بلوچستان …سیاسی قیادت کی ذمے داری

بلوچستان ہمارے لیے ایک اسٹرٹیجک حیثیت رکھتا ہے اور ایسے میں بلوچستان میں زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے

salmanabidpk@gmail.com

بلوچستان کا مسئلہ اصولی طور پر سیاسی نوعیت کا بھی ہے ۔جب ہم کسی مسئلہ کے حل سے پہلے سیاسی محرکات کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں اور وہاں موجود مختلف لوگوں یا فریقین کی بات کو سمجھنے کے بجائے، ان تحفظات کو نظرانداز کرنے کی حکمت عملی سے جڑے رہے تو پھر سیاسی مسائل کا پیدا ہونا یا اس کی شکل کی خرابی کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے۔

بلوچستان کے تناظر میں جس طرح سے مسائل کا حل تلاش کررہے ہیں، اس سے ہمارے مسائل اور زیادہ بگاڑ کا منظر پیش کررہے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ ہم ان معاملات میں سیاسی بانجھ پن کا شکار ہیں ۔ طاقت کی کنجی آخری حل ہوتا ہے اور اس عمل سے قبل پہلے ہم ان مسائل کو سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں بداعتمادی کا پہلو سب فریقین میں موجود ہو تو پہلے جو کام ضروری ہوتا ہے وہ سیاست ،جمہوریت، بات چیت ،مکالمہ اور دو طرفہ بیٹھک کے لیے سازگار ماحول کو پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ اسی بنیاد پر ہم سیاسی حل کی طرف پیش رفت کرتے ہیں اور یہ ہی حکمت عملی نئے سیاسی امکانات کو پیدا کرتی ہے ۔

یہ بات کافی حد تک ٹھیک ہے کہ بلوچستان کے غیر معمولی حالات میں سخت گیر اقدامات یا غیر معمولی اقدامات درکار ہیں اور ان کو بنیاد بنا کر حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کو بھی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے سیکیورٹی اداروں کی حکمت عملی اور انھیں وسائل و اختیارات دینا درست حکمت عملی ہے ۔مگر ہمیں وفاقی اور صوبائی حکومت کی بلوچستان میں حالات کی درستگی کے لیے سیاسی حکمت عملی کا فقدان نظرآتا ہے ۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ سیاستدان اپنے مفادات سے آگے نہیں سوچتے حکومتی سطح پر یہ سوچ اور فکر موجود ہے کہ بلوچستان کے بحران کا حل ہماری نہیں سیکیورٹی اداروں کی ذمے داری ہے ۔

اس پوری حکمت عملی میں ہمیں وفاقی اور صوبائی حکومت سمیت مجموعی طور پر سیاسی قیادت کی ناکامی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ سیاسی قیادت بلوچستان کے حالات کی بہتری میں کوئی بڑا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں یا ان کی اپنی نااہلی کا حصہ زیادہ ہے۔سوال یہ ہے کہ جب ہم نے بلوچستان کے حالات کوقومی فریم ورک کی بنیاد پر نہیں دیکھنا اور وہ لوگ جو سیاسی سطح پر بلوچستان کی سیاسی نمایندگی وفاقی پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں سمیت سینیٹ میں کرتے ہیں، وہ حالات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات نہیں کرتے تو حالات کیسے درست ہوں گے ۔سیاسی قیادتیں سیاست اور جمہوریت کی باتیں تو بہت کرتی ہیں مگر ان کیایجنڈے میں بلوچستان کے حالات کی درستگی کا کوئی سیاسی فریم ورک ، روڈ میپ یا سیاسی حل کو بالادستی حاصل نہیں ۔ بلوچستان کو محض سیکیورٹی تناظر میں ہی دیکھاجارہا ہے اور اسی بنیاد پر حکمت عملیوں کو ترتیب دیا جارہا ہے ۔حالانکہ آج بلوچستان کے حالات کا تقاضہ کرتا ہے کہ پارلیمنٹ کا ایک مشترکہ اجلاس صرف اور صرف بلوچستان کے معاملات سے متعلق ہو اور حکومت ، حزب اختلاف کھل کروہاں کے حالات کاجائزہ لیں۔


خاص طور پر جو لوگ جن کا بلوچستان سے تعلق ہو ان کو زیادہ سنا جائے اور انھیں بھی وفاق کی بات سنی چاہیے اور ان بلوچ اور بلوچستانی سیاسی قیادت کا وجود تسلیم کرنا چاہیے ۔ یہ کہنا کہ سرفراز بگٹی کی کوئی حیثیت نہیں یا بلوچستان اسمبلی میں جو لوگ موجود ہیں، وہ بھی بلوچستان کے نمایندے ہیں ۔ بلوچستان کی قیادت کے نقطہ نظر کو سمجھ کر ایک مضبوط و موثر حکمت عملی یا مستقبل کے روڈ میپ کو ترتیب دے۔اگر حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ سمجھتی ہے کہ بلوچستان کے حالات حساس نوعت کے ہیں اور ان میں بھارت سمیت دیگر ممالک کی مداخلت بھی ہے اور شواہد بھی ہیں تو پھر پارلیمنٹ کا خصوصی ان کیمرہ سیشن بلایا جاسکتا ہے جہاں پر بلوچستان کے حالات کی سنگینی کی تصویر پیش کرکے سب کو اعتماد میں لے سکتے ہیں ۔بلوچستان کے معاملات کے حل میں ہم تمام جماعتوں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دے سکتے ہیں جو مشترکہ تجاویز کی بنیاد پر سیاسی حکمت عملیوں کا ایک مثبت و تعمیری روڈ میپ بھی پیش کرسکتے ہیں ۔ اسی طرح جو لوگ یا جو جماعتیں وفاقی یا صوبائی اسمبلیوں میں موجود نہیں ان باہر بیٹھی قیادت کو بھی اعتماد میں لینا اوران کے نقطہ نظر کو سمجھنا یا ان کی تجاویز کو بھی اہمیت دینا ضروری ہے ۔

اس مشاورت میں بلوچستان کی سول سوسائٹی اور میڈیا ، وکلا تنظیموں اور کاروباری اسٹیک ہولڈرزکو بھی اعتماد میں لیا جاسکتا ہے۔کیونکہ اگر واقعی ہم نے بلوچستان کا مستقل سیاسی حل تلاش کرنا ہے تو وہاں پر موجود سب لوگوں کو اعتماد میںلے کر ہی مربوط پالیسی بنائی جاسکتی ہے ۔اسی طرح ماضی میں ہتھیار اٹھانے والوں کو سرنڈر کرنے پر معافی دینے یا ان کو ریاست کے سامنے سرنڈر کرنے کی پالیسی کو بھی مزید آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ہماری ریاستی وحکومتی حکمت عملی میں اس پالیسی سے گریز کرنا چاہیے کہ جو لوگ سیاسی حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں ان کو مجبور نہ کیا جائے کہ وہ بھی خود کو سیاست ،جمہوریت اور پارلیمانی عمل سے دورکرلیں اور وہیں کھڑے کردیے جائیں جہاں ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے کھڑے ہیں۔

18ویں ترمیم کے بعد جس طرح سے وفاق نے اپنے اختیارات کو صوبوں کو منتقل کیے تھے تو صوبائی حکومتوں کو زیادہ سیاسی تدبر یا سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ بلوچستان ہمارے لیے ایک اسٹرٹیجک حیثیت رکھتا ہے اور ایسے میں بلوچستان میں زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔لیکن جس طرح سے ہم نے بلوچستان میں مصنوعی طریقے یا غیر ذمے داری سے صوبائی معاملات کو چلانے کی کوشش کی ہے۔

اس نے سیاسی حکمت عملی کے راستوں کو محدود کیا ہے ۔بلوچستان میں جو بھی متبادل آوازیں ہیں یا ان کے جو بھی حساس نوعیت کے مسائل ہیں وہ ممکن ہے درست نہ ہوں یا اس میں مبالغہ آرائی ہو مگر یہ سب معاملات بات چیت، مفاہمت اور ایک دوسرے کے معاملات کو سمجھ کر آگے بڑھنے سے ہے۔صوبائی حکومتوں کا مضبوط نہ ہونا، حکمرانی یا گورننس کا بحران ، غیر سیاسی حکمت عملیوں کا فقدان ، سیاست اور سیاسی عمل کو اپنی طاقت بنانے کے بجائے کسی اور پر انحصار کرنے کی پالیسی ، لوگوں کے بنیادی حقوق کو نظر انداز کرنا ، سیاسی اور سماجی یا قانونی حقوق کی قبولیت کو تسلیم نہ کرنا صوبائی حکومتوں کی ناکامی کے زمرے میں آتا ہے ۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حالات خراب ہوں تو داخلی اور خارجی قوتوں کو فائدہ یا موقع دیتا ہے کہ وہ ہمارے حالات سے فائدہ اٹھا کر ہمیں عدم استحکام سے دوچار کریں، سیاسی سطح پر جو بھی مسائل ہیں ان کا حل سیاسی فریم ورک میں ہی تلاش کیا جانا چاہیے۔
Load Next Story