بات میں ہے کہ انسانوں کو ان کا جائز مقام ملے انھیں غربت، ناانصافی، ظلم و ستم سے آزاد کیا جائے اور انھیں ترقی کے لیے برابر مواقع فراہم کیے جائیں۔
پاکستان بھی اس وقت جس دور سے گزر رہا ہے اس میں استحصالی طبقے نے ملک میں جو نظام رائج کیا ہوا ہے، اس کی بدولت اکثریت کے لیے مواقعے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے عوام پس رہے ہیں اور ترقی سے دور ہیں۔ ہمارے ہاں دولت اور وسائل کو ایک خاص طبقے تک محدود رکھا گیا ہے، اس لیے امیر امیر تر ہو رہا ہے اور غریب غریب تر۔انصاف عوام کی پہنچ سے دور ہے اور اشرافیہ کے لیے قانون ان کا غلام ہے۔ اس کتاب سے یہ سیکھ ملتی ہے کہ اگر قوموں کو ترقی کرنی ہے تو اداروں کو ایسی حکمت عملی بنانی ہوگی جس سے عام آدمی کے لیے خوشحالی اور ترقی کے سفر میں شامل ہونا ممکن ہو اور وہ اپنے آپ کو کٹا ہوا محسوس نہ کرے۔ وہ ترقی کے عمل میں حقیقتا شریک ہو اور اس کے لیے آگے بڑھنے کے راستے موجود ہوں۔
یہاں فیض صاحب کی غزل کے کچھ اشعار مجھے یاد آرہے ہیں
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کے جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
ان دونوں مفکرین نے جن پہلوؤں کی نشاندہی اپنی کتاب میں کی ہے ان پر عمل کر کے ترقی کا سفر طے کیا جا سکتا ہے، اگر اس پر تیسری دنیا کے ممالک کام کریں تو ہم جیسے ملک بھی نہ صرف ترقی کرسکتے ہیں بلکہ اپنے عوام کو ایک بہتر زندگی فراہم کرسکتے ہیں۔