بات کچھ اِدھر اُدھر کی تیرا فٹے منہ
ملک میں آبادی میں کمی کے خواہش مند حضرات لوگوں کو مسلسل سمجھاتے ہیں مگر اس کے باوجود لوگ سدھرنے کا نام نہیں لیتے۔
دیکھیے جناب ہنسنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔۔۔ اگر چہ مجھے پتا ہے آپ اگلی لائن پڑھتے ہی اپنی بتیسی نکالیں گے۔ لیکن میں کہے دیتا ہوں کہ ہنسنے کا نہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ آج مجھے فردوس عاشق اعوان بہت شدت سے یاد آرہی ہے۔ اس کی وجہ شاید ایک یہ ہے کہ آج ورلڈ پاپولیشن ڈے منایا جارہا ہے۔۔۔ جسے اردو میں کہے تو عالمی آبادی کا دن کہا جاسکتا ہے۔ خیر ہم اب فردوس عاشق اعوان کے متعلق زیادہ بات نہیں کریں گے، ان کی ناراضی ہم مول نہیں لے سکتے۔ کیا مطلب اگر وہ محکمہ بہبود آبادی کی وزیر رہی ہیں تو اس کے پیچھے ہی پڑ لیا جائے۔ نہیں بھائی ہم سے یہ گستاخی سرزد نہیں ہوسکتی۔
اتفاق سے اس دن کی آمد ہوتے ہی ہمارے ملک میں کچھ عجیب وغریب واقعات ظہور پذیر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
*کبھی اطلاع آتی ہے کہ فلاں علاقے میں ایک عورت نے 5 صحت مند بچوں کو جنم دیا۔
*یا کبھی پتا چلتا ہے کہ پنجاب کے ایک حکیم صاحب نے بیک وقت دو نوخیز دوشیزاؤں سے شادی رچالی۔
*حتیٰ کہ ایک بار تو خبر آئی کہ ایک صاحب 100 بچوں کے باپ بن گئے۔
اس طرح کی خبریں سن کر یقیناً ہمارے ملک میں آبادی میں کمی کے خواہش مندوں کے ارمانوں پر وہ اوس پڑتی ہوگی۔۔۔ جس میں ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دیتا۔۔۔ وہ بیچارے کمپین چلاتے ہیں۔۔۔ لوگوں میں شعور وآگہی کے لیے ایک ایک گھر کے دروازے بجاتے ہیں لیکن اس کے باوجود لوگ سدھرنے کا نام نہیں لیتے۔۔۔
اب یہی دیکھ لیں کہ یہ دن جیسے ہی قریب آیا تو ایک خبر بھی گرما گرم نکل آئی۔ اس خبر کو پڑھ کر محکمہ بہبود آبادی والے گریبان چاک کر کے گلیوں میں نہ نکلے تو کیا کریں۔۔۔ لوگ بھی نہ۔۔۔ خواہ مخواہ نوکری کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے وہاں سے نقل مکانی کرنے والے 62 ہزار سے زیادہ خاندانوں میں ایک خاندان ایسا بھی ہے جو 36 افراد پر مشتمل ہے۔ اس خاندان میں گلزار خان، ان کی تین بیویاں اور 32 بچے شامل ہیں۔ موقع محل کے حساب سے خاندان کے سربراہ گلزار خان نے بھی روایتی سیاست دانوں کی طرح بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان کے علاقے میں جس کے بچے زیادہ ہوتے ہیں اس سے علاقے کے لوگ ڈرتے ہیں اور ان کے یہ بچے پاکستان کی خدمت کے لیے ہیں۔ 36 میں سے ان کے دو بیٹوں اور سات بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے۔ گلزار خان سے جب پوچھا گیا کہ اتنی شادیاں اور اتنے بچے کیوں، تو انھوں نے کہا کہ وہ دشمن دار لوگ ہیں اور ان کے علاقے میں جس کے بچے زیادہ ہوتے ہیں تو علاقے کے لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔
کثیر العیال گلزار خان نے بتایا کہ ان کی بیویاں اور بڑے بچے کہتے ہیں کہ اگر انھیں شوق ہے تو وہ چوتھی شادی کر لیں لیکن اب مالی حالات کی وجہ سے وہ شادی نہیں کر سکتے۔ گلزار خان خود بھی 13 بہن بھائی ہیں اور ان کے نو بھائی دبئی میں کام کرتے ہیں اور وہ خود بھی 1990 کی دہائی میں دبئی سے واپس آئے اور شمالی وزیرستان میں مستقل قیام کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے سب بھائیوں نے دو یا دو سے زیادہ شادیاں کی ہیں اور ان کے بچوں کی تعداد بھی زیادہ ہے جبکہ ایک بھائی کو تو معلوم ہی نہیں ہے کہ اس کے کتنے بچے ہیں۔ (اب آپ خود سوچے کہ اس موقع پر محکمہ بہبود آبادی والے بغلیں نہ جھانکیں تو کیا کرے۔ گلزار خان کا کہنا تھا کہ 'یہ سب اللہ کی دین ہے، جسے چاہتا ہے بچے دے دیتا ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیویوں نے ایک مرتبہ کہا کہ انھیں مزید بچے نہیں چاہیے تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئے اور 'ڈاکٹر نے یقین دہانی کرائی کہ اب بچے نہیں ہوں گے مگر اس کے بعد بھی تین بچے ہو چکے ہیں۔'۔
ہمارے ایک دوست کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آبادی بڑھنے کی ایک اہم وجہ بیروزگاری میں اضافہ ہے۔ پہلے تو ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آئی، لیکن جب سمجھ آگئی تو ہمارے منھ سے بے ساختہ نکلا۔۔۔
''تیرا فٹے منہ''
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اتفاق سے اس دن کی آمد ہوتے ہی ہمارے ملک میں کچھ عجیب وغریب واقعات ظہور پذیر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
*کبھی اطلاع آتی ہے کہ فلاں علاقے میں ایک عورت نے 5 صحت مند بچوں کو جنم دیا۔
*یا کبھی پتا چلتا ہے کہ پنجاب کے ایک حکیم صاحب نے بیک وقت دو نوخیز دوشیزاؤں سے شادی رچالی۔
*حتیٰ کہ ایک بار تو خبر آئی کہ ایک صاحب 100 بچوں کے باپ بن گئے۔
اس طرح کی خبریں سن کر یقیناً ہمارے ملک میں آبادی میں کمی کے خواہش مندوں کے ارمانوں پر وہ اوس پڑتی ہوگی۔۔۔ جس میں ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دیتا۔۔۔ وہ بیچارے کمپین چلاتے ہیں۔۔۔ لوگوں میں شعور وآگہی کے لیے ایک ایک گھر کے دروازے بجاتے ہیں لیکن اس کے باوجود لوگ سدھرنے کا نام نہیں لیتے۔۔۔
اب یہی دیکھ لیں کہ یہ دن جیسے ہی قریب آیا تو ایک خبر بھی گرما گرم نکل آئی۔ اس خبر کو پڑھ کر محکمہ بہبود آبادی والے گریبان چاک کر کے گلیوں میں نہ نکلے تو کیا کریں۔۔۔ لوگ بھی نہ۔۔۔ خواہ مخواہ نوکری کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے وہاں سے نقل مکانی کرنے والے 62 ہزار سے زیادہ خاندانوں میں ایک خاندان ایسا بھی ہے جو 36 افراد پر مشتمل ہے۔ اس خاندان میں گلزار خان، ان کی تین بیویاں اور 32 بچے شامل ہیں۔ موقع محل کے حساب سے خاندان کے سربراہ گلزار خان نے بھی روایتی سیاست دانوں کی طرح بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان کے علاقے میں جس کے بچے زیادہ ہوتے ہیں اس سے علاقے کے لوگ ڈرتے ہیں اور ان کے یہ بچے پاکستان کی خدمت کے لیے ہیں۔ 36 میں سے ان کے دو بیٹوں اور سات بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے۔ گلزار خان سے جب پوچھا گیا کہ اتنی شادیاں اور اتنے بچے کیوں، تو انھوں نے کہا کہ وہ دشمن دار لوگ ہیں اور ان کے علاقے میں جس کے بچے زیادہ ہوتے ہیں تو علاقے کے لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔
کثیر العیال گلزار خان نے بتایا کہ ان کی بیویاں اور بڑے بچے کہتے ہیں کہ اگر انھیں شوق ہے تو وہ چوتھی شادی کر لیں لیکن اب مالی حالات کی وجہ سے وہ شادی نہیں کر سکتے۔ گلزار خان خود بھی 13 بہن بھائی ہیں اور ان کے نو بھائی دبئی میں کام کرتے ہیں اور وہ خود بھی 1990 کی دہائی میں دبئی سے واپس آئے اور شمالی وزیرستان میں مستقل قیام کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے سب بھائیوں نے دو یا دو سے زیادہ شادیاں کی ہیں اور ان کے بچوں کی تعداد بھی زیادہ ہے جبکہ ایک بھائی کو تو معلوم ہی نہیں ہے کہ اس کے کتنے بچے ہیں۔ (اب آپ خود سوچے کہ اس موقع پر محکمہ بہبود آبادی والے بغلیں نہ جھانکیں تو کیا کرے۔ گلزار خان کا کہنا تھا کہ 'یہ سب اللہ کی دین ہے، جسے چاہتا ہے بچے دے دیتا ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیویوں نے ایک مرتبہ کہا کہ انھیں مزید بچے نہیں چاہیے تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئے اور 'ڈاکٹر نے یقین دہانی کرائی کہ اب بچے نہیں ہوں گے مگر اس کے بعد بھی تین بچے ہو چکے ہیں۔'۔
ہمارے ایک دوست کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آبادی بڑھنے کی ایک اہم وجہ بیروزگاری میں اضافہ ہے۔ پہلے تو ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آئی، لیکن جب سمجھ آگئی تو ہمارے منھ سے بے ساختہ نکلا۔۔۔
''تیرا فٹے منہ''
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔