آج 11 ستمبر بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمدعلی جناح کے یوم وفات کے موقع پر بابائے قوم سے متعلق بعض تاریخی معلومات کے تبادلے کی غرض سے زیرنظر مضمون قارئین کے استفادے کےلیے پیش کر رہا ہوں۔ ان میں بعض وہ واقعات ہیں جن کو تاحال تاریخ دانوں نے بیان نہیں کیا، لیکن تاریخ پاکستان کے تناظر میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔
1960 میں جب وطن عزیز میں آمریت باقاعدہ اپنے قدم جما رہی تھی کہ ملک میں ثانوی سطح کے نصاب سے تاریخ کا مضمون خارج کر دیا گیا۔ برصغیر کی تاریخ کا مضمون پورے ملک کی طرح صوبہ پنجاب میں بھی میٹرک تک نصاب کا حصہ تھا۔ درحقیقت تاریخ کے مطالعے ہی سے ماضی کا مشاہدہ ممکن ہے اور اس مشاہدے کے نتیجہ میں قومیں اپنی آ نے والی نسلوں کے حال اور مستقبل تعمیر کرتی ہیں۔ آمریت کا وتیرہ ر ہا ہے کہ ان ادوار میں کاروبار مملکت کے سلسلے میں فردواحد کا ہی پرچار کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی1958 سے 1969 اور اس کے بعد دسمبر 1971 تک آمروں ہی کے گن گائے گئے۔ اس روش کو عام کیا گیا کہ درحقیقت فرد واحد ہی حکومتی امور سرانجام دیتا ہے۔ اگر وہ کسی وجہ سے ریاستی امور سے علیحدہ ہو جائے تو پورا حکومتی سیٹ اپ یکسر بیٹھ جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ1971 میں سقوط ڈھاکا کے بعد پاکستان میں جو حکومت برسر اقتدار آئی اس کے سربراہ کی نشوونما بھی آمرانہ دور میں ہوئی۔
1977میں ملک تیسری آمریت سے دوچار ہوا، اس عرصے میں بھی فرد واحد ہی سیاست کا محور و مرکز رہا۔ یہی سلسلہ1999 سے007 2 چوتھی فوجی آمریت میں جاری رہا۔ حالات و واقعات کے مطالعے ومشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان ادوار میں تمام ریاستی امور کے لیے سربراہ مملکت کے وژن کا ہی راگ الاپا جاتا رہا۔ ان آمریتوں میں وزرا، مشیران و حکومتی سیاسی رفقا بھی یہی کہتے نظر آئے کہ وہ جو بھی کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں اس کا محورو منبع سربراہ حکومت اور اس کا وژن ہے۔
اس کے برخلاف قائداعظم محمد علی جناح اور وزیراعظم کے کسی ہم رکاب نے کبھی اپنے سربراہ کے وژن کے گیت گانا شعار نہیں بنایا بلکہ وہ خود ذمے داریاں اپنی صلاحیت کے مطابق ادا کرتے دکھائی دیتے تھے۔
ملک میں فردواحد کی قیادت کا ایسا پروپیگنڈا کیا گیا، جس کے نتیجے میں آج تک ہمارے سیاسی راہ نما اسی طرح کے بیانات دینے میں مشغول ہیں۔ ایک فرد کی تنہا حاکمیت کو ہی کام یابیوں کا ضامن گردانتے ہوئے اس رواج کو تسلسل کے ساتھ راسخ کیا گیا کہ تعلیم یافتہ، ذمہ دار افراد بھی یہ کہتے ملتے ہیں کہ قائداعظم کے بعد پاکستان میں کوئی سیاسی شخصیت موجود نہ تھی جو ان کی وراثت کو جاری رکھتی۔
قائداعظم نے قیام پاکستان کے بعد بارہا اپنی تقاریر وبیانات میں اس پختہ یقین کا اظہار کیا کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر قائم رہنے کے لیے وجود میں آیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ و ہ آگاہ تھے کہ ان کے ترکش میں ایسے تیر موجود ہیں جو قیام وطن کے اہداف کے حصول کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن قائد کی تربیت یافتہ شخصیات کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
بقول سردارعبدالرب نشتر ان سے کارواں منزل پہ رکوائے نہیں جاتے اور بقول محسن بھوپالی منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے اگر قائد اعظم اپنے بعد سیاسی قیادت کو یقینی خیال نہ کرتے تو وہ برصغیر میں مسلمانوں کے علیحدہ قومی وطن کی صبرآزماودشوار گزار جدوجہد کرتے ہی کیوں؟
ظاہر ہے کہ بانی پاکستان کی قیادت میں ان کے رفقاء پر مشتمل ایک ایسی باصلاحیت، زیرک، نڈر اور دوراندیش ٹیم تیار ہوگئی تھی جو قائد کی وراثت اور حصول وطن کے مقاصد کو منزل آشنا کرسکتی تھی۔ بدقسمتی سے ملک میں غیرسیاسی عناصر عملاً اقتدار پر قابض ہوگئے اور انہوں نے یکے بعد دیگرے قائداعظم کی ٹیم کو یا تو صفحہ ہستی سے مٹا دیا یا اقتدار سے محروم کر دیا۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ1946 میں قائداعظم کے معالج ڈاکٹرپٹیل نے قائد کو بتادیا تھا کہ آپ کی بیماری اس مرحلے پر آپہنچی ہے کہ اب زندگی کے محض دو ڈھائی سال باقی رہ گئے ہیں۔ ان کی گرتی ہوئی صحت اور مسلسل علالت کی وجہ سے بعض عناصر نے اپنے آپ کو ازخود قائد کا جانشین تصور کرنا شروع کردیا تھا، جن میں وفاقی کابینہ کے رکن وزیرخزانہ غلام محمد پیش پیش تھے۔
مستند تحقیق کے مطابق وزیرخزانہ ملک غلام محمد نے اگست 1948 میں وزیراعظم کو قائداعظم کی علالت کے باعث بطور متبادل قائم مقام گورنر جنرل کے تقرر کی تجویز کابینہ کے ایجنڈے میں شامل کرنے پر زور دیا تھا جسے لیاقت علی خان نے مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ محمد علی جناح پورے برصغیر کے مسلمانوں کے قائد ہیں اور ان کو متفقہ طور پر آئین ساز اسمبلی کا صدر منتخب کیاگیا تھا جس کے ذریعے برطانوی حکومت نے پاکستان کی آزادی کا پروانہ دیا تھا اور وہ بالاتفاق گورنر جنرل کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔
غلام محمد کی تجویز کے حامیوں میں گورنر جنرل کے مشیر برائے کشمیر مشتاق احمد گورمانی اور سول سروس کا ایک سنیئرافسر شامل تھے۔ نام ور بیوروکریٹ سید ہاشم رضا نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ 11ستمبر 1948 کی شب ان کو پیغام موصول ہوا کہ وزیراعظم نے فوری گورنر جنرل ہاؤس طلب کیا ہے۔ وہاں پہنچنے پر میں نے دیکھا کہ لیاقت علی خان سر پکڑے لان میں تنہا بیٹھے ہیں۔
مجھے دیکھ کر انہوں نے کہا کہ ہمارے قائد رخصت ہوگئے ہیں۔ اب دو کام ہیں ان کے جانشین کا انتخاب جس پر میں سوچ بچار کررہا ہوں، دوسرا کام ان کے مدفن کی جگہ کا تعین، جو آپ کو کرنا ہے۔ مدفن شہر میں کسی بلند مقام پر ہونا چاہیے۔
قائداعظم سے لیاقت علی خان کی گہری والہانہ وابستگی کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ ممتاز صحافی شاہد حسین بخاری نے چوہدری خلیق الزماں سے انٹرویو کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ چوہدری خلیق الزماں نے لیاقت علی خان کے ہمراہ سفر کے دوران ملاقات و گفتگو میں قائداعظم کی شدید علالت کے باعث ان کے جانشین کے لئے نواب آف بھوپال سر حمیداللہ خان کا نام تجویز کیا تھا، لیکن لیاقت علی خان اس پر خاموش رہے تھے۔
ممتاز قانون داں سید ابوعاصم کا کہنا ہے کہ نواب آف بھوپال سر حمیداللہ خان پاکستان میں کسی بھی عہدے کے خواہش مند نہیں تھے۔ وہ کہتے تھے کہ پارلیمانی جمہوریت میں اپنا مضبوط حلقۂ انتخاب ضروری ہے جس کے لیے وقت درکار ہے۔ نام ور بیوروکریٹ سید ہاشم رضا نے بھی نواب صاحب کے حوالے سے اسی قسم کا بیان منسوب کیا ہے۔
خواجہ ضیاالدین جہانگیرسید کی تحقیق کے مطابق ملک غلام محمد نے قائداعظم کی زندگی ہی میں خود کو میں ان کا جانشین قرار دینا شروع کردیا تھا۔ امریکی سفارت خانے کے فوجی اتاشی نیتھونیل رمزے ہاس کاٹ Nethonial Ramze hoskot نے واشنگٹن اپنی حکومت کو ارسال کیے جانے وا لے مراسلے میں مطلع کیا تھا کہ ملک غلام محمد اپنے آپ کو گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم کے جانشین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر وہ مجھے ذہنی مریض نظر آتے ہیں۔
کرنل ہاس کاٹ کا مراسلہ انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ کرنل موصوف ہندوستان کی آزادی کے وقت 15 اگست 1948 کو دہلی میں امریکی سفارت خانے میں ہوتے تھے اور بہت تھوڑے عرصہ بعد ان کو پاکستان میں امریکی سفارت خانے میں تعینات کردیا گیا جہاں وہ غالباً جون 1949 تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔
قدرت کو کچھ اور منظور تھا اور ملک غلام محمد قائداعظم کی وفات کے بعد بھی گورنر جنرل نہ بن سکے۔ اس منصب پر خواجہ ناظم الدین فائز ہوئے البتہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد وہ اسکندرمرزا، ایوب خان، مشتاق احمد گورمانی اور چوہدری محمد علی کی حمایت سے گورنر جنرل کے عہدے پر پہنچ گئے۔
تحریک پاکستان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ واساتذہ کی پیش کارانہ پیش قدمی کا اعتراف جہاں دیگر اکابرین نے کیا ہے وہیں قائداعظم محمد علی جناح نے بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو پاکستان کے اسلحہ خانہ سے تعبیر کیا ہے۔ ان کے افکار کی سچائی مارچ1948میں ڈھاکا اور چٹاگانگ کے عوامی اجتماعات میں ان کی تقاریر کے متن سے عیاں ہے۔
قائد جانتے تھے کہ تحریک پاکستان کے اسباب میں غیر منقسم ہند کے مسلمانوں کی مقبول ترین زبان اردو کا مستقبل روشن نہیں اور اسی وجہ سے قیام پاکستان کے دوران رابطے کی زبان کی حیثیت سے خود انہوں نے ملک کے طو ل و عرض میں اردو ہی کو اپنی رائے کے اظہار کا ذریعہ بنایا تھا۔
ڈھاکا میں انہوں نے واضح طور پر اردو اور صرف اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کو بعض حلقے ہدف تنقید بناتے ہیں، لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باوجود آج بھی بنگلادیش میں سمجھی جانے والی سب سے بڑی زبان اردو ہی ہے۔ چٹاگانگ میں قائداعظم نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ پاکستان کے معاشرہ کی بنیاد سماجی انصاف اور اسلامی سوشل ازم کے اصولوں پر ہوگی، جو مساوات اور انسانی اخوت کا درس دیتا ہے۔
یوں تو بابائے قوم کے فرمودات کو پاکستان میں حکم رانوں نے ہوا میں اڑادیا ہے، لیکن کراچی کو دارالحکومت بنانے کے بارے میں قائد کے فیصلے سے رو گردانی نے پاکستان کے دونوں بازوؤں کے درمیان فاصلے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ قیام پاکستان کے موقع پر کراچی کلب میں 9 اگست1947 کو قائد کا خطاب اہم ہے، جس میں انہوں نے نہ صرف کراچی شہر کے حوالے سے گفتگو کی تھی بلکہ یہ بتایا تھا کہ گورنر جنرل کا عہدہ ان کا اپنا انتخاب تھا۔ ان کے اس بیان سے سردار شوکت حیات جیسے افراد کی ہرزہ سرائی باطل ثابت ہوجاتی ہے۔
کراچی کلب میں قائداعظم اور ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام سر غلام حسین ہدایت اللہ نے کیا تھا۔ برصغیر میں کراچی کی اہمیت کے تناظر میں یوں تو شاعرمشرق علامہ محمد اقبال نے1930میں اپنے خطبہ الہ آباد میں کراچی کو مستقبل میں مسلم ہند کا مرکز قرار دیا تھا، لیکن 25 اگست1947 کو کراچی میونسپل کارپوریشن کے استقبالیے میں قائداعظم نے میئر اور کونسلرز کی جانب سے پیش کیے جانے والے سپاس نامے کا جواب دیتے ہوئے کراچی کے potential کا تفصیلی ذکر کیا تھا، جس میں انہوں نے مستقبل میں شہر کی کاسموپولیٹن اور میٹروپولیٹن ہیئت سے متعلق اپنا vision بیان کیا تھا۔
اس حوالے سے ان کی سوچی سمجھی رائے تھی کہ کراچی کی تعمیر ہندوستان سے تبادلۂ آبادی کے نتیجے میں آنے والے مہاجرین اور پاکستان بھر سے شہر میں منتقل ہو نے والے کریں گے۔ قائداعظم بلدیہ کراچی کو وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ اختیارات اور وسعت دینے کے متمنی تھے۔
انہوں نے اپنی اس تقریر میں کراچی کی ترقی اور بلدیہ کی خدمات کے ضمن میں حکومتوں کی اعانت پر زور دیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے شہر میں بلندو بالا عمارات کی تعمیر کے بجائے زمینی سطح پر وسعت دینے کو اہم قرار دیا تھا۔ مزید برآں قائد کی خواہش تھی کہ کراچی کی بلدیات کو وسیع اختیارات حاصل ہوں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔