دنیا بھر سے یہ بات سمجھ میں آئی نہیں

مسلم طلبہ تو یہاں خوش ہیں ہی لیکن ہندو طلبہ بھی مطمئن اور خوش نظر آتے ہیں۔


Farrukh Izhar July 11, 2014
مسلم طلبہ تو یہاں خوش ہیں ہی لیکن ہندو طلبہ بھی مطمئن اور خوش نظر آتے ہیں۔ فوٹو رائٹرز

اپنا پڑوسی ملک ہے ناں، بھارت! اسے دعویٰ ہے سیکولر ریاست ہونے کا۔ ایسی زمین جہاں ہر فرد اپنی روایات، طور طریقوں کے مطابق زندگی گزارنے میں مکمل آزاد ہے اور اسے مذہبی آزادی بھی حاصل ہے۔ اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں بھارت کے ہر شہری کو یکساں مواقع دیے جاتے ہیں اور ریاست اس کے حقوق کی ضامن ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ دن رات اسی مساوات اور برابری کا راگ الاپتا ہے۔

لیکن پچھلے دنوں میری نظر سے دو خبریں گزریں، جن کا موازنہ کیا تو سوچا آپ کے سامنے رکھوں۔ شاید آپ جیسے صاحبانِ بصیرت اور خطے کی سیاست اور سماج پر گہری نظر رکھنے والے ہی اس کی بہتر تشریح کرسکتے ہیں۔ اصل میں انٹرنیٹ پر آوارہ گردی کا شوق ہے۔ اس دوران دو مختلف مگر معتبر ترین ابلاغی اداروں کی ویب سائٹس پر جانا ہوا تو بھارتی سماج کی اکثریت اور اقلیت کے دو روپ سامنے آئے۔ ایک خبر کے مطابق بھارت کی مغربی بنگال ریاست کے بردھمان ضلعے کے ایک مدرسے میں مسلمان عالم اپنے طالب علموں کو قرآن اور اسلام کی تعلیم دے رہے ہیں۔ ہاں بالکل ٹھیک سوچ رہے ہیں آپ۔ اس میں تعجب کیسا؟ مدارس میں مسلمان علما ہی تو پڑھائیں گے اور اسلامیات تو لازمی مضمون ہو گا، لیکن اب آپ حیرت کے سمندر میں غوطے لگانے کے لیے کمر کَس لیں اور پھر اس کے بعد افسوس اور دکھ کی گہری کھائی میں گرنے کے لیے بھی تیار رہیے گا۔

صاحبو! غیرمعمولی بات یہ ہے کہ اس مدرسے میں زیرِ تعلیم 1400 طلبہ و طالبات میں سے 60 فی صد سے زیادہ ہندو ہیں۔ مدرسے کے پرنسپل انور حسین ہیں جن کا کہنا ہے کہ یہاں آکر آپ کے ذہن میں موجود مدارس سے متعلق روایتی تصور پر کاری ضرب پڑے گی۔ یہاں احساس ہوتا ہے کہ مذاہب کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ اس مدرسے کو صدر جمہوریہ سے انعام بھی مل چکا ہے۔ مسلم طلبہ تو یہاں خوش ہیں ہی لیکن ہندو طلبہ بھی مطمئن اور خوش نظر آتے ہیں۔ سجاتا کی عمر 13برس ہے اور وہ یہاں اسلام کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

اس بچی کے مطابق یہاں ٹیچر بہت خیال رکھتے ہیں اور ہمیں کسی قسم کی تفریق کا احساس نہیں ہوتا اور میں یہاں بہت خوش ہوں۔ ایک استانی جھوما مکھرجی کہتی ہیں کہ ابتدا میں ہندو مت کے ماننے والوں کو اسلامی تعلیم کے بارے میں بعض خدشات ضرور تھے، لیکن اب وہ دور ہو گئے ہیں۔ ایک طالبہ شنجنی کا خیال ہے کہ دوسرے مذاہب کے طالب علموں کی موجودگی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ بڑی تعداد میں ہندو طلبہ و طالبات ایسے مدرسوں کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور اس کے علاوہ بھی بہت سے مدارس میں ہندو طلبہ کی تعداد مسلم طالب علموں سے کہیں زیادہ ہے اور ہندو اساتذہ بھی ہیں۔

دینیات کے مطالعے کے علاوہ ان مدارس کا نصاب سیکیولر نظریات کا حامل ہے جب کہ جدید تعلیم کا معیار بھی بلند ہے۔ ایک اور مدرسے کے ہندو استاد تپن چکرورتی کہتے ہیں کہ ہمارا معیار زیادہ بلند ہے اور ہمارے مدرسے کے بچے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

یہ تو اچھا ہوا اور ظاہر ہے اس سے مذاہب کے درمیان دوری کم ہو گی اور سماج میں رواداری بھی پروان چڑھے گی، مگر ذرا یہ بھی پڑھ لیں۔

دنیا میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ''ہیومن رائٹس واچ'' کی ایک رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض بھارتی اساتذہ غریب مسلمان طلبہ سے بدترین سلوک کر رہے ہیں۔ ان مسلمان بچوں سے جبراً طور پر بیت الخلا صاف کرائے جاتے ہیں۔ کلاس رومز میں بھی ان طالب علموں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے اور انہیں دیگر بچوں سے الگ کمروں میں بٹھایا جاتا ہے یا پچھلی نشستوں پر بیٹھنے کا پابند کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسکولوں کے ہندو بچے ان مسلمان طلبہ کو ''گندا'' اور ''ملا'' کہہ کر پکارتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ انہیں دہشت گرد بھی کہا جاتا ہو گا۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اس متعصبانہ اور ناروا سلوک پر بعض مسلمان بچوں نے اسکول اور تعلیم کو خیر باد کہہ دیا ہے اور اس کے ذمے دار متعصب اساتذہ اور پرنسپلز ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مسلمان طلبہ کو اسکولوں میں بچا ہوا کھانا دیا جاتا ہے جس سے وہ اپنا پیٹ بھرنے پر مجبور ہیں۔ یہ انکشافات ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے ایک تحقیق کے بعد کیا گیا جس میں 160 کے سے زائد اساتذہ، پرنسپلوں اور مسلمان والدین اور طلبہ کے انٹرویوز کیے گئے۔

تو دوستو! یہ ہے بھارت... یہ ملک آپ کو تضادات اور یک رنگ سماجی ڈھانچا تشکیل دینے میں تذبذب کا شکار نہیں لگتا؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں