عفو و درگزر
پچھلی تین چار دہائیوں سے سیاست دو سیاسی جماعتوں کے گرد گھومتی رہی یعنی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی
ہمارے معاشرے میں من جملہ اور ہمارے سیاسی رہنماؤں میں بالخصوص عدم برداشت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ کوئی بھی فریق معافی تلافی اور درگزر کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔ معاشرے میں عدم برداشت کا یہ عالم ہو چکا ہے کہ ہر شخص چڑ چڑے پن کا شکار ہے اور وہ صرف وہی بات پسند کرتا ہے جو اس کے مطلب کی ہو ۔ جیسے قوم کے رہنماؤں کا مزاج ہو، ویسے ہی مزاج میں قوم بھی ڈھل جاتی ہے اور اس کا مشاہدہ ہم آئے روز کر ر ہے ہیں۔
قوموں کی گروہی یا فروعی تقسیم ملکی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کرتی ہے۔ ملک کی سلامتی کی خاطر اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات کی قربانی ہی اصل وہ جذبہ ہے جس کی ملک کو اس وقت ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس کا خاطر خواہ فقدان پایا جارہا ہے اورملک کا مفاد پس پشت ڈال کر اپنے اپنے مفادات کی نہ ختم ہونے والی جنگ جاری ہے جس کا اختتام نظر نہیں آتا۔ ملک کے غیر یقینی حالات میں ایک نہ ختم ہونے والی بے چینی کا عنصر روز بروز پروان چڑھ رہا ہے اور سب ایک دوسرے سے پوچھتے سنائی دیتے ہیں کہ ملک کا کیا ہو گا؟ کیا ہمارے حالات کبھی بدلیں گے؟ایسے ہی سوالات کا ایک انبار ہے جو ہر ذہن میں کلبلا رہا ہے اوربے چینی پیدا کیے ہوئے ہے اوراسی بے چینی نے قوم کے مزاج کو برہم کر رکھا ہے۔ اس بے چینی کا علاج کسی روایتی ڈاکٹر یا حکیم تو پاس تو نہیں ہے لیکن اس بے چینی کا اگر کوئی علاج ہے تو وہ ہمارے ان مسیحاؤں کے پاس ضرور ہے جو اس ملک کے سیاسی اور غیر سیاسی اسٹیک ہولڈرز ہیں ۔
ہماری سیاسی قیادت ہمیشہ دو حصوں میں تقسیم رہی ہے اور انھوں نے قوم کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیے رکھا ۔ایک مکتبہ فکر کے سیاستدان عوام دوست کہلائے جاتے رہے تو دوسرے مکتبہ فکر کے لوگ رجعت پسند کہے جاتے رہے۔ یہی دو مکتبہ فکر ہمارے جمہوری نظام میں شروع سے موجود ہیں البتہ کچھ سیاسی پارٹیاں ایسی بھی تھیں اور ہیںجنھوں نے اپنے آپ کو صوبوں تک ہی محدود رکھا اور صوبائی سیاست کا ہی دم بھرتی رہیں اور قومی سیاست میں ان کاکردار یا تو ایک ناراض فریق کا رہا یا پھر وہ کسی بڑی پارٹی کے طفیل قومی حکومتوں میں شراکت دار بن جاتی رہیں۔کچھ سیاسی علماء اور اسلامی اسکالرز نے اپنی جماعتیں قائم کرلیں۔
پچھلی تین چار دہائیوں سے سیاست دو سیاسی جماعتوں کے گرد گھومتی رہی یعنی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی۔البتہ اس عرصے میں نوبرس جنرل پرویز مشرف کی آمریت میںگزرے۔پانچ برس جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ محمد خان جونیجو نے مسلم لیگ پگارا گروپ کے پلیٹ فارم سے حکومت کی۔چار برس تک تحریک انصاف کی حکومت قائم رہی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مخالفین نے تحریک انصاف قائم کرکے تیسری قوت کا نعرہ لگایا۔ دراصل دونوں پارٹیوں کے سیاسی رہنماؤں کی قوم سے بے وفائی یا بے اعتنائی نے یہ سوچ پیدا کی کہ کوئی ایک ایسا رہنماء اورسیاسی پارٹی تو ہو جو اس سیاسی جمود کو توڑے اور عوام کا مسیحا بن کر سامنے آئے۔
اس سیاسی خلاء کو بانی پی ٹی آئی ایک طویل سیاسی جدو جہد کے بعد توڑنے میں کامیاب ہوئے لیکن چونکہ وہ حکمرانی کے داؤ پیچ اور اس کے تقاضوں سے نابلد تھے اس لیے جلد ہی رخصت کر دیے گئے البتہ انھوں نے اپنی طویل سیاسی جد جہد میں قوم کے جس طبقے کو مخاطب کیا اس میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی تھی جو کرکٹ میںان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مداح تھے یا پھر ان کا مخاطب ملک کا وہ طبقہ تھا جو سیاست میں دلچسپی تو رکھتا تھا لیکن سیاسی رہنماؤں کی موشگافیوں کی بدولت کبھی سیاسی میدان میں سرگرم نہیں رہا تھا۔
یہی دو طبقات ان کی جانب متوجہ ہوئے اورانھوں نے تحریک انصاف کی سیاست کو جلا بخشی اور انھیں اقتدار کی مسند تک پہنچنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ بات عدم برداشت سے شروع کی تھی اور کہیں اور نکل گئی لیکن جیسا کہ عرض کیا ہے کہ پاکستانی قوم کی عدم برداشت کا اصل موجب یہی وہ سیاسی رہنماء یا طبقہ اشرافیہ ہے جو قوم پر مسلط چلا آرہا ہے اور قوم کو ان کے چنگل سے نکلنے کی کوئی تدبیر سمجھ نہیں آرہی علاوہ اس عمل کے قوم کی ایک بڑی تعداد نے انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے اپنی واضح رائے کا اظہار کیا لیکن مظلوم اور بے بس قوم کی رائے کو اہمیت نہیں دی گئی اور آج ملک جس سیاسی اور معاشی ابتری کا شکار ہے۔
ہمارے سپہ سالار اور وزیر اعظم نے یوم دفاع کے دفاع پر بجا طور پر قومی اتفاق رائے کی اہمیت کو اجاگر کیا اور ملکی سلامتی پر اپنے مصمم ارادوں کااظہار کرتے ہوئے ہم وطنوںکو معاشرتی و سماجی معاملات میں اخوت ، برداشت اور بردباری کا مظاہرہ کرنے اور سیاسی نقطہ نظر میں اختلاف کو نفرتوں میں نہ ڈھلنے کی تلقین کی ہے۔ یہ درحقیقت ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے اور اسی میں ہماری بقاء ہے۔
ہماری سات دہائیوں پر مشتمل تاریخ ہمیں یہ سبق بھی دے رہی ہے کہ ہم آج بھی گروہی اختلافات کا شکار ہیں جن کی وجہ سے ملک کو معاشی بحران اور سیاسی انتشار جیسی صورتحال کا سامنا ہے ۔
اگر ابھی بھی ہم نے آنکھیں نہ کھولیں اور اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ نہ کیا تو ملک جو معاشی بحران کے ساتھ ساتھ دوبارہ دہشت گردی کا شکار بنتا جارہا ہے، خدانخواستہ ہم کسی ایسے بحران میں نہ گھیر لیے جائیں جن سے نکلنا ہمارے لیے ناممکن ہو جائے اور ملک کی اساس کو زد پہنچ جائے۔ قومی اتفاق رائے کے لیے ہمارے بڑوں کو پہل کرنی ہو گی اور بات چیت کے ذریعے افہام و تفہیم کا راستہ نکالنا ہوگا ۔ تمام فریقین ذاتی لڑائیوں سے نکل کر ملک کے مسائل کاحل نکالیں ۔اسی میں سب کی بقاء پوشیدہ ہے ۔ قوم پاکستان سے جنون کی حد تک محبت کرتی ہے، اس محبت میں بڑھوتری کے لیے آگے بڑھیں۔
قوموں کی گروہی یا فروعی تقسیم ملکی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کرتی ہے۔ ملک کی سلامتی کی خاطر اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات کی قربانی ہی اصل وہ جذبہ ہے جس کی ملک کو اس وقت ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس کا خاطر خواہ فقدان پایا جارہا ہے اورملک کا مفاد پس پشت ڈال کر اپنے اپنے مفادات کی نہ ختم ہونے والی جنگ جاری ہے جس کا اختتام نظر نہیں آتا۔ ملک کے غیر یقینی حالات میں ایک نہ ختم ہونے والی بے چینی کا عنصر روز بروز پروان چڑھ رہا ہے اور سب ایک دوسرے سے پوچھتے سنائی دیتے ہیں کہ ملک کا کیا ہو گا؟ کیا ہمارے حالات کبھی بدلیں گے؟ایسے ہی سوالات کا ایک انبار ہے جو ہر ذہن میں کلبلا رہا ہے اوربے چینی پیدا کیے ہوئے ہے اوراسی بے چینی نے قوم کے مزاج کو برہم کر رکھا ہے۔ اس بے چینی کا علاج کسی روایتی ڈاکٹر یا حکیم تو پاس تو نہیں ہے لیکن اس بے چینی کا اگر کوئی علاج ہے تو وہ ہمارے ان مسیحاؤں کے پاس ضرور ہے جو اس ملک کے سیاسی اور غیر سیاسی اسٹیک ہولڈرز ہیں ۔
ہماری سیاسی قیادت ہمیشہ دو حصوں میں تقسیم رہی ہے اور انھوں نے قوم کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیے رکھا ۔ایک مکتبہ فکر کے سیاستدان عوام دوست کہلائے جاتے رہے تو دوسرے مکتبہ فکر کے لوگ رجعت پسند کہے جاتے رہے۔ یہی دو مکتبہ فکر ہمارے جمہوری نظام میں شروع سے موجود ہیں البتہ کچھ سیاسی پارٹیاں ایسی بھی تھیں اور ہیںجنھوں نے اپنے آپ کو صوبوں تک ہی محدود رکھا اور صوبائی سیاست کا ہی دم بھرتی رہیں اور قومی سیاست میں ان کاکردار یا تو ایک ناراض فریق کا رہا یا پھر وہ کسی بڑی پارٹی کے طفیل قومی حکومتوں میں شراکت دار بن جاتی رہیں۔کچھ سیاسی علماء اور اسلامی اسکالرز نے اپنی جماعتیں قائم کرلیں۔
پچھلی تین چار دہائیوں سے سیاست دو سیاسی جماعتوں کے گرد گھومتی رہی یعنی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی۔البتہ اس عرصے میں نوبرس جنرل پرویز مشرف کی آمریت میںگزرے۔پانچ برس جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ محمد خان جونیجو نے مسلم لیگ پگارا گروپ کے پلیٹ فارم سے حکومت کی۔چار برس تک تحریک انصاف کی حکومت قائم رہی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مخالفین نے تحریک انصاف قائم کرکے تیسری قوت کا نعرہ لگایا۔ دراصل دونوں پارٹیوں کے سیاسی رہنماؤں کی قوم سے بے وفائی یا بے اعتنائی نے یہ سوچ پیدا کی کہ کوئی ایک ایسا رہنماء اورسیاسی پارٹی تو ہو جو اس سیاسی جمود کو توڑے اور عوام کا مسیحا بن کر سامنے آئے۔
اس سیاسی خلاء کو بانی پی ٹی آئی ایک طویل سیاسی جدو جہد کے بعد توڑنے میں کامیاب ہوئے لیکن چونکہ وہ حکمرانی کے داؤ پیچ اور اس کے تقاضوں سے نابلد تھے اس لیے جلد ہی رخصت کر دیے گئے البتہ انھوں نے اپنی طویل سیاسی جد جہد میں قوم کے جس طبقے کو مخاطب کیا اس میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی تھی جو کرکٹ میںان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مداح تھے یا پھر ان کا مخاطب ملک کا وہ طبقہ تھا جو سیاست میں دلچسپی تو رکھتا تھا لیکن سیاسی رہنماؤں کی موشگافیوں کی بدولت کبھی سیاسی میدان میں سرگرم نہیں رہا تھا۔
یہی دو طبقات ان کی جانب متوجہ ہوئے اورانھوں نے تحریک انصاف کی سیاست کو جلا بخشی اور انھیں اقتدار کی مسند تک پہنچنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ بات عدم برداشت سے شروع کی تھی اور کہیں اور نکل گئی لیکن جیسا کہ عرض کیا ہے کہ پاکستانی قوم کی عدم برداشت کا اصل موجب یہی وہ سیاسی رہنماء یا طبقہ اشرافیہ ہے جو قوم پر مسلط چلا آرہا ہے اور قوم کو ان کے چنگل سے نکلنے کی کوئی تدبیر سمجھ نہیں آرہی علاوہ اس عمل کے قوم کی ایک بڑی تعداد نے انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے اپنی واضح رائے کا اظہار کیا لیکن مظلوم اور بے بس قوم کی رائے کو اہمیت نہیں دی گئی اور آج ملک جس سیاسی اور معاشی ابتری کا شکار ہے۔
ہمارے سپہ سالار اور وزیر اعظم نے یوم دفاع کے دفاع پر بجا طور پر قومی اتفاق رائے کی اہمیت کو اجاگر کیا اور ملکی سلامتی پر اپنے مصمم ارادوں کااظہار کرتے ہوئے ہم وطنوںکو معاشرتی و سماجی معاملات میں اخوت ، برداشت اور بردباری کا مظاہرہ کرنے اور سیاسی نقطہ نظر میں اختلاف کو نفرتوں میں نہ ڈھلنے کی تلقین کی ہے۔ یہ درحقیقت ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے اور اسی میں ہماری بقاء ہے۔
ہماری سات دہائیوں پر مشتمل تاریخ ہمیں یہ سبق بھی دے رہی ہے کہ ہم آج بھی گروہی اختلافات کا شکار ہیں جن کی وجہ سے ملک کو معاشی بحران اور سیاسی انتشار جیسی صورتحال کا سامنا ہے ۔
اگر ابھی بھی ہم نے آنکھیں نہ کھولیں اور اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ نہ کیا تو ملک جو معاشی بحران کے ساتھ ساتھ دوبارہ دہشت گردی کا شکار بنتا جارہا ہے، خدانخواستہ ہم کسی ایسے بحران میں نہ گھیر لیے جائیں جن سے نکلنا ہمارے لیے ناممکن ہو جائے اور ملک کی اساس کو زد پہنچ جائے۔ قومی اتفاق رائے کے لیے ہمارے بڑوں کو پہل کرنی ہو گی اور بات چیت کے ذریعے افہام و تفہیم کا راستہ نکالنا ہوگا ۔ تمام فریقین ذاتی لڑائیوں سے نکل کر ملک کے مسائل کاحل نکالیں ۔اسی میں سب کی بقاء پوشیدہ ہے ۔ قوم پاکستان سے جنون کی حد تک محبت کرتی ہے، اس محبت میں بڑھوتری کے لیے آگے بڑھیں۔